سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 35 (آیات 220 سے 224 تک)

فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۗ وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْيَتَٰمَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَٰنُكُمْ ۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ ٱلْمُفْسِدَ مِنَ ٱلْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ وَلَا تَنكِحُوا۟ ٱلْمُشْرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا۟ ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِ ۖ وَٱللَّهُ يَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱلْجَنَّةِ وَٱلْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِۦ ۖ وَيُبَيِّنُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَٱعْتَزِلُوا۟ ٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا۟ حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا۟ لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُم مُّلَٰقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَلَا تَجْعَلُوا۟ ٱللَّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَٰنِكُمْ أَن تَبَرُّوا۟ وَتَتَّقُوا۟ وَتُصْلِحُوا۟ بَيْنَ ٱلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
35

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پوچھتے ہیں: یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو: جس طرز عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو، وہی اختیار کرنا بہتر ہے اگر تم اپنا اور اُن کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے، دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا، مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee alddunya waalakhirati wayasaloonaka AAani alyatama qul islahun lahum khayrun wain tukhalitoohum faikhwanukum waAllahu yaAAlamu almufsida mina almuslihi walaw shaa Allahu laaAAnatakum inna Allaha AAazeezun hakeemun

اب اس اگلی آیات میں ، اسلامی اصول حیات کے بارے میں چند سوالات کا جواب دیا گیا ہے ۔ یہ سوالات مختلف لوگوں نے مسائل سمجھنے کے لئے کئے تھے :

اس سے پہلے بھی انہوں نے سوال کیا تھا ، کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ اس کے جواب میں خرچ کی نوعیت اور مصرف کی تشریح کردی گئی ۔ یہاں بھی سوال تو وہی ہے ، جواب میں خرچ کی مقدار اور اس کا درجہ بتایا گیا ہے ۔ عفو کے معنی عربی میں فاضل اور زیادہ کے ہوتے ہیں ۔ جو مال ذاتی ضروریات سے زیادہ ہو ۔ ضروریات سے مراد ایسی ضروریات جو عیاشی اور نمائشی نہ ہوں ۔ اسے خرچ کیا جاسکتا ہے اور مصرف کی ترتیب وہی ہے جو اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے۔ قریب سے قریب تر کا حق زیادہ ہے اور اس کے بعد دوسرے لوگ درجہ بدرجہ ہیں ۔

انفاق کا حکم صرف ادائیگی زکوٰۃ ہی سے پورا نہیں ہوجاتا۔ کیونکہ اس آیت کو نہ تو زکوٰۃ نے منسوخ کیا ہے اور نہ مخصوص کیا ہے ۔ جیسا کہ میں سمجھا ہوں ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ایک فرض ادا ہوجاتا ہے لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ادا کنندہ بس دوسری معاشرتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگیا بلکہ زکوٰۃ کے بعد بھی انفاق کا حکم علی حالہ باقی رہتا ہے ۔ زکوٰۃ مسلمانوں کے بیت المال کا حق ہے اور اسے وہ حکومت حاصل کرے گی جو اللہ کی شریعت نافذ کرے ۔ اور یہ حکومت بھی اسے اس کے معلوم ومعروف مصارف پر خرچ کرے گی۔ لیکن اس کے بعد بھی مسلمانوں کی جانب سے اور خود مسلمان بھائیوں کی جانب سے عائد شدہ ذمہ داریاں بدستور قائم رہتی ہیں ۔ پھر زکوٰۃ تو ایک خاص شرح سے فرض کی گئی ہے ۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے تمام فاضل دولت سرمایہ دار کے ہاتھ سے نکل جائے ۔ لیکن آیت زیر بحث تو واضح طور پر بتاتی ہے کہ العفو پورا کا پورا خرچ ہونا چاہئے ۔

اس سلسلے میں ایک واضح حدیث بھی موجود ہے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : اِنَّ فِی المَالِ حَقًّا سَوِی الزَّکوٰۃٍ ” بیشک دولت میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ “

ایسا حق ، جسے صاحب ثروت اللہ کی رضا کے لئے خود مناسب جگہ خرچ کرتا ہے اور یہ خرچ کی اعلیٰ صورت ہے ، کامل صورت۔ اگر وہ خود خرچ نہیں کرتا اور اسلامی نظام کو نافذ کرنے والی حکومت کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ یہ دولت اس صاحب ثروت سے حاصل کرے اور اسلامی جماعت کے ان افراد پر خرچ کردے جو امداد کی مستحق ہیں ۔ تاکہ صاحب ثروت نہ اسے عیش و عشرت اور عیاشی کے کاموں میں استعمال کرسکے اور نہ ہی ذخیرہ کرکے معطل کردے۔ دولت کی گردش روک دے اور اس پر سانپ بن کر بیٹھ جائے كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ ، فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ” اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے ۔ شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔ “

اس آیت میں فرمایا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے احکام بیان کرتا ہے اور اس لئے بیان کرتا ہے کہ تم لوگ دنیا وآخرت دونوں کے بارے میں غوروفکر سے کام لو۔ اس لئے کہ صرف دنیا کے بارے میں غور وفکر کرنے سے ، وجود انسانی کی حقیقت ، انسان کی زندگی اور اس کے فرائض کے درمیان باہمی ربط کی اصل حقیقت کے بارے میں نہ عقل انسانی صحیح تجزیہ کرسکتی ہے۔

اور نہ ہی اسلام کے قلب ونظام زندگی اور اس کی قدروں کی صحیح تصویر بنائی جاسکتی ہے ۔ اس لئے کہ دنیا تو زندگی کا ایک حصہ ہے ۔ اور بہت ہی ادنیٰ اور مختصر حصہ ہے ۔ اگر انسان اپنے نظریات اور اپنے نظام کی اساس اس مختصر اور سطحی نقطہ نظر پر رکھے تو اس کے نتیجے میں کبھی انسان نہ کسی صحیح تصور حیات تک پہنچ سکتا ہے اور نہ زندگی میں کوئی صحیح طرزعمل اختیار کرسکتا ہے ۔ پھر انفاق کا ذاتی طور پر دنیا سے بھی تعلق ہے ۔ اور آخرت سے بھی تعلق ہے ۔ انفاق سے اس کی دولت میں جو کمی آتی ہے اس کے نتیجے میں اسے دل کی صفائی اور قلب ونظر کی پاکیزگی ، اس دنیا میں نصیب ہوجاتی ہے ۔ پھر انفاق کرنے والا جس معاشرے میں رہتا ہے اس معاشرے کے ساتھ اس کی آشتی ہوجاتی ہے ، صلح ہوجاتی ہے اور افراد کے درمیان تعلقات مضبوط ہوجاتے ہیں ۔ لیکن ابنائے معاشرہ کا ہر فرد ہوسکتا ہے یہ باتیں نہ سوچ سکے اس لئے ، آخرت کا عقیدہ اور شعور اور جزائے اخروی کی امید اور آخرت میں جو درجات ہیں اور جو قدریں ہیں ان کا خیال تو ہر شخص کے ذہن میں وزن رکھتا ہے اور اس سے انفاق کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے ۔ اس سے نفس انسانی مطمئن ہوجاتا ہے ، اسے سکون و آرام نصیب ہوتا ہے ۔ ترازو نفس انسانی کے ہاتھ میں آجاتا ہے جو ہر وقت معتدل رہتا ہے اور کسی وقت بھی کھوئی قدروں اور آنکھوں کو چکاچوند کرنے والے دنیاوی معیارات سے اس کے ترازو کو ہلکا نہیں کرسکتے ۔

اجتماعی تکافل (Social Security) اسلامی معاشرے کا سنگ اول ہے ۔ اسلامی جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نادار اور ضعیف لوگوں کو خیال رکھے ، یتیموں کا بالخصوص ، جو نابالغ ہیں اور ماں باپ کے سائے سے محروم ہوگئے ہیں ۔ چونکہ وہ کمزور ہیں اس لئے وہ اجتماعی امداد اور اجتماعی حمایت کے مستحق ہیں ۔ اسلامی معاشرے کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی پرورش کرے اور ان کے اموال اور ان کی جائدادوں کی حفاظت کرے ۔ بعض اولیاء (Guardians) ایسے تھے جو یتیموں اور خود اپنے کھانے پینے کا انتظام یکجا کرتے تھے ۔ نیز انہوں نے اپنے اور یتیموں کے اموال یکجا کرکے تجارت میں لگایا ہوا تھا۔ بعض اوقات اس طرح یتیموں کو نقصان ہوتا تھا ۔ اس پر قرآن مجید کی آیات اتریں جن میں مسلمانوں کو یتیموں کا مال کھانے سے سخت ڈرایا گیا ۔ اس پر بعض نیک لوگوں نے اس قدر احتیاط شروع کردی کہ انہوں نے یتیموں کا مال کھانا بھی الگ کردیا۔ اب صورتحال یہ ہوگئی کہ کسی کے پاس اگر یتیم ہوتا تو وہ یتیم کے مال سے اس کے لئے کھانا تیار کرتے ۔ اگر کچھ بچ جاتا تو وہ دھرا رہتا اور دوسرے وقت اسے کھاتا یا ضائع ہوجاتا اور پھینک دیا جاتا۔ یہ اس قدر زیادہ تشدد تھا جسے اسلام کا مزاج گوارا نہ کرتا تھا۔

علاوہ ازیں بعض اوقات اس میں یتیم کو نقصان بھی ہوتا چناچہ ، یہ آیات نازل ہوئیں اور مسلمانوں کو تلقین کردی گئی کہ وہ اعتدال اور آسانی کا راستہ اختیار کریں ، جس میں اس کی مصلحت ہو۔ درحقیقت ان کے لئے خیر خواہی کا جذبہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں الگ تھلگ کردیا جائے ۔ اگر اکھٹا رہنے سہنے اور کھانے پینے کے انتظام میں یتیم کی بھلائی ہے تو ساتھ رکھنا چاہئے ۔ کیونکہ یتیم بھی بہرحال اولیاء کے بھائی بند ہی تو ہیں ہیں ۔ تمام مسلمان ہیں اور بھائی بھائی ہیں۔ سب کے سب ایک عظیم اسلامی خاندان کے افراد ہیں ۔ اللہ بھلائی کرنے والے اور برائی کرنے والے دونوں کے حال سے باخبر ہے۔ اللہ کے ہاں ظاہری شکل و صورت پر ہی فیصلے نہ ہوں گے ، نیت اور نتائج کو بھی دیکھاجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تکلیف میں ڈالنا پسند نہیں کرتا نہ امر ونہی میں ان پر کوئی تکلیف لانا چاہتا ہے یا ان کو مشقت میں ڈالنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو تکلیف میں ڈال دیتا ، لیکن اللہ کا یہ ارادہ نہ تھا ، وہ تو عزیز و حکیم ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے لیکن وہ حکیم ہے ۔ آسان بھلائی اور اصلاح کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔

یوں تمام معاملات کا ربط خدائے لایزل سے قائم ہوجاتا ہے ۔ تمام معاملات کو اس اصلی محور کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے ۔ جس کے گرد پورا نظریہ حیات گھومتا ہے ۔ جس کے گرد پوری زندگی گھومتی ہے ۔ یہ ہوتا ہے حال اس نظام قانون کا جو کسی نظریہ حیات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس قانون کے نفاذ کی ضمانت ، انسان کے خارج ، انسان کی ذات سے علیحدہ کسی اور ذریعہ سے فراہم نہیں ہوتی ۔ بلکہ انسان کے ضمیر کے اندر گہرائیوں میں سے اس قانون پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور ہر شخص اس پر از خود عمل کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tankihoo almushrikati hatta yuminna walaamatun muminatun khayrun min mushrikatin walaw aAAjabatkum wala tunkihoo almushrikeena hatta yuminoo walaAAabdun muminun khayrun min mushrikin walaw aAAjabakum olaika yadAAoona ila alnnari waAllahu yadAAoo ila aljannati waalmaghfirati biithnihi wayubayyinu ayatihi lilnnasi laAAallahum yatathakkaroona

درس 15 ایک نظر میں

یہ سبق گویا عائلی قوانین پر مشتمل ایک ضابطہ ہے ۔ اس میں خاندانی نظام کی شیرازہ بندی کی گئی ہے ۔ خاندان تحریک اسلامی کی تنظیم کی اساس ہے ۔ خشت اول ہے ۔ اس اساس کو اسلام نے ہر پہلو سے مضبوط کیا ہے ۔ اس پر بےحد توجہ دی گئی ہے ۔ اسے بڑی تفصیل سے منظم کیا ہے ۔ اسے ہر طرح سے بچاکررکھا گیا ہے۔ اسے دور جاہلیت کی انارکی سے پاک کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اتنی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں جگہ جگہ اس سلسلے میں ہدایات دی گئی ہیں اور ان میں وہ تمام بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں جو تحریک اسلامی کی تنظیم کے ابتدائی حلقے کی تنظیم اور تعمیر کے لئے ضروری تھیں ۔

اسلام کا اجتماعی نظام ایک قسم کا خاندانی نظام ہے ۔ اس کی اساس خاندان پر ہے ۔ اس لئے کہ انسان کے لئے اس کے رب کا تجویز کردہ نظام ہے ۔ اس میں انسان کی فطرت کی تمام ضروریات ، تمام خصوصیات اور تمام بنیادی باتوں کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

خاندانی نظام کی جڑیں ابتداً تخلیق تک جاپہنچتی ہیں ۔ اس کی کونپلیں شاخ فطرت سے پھوٹتی ہیں ۔ انسان بلکہ تمام حیوانات کی تخلیق ہی خاندانی نظام پر ہے ۔ قرآن مجید سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں ۔ شاید کے تم اس سے سبق لو۔ “

ایک دوسری آیت میں فرماتے ہیں سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الأزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الأرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لا يَعْلَمُونَ ” پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ، ان تمام چیزوں سے سے جو زمین اگاتی ہے ۔ انسانی نفوس سے اور ان تمام دوسری چیزوں سے جو وہ نہیں جانتے۔ “

اب انسان کا مزید نقطہ نظر سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اسے وہ پہلا انسان یاد دلایا جاتا ہے جس کے واسطہ سے یہاں انسانوں کی بستی کا آغاز ہوا ۔ پہلی انسانی آبادی ایک جوڑا تھا ۔ پھر اس کی اولاد پیداہوئی ، پھر اس سے انسانیت اور انسانی آبادی پھیل گئی ۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلادیئے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ، اور رشتہ وقربت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے ۔ “

دوسری جگہ ہے يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ” لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ “

پھر بتایا جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایک فطری جاذبیت ہے ۔ اس لئے نہیں کہ مرد و عورت علی الاطلاق اکٹھے ہوں ، بلکہ ان کے درمیان انس و محبت کا نتیجہ پیدا ہونا چاہئے کہ وہ خاندان کی بنیاد ڈالیں اور گھرانے تعمیر ہوں : وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ “ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّھُنَّ ” وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ “ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے ۔ جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤمگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضگی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ “ واللّٰہ جعل لکم من بیوتکم سکنا ” حقیقت ہے کہ اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لئے جائے سکون بنایا ہے۔ “

یہ فطرت ہے کہ جو اپنا کام کرتی ہے اور یہ خاندان ہی ہے جو ابتدائی تخلیق اور پھر انسان کی تعمیر وتربیت میں فطرت عمیق مقاصد کی بجا آوری کے لئے لبیک کہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں خاندانی نظام ایک فطری اور طبعی نظام ہے جس کا سر چشمہ انسان کی تخلیق کے آغاز سے پھوٹا ہے ۔ (آدم وحوا سے ) اگر گہرامطالعہ کیا جائے تو کائنات کی تمام اشیاء کا آغاز تخلیق بھی اسی نظام کے مطابق ہوا ہے ۔ اس طرح اسلام نے فطرت کے منہاج کو اپنایا ہے ، جس طرح اس کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق خاندانی نظام کے اسلوب پر ہوتی ہے ۔ اسی طرح نظام کی اساس بھی خاندان کو قرار دیا گیا کیونکہ انسان بھی بہرحال اس کائنات کا ایک جزء ہے ۔

خاندان دراصل ایک قدرتی نرسری ہے ۔ جہاں چھوٹے بچوں کی صحیح دیکھ بھال اور تربیت ہوسکتی ہے ۔ صرف اس نرسری میں وہ صحیح طرح روحانی ، عقلی اور جسمانی نشوونما پاسکتے ہیں ۔ خاندان کے سایہ میں بچے میں محبت ، شفقت اور اجتماعی ذمہ داری (Reciprocal Responsibility) کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ اور اس نرسری میں اس پر جو رنگ چڑھتا ہے ، وہ پوری زندگی میں قائم رہتا ہے۔ بچے کو خاندان کی نرسری میں جو سبق ملتا ہے اسی کی روشنی میں وہ زندگی ۔ عملی زندگی کے لئے آنکھیں کھولتا ہے ، اسی کی روشنی میں وہ حقائق حیات کی تشریح کرتا ہے اور اسی کی روشنی میں زندگی میں عمل پیرا ہوتا ہے۔

تمام زندہ مخلوقات میں طفل آدم کی طفولیت سب سے طویل ہوتی ہے ۔ تمام زندہ چیزوں سے زیادہ ۔ وجہ یہ ہے کہ ہر زندہ ذی روح کا عہد طفولیت دراصل باقی زندگی کے لئے تیاری ، تربیت اور ٹریننگ کا زمانہ ہوتا ہے ۔ اس میں بچے کو اس رول کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اس نے باقی زندگی میں ادا کرنا ہوتا ہے ۔ چونکہ دنیا میں انسان نے جو فرائض سر انجام دینے ہیں وہ عظیم فرائض ہیں ۔ جو رول زمین پر انسان نے ادا کرنا ہوتا ہے وہ ایک عظیم رول ہے ، اس لئے اس کا عہد طفولیت بھی نسبتاً لمبا رکھا گیا ہے تاکہ اسے مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے بطریق احسن تیار کیا جاسکے اور اسے اچھی طرح ٹریننگ دی جاسکے ۔ اس لئے دوسرے حیوانات کے مقابلے میں وہ والدین کے ساتھ رہنے کے لئے زیادہ محتاج ہے لہٰذا ایک پرسکون خاندانی ماحول ، مستقل خاندانی نرسری انسانی نظام زندگی کے لئے لازمی ہے۔ انسانی فطرت کے زیادہ قریب اور اس کی تشکیل اور نشوونما اور اس کی زندگی میں اس کے کردار کے لئے موزوں تر ہے۔

دور جدید کے تجربات نے اس بات کو یقین تک پہنچادیا ہے کہ خاندانی گہوارے کے مقابلے میں لوگوں نے بچوں کی نگہداشت کے جو انتظامات بھی کئے وہ سب کے سب ناقص رہے اور وہ خاندان کے نعم البدل ثابت نہیں ہوسکے ۔ بلکہ ان انتظامات میں سے کوئی انتظام بھی ایسا نہیں ہے جس میں بچے کی نشوونما کے لئے مضر پہلو نہ ہوں یا جس میں اس کی معیاری تربیت ممکن ہوسکے ۔ خصوصاً اجتماعی نرسری کا وہ نظام جسے دور جدید کے بعض مصنوعی اور جابرانہ نظام ہائے حیات نے محض اس لئے قائم کیا کہ وہ اللہ کے قائم کردہ مضبوط فطری اور صالح خاندانی نظام کی جگہ لے سکے ۔ محض اس لئے کہ یہ لوگ دین کی دشمنی میں مبتلا ہوگئے اور دین پر اندھا دھند حملے کرکے اس کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ اس لئے خاندانی نظام کو جبراً ختم کرکے اس کی جگہ بچوں کے لئے نرسریاں قائم کردیں۔ اگرچہ بعض اوقات ایسی نرسریاں حکومت کے تحت بھی قائم ہوئیں مثلاً دینی حدود وقیود سے آزاد مغربی ممالک نے ماضی قریب میں جو وحشیانہ جنگیں لڑیں ۔ وہ سب کے سامنے ہیں ۔ ان جنگوں میں وحشیوں نے لڑنے والوں اور پر امن شہریوں میں کوئی تمیز نہ کی ، اس کے نتیجے میں لاتعداد لاوارث بچے ماں باپ کے سایہ کے بغیر رہ گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کی بعض حکومتیں ان بچوں کے لئے اجتماعی نرسریاں قائم کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ علاوہ ازیں مغرب کے جاہلی تصور حیات کے نتیجہ میں وہاں کے انسان کے لئے مناسب اجتماعی اور اقتصادی نظام کے مقابلے میں بدشکل اقتصادی اور معاشرتی نظام وجود میں آیا اور جس میں نوزائیدہ بچوں کی مائیں اس پر مجبور ہوگئیں کہ وہ اپنے لئے خود کمائیں اور مجبوراً بتقاضائے ضروریات بچوں کی اجتماعی نرسریاں وجود میں آئیں ۔ یہ نظام نہ تھا بلکہ ایک لعنت تھی ۔ اس نے بچوں کو ماؤں کی مامتا اور خاندان کے زیرسایہ ان کی تربیت سے محروم کردیا ، بیماروں کو نرسری میں پھینک دیا گیا ، نرسری کا نظام بچوں کی فطرت اور ان کے نفسیاتی ساخت سے متصادم تھا اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ اس قسم کے بچے ذہنی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور انہیں بیشمار نفسیاتی پریشانیاں لاحق ہوگئیں۔

تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے بعض معاصرین ان حقائق کے باوجود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کے لئے ملازمت کا اختیار کرنا ترقی اور آزادی کی علامت ہے ۔ اور اس بات کا ثبوت ہے معاشرہ رجعت پسندی سے آزاد ہوگیا ہے۔ آپ نے دیکھا ! ان لوگوں کے نزدیک آزادی اور ترقی اس لعنت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس دنیا میں انسان کی سب سے قیمتی ذخیرہ یعنی بچوں کی نفسیاتی صحت اور ان کی اخلاقی ترقی تو ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ حالانکہ بچے انسانیت کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قیمتی سرمایہ کو ضائع کرکے انسان کیا فائدہ حاصل کرتا ہے ؟ صرف یہ خاندان کی آمدنی میں حقیر سا اضافہ ہوجاتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی اولاد کی کفالت کرے ۔ یہ صورتحال اس لئے پیش آئی کہ مغربی جاہلیت اور جدید مشرقی جاہلیت اور اس کے فاسد اجتماعی نظام نے بچوں کے لئے والدہ کی کفالت کی خاطر والدہ کی ملازمت کی حوصلہ شکنی کرنے سے انکار کیا ۔ اور صورت یہ ہوگئی کہ اگر کوئی عورت ملازمت نہیں کرتی تو اس کے ساتھ رشتہ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہ ہوتا۔ حالانکہ ملازمت سے وہ جو کچھ کماتی وہ اس عظیم سرمایہ کی تربیت اور نگہداشت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ اس لئے بچے انسانیت کا نہایت ہی قیمتی اور نایاب سرمایہ ہیں ۔

نرسریوں کے تجربات سے سب سے پہلے جو چیز ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دو سال کے عرصہ میں بچہ فطری اور نفسیاتی طور پر اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اسے مستقلاً والدین کی گود میں ہونا چاہئے۔ بالخصوص والدہ کے معاملے میں تو اس کی ضرورت یہ ہے کہ والدہ مستقلاً صرف اس کی خدمت گزار ہو اور اس کے ساتھ اس میں کوئی دوسرا بچہ بھی شریک نہ ہو۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک پھر اسے یہ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے ماں اور باپ ہوں اور اس کی نسبت ان کی طرف ہو۔ پہلی ضرورت نرسری کے سلسلہ میں ممکن نہیں ہے اور دوسری صورت سوائے اس کے کہ خاندانی نظام موجود ہو ممکن الحصول نہیں ہے۔

جو بچہ ان دوسہولتوں سے محروم رہے وہ توانائی اور نفسیاتی لحاظ سے ناقص رہے گا ۔ ایسے بچے لازماً کسی نہ کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتے ہیں ۔

اگر کسی کو کوئی ایسا حادثہ پیش آجائے اور وہ ان دونوں سہولتوں میں سے کسی ایک سے محروم ہوجائے تو یہ حادثہ اس بچے کے لئے تباہ کن ہوتا ہے لیکن ہمیں تعجب ہے کہ ہم کدہر جارہے ہیں ؟ ذرا اس غافل اور بیخبر جاہلیت پر غور کریں ، جس کی کوشش یہ ہے کہ نرسری کا نظام عام کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو ایسے تباہ کن حادثوں سے دوچار کیا جائے اور پھر جاہلیت کے بعض وہ تماشائی جو اسلام کی عطا کردہ امن وسلامتی سے محروم ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہلاکت ، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہلاکت وتباہی ترقی اور آزادی ہے ۔ ثقافت وتہذیب ہے۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی نظام حیات نے ، اپنے اجتماعی نظام کی بنیاد ” خاندان “ پر رکھی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ تھی کہ مسلمان امن سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجائیں ۔ اور اسلام کے زیر سایہ سلامتی اور چین کی زندگی بسر کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے خاندانی نظام کے استحکام پر بہت زیادہ توجہ کی ہے۔ اس لئے کہ اسلام کے اجتماعی نظام میں خاندان بنیادی یونٹ قرار پانے والا تھا ۔ چناچہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں خاندانی نظام کے استحکام کے لئے ، اس کے مختلف پہلوؤں کو منظم کیا گیا ہے اور اس کے لئے بنیادی مواد فراہم کیا گیا ہے ۔ چناچہ سورة بقرہ ان سورتوں میں سے ایک ہے ۔

اس سورت میں خاندانی نظام کے سلسلے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں نکاح ، معاشرت ، ایلا ، طلاق ، نفقہ ، متعہ ، رضاعت اور حضانت کے اہم مسائل بیان کئے گئے ہیں ، لیکن یہاں ان احکام کو خاص احکام کی شکل میں بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر قانون کی کتابیں پڑھنے والے کتب قانون میں مجرد دفعات اور احکام پاتے ہیں۔ ہرگز نہیں ! یہ احکام ایسی فضا میں وارد ہوتے ہیں کہ انسان کا دل و دماغ اسے بحیثیت ایک عظیم اصول کے لیتے ہیں ۔ انسانی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام زندگی کا ایک عظیم اصول اور اس نظریہ حیات کا عظیم اصول جس سے اسلامی نظام زندگی کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔ اور یہ کہ اس اصول اور اس قانون کا تعلق براہ راست اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہے۔ یہ قانون اس کے ارادے ، اس کی حکمت ، اس کی مشیئت سے ملا ہوا ہے ۔ اور یہ اصول اس نظام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا وغضب ، ثواب و عقاب وابستہ ہوتے ہیں اور ان احکام کا تعلق اسلامی نظریہ حیات سے ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ان پر عمل کرے گا ، تو وہ شخص مسلم کہلائے گا ۔ اگر عمل نہ کرے گا تو مسلم نہ کہلائے گا۔

انسان پہلی ہی نظر میں اس معاملے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ لیتا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی اس کی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس نظام کا ہر جز خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو اہمیت کا حامل ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ اس نظام کا نگران ہے اور اس طرف اس کی خاص توجہ ہے ۔ اور یہ کہ اس نظام کی ہر چھوٹی اور بڑی بات مقصد بالذات ہے اور اللہ کے ہاں ایک عظیم مقصد کے لئے اسے رکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس انسان کی ذات کی نگرانی خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے ۔ پھر تحریک کی تعمیر وتربیت کا کام بھی خودذات باری اپنی نگرانی میں فرماتی ہے اور اس تعمیر اور نشوونما اور ٹریننگ کی غرض صرف یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اس عظیم رول کے لئے تیار کرنا ہے ، جو اس نے اس کائنات میں ادا کرنا ہے ، پھر انسان یہ محسوس کرلیتا ہے کہ اس نظام زندگی کے کسی حصے پر عمل نہ کرنا ، اسے کمزور کرنا ، اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے ۔ ایسے افراد شدید غضب کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

پھر یہ احکام بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں ، جب تک ایک حکم ختم نہیں ہوجاتا ، اس کے مالہ وماعلیہ بیان نہیں کردیئے جاتے ، اس وقت تک دوسرے حکم کا آغاز نہیں کیا جاتا ۔ پھر ہر حکم کے بعد تعقیبات اختتامیہ تبصرے اور نتائج بیان کئے جاتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ تعقیبات اور تنبیہات بیان احکام کے درمیان ہی آجاتی ہیں ، جن سے مقصود یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اہمیت کا حامل ہے ۔ بالخصوص وہ تعقیبات ، جن کا تعلق ضمیر و احساس اور دل کے تقویٰ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ بیدار تقویٰ ، احساس اطاعت اور ضمیر کی نگرانی کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ان احکام کے بجالانے میں حیلہ سازی سے کام لیاجائے۔

پہلا حکم یہ ہے کہ مسلمان مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کریں نہ اپنی عورتوں کا نکاح کرکے مشرک کے حوالہ کریں ۔ اس کی وجوہات یہ بتائی گئی ہیںأُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ” یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔ “

دوسرا حکم حیض کے دوران عورتوں سے مباشرت کرنے کے مسئلے کے متعلق ہے ۔ اس پر جو تعلیق وتبصرہ ہے ، اس میں اس فعل کو محض قضائے شہوت کے چند جسمانی منٹ کے تلذذ سے بلند کرکے ، اعلیٰ مقاصد اور انسانی فریضے کے اعلیٰ مقام تک بلند کیا جاتا ہے۔ بلکہ بتایا گیا ہے کہ یہ انسان کے ذاتی اور نجی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور اس کا تعلق خالق تعالیٰ کی اس اسکیم سے ہے کہ اس کی مخلوق اس کی عبادت اور اس کے ڈر کی وجہ سے پاک وصاف ہوجائے۔

فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (222) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” پھر جب وہ پاک ہوجائیں ، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں ۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو ، اپنی کھیتی میں جاؤ مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ اور اے نبی جو تمہاری ہدایات لیں انہیں خوشخبری دے۔ “

تیسرے حکم میں قسموں کے بارے میں احکام ہیں بعد میں چونکہ ایلا اور طلاق کے احکام بیان ہوں گے ۔ اس لئے یہاں بطور تمہید قسموں کے بارے میں عمومی حکم دے دیا۔ اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کا ربط بھی ، اللہ پر پختہ یقین اور اللہ خوفی سے قائم کردیا گیا ہے ۔ ایک جگہ کہا گیا وَاللّٰہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ” اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ “ اور دوسری جگہ ہے وَاللّٰہ غَفُورٌ حَلِیمٌ” اللہ بہت درگزر کرنے والا بردبار ہے۔ “

چوتھا حکم ایلا کا ہے اور اس کے آخر میں یہ تعقیب ہے فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” اگر انہوں نے رجوع کرلیا تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ “

پانچواں حکم مطلقہ عورت کی عدت کے بارے میں ہے ۔ اور اس حکم کے ساتھ بھی متعدد تعقیبات پیوستہ ہیں ۔

لا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ” اور ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو ، اسے چھپائیں ، انہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ “

اور چھٹا حکم طلاقوں کی تعداد کے بارے میں ہے اور طلاق کی حالت میں مہر اور نفقہ واپس لینے کے احکام ہیں ۔ ان احکام کے بعد بھی یہ تعقیبات وارد ہیں ۔

وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلا أَنْ يَخَافَا أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ” اور تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ، البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان کے دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔ “

اور یہ کہ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ” اور یہ دوسرا شخص بھی اسے طلاق دے دے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے ، تو ان کے لئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جنہیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کررہا ہے ، جو (ان حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔ “

ساتواں حکم یہ ہے کہ اگر تم عورت کو طلاق دو تو یا پھر صحیح طرح اسے الگ کردو اور یا صحیح طرح اسے اچھے طریقے سے رخصت کردو اور اس حکم پر اللہ تعالیٰ کا تبصرہ یہ ہے ۔................................................ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” یابھلے طریقے سے انہیں روکو یا بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی اور جو ایسا کرے گا ، وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا ۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکم اس نے تم پر نازل کی ہے اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے ۔ “

دوسری ہدایت یہ ہے :

ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ ” یہ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت نہ کرنا ، اگر تم اللہ اور آخر پر ایمان لانے والے ہو ، تمہارے لئے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ “

آٹھواں حکم رضاعت اور اجرت پر دودھ پلانے اور اس کی اجرت کے متعلق ہے ۔ اور مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس پر یہ نصیحت کی جاتی ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اللہ سے ڈر و اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ “

نواں حکم اس عورت کی عدت کے بارے میں ہے جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو ، اس پر یہ تعقیب باپروانہ آزادی فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ” پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں اختیار ہے کہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے ، جو چاہیں فیصلہ کریں ، تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ “

دسواں حکم دوران عدت عورت کو اشارۃً نکاح دینے کے بارے میں ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ تعقیب وتبصرہ آتا ہے۔ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلا أَنْ تَقُولُوا قَوْلا مَعْرُوفًا وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ” اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تمہارے دل میں تو آئے گا ہی مگر دیکھو ، خفیہ عہدوپیمان نہ کرنا ، اگر کوئی بات کرنی ہے تو معروف طریقے سے کرو۔ اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔ لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے ۔ (چھوٹی چھوٹی باتوں سے) درگذر فرماتا ہے۔ “

گیارہواں حکم اس مطلقہ عورت کے بارے میں ہے ، جس کے ساتھ مباشرت نہ ہوئی ہو ، ایسی عورت کا مہر مقررنہ کیا گیا ہو تو حکم یا ادا کردیا ہو تو حکم ۔ اس پر یہ وجدانی تبصرہ دیکھئے۔

وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اور اگر تم (مرد) نرمی سے کام لو ، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو ۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ “

بارہواں حکم مطلقہ عورتوں کے بارے میں اور جس کا خاوند فوت ہوچکا ہے۔ اس کے بارے میں ہے کہ ایک سال تک نان ونفقہ دو ۔ اس حکم پر آخر میں حکم ہوتا ہے وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ” اور مطلقہ عورتوں کا حق ہے کہ انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے ۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر ۔ “

اب ان سب احکام کے بیان کرنے کے بعد ان سب پر ایک جامع تبصرہ کیا جاتا ہے : كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ” اس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے ۔ امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کروگے ۔ “

یہ سب احکام عبادت ہیں ۔ نکاح میں اللہ کی بندگی ہے ۔ مباشرت اور اضافہ نسل میں اللہ کی بندگی ہے ۔ طلاق اور جدائی بھی اللہ کی غلامی اور بندگی ہے۔ عدت اور دوران عدت طلاق سے رجوع بھی بندگی ہے ، نفقہ اور رخصتی کا سازوسامان بھی اللہ کی بندگی ہے ۔ معروف طریقے سے عورت کو روک کر بیوی بنالینا بھی بندگی ہے ۔ ورنہ اچھے طریقہ سے ہمیشہ کے لئے رخصت کردینا بھی اللہ کی بندگی ، فدیہ دینا بھی بندگی ہے۔ عوض دینا بھی بندگی دودھ پلانا بھی بندگی ہے اور دودھ سے چھڑانا بھی اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے۔ غرض ہر حرکت اور ہر پیش آمد واقعہ میں ایک مسلمان کا طرز عمل اگر خدائی ہدایات کے مطابق ہے تو بندگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان احکام کے عین وسط میں اچانک نماز کا حکم بھی آجاتا ہے ۔ یعنی خوف میں بھی نماز اور امن میں بھی نماز فرماتے ہیں حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (238) فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ” اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو ، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسن صلوٰۃ کی جامع ہو ۔ (یابیچ والی نماز) اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو ، جیسے فرمانبردار غلام کھڑے ہوتے ہیں ، بدامنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو ، خواہ سوار جس طرح ممکن ہو ، نماز پڑھو اور جب امن میسر آجائے تو اللہ کو اس طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے ، جس سے پہلے تم ناواقف تھے۔ “

آپ دیکھیں نماز کا یہ حکم عائلی احکام کے درمیان واقعہ ہے ۔ ابھی عائلی احکام ختم نہ ہوئے تھے کہ درمیان میں نماز کا ذکر آگیا ۔ تاکہ نماز کی عبادت کا حکم دوسری عبادات زندگی کے درمیان خلط ہوجائے ۔ یہ خلط اس لئے ہوا کہ یہ اسلام کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ اور اسلامی نظریہ حیات کی رو سے یہ کلی بندگی اور ہر کام میں عبادت وجود انسان کی اصل غرض وغایت ہے ۔ اس پورے سبق کا انداز بیان ، اس طرف بہت ہی لطیف انداز میں اشارہ کرتا ہے ۔ یہ کہ یہ سب چیزیں عبادت ہیں ، جس طرح نماز کے معاملے میں احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ، اسی طرح ان دوسرے عائلی معاملات میں بھی احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ۔ زندگی ایک اکائی ہے اور عبادات سب کی سب ایک ہی نوعیت کی ہیں ۔ تو احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور یہ سب احکام ہی زندگی کا وہ نظام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا ہے ۔

ان تمام احکام میں ، جس طرح اللہ کی عبادت اور بندگی کا ماحول ، اللہ کی اطاعت و عبادت کا رنگ ہے اور اللہ کی غلامی کا پرسکون سایہ ہے ، اسی طرح ان میں واقعی زندگی کے ماحول کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا ۔ انسان کی طبعی ساخت اور اس کی فطری خواہشات سے بھی قطع نظر نہیں کی گئی اور اس کرہ ارض پر انسانوں کی انسانی ضروریات کو بھی اچھی طرح پورا کیا گیا ہے۔

اسلام جو قانون بناتا ہے وہ انسانوں کے ایک گروہ کے لئے بنارہا ہے ، وہ یہ قانون بہرحال فرشتوں کے لئے نہیں بنارہا ہے ۔ نہ اڑتے ہوئے تخیلات کے عالم میں کسی فرضی مخلوق کے لئے ۔ اس لئے عام ہدایات اور قانون سازی یا شرعی احکام کے ذریعے ، جب اسلام انہیں اللہ کی بندگی کی فضاتک بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حقیقت اچھی طرح اس کے سامنے ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ ایک انسان کے لئے کررہا ہے ۔ یہ کہ بندگی ایک بشر نے کرنی ہے اور انسانوں میں انسانی جذبات ومیلانات پائے جاتے ہیں ۔ ان میں ضعف ہے اور کئی قسم کی کمزوریاں ہیں ۔ ان کو ضروریات لاحق ہوتی ہیں اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں ، وہ جذبات رکھتے ہیں اور باشعور مخلوق ہیں ۔ ایک طرف ان میں روحانی اشراق ہے تو دوسری طرف انسانی کثافتیں بھی ہیں اور اسلامی نظام زندگی میں ایک ایسا نظام ہے جوان سب امور کا خیال رکھتا ہے ۔ اور ان کے باوجود انسان کو ایک پاک بندگی کی راہ پر لگا دیتا ہے ۔ ایک روشن چراغ انہیں دکھاتا ہے ۔ ہدایت کا روشن چراغ ۔ لیکن بغیر کسی جبر کے ، بغیر کسی مصنوعی ذریعہ کے ، وہ اپنے تمام نظام زندگی کی بنیاد اس پر قائم کرتا ہے کہ یہ انسان بہر حال انسان ہے !

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایلا کو جائز قرار دیا ۔ یعنی ایک مرد کے جائز ہے کہ وہ ایک مقررہ وقت تک عورت کے ساتھ مباشرت نہ کرنے کی قسم کھالے ۔ لیکن شرط یہ ہے یہ قسم چار ماہ سے زیادہ نہ ہوگی۔ پھر اسلام طلاق کی گنجائش رکھتا ہے ۔ اور اس کے باقاعدہ قانون سازی کرتا ہے۔ اس کے احکام اور نتائج کو بھی منظم طریقے سے قانونی ضابطہ کا پابند کردیتا ہے۔ ایسے حالات میں ازروئے قانون طلاق کی گنجائش رکھی گئی ہے ، جبکہ دوسری طرف خاندانی نظام کی بنیادوں کو پوری طرح مستحکم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ خاندانی تعلقات کو مزید پختہ کرنے کی سعی کی گئی ہے اور افراد خاندان کے باہمی ربط کو محض معاشرتی فائدوں سے بلند کرکے اسے اطاعت خداوندی اور عبادت رب کا بلند تصور دے دیا گیا ہے ۔ یہ وہ توازن ہے جو اسلامی نظام زندگی کے عملی پہلوؤں کو واقعی بہت ہی بلند اور ایک حقیقی مثالی نظام کردیتا ہے۔ جو مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی طاقت اور وسعت کے دائرے کے اندر بھی رہتا ہے ۔ اور یوں لگتا ہے کہ یہی نظام ہے جو فی الواقعہ ایک عام انسان کے لئے بنایا گیا ہے۔

نظام کیا ہے فطرت کی سہولتیں ہی سہولتیں ہیں ۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے حکیمانہ سہولیات ہیں ۔ اگر ایک تشکیل شدہ خاندان ، جس کی بنیاد مرد و عورت کے نکاح سے پڑی تھی کامیاب نہیں ہوتا ، اس ابتدائی انسانی خلیہ (Cell) میں امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا تو اللہ وہ ذات ہے جو جاننے والا خبردار ہے ، وہ لوگوں کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے ، جو وہ خود بھی نہیں جانتے ۔ اس لئے ذات باری نے یہ نہ چاہا کہ وہ مرد و عورت کے رابطہ نکاح کو ناقابل انفکاک بنادے اور اس طرح ابتدائی انسانی جوڑے کو انس و محبت کے گہوارے کے بجائے ایک قید خانہ بنادے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے ہوں مگر جدائی محال ہو ، ان کے دلوں میں سب شکوک و شبہات سیلابی شکل اختیار کرگئے ہیں لیکن بچنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ میاں بیوی کے تعلقات شبہات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دب کر ررہ گئے ہوں لیکن روشنی کی طرف نکل آنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تومیاں بیوی کے جوڑ اور اس چھوٹے خاندان کو اس لئے بنایا تھا کہ وہ دارالسکون ہو ، دارالامن ہو۔ اگر اس سے یہ مقصد پورا نہ ہورہا ہو اور اس لئے نہ ہورہا ہو کہ فریقین کی فطرت اور طبائع میں اختلاف ہو ، تو پھر ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور اس بیمار خاندان کو ختم کردیا جائے اور وہ دوبارہ کوشش کریں کہ جڑسکیں لیکن جدائی کا فیصلہ بھی محض سرسری اختلافات کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس خاندان کو بچانے کے لئے تمام وسائل کام میں لائے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں انسانی اجتماع میں خاندان مقدس ترین اکٹھ ہے ۔ لیکن جدائی کی صورت میں بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں کہ نہ خاوند کو نقصان پہنچے نہ بیوی کو ۔ نہ بچے کو اور نہ ہی جنین کو ۔

یہ ہے وہ ربانی نظام زندگی ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تشکیل دیا۔

جب انسان اس نظام کی بنیاد وں پر غور کرتا ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تجویز کیا ہے اور پھر اس نظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس معاشرے ، پاک معاشرے پر نگاہ ڈالتا ہے جس میں امن وسلامتی کا دور دورہ ہوتا ہے اور پھر اس کے مقابلے میں اس نظام زندگی کا مطالعہ کرتا ہے ، جو اس وقت فعلاً انسانی زندگی میں قائم ورائج تھا ۔ تو نظر آتا ہے کہ دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اور اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہے ۔ اور اگر اسلامی معاشرے کا مقابلہ مشرق ومغرب میں آج کے جدید جاہلی معاشروں سے کیا جائے تو بھی یہ مثالی معاشرہ ایک اونچے مقام پر نظر آتا ہے ، حالانکہ ان جدید جاہلی معاشروں کے حامی اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ معاشرہ سمجھتے ہیں ۔ اس تقابلی مطالعہ کے نتیجے میں اچھی طرح احساس ہوجاتا ہے کہ اسلام نے شرافت ، پاکیزگی اور امن و سکون کا اونچا معیار قائم کیا ہے ۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس اونچے مقام تک انسانوں کو پہچانے کے لئے قانون بنایا ۔ خصوصاً عورت کو تو اس نظام میں خصوصی رعایتیں دی گئیں ہیں ۔ بہت بڑی حرمت اور شرافت اسے عطاکردی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو مستقیم الفطرت عورت بھی ان خصوصی رعایتوں پر غور کرے ، جو اللہ نے اسلامی نظام میں عورتوں کو دی ہیں ، وہ بےاختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ بےپناہ محبت کرنے لگے گی ، بشرطیکہ وہ استقامت فکر سے غور کرے ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

اردو ترجمہ

پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو اُن کے پاس جاؤ اُس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayasaloonaka AAani almaheedi qul huwa athan faiAAtaziloo alnnisaa fee almaheedi wala taqraboohunna hatta yathurna faitha tatahharna fatoohunna min haythu amarakumu Allahu inna Allaha yuhibbu alttawwabeena wayuhibbu almutatahhireena

زن وشوہر کے باہمی تعلقات پر یہ ایک دوسری نظر ہے ۔ اچٹتی نظر۔ اس طبیعی تعلق کو اللہ کی طرف ذرا بلند کردیا جاتا ہے۔ جسم انسانی کے اعضائے رئیسہ کی شدید ترین طبیعی اور حیوانی لذتیت یعنی مباشرت کو بھی بلند مقصدیت عطا کردی جاتی ہے ۔ اور اس میں بھی ایک گونہ تقدس کا رنگ آجاتا ہے۔

زن وشوہر کے باہمی تعلق میں مباشرت بھی ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ بذات خود مقصد نہیں ہے ۔ یہ حیات انسانی کے ایک گہرے راز اور بلند مقصد کا ذریعہ ہے ۔ نسل کشی اور زندگی کا تسلسل اور یہ نقطہ نظر آخرکار ہمیں اللہ تک پہنچاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ دوران حیض مباشرت سے مرد وزن دونوں کے لئے مضرات یقینی ہیں لیکن اس کے باوجود محض حیوانی لذت تو بہرحال موجود ہوتی ہے ، پھر کیوں اس کی ممانعت کی گئی ۔ اس لئے کہ اس صورت میں وہ مقصد اعلیٰ پورا نہیں ہوسکتا ۔ نیز یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ اس دوران طبع سلیم بھی مباشرت سے ابا کرتی ہے۔ کیونکہ جس طرح خارج سے اسلامی قانون اس عرصہ میں مباشرت سے روکتا ہے ، اسی طرح ذات انسانی کے اندر سے فطرت سلیمہ بھی اسے روکتی ہے ۔ اس لئے کہ بجائی کے لئے یہ موزوں موسم نہیں ہے ۔ اس موسم میں فصل نہیں اگ سکتی ۔ نہ اس بجائی سے زندگی کے کھیت میں کسی پودے کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں پاکی کے دنوں میں مباشرت میں لذت بھی پوری پوری ہوتی ہے اور وہ فطری مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں ، جن کے ئے یہ نظام وضع کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے ایام حیض کے بارے میں سوال کا یہ جواب دیا گیا وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ” پوچھتے ہیں حیض کیا حکم ہے ؟ “ وہ ایک گندگی کی حالت ہے ، اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ۔ جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائیں۔

لیکن اس کے بعد بھی تم اس میں بالکل آزاد نہیں ہو کہ اپنی خواہشات کے مطابق جو چاہو کرو۔ ایام حیض کے بعد بھی تم امر ونہی کے پابند ہو۔ گویا مباشرت بھی ایک فریضہ حیات ہے ۔ اس میں بھی تم اس کے نازل کردہ حدود وقیود کے پابند ہو۔ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ” پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ ، اس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ “

یعنی رحم کی جانب سے دوسری جانب سے نہیں کیونکہ مقسد مطلق شہوت رانی ہی نہیں بلکہ مقصد زمین پر سلسلہ حیات کو بھی جاری رکھنا ہے۔ مباشرت کے نتیجے میں اولاد کی دولت حاصل کرنا ہے ۔ جس کا آنا اللہ نے مقرر فرمادیا ہے ۔ اللہ حلال اور جائز چیز کو مقرر فرماتے ہیں اور اسے فرض قرار دیتے ہیں ۔ مسلمان اس حلال کا متلاشی ہوتا ہے ، جو اس کے لئے اس کے رب نے لکھ دیا ہے ۔ وہ اپنے لئے خود کوئی منصوبہ نہیں بناتا ۔ اللہ اپنے بندوں کے لئے جو فرائض مقرر فرماتا ہے ، وہ سب اس لئے ہیں کہ اس کے یہ بندے پاک وصاف ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں ۔ اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کی طرف رجوع کریں ۔ اور اس کی مغفرت کے طلبگار ہوکر اس کی جانب سے لوٹ آئیں۔

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ” اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ “

اردو ترجمہ

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اُس سے ملنا ہے اور اے نبیؐ! جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں فلاح و سعادت کا مثردہ سنا دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nisaokum harthun lakum fatoo harthakum anna shitum waqaddimoo lianfusikum waittaqoo Allaha waiAAlamoo annakum mulaqoohu wabashshiri almumineena

یہ ہے قرآن مجید کے خوشگوار سایوں میں سے ایک ظل ، ایک چھاؤں ۔ اس میں زن وشو کے باہمی تعلقات کے مختلف رنگوں میں سے ایک رنگ کو تصویر کی شکل دی گئی ہے ۔ جو قرآنی تعلیمات کے ساتھ مناسب ہے اور جو قرآنی منوبہ حیات کے عین مطابق ہے۔ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ۔ “

یہاں اس آیت میں زن وشوئی تعلقات کی نوعیت اور اس کے خاص پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ یعنی اس تعلق کے مقاصد کیا ہیں اور اس کا اصلی رجحان کیا ہونا چاہئے ۔ اس کے سب پہلو یہاں نہیں بیان کئے گئے ۔ دوسرے مقامات پر ان مقامات کی مناسبت سے کچھ دوسرے پہلو بھی نمایاں کئے گئے ہیں ۔ مثلاً ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ” وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ “................ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے ، تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کی۔ “

غرض ان تعبیرات میں سے ہر تعبیر اس عمیق وعظیم تعلق کا کسی نہ کسی پہلو کو ظاہر کرتی ہے ، ہر جگہ جو پہلو مناسب ہو۔ یہاں سیاق کلام ایسا ہے جس کے ساتھ ” کھیتی “ کیتعبیر زیادہ مناسب تھی ۔ کیونکہ یہاں تروتازگی ، پیدائش اور نشوونما کی فضا ہے ۔ اس لئے کھیتی کے لفظ سے اس تعلق کی تعبیر کی گئی اور حکم دیا گیا کہ جس طرح چاہو اپنی عورتوں کے پاس جاؤ مگر رحم کی جانب سے جہاں سے پیداواری عمل ہوتا ہے ۔ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ” تم اپنی کھیتی میں آؤ جس طرح چاہو۔ “

لیکن ساتھ ساتھ اس ملاپ کا مقصدا صلی بھی نہ بھولو ، اسے عبادت اور اللہ خوفی سمجھو اور اس لئے اگر تم اس میں بھی اللہ کے بیان کردہ حدود وقیود کی پابندی کروگے تو یہ تمہارے لئے توشہ آخرت ہوگا۔ اور یقین رکھو کہ ایک دن تمہیں اللہ کے سامنے جانا ہے اور وہاں تم اپنے تمام اعمال کا صلہ پاؤگے۔ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ ” مگر اپنے مستقبل کے لئے کچھ آگے بھیجو ، اللہ کی ناراضی سے بچو ، خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے اور اے نبی ، جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں خوشخبری دے دو ۔ “

آیت یہاں ختم ہوجاتی ہے اور مسلمانوں کو خوشخبری دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بہت بڑی بھلائی تیار کی ہوئی ہے اور اس بھلائی میں وہ بھلائیاں بھی شامل ہیں جو انہوں نے اپنے کھیت میں بوئی ہیں ۔ کیونکہ مومن جو کچھ بھی کرتا ہے وہ خیر ہے اور اللہ اس پر اس کا ثواب دیتا ہے۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” مومنین کو خوشخبری دیجئے۔ “

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک فطری اور سادہ نظام زندگی ہے ۔ وہ انسان کو بحیثیت انسان لیتا ہے ۔ اس کے رجحانات اور میلانات کو تسلیم کرتا ہے ۔ وہ بلندی اور پاکیزگی کے نام پر فطرت کے ساتھ جنگ نہیں کرتا ۔۔ وہ انسانوں کی ان ضروریات کو گندگی قرار نہیں دیتا ، جن پر ان کا بس ہی نہ چلے ۔ اور بلکہ وہ قرار دیتا ہے کہ زندگی کی ترقی ، نشوونما اور تسلسل کے لئے ، یہ اس کا فریضہ حیات ہیں اور فطری فریضہ ہیں ۔ اسلام کی کوشش تو یہ ہے کہ انسان کی انسانیت برقرار رہے ۔ اسے اس انسانیت کے دائرے کے اندر ترقی دے ۔ اسے اللہ سے جوڑ دے ، اس کے جسمانی میلانات بھی پورے کرے ، پہلے جسمانی تقاضوں اور انسانی شعور کا امتزاج پیدا کردے اور پھر اس پر دینی شعور کا رنگ غالب کردے ۔ اور یوں عارضی جسمانی تقاضے پورے کرتے ہوئے ، اس تلذذ کو دائمی انسانی فرائض کے ساتھ مربوط کردے اور یہ سب کچھ دینی وجدان اور دینی شعور کے ماحول میں ہو۔ غرض ایک ہی لمحہ میں ایک ہی وقت میں ، ایک ہی رخ میں یہ دینی شعور اور جسمانی تلذذ انسان کی اس چھوٹی سی ہستی میں جمع ہوجاتے ہیں ۔ وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ ہو۔ اور اس وجہ سے ہو کہ اس کی اس ہستی میں اللہ تعالیٰ نے مختلف النوع طاقتیں ودیعت فرمائی ہیں ۔ دینی شعور اور جسمانی تقاضے ۔ یہ ہے اسلامی نظام اور یہ ہے انسان کی فطرت ۔ چونکہ اللہ خالق فطرت بھی ہے اور اسلامی نظام زندگی بھی اس کی طرف سے آیا ہے۔ اس لئے اس نظام میں تمام فطری تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے ۔ اور تمام دوسرے نظامہائے زندگی جو من جانب اللہ نہیں ہیں وہ فطرت سے متصادم ہیں اور بعض میں یہ تصادم کم ہے اور بعض میں بہت ہی زیادہ ہے۔ اس لئے ان کا انجام ہلاکت و بربادی ہے ۔ ان نظاموں میں افراد کی بھی کم بختی ہے اور جماعتوں کی بھی ہلاکت ہے ۔ اس لئے کہ اللہ جانتا ہے اور انسان نہیں جانتا۔

ایام حیض میں مباشرت کے مسائل کے بعد ایلا کا حکم بیان کیا جاتا ہے ۔ ایلا کا مفہوم یہ ہے کہ خاوند یہ قسم کھائے کہ وہ بیوی کے ساتھ مباشرت نہیں کرے گا ۔ قبل اس کے کہ قسم ایلا کا بیان ہو ، نفس قسم کے بارے میں بھی ہدایات دے دی جاتی ہیں ۔ گویا قسم تمہید ہے ایلا کے لئے۔

اردو ترجمہ

اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لیے استعمال نہ کرو، جن سے مقصود نیکی اور تقویٰ اور بند گان خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو اللہ تمہاری ساری باتیں سن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tajAAaloo Allaha AAurdatan liaymanikum an tabarroo watattaqoo watuslihoo bayna alnnasi waAllahu sameeAAun AAaleemun

وَلا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةًکی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ تم اپنی قسم کو اس لئے استعمال نہ کرو کہ تم بھلائی کے کچھ کام نہ کروگے بلکہ قسم کا کفارہ ادا کرو اور بھلائی کرتے چلے جاؤ۔ یہی تفسیر مسروق ، شعبی ابراہیم نخعی مجاہد ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، عطاء ، عکرمہ ، مکحول ، زہری ، حسن ، قتادہ ، مقاتل بن حیان ، ربیع بن انس ، ضحاک ، عطاخراسانی ، السدی سے منقول ہے ۔ تفصیل دیکھئے ابن کثیر میں۔

اسی کی تائید میں امام مسلم (رح) کی روایت ہے جو کہ ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ” جو کوئی ایسی قسم کھابیٹھے کہ اس کے توڑ میں خیر ہو ، اسے چاہئے کہ وہ قسم کا کفارہ ادا کرے ۔ اور وہ کام کرتا رہے جس میں بھلائی ہے۔ “

اسی طرح امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے ، رسول ﷺ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم تم میں سے کوئی شخص اپنے اہل و عیال کے بارے میں قسم کو پوراکرے ۔ تو وہ زیادہ گناہ گار ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ کفارہ دے دے ، جو اللہ نے فرض کیا ہے ۔

ان احادیث کی روشنی میں مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے نام کی قسم کھالینا تمہیں نیکی ، تقویٰ اور اصلاح بین الناس کے کاموں سے کہیں روک نہ دے ۔ اگر تم اس قسم کی کوئی قسم کھابیٹھے ہو تو اسے توڑ دو ، نیکی کے کام جاری رکھو اور حلف توڑنے کا کفارہ ادا کرو۔ کیونکہ نیکی ، تقویٰ اور بھلائی کے کاموں پر عمل کرنا اس سے بہتر ہے کہ کوئی اپنی قسم کو پورا کرے ۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ایسا ہی واقعہ پیش آیا ۔ آپ کے رشتہ دار کا نام مسطح تھا ، آپ ان کے ساتھ امداد و تعاون فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ پر افک کے معاملے میں غیر شعوری طور پر یہ بھی شریک ہوگیا تھا ، اور اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ قسم اٹھالی کہ وہ اس کے ساتھ کوئی امداد نہ کریں گے ۔ اس پر سورة النور کی یہ آیت نازل ہوئیوَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ” تم میں سے جو لوگن صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھابیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار ، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انہیں معاف کردینا چاہئے ، درگزر کرنا چاہئے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے ۔ “ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی قسم کو توڑ دیا اور کفارہ ادا کیا ۔

35