سورۃ البقرہ: آیت 219 - ۞ يسألونك عن الخمر والميسر... - اردو

آیت 219 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

۞ يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْخَمْرِ وَٱلْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

اردو ترجمہ

پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloonaka AAani alkhamri waalmaysiri qul feehima ithmun kabeerun wamanafiAAu lilnnasi waithmuhuma akbaru min nafAAihima wayasaloonaka matha yunfiqoona quli alAAafwa kathalika yubayyinu Allahu lakumu alayati laAAallakum tatafakkaroona

آیت 219 کی تفسیر

اس وقت شراب اور جوئے کی حرمت کا حکم نازل نہ ہوا تھا ، لیکن قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہے جس سے اس کی حلت کا ثبوت ملتا ہو ، لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جس راستے پر لے جانا چاہتا تھا ، اس کی مرضی یہ تھی کہ وہ انہیں اس راہ پر قدم بقدم لے جائے اور خود اپنی نگرانی میں اس امت کو اس رول کے لئے تیار کرے جس کے کے لیے اس نے اسے برپا کیا ۔ یہ رول اس قدر عظیم تھا کہ اس کے ساتھ شراب اور جوئے جیسے مخرب الاخلاق ومخرب اوقات کام چل ہی نہ سکتے تھے ۔ عمر کا ٹکڑے ٹکڑے کردینا ، فہم کا پریشان کردینا اور جدوجہد کے حصے بخرے کردینا اس رول اور اس منصب کے مناسب نہیں ۔ اس کے حاملین ان نکتوں کی طرح نہیں ہوسکتے ، جن کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہوتا کہ وہ کام ودہن اور گوشت پوست کی لذت کے پیچھے دوڑتے پھریں ۔ نہ وہ ایسے لوگوں کی طرح ہوتے ہیں جن کا کوئی نظریہ نہ ہو اور ذہن و شعور کا خلا ، خوفناک خلا ، ان کے تعاقب میں ہو اور وہ اس خلا کو شراب کی مدہوشی اور جوئے کی مشغولیت سے بھرنا چاہتے ہیں : نہ وہ ایسے لوگوں کی طرح ہوتے ہیں کہ جو نفسیاتی مریض ہیں اور خود اپنے سایے سے بھاگ رہے ہیں اور شراب وقمار کی پناہ لینے پر مجبور ہیں ۔ حاملین جاہلیت ہمیشہ ان مفاسد میں مبتلا رہے ہیں ۔ آج بھی وہ اس میں مبتلا ہیں اور مستقبل میں بھی جاہلیت کا یہی نشان ہوگا ۔ البتہ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ اسلام اپنے مخصوص نظام تربیت کے مطابق ، نفس انسانی کو بڑی سہولت میں لے کر چلتا ہے اور بڑی تدریج اور ترقی کے ساتھ اس کی تربیت کرتا ہے ۔

آیت زیر بحث کے سلسلے میں پہلی کڑی ہے ۔ یہ پہلا قدم ہے ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی چیز یا کوئی فعل بذات خود شر ہی شر ہو ، ہوسکتا ہے کہ شر میں خیر کا پہلو بھی کوئی پہلو موجود ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ خیر اور بھلائی میں شر کا کوئی پہلو ہو ۔ لیکن جائز ، حلال و حرام اور امر ونہی کا دارومدار دراصل غالب خیر یا غالب شر کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جوئے اور شراب میں شر کا پہلو چونکہ غالب ہے اس لئے یہ ان چیزوں کی حرمت کے لئے علت بن جائے گا ۔ اگرچہ یہاں ان اشیاء کی حرمت کی صراحت نہیں کی گئی ۔

یہاں اسلامی نظام تربیت اور قرآنی منہاج تعمیر اور ربانی طرز تعلیم کا ایک انداز کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ یہ نہایت ہی حکیمانہ انداز تربیت ہے ۔ اسلام کی اکثر ہدایات وفرائض اور قانون سازی میں تتبع اور استقراء سے معلوم ہوگا کہ یہی منہاج اختیار کیا گیا ہے ۔ خمر اور میسر کے بارے میں اس ہدایت کی مناسبت سے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام تربیت کے ایک اصول کی طرف یہاں ایک اشارہ کردیں :

1۔ اگر کسی امر ونہی کا تعلق کسی ایسے اصول سے ہو جس کا تعلق اسلام کے نظریات و عقائد سے ہو تو اسلام پہلی فرصت میں اس کا قطعی اور اٹل فیصلہ کردیتا ہے۔

2۔ اگر کسی امر ونہی کا تعلق کسی ایسے مسئلہ سے ہو جو بطور عادت معمول بہ ہو یا بطور رسم چلا آتا ہو ، تو اسلام اس کے بارے میں اصلاحی قدم اٹھانے سے پہلے انتظار کرتا ہے ۔ تدریج ، رفق اور سہولت سے اس میں کوئی قدم اٹھاتا ہے اور اقدام سے پہلے ایسے حالات تیار کرتا ہے ، جن میں نفاذ قانون اور نفاذ حکم کے لئے راہ اچھی ہموار ہوجاتی ہے۔

مثلاً مسئلہ توحید اور مسئلہ شرک کے بارے میں اسلام نے پہلی فرصت میں فیصلہ کن بات کردی ۔ عقائد شرکیہ پر فیصلہ کن حملہ کیا ۔ بغیر کسی تردد ، بغیر کسی جھجھک کے ، بغیر کسی رکھ رکھاؤ کے ، بغیر کسی سودے بازی کے ، بغیر کچھ لو اور کچھ دو پالیسی کے ۔ پہلے ہی مرحلے میں ایک ایسا وار کیا کہ شرک کا تانا بانا ادھیڑ کر رکھ دیا ۔ کیونکہ یہ مسئلہ اسلامی نظریہ حیات کا اساسی مسئلہ ، اعتقاد کا مسئلہ تھا ۔ اس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہ ہوسکتا تھا۔ اس کی صفائی کے بغیر اسلام اپنی جگہ پر قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا

شراب اور جوأ ایسے معاملات تھے جن کا تعلق (Custom) سے تھا۔ عادت بد ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج معالجہ ضروری ہے ۔ اس لئے اس کے علاج کے لئے قرآن کریم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان چیزوں کے خلاف دینی شعور بیدار کیا گیا ، مسلمانوں کے دماغ میں قانون سازی کرنے کے لئے وہ دلائل بٹھائے گئے جن کی وجہ سے ان چیزوں کو حرام قرار دیا جاسکتا ہے ۔ مثلاًیہ کہ جوئے اور شراب میں جو مضرات اور قباحتیں ہیں وہ ان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں جوان میں ہیں ۔ اس منطقی دلیل میں اسی طرف اشارہ تھا کہ ان چیزوں سے پرہیز کرنا زیادہ بہتر اور مناسب ہے ۔ اس کے بعد دوسرا قدم سورة نساء کے ذریعہ کیا گیا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ تم جو کہتے ہو اسے سمجھنے لگو پھر نماز پڑھو ۔ “ اب نماز کے پانچ اوقات ہیں اور اکثر اوقات ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہیں ۔ ان کے مابین اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ایک شخص شراب پئیے ، نشہ میں ہوجائے اور پھر اسے افاقہ ہوجائے ۔ یوں عملاً اس کے اوقات میں کمی کردی گئی ۔ یوں نشے کے مخصوص اوقات میں نفس میں جو اشتیاق پیدا ہوتا ہے اسے توڑدیا گیا ۔ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ نشے کے عادی نشے کے اوقات میں طلب محسوس کرتے ہیں یعنی جن اوقات میں عام طور پر وہ نشہ کرتے ہیں ۔ اگر کوشش کرکے کسی طرح وہ وقت گزار دیا جائت تو پھر نشے کی حدت طلب ختم ہوجاتی ہے اور اگر مسلسل اس طرح کیا جائے تو اس پر غلبہ پایا جاسکتا ہے جب یہ دو مرحلے طے ہوگئے تو پھر آخری اور قطعی حکم نازل ہوا اور شراب اور جوئے کو قطعاً حرام قرار دے دیا گیا ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأنْصَابُ وَالأزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” اے ایمان لانے والو ! یہ شراب اور جوا ، یہ آستانے اور پانسے ، یہ سب شیطانی گندے کام ہیں ۔ ان سے پرہیز کرو ۔ امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ “

اس اصول کی دوسری مثال غلامی ہے ۔ غلامی اس وقت کے اجتماعی اور اقتصادی نظام کا ایک لازمی حصہ تھی ۔ اس وقت کا یہ ایک مسلم بین الاقوامی قانون (Inernation Law) تھا اور اقوام کا یہ رواج تھا کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنالیا جاتا تھا اور ان سے کام لیا جاتا تھا ۔ ان بین الاقوامی اجتماعی حالات کی ظاہری شکل و صورت کو تبدیل کرنے سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان اسباب میں تبدیلی کی جائے جن کی وجہ سے یہ حالات رونما ہوئے اور ان بین الاقوامی روابط کو بدلاجائے جن کے نتیجے میں غلامی کے ذرائع وجود میں آتے ہیں ۔ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی رسومات میں بین الاقوامی سمجھوتوں اور معاہدوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس نے قیام غلامی کے سلسلے میں کوئی حکم نہیں دیا ۔ نہ قرآن مجید میں کوئی آیت اتری ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنالیا جائے۔

جس وقت اسلامی نظام زندگی کا آغاز ہوا ، تو اس وقت غلامی کا ایک عالمی نظام رائج تھا ، اور یہ مسئلہ صرف غلامی اور جنگی قیدیوں کا نہ تھا ، بلکہ غلامی بین الاقوامی تجارت کا بھی ایک حصہ تھی ۔ اور جنگی قیدیوں کو غلام بنانا ایک بین الاقوامی معروف ضابطہ تھا ۔ اور اس پر بین الاقوامی اور مقامی جنگوں میں حصہ لینے والے تمام فریق عمل کرتے تھے ۔ اس لئے ضروری تھا کہ اسلام اس عالمی اور اجتماعی مسئلے کے مکمل حل کے لئے ٹھوس اقدامات کرتا۔

اسلام نے ابتدائی طور پر جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ اس نے اس جبر ، تشدد اور استحصال کو ختم کردیا جو غلامی کا خاصہ تھا ، اس نے کوشش کی کہ غلامی کا یہ نظام ہی ختم ہوجائے ۔ غلامی ختم کرنے کے لئے اسلام نے کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا۔ نہ اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ اس وقت کے اجتماعی نظام کو درہم برہم کرنے کوشش کی ، اس طرح کہ جھٹکے کے بعد اس کے نتائج کو کنٹرول نہ کیا جاسکے یا اس تحریک کی قیادت ہی مشکل ہوجائے ۔ غرض غلامی کے سرچشمے بند کرنے کے ساتھ ساتھ غلاموں کی زندگی کی سہولیات میں اضافہ کیا ۔ ان کو مناسب زندگی گزارنے کی ضمانت دی اور وسیع حدود میں انہیں شریفانہ زندگی بسر کرنے کی اجازت دے دی ۔

اسلام نے سب سے پہلے دو ذرائع کے علاوہ غلامی کے تمام سرچشمے بند کردئیے ۔ ایک یہ کہ کوئی شخص جنگی قیدی بن جائے اور اس کے نتیجے میں وہ غلام بن جائے ۔ دوسرا یہ کہ اس شخص کا باپ غلام ہو تو اس کا بیٹا بھی غلام ہوگا۔ یہ بھی اس لئے کہ اسلامی نظام کے دشمن معاشروں میں مسلمان اسیروں کو غلام بنالیا جاتا تھا ، اور یہ اس وقت کا معروف طریقہ تھا ، اور اسلام اس وقت کوئی بین الاقوامی غالب قوت نہ تھا کہ وہ ان دشمن معاشروں کو اس بات پر مجبور کرسکتا کہ وہ نظم غلامی سے دستبردار ہوجائیں ، جس پر پوری دنیا کا اجتماعی اور اقتصادی نظام قائم تھا۔ اگر اسلام یکطرفہ طو رپر غلامی کے نظام کو ختم کردیتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلامی ضابطے کا اجراء صرف ان اسیروں پر ہوتا جو مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے ۔ جبکہ خود مسلمانوں کے قیدی اس وقت کے نظام کے مطابق غلام ہی رہ جاتے ۔ اس طرح اسلام دشمن بڑی جرأت سے اسلام کے خلاف لڑتے ، اس خیال سے کہ اگر وہ قید ہوئے تو رہا ہوجائیں گے جبکہ جو مسلمان ان کے ہاتھ آئیں گے وہ غلام بن جائیں گے اور قبل اس کے کہ اسلامی حکومت کا اقتصادی نظام مستحکم ہوتا ۔ غلاموں کی جو نسل اس وقت عملاً موجود تھی ، اگر اسے آزاد کردیا جاتا تو ان غلاموں کا اس وقت کے معاشرے میں آمدن کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا ، نہ ان کی کفالت کرنے والا کوئی ہوتا اور نہ ہی وہ کسی خاندان کے اجزاء تصور ہوتے ، نہ ان کے کسی کے ساتھ رشتے ناطے کے تعلقات ہوتے جو انہیں معاشرتی اور اخلاقی بےراہ روی سے بچاتے ۔ اس حالت میں ایک تو ان لوگوں کے معاشی حالات خراب ہوتے جن کی غلامی سے یہ آزاد ہوتے ۔ اور دوسرے خود یہ لوگ اسلامی معاشرہ کو ایک گری پڑی نسل کی حیثیت سے ، خراب اور گندہ کردیتے جبکہ خود مسلمان مالکان کے حالات بھی اچھے نہ تھے اور اسلامی معاشرہ بھی بالکل نیا تھا۔ غرض یہ تھی اس وقت کی صورتحال اور اس کے پیش نظر ، اس کے مطابق قرآن مجید نے صرف یہ کیا کہ اسلامی قانون میں کوئی ایسی دفعہ نہیں رکھی جس کے مطابق جنگی قیدیوں کو لازماً غلام بنالیا جائے بلکہ قرآن مجید نے صرف یہ حکم دیافَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ” پس جب ان کافروں سے تمہاری مدبھیڑ ہوتوپہلاکام گردنیں مارنا ہے ۔ یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے ) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو ، تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ۔ “

قرآن مجید نے یہ بھی نہیں کہا کہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنایاجائے ۔ بلکہ اس معاملے کو اسلامی حکومت کی صوابدید پر چھوڑدیا ہے ۔ تاکہ وہ موقع ومحل کے اعتبار سے جو موقف مناسب ہو وہ اختیار کرے ۔ یا فریقین کے قیدیوں کا باہمی تبادلہ ہوجائے اور جن لوگوں کا غلام بنانا ہی مناسب ہوا انہیں غلام بنالے ۔ اس صورت میں معاملہ وہی ہی ہوگا جو کہ محارب قوت معاملہ کرے گی۔

اسی طرح غلامی کے دوسرے سر چشمے بند ہوجانے سے غلاموں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی ۔ جبکہ اس وقت مختلف ذریعوں سے لوگوں کو غلام بنالیا تھا ۔ غلاموں کی جو قلیل تعداد رہ گئی تھی اسے بھی اسلامی نظام مختلف تدابیر کے ذریعہ کم سے کم کئے جارہا تھا۔ مثلاً جب کوئی غلام دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا اور پھر وہ دشمن کے کیمپ کو چھوڑ کر اسلامی کیمپ میں داخل ہوجاتا تو وہ آزاد قرار پاتا ۔ پھر اسلام نے ہر غلام کو یہ حق دیا کہ وہ اپنے مالک سے آزادی کا سودا کرسکتا ہے۔ اور اس سودے کا معاوضہ ادا کرنے کے سلسلے میں مالک کے ساتھ اسے تحریری یا زبانی ایگریمنٹ کرنے کا پورا پورا اختیار ہے ۔ یہ معاہدہ ہونے کے بعد جسے مکاتبت کہتے تھے غلام آزاد ہوجاتا تھا ۔ آزادانہ کاروبار کرسکتا تھا۔ چاہے اپنے مالک ہی کی نوکری کرلیتا ۔ وہ اپنی کمائی کا خود مالک ہوتا تھا۔ چاہے دوسری جگہ آزادانہ کام کرتا اور مالک کو مقررہ رقم ادا کردیتا۔

مکاتبت کے ساتھ یہ غلام اس معاشرے کا ایک مستقل فرد بن جاتا تھا۔ ایسے افراد کے لئے اسلام کے نظام زکوٰۃ کا 1/7 حصہ مقرر ہے ۔ اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے لئے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ وہ ایسے افراد کو مالی امداد دیں تاکہ وہ اپنی گردن کو غلامی کے جوئے سے آزاد کرسکیں ۔ اس کے علاوہ جو اسلامی نظام نے مختلف معاملات میں افراد معاشرہ پر کفارات (Fines) واجب کئے اور کفارے کی شقوں میں ایک شق یہ ہوا کرتی ہے کہ کسی غلام کو آزاد کردیا جائے ۔ مثلاً قتل خطاء کی بعض صورتوں میں ، قسم کے کفارے میں ظہار کے کفارے میں ، ان تدابیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ غلامی کا وجود ہی ختم ہوگیا ۔ اور یہ چیز طبعی موت مرگئی ۔ اگر اسے یکلخت ختم کردیا جاتا تو اس وقت کے معاشرے میں بےحد افراتفری پیدا ہوجاتی ، اور معاشرے میں فتنہ و فساد برپا ہوجاتا۔

سوال یہ ہے کہ دور نبوی کے بعد اسلامی معاشرے میں غلامی ختم ہونے کے بجائے غلامی میں اضافہ کیوں ہوگیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعد کے ادوار میں غلامی میں اضافہ محض اس لئے ہوگیا تھا ، کہ مسلمانوں نے اسلامی زندگی سے انحراف کرلیا تھا ، جوں جوں مسلمان اسلامی نظام سے دور ہوتے گئے ، خرابیاں زیادہ ہوتی گئیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کا قصور تھا ، اسلامی نظام زندگی کا اس میں کوئی قصور نہ تھا ۔ دور نبوی کے بعد اگر لوگوں نے اسلامی نظام زندگی سے انحراف کیا ، تھوڑا کیا یا زیادہ کیا اور اسلامی نظام زندگی کے اصولوں کو اچھی طرح نافذ نہ کیا ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی نظام میں کچھ خرابی ہے ۔ اسلامی تاریخ کے سلسلے میں ہمار اجو نقطہ نظر ہے وہ ہم اس سے پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ اگر اسلامی نظام سے انحراف کے نتیجے میں کچھ ناپسندیدہ حالات ، اسلامی تاریخ کے کسی دور میں ، کبھی پیدا ہوگئے تھے ۔ تو ان حالات کو اسلام کے اسر نہیں تھوپا جاسکتا ۔ ایسے حالات کو اسلامی تاریخ کی کوئی کڑی نہ گردانا جائے گا۔ اس لئے کہ اسلام میں کوئی تبدیلی نہیں آگئی ۔ نہ اس کے اصولوں میں نئے اصولوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر تبدیلی آئی ہے تو لوگوں میں تبدیلی آئی ہے ۔ لوگ اسلام سے اس قدر دور ہوگئے کہ ان کا اسلام سے کوئی واسطہ ہی نہ رہا ۔ اور ان کی تاریخ اسلامی تاریخ کا حصہ نہ رہی۔

اب اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ نئے سرے سے اسلامی نظام قائم ہو ، تو وہ اسلامی نظام زندگی کا آغاز اسلامی تاریخ کے اس مقام سے ہرگز نہ کرے گا جہاں اسلامی تاریخ ختم ہوجاتی ہے ، بلکہ اب اسلامی نظام زندگی کے قیام ازسر نو اسلامی اصولوں کی روشنی میں کیا جائے گا ۔ خالص اسلامی اصولوں کی روشنی میں !

یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ نظریہ اور نقطہ نظر کے اعتبار سے بھی اور اسلامی نظریہ اور اسلامی نظام کے قیام کی تحریک کے نشوونما کے نقطہ نظر سے بھی ۔ اس نکتے کی تاکید یہاں دوبارہ اس لئے کی جارہی ہے کہ اسلام کی تاریخ اور اسلامی نظام زندگی کے درمیان لوگوں کے ذہنوں میں سخت الجھاؤ پیدا ہوگیا ہے ، حالانکہ اسلامی نظام زندگی اور مسلمانوں کی تاریخ چیزے دیگر ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ صحیح اسلامی تحریک اور صحیح اسلامی نظام زندگی کے درمیان فرق نہیں کرپاتے ۔ اس دھوکے میں وہ تمام مستشرقین مبتلا ہیں ، جنہوں نے اسلامی تاریخ پر قلم اٹھایا ہے ۔ بعض لوگ جان بوجھ کر اسلامی تاریخ کو یہ رنگ دیتے ہیں اور بعض لوگ فی الواقعہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔

آیت 219 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط ان احکام سے شریعت کا ابتدائی خاکہ blue print تیار ہونا شروع ہوگیا ہے ‘ کچھ احکام پہلے آ چکے ہیں اور کچھ اب آ رہے ہیں۔ شراب اور جوئے کے بارے میں یہاں ابتدائی حکم بیان ہوا ہے اور اس پر محض اظہار ناراضگی فرمایا گیا ہے۔قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ للنَّاسِز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط۔ یعنی اشارہ کردیا گیا کہ ان کو چھوڑ دو۔ اب معاملہ تمہاری عقل سلیم کے حوالے ہے ‘ حقیقت تم پر کھول دی گئی ہے۔ یہ ابتدائی حکم ہے ‘ لیکن حکم کے پیرائے میں نہیں۔ بس واضح کردیا گیا کہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ‘ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بقول غالب : ؂مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ؟اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !اور : ؂ میں میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گیا ورنہ سفر حیات کا بیحد طویل تھا !یہ حکمت سمجھ لیجیے کہ شراب اور جوئے میں کیا چیز مشترک ہے کہ یہاں دونوں کو جمع کیا گیا ؟ شراب کے نشے میں بھی انسان اپنے آپ کو حقائق سے منقطع کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ وہ زندگی کے تلخ حقائق کا مواجہہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ع اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !۔۔ اور جوئے کی بنیاد بھی محنت کی نفی پر ہے۔ ایکّ رویہ تو یہ ہے کہ محنت سے ایک آدمی کما رہا ہے ‘ مشقت کر رہا ہے ‘ کوئی کھوکھا ‘ چھابڑی یا ریڑھی لگا کر کچھ کمائی کر رہا ہے ‘ جبکہ ایک ہے چانس اور داؤ کی بنیاد پر پیسے کمانا۔ یہ محنت کی نفی ہے۔ چناچہ شراب اور جوئے کے اندر اصل میں علت ایک ہی ہے۔ وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط آیت 195 میں انفاق کا حکم بایں الفاظ آچکا ہے : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ج اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ جھونکو۔ تو سوال کیا گیا کہ کتنا خرچ کریں ؟ ہمیں کچھ مقدار بھی بتادی جائے۔ فرمایا :قُلِ الْعَفْوَ ط جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ تم اپنی ضرورتوں کو پیچھے ڈال دو ‘ بلکہ تم پہلے اپنی ضرورتیں پوری کرو ‘ پھر جو تمہارے پاس بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ کمیونزم کے فلسفہ میں ایک اصطلاح قدر زائد surplus value استعمال ہوتی ہے۔ یہ ہے اَلْعَفْوَ۔ جو بھی تمہاری ضروریات سے زائد ہے یہ surplus value ہے ‘ اسے اللہ کی راہ میں دے دو۔ اس کو بچا کر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ پر بےاعتمادی کا اظہار کرر ہے ہیں کہ اللہ نے آج تو دے دیا ہے ‘ کل نہیں دے گا۔ لیکن یہ کہ انسان کی ضرورتیں کیا ہیں ‘ کتنی ہیں ‘ اس کا اللہ نے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا۔ اس کا تعلق باطنی روح سے ہے۔ ایک مسلمان کے اندر اللہ کی محبت اور آخرت پر ایمان جوں جوں بڑھتا جائے گا اتنا ہی وہ اپنی ضرورتیں کم کرے گا ‘ اپنے معیارِزندگی کو پست کرے گا اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے گا۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص یہ دیکھے کہ جو میری ضرورت سے زائد ہے اسے میں بچا بچا کر نہ رکھوں ‘ بلکہ اللہ کی راہ میں دے دوں۔ انفاق فی سبیل اللہ پر اس سورة مبارکہ میں پورے دو رکوع آگے آنے والے ہیں۔

حرمت شراب کیوں ؟ جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورة بقرہ کی یہ آیت (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ) 2۔ البقرۃ :219) نازل ہوئی حضرت عمر کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورة نساء کی آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا) 4۔ النسآء :43) نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں حضرت عمر کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر اس پر سورة مائدہ کی آیت (انما الخمر۔ الخ) اتری جب فاروق اعظم ؓ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ (فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ) 5۔ المائدہ :91) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد، ترمذی اور نسائی وغیرہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں واللہ اعلم۔ امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے (انتہینا انتہینا) کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابوہریرہ والی اور روایتیں سورة مائدہ کی آیت (انما الخمر) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورة مائدہ میں ہی آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، میسر کہتے ہیں جوے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہوجائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں، اسی طرح اس کی خریدو فروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہوجائے۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہوجائے، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو، چناچہ آخرکار سورة مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آجاؤ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت وبغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے ؟ اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورة مائدہ میں آئے گا، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی، پھر سورة نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورة مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہوگئی۔عفو اور اس کی وضاحتیں (فل العفو) کی ایک قرأت قل العفو بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہوسکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ثعلبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ حضور ﷺ ! ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مال دار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں ؟ جس کے جواب میں آیت (قل العفو) کہا گیا یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے، حضرت طاؤس کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو، ربیع کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو ، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حضرت حسن فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لئے بیٹھ جاؤ، چناچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا حضور ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا حضرت ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی کرسکتا ہے۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور اور حاجت مندوں پر، اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لئے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لئے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں ابن عباس کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہوگیا، حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے، ٹھیک قول یہی ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تاکہ تم دنیائے فانی کی طرف بےرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور وتدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ یتیم کا مال اور ہماری ذمہ داری۔ پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ) 6۔ الانعام :152) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا) 4۔ النسآء :10)۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کردیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہوجائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیاں یتیم بھی تنگ آگئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آکر حضور ﷺ سے عرض کی جس پر یہ آیت (قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ) 2۔ البقرۃ :220) نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی، ابو داود و نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے، حضرت صدیقہ ؓ فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لئے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہئے، قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تمہیں تکلیف ومشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کردی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لئے مباح قرار دیا، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لاسکتا ہے، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے، یہ مسائل انشاء اللہ وضاحت کے ساتھ سورة نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے۔

آیت 219 - سورۃ البقرہ: (۞ يسألونك عن الخمر والميسر ۖ قل فيهما إثم كبير ومنافع للناس وإثمهما أكبر من نفعهما ۗ ويسألونك ماذا ينفقون...) - اردو