اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 216 کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ج واضح رہے کہ سورة البقرۃ سے پہلے سورة محمد ﷺ نازل ہوچکی تھی اور اس میں قتال کی فرضیتّ آچکی تھی۔ چنانچہ اس کا ایک نام سورة القتال بھی ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے کچھ لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ خاص طور پر منافقین یہ کہتے تھے کہ بھائی صلح جوئی سے کام لو ‘ بس دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لاؤ ‘ یہ جنگ وجدال اور لڑائی بھڑائی تو کوئی اچھا کام نہیں ہے ‘ اس میں تو بہت خرابی ہے۔ ان کے علاوہ ایسے مسلمان جن کا ایمان قدرے کمزور تھا ‘ اگرچہ وہ منافق تو نہیں تھے ‘ لیکن ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا ‘ ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے اور تربیت کے مراحل سے ابھی نہیں گزرے تھے ‘ ان میں سے بھی بعض لوگوں کے دلوں میں انقباض پیدا ہو رہا تھا۔ یہاں قتال کی فرضیتّ کے لیے کُتِبَ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ روزے ‘ قصاص اور وصیت کے ضمن میں آچکا ہے۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ اج الْوَصِیَّۃُ۔۔ فرمایا کہ تم پر جنگ فرض کردی گئی ہے اور وہ تمہیں بری لگ رہی ہے۔ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْ ج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ تم اپنی عقل پر ایمان نہ رکھو ‘ اللہ کی وحی پر ایمان رکھو ‘ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان رکھو۔ جس وقت کے لیے جو حکم موزوں تھا وہی تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے دیا گیا۔ چودہ برس تک تمہیں قتال سے منع کیا گیا۔ اس وقت تمہارے لیے حکم تھا : کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ اپنے ہاتھ روکے رکھو ! اب تم پر قتال فرض کیا جا رہا ہے ‘ لہٰذا اب اس حکم پر سر تسلیم خم کرنا تمہارے لیے لازم ہے۔
آیت 217 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ط قتال کا حکم آنے کے بعد اب وہ پوچھتے تھے کہ یہ جو حرمت والے مہینے ہیں ان میں جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اس لیے کہ سیرت میں یہ واقعہ آتا ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش رض کو چند افراد کے دستے کا کمانڈر بنا کر ہدایت فرمائی تھی کہ مکہ اور طائف کے درمیان جا کر وادئ نخلہ میں قیام کریں اور قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ وادئ نخلہ میں قیام کے دوران وہاں قریش کے ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک عمرو بن عبداللہ الحضرمی مارا گیا۔ اس روز رجب کی آخری تاریخ تھی اور رجب کا مہینہ اشہر حرم میں سے ہے۔ یہ ہجرت کے بعد پہلا خون تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ اس پر مشرکین نے بہت واویلا کیا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہے ‘ بنے پھرتے ہیں اللہ والے ‘ رسول ﷺ والے ‘ دین والے ‘ آخرت والے اور انہوں نے حرمت والے مہینے کو بٹہّ لگا دیا ‘ اس میں جنگ کی۔ تو یہ دراصل اللہ تعالیٰ اپنے ان مؤمن بندوں کی طرف سے گویا خود صفائی پیش کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ حرمت والے مہینوں میں قتال کا کیا حکم ہے ؟قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ط وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ق وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ ج۔ یہ وہ سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب مشرکین مکہ کی جانب سے ہو رہا تھا۔ یہاں فرمایا گیا کہ یہ سب کام اشہر حرم میں جنگ کرنے سے بھی بڑے جرائم ہیں۔ لہٰذا ان کے سدبابّ کے لیے اگر اشہر حرم میں جنگ کرنی پڑجائے تو کوئی حرج نہیں۔ ُ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ط۔ قبل ازیں آیت 191 میں الفاظ آ چکے ہیں : وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج فتنہ ہر وہ کیفیت ہے جس میں صاحب ایمان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اسلام پر عمل کرنا مشکل ہوجائے۔ آج کا پورا معاشرہ فتنہ ہے۔ اسلام پر عمل کرنا مشکل ہے ‘ بدمعاشی اور حرام خوری کے راستے کھلے ہوئے ہیں ‘ اکل حلال اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ دانتوں پسینہ آئے تو شاید نصیب ہو۔ نکاح اور شادی کے جائز راستوں پر بڑی بڑی شرطیں اور قدغنیں عائد ہیں ‘ جبکہ ناجائز مراسم اور زنا کے راستے کھلے ہیں۔ جس معاشرے کے اندر باطل کا غلبہ ہوجائے اور حق پر چلنا ممکن نہ رہے وہ بڑے فتنے میں مبتلا ہے۔ باطل کا غلبہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ فتنہ قتل کے مقابلے میں بہت بڑی شے ہے۔وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ط۔ وہ تو اس پر تلے ہوئے ہیں کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ یہاں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے ‘ کیونکہ اب یہ غزوۂ بدر کی تمہید چل رہی ہے۔ اس کے بعد غزوۂ بدر ہونے والا ہے ‘ اس کے لیے اہل ایمان کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے اور انہیں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مشرکین کی جنگ کا مقصد تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کرنا ہے ‘ وہ تو اپنی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے لوٹا کر واپس لے جائیں۔وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ اور اسی حالت میں اس کی موت آگئی کہ وہ کافر ہی تھا فَاُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ج۔ پہلے خواہ کتنی ہی نیکیاں کی ہوئی تھیں ‘ کتنی ہی نمازیں پڑھی ہوئی تھیں ‘ کتنا ہی انفاق کیا ہوا تھا ‘ صدقات دیے تھے ‘ جو کچھ بھی کیا تھا سب کا سب صفر ہوجائے گا۔
آیت 218 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا اولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِط۔ یہاں ان لوگوں پر بڑا لطیف طنز ہے جو خود تو حرام کے راستے پر جا رہے ہیں ‘ لیکن یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان پر رحم فرمائے گا۔ اللہ ایسی روش اختیار کرنے والوں پر رحمت نہیں فرماتا ‘ اللہ کی رحمت کا مستحق بننا پڑتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت کا مستحق وہی ہے جو ایمان ‘ ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ایسے لوگ بجا طور پر اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔
آیت 219 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط ان احکام سے شریعت کا ابتدائی خاکہ blue print تیار ہونا شروع ہوگیا ہے ‘ کچھ احکام پہلے آ چکے ہیں اور کچھ اب آ رہے ہیں۔ شراب اور جوئے کے بارے میں یہاں ابتدائی حکم بیان ہوا ہے اور اس پر محض اظہار ناراضگی فرمایا گیا ہے۔قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ للنَّاسِز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط۔ یعنی اشارہ کردیا گیا کہ ان کو چھوڑ دو۔ اب معاملہ تمہاری عقل سلیم کے حوالے ہے ‘ حقیقت تم پر کھول دی گئی ہے۔ یہ ابتدائی حکم ہے ‘ لیکن حکم کے پیرائے میں نہیں۔ بس واضح کردیا گیا کہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ‘ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بقول غالب : مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ؟اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !اور : میں میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گیا ورنہ سفر حیات کا بیحد طویل تھا !یہ حکمت سمجھ لیجیے کہ شراب اور جوئے میں کیا چیز مشترک ہے کہ یہاں دونوں کو جمع کیا گیا ؟ شراب کے نشے میں بھی انسان اپنے آپ کو حقائق سے منقطع کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ وہ زندگی کے تلخ حقائق کا مواجہہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ع اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !۔۔ اور جوئے کی بنیاد بھی محنت کی نفی پر ہے۔ ایکّ رویہ تو یہ ہے کہ محنت سے ایک آدمی کما رہا ہے ‘ مشقت کر رہا ہے ‘ کوئی کھوکھا ‘ چھابڑی یا ریڑھی لگا کر کچھ کمائی کر رہا ہے ‘ جبکہ ایک ہے چانس اور داؤ کی بنیاد پر پیسے کمانا۔ یہ محنت کی نفی ہے۔ چناچہ شراب اور جوئے کے اندر اصل میں علت ایک ہی ہے۔ وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط آیت 195 میں انفاق کا حکم بایں الفاظ آچکا ہے : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ج اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ جھونکو۔ تو سوال کیا گیا کہ کتنا خرچ کریں ؟ ہمیں کچھ مقدار بھی بتادی جائے۔ فرمایا :قُلِ الْعَفْوَ ط جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ تم اپنی ضرورتوں کو پیچھے ڈال دو ‘ بلکہ تم پہلے اپنی ضرورتیں پوری کرو ‘ پھر جو تمہارے پاس بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ کمیونزم کے فلسفہ میں ایک اصطلاح قدر زائد surplus value استعمال ہوتی ہے۔ یہ ہے اَلْعَفْوَ۔ جو بھی تمہاری ضروریات سے زائد ہے یہ surplus value ہے ‘ اسے اللہ کی راہ میں دے دو۔ اس کو بچا کر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ پر بےاعتمادی کا اظہار کرر ہے ہیں کہ اللہ نے آج تو دے دیا ہے ‘ کل نہیں دے گا۔ لیکن یہ کہ انسان کی ضرورتیں کیا ہیں ‘ کتنی ہیں ‘ اس کا اللہ نے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا۔ اس کا تعلق باطنی روح سے ہے۔ ایک مسلمان کے اندر اللہ کی محبت اور آخرت پر ایمان جوں جوں بڑھتا جائے گا اتنا ہی وہ اپنی ضرورتیں کم کرے گا ‘ اپنے معیارِزندگی کو پست کرے گا اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے گا۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص یہ دیکھے کہ جو میری ضرورت سے زائد ہے اسے میں بچا بچا کر نہ رکھوں ‘ بلکہ اللہ کی راہ میں دے دوں۔ انفاق فی سبیل اللہ پر اس سورة مبارکہ میں پورے دو رکوع آگے آنے والے ہیں۔