سورۃ البقرہ: آیت 217 - يسألونك عن الشهر الحرام قتال... - اردو

آیت 217 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلشَّهْرِ ٱلْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَكُفْرٌۢ بِهِۦ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِۦ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ ٱللَّهِ ۚ وَٱلْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ ٱلْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَٰتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ ٱسْتَطَٰعُوا۟ ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُو۟لَٰٓئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَٰلُهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ

اردو ترجمہ

لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو: اِس میں لڑ نا بہت برا ہے، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر اُن کا بس چلے، تو تمہیں اِس دین سے پھرا لے جائیں (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloonaka AAani alshshahri alharami qitalin feehi qul qitalun feehi kabeerun wasaddun AAan sabeeli Allahi wakufrun bihi waalmasjidi alharami waikhraju ahlihi minhu akbaru AAinda Allahi waalfitnatu akbaru mina alqatli wala yazaloona yuqatiloonakum hatta yaruddookum AAan deenikum ini istataAAoo waman yartadid minkum AAan deenihi fayamut wahuwa kafirun faolaika habitat aAAmaluhum fee alddunya waalakhirati waolaika ashabu alnnari hum feeha khalidoona

آیت 217 کی تفسیر

متعدد روایات میں آیا ہے کہ یہ آیات عبداللہ ابن حجش کے سریہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک سیل شدہ خط دیا اور آٹھ افراد ان کے ساتھ روانہ کئے جو سب کے سب مہاجر تھے ، انصار کا ان میں کوئی نہ تھا۔ آپ ﷺ نے عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ دو رات دن کے سفر سے پہلے اس خط کو نہ کھولے ۔ جب اس نے مقررہ وقت پر خط پڑھا تو اس کی عبارت یہ تھی جب تم میرے اس خط کو پڑھو تو آگے بڑھو یہاں تک کہ وادی بطن نخلہ میں جا اترو ۔ جو مکہ اور طائف کے درمیان ہے ۔ یہاں تم قریش کے حالات نگاہ میں رکھو اور ہمیں ان کی اطلاع دیتے رہو ۔ لیکن اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ لے جانے پر مجبو رنہ کرنا ۔ یہ واقعہ بدر کبریٰ سے پہلے کا ہے ۔ عبداللہ بن حجش نے خط پڑھ کر کہا ” سر آنکھوں پر “۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا کہ رسول ﷺ نے تو مجھے حکمم دیا ہے میں بطن نخلہ جاؤں ۔ وہاں قریش کو نگاہ میں رکھوں اور ان کے حالات کی اطلاع رسول ﷺ کو دوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس سے منع کیا ہے کہ میں تم میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے پر مجبور کروں ۔ تم میں سے جو شخص شہادت کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسے اس کا شوق ہے تو وہ چلے اور اگر کوئی اسے ناپسند کرتا ہے تو واپس ہوجائے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کو بجالاؤں گا۔ چناچہ وہ آگے چلا اور اس کے تمام ساتھی اس کے ساتھ ہولیے ، کوئی بھی ان میں پیچھے نہ مڑا ۔ وہ مجاز کے راستے گئے اور ابھی اس راستے پر ہی تھے کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ گم ہوگیا۔ وہ عبداللہ بن حجش کے قافلے کے پیچھے رہ گئے تاکہ اونٹ تلاش کرلیں ۔ باقی چھ افراد آگے بڑھ گئے ۔ جب یہ بطن نخلہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کا ایک قافلہ جارہا ہے ، جس کے اونٹوں پر سامان تجارت لدا ہوا ہے ۔ اس قافلے میں عمروالحضرمی اور تین دوسرے افراد تھے ۔ عمرو کو قتل کردیا گیا اور دوگرفتار ہوئے اور ایک بھاگ نکلا ۔ انہوں نے پورے قافلے کے سامان کو قبضے میں کرلیا۔ اس دستے کا یہ خیال تھا کہ حملے کا دن جمادی الاخر کا آخری دن ہے ۔ حالانکہ دراصل حملے کا دن رجب کا پہلا دن تھا ۔ اور حرام مہینوں کا آغاز ہوگیا تھا ، جن کا احترام عرب بھی بہت زیادہ کرتے تھے اور اسلام نے بھی ان کے احترام کو برقرار رکھا تھا۔ جب یہ دستہ اس قافلے اور قیدیوں کو لے مدینہ پہنچا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے غنیمت پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں حرام مہینوں میں لڑنے کا حکم دیا ہی کب تھا ؟ قافلہ اور قیدی کھڑے کردیئے گئے اور آپ ﷺ نے ان کے لینے سے انکار فرمایا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تو لوگ گھبراگئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ ان سے ایک عظیم جرم کا ارتکاب ہوگیا ہے ، وہ تو مارے گئے ۔ مسلمان بھائیوں نے بھی انہیں سخت سست کہا کہ انہوں نے یہ کیا کیا ؟ قریش مکہ نے کہا محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں نے حرام مہینوں کی حرمت کو ختم کردیا ہے ، انہوں نے ان میں خونریزی ، مال کو چھین لیا اور لوگوں کو قید کرلیا ۔ یہودیوں نے اس واقعے سے رسول ﷺ کے لئے فال بدنکالی ۔ انہوں نے کہا : عمروالحضرمی کو واقد بن عبداللہ نے قتل کیا :” عمرو “ یعنی جنگ کی عمارت بن گئی ” حضرمی “ یعنی جنگ سرسبز ہوگئی ” واقد “ جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔

غرض اس واقعے کے بعد ، گمراہ کن پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہوگیا اور اسے مختلف مکارانہ طریقوں سے اہل عرب کے درمیان پھیلایا گیا۔ اور اس میں رسول ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو ایک ایسے شخص کی شکل میں پیش کیا گیا جو عربوں کے تمام مقدسات کا انکار کرتا ہے اور صدیوں سے قائم روایات کو پامال کررہا ہے۔ اور جب بھی مصلحت کا تقاضا ہو وہ ہر بندھن کو توڑتا ہے ۔ (نعوذباللہ) اس پروپیگنڈا کے طوفان بدتمیزی کے دوران ، اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ، جنہوں نے بات کو کاٹ کر رکھ دیا اور معاملے کا فیصلہ سچائی کے ساتھ کردیا گیا۔ رسول ﷺ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو قبول فرمالیا :

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ” لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو : اس میں لڑنا بہت برا ہے۔ “ یہ آیات نازل ہوئیں ۔ انہوں نے حرام مہینوں میں لڑائی جھگڑے کو تو برا اور گناہ کبیرہ قرار دیا اور کہا یہ تو ٹھیک ہے ، لیکنوَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ” مگر راہ اللہ سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ اللہ پرستوں کا بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا ، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے۔ “

یہ جنگ مسلمانوں نے شروع نہ کی تھی ، دشمنی کا آغاز انہوں نے کیا تھا۔ یہ تو مشرکین ہی تھے جنہوں نے پہل کی ۔ انہی لوگوں نے اللہ کی راہ میں لوگوں کو روکا ، انہی لوگوں نے اللہ سے کفر کیا۔ انہی لوگوں نے اللہ پرستوں کو مسجد حرام سے روکا ۔ انہی لوگوں نے اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے ہر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ۔ انہوں نے خود بھی اللہ کا انکار کیا اور لوگوں کو بھی اللہ کا منکر بنایا ۔ انہوں نے مسجد حرام کی حرمت کا بھی انکار کیا اور اس کی حرمت کو توڑا ۔ اس میں مسلمانوں کو اذیت دی اور ہجرت سے پہلے پورے تیرہ سال تک ، وہ مسلمانوں کو اذیتیں دے دے کر انہیں ان کے دین سے روکتے رہے ۔ پھر انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے مسجد حرام کے باشندوں کو ان کے گھروں سے نکالا حالانکہ وہ قابل احترام اور امن کی جگہ تھی ۔ انہوں نے حرم کے تقدس کا کوئی خیال نہ رکھا اور اس کے احترام کے کسی اصول پر عمل نہ کیا ۔

اللہ کے نزدیک باشندگان حرم کو ان کے گھروں سے نکالنا حرام مہینوں میں جنگ کرنے سے زیادہ برا ہے ۔ اور لوگوں کو محض دین اور نظریہ کی وجہ سے مصائب میں مبتلا کرنا اور انہیں تکالیف پہنچانا قتل سے بھی زیادہ برا ہے ۔ چونکہ مشرکین مکہ نے اعلانیہ ان دوکبائر کا ارتکاب کرلیا تھا ، لہٰذا ان کا یہ استدلال کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں کے احترام کا کوئی خیال نہیں کیا ، یا بیت الحرام کی حرمت کا کوئی خیال نہیں کیا ، یہ محض پروپیگنڈا ہے اور ساقط الاعتبار ہے ۔ چناچہ ان آیات کے ذریعہ خود مسلمانوں کا موقف واضح ہوکر سامنے آگیا کہ مسلمان تو درحقیقت ان لوگوں کے خلاف برسرپیکار ہیں جو حرم مقدس کا کوئی احترام نہیں کرتے ۔ دراصل حرم شریف اور حرام مہینوں کے احترام کو اپنے لئے ایک پردہ اور پناہ بنالیا ہے جس کی آڑ میں یہ لوگ جب چاہیں قداست اور پاکی کا ڈھنڈورا پیٹیں اور جب چاہیں اس تقدس کو پامال کردیں ۔ مسلمانوں کا یہ فرض تھا کہ یہ لوگ جہاں ملیں انہیں ختم کردیں کیونکہ یہ لوگ باغی اور شرپسند ہیں ، کسی احترام کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے ، کسی جعلی پردے کے پیچھے من مانی کرنے نہ دیتے ۔ کیونکہ ان کے دل میں کوئی حقیقی احترام نہیں ہے۔

حرمتوں کے شعار اور روایات دراصل ایک حق بات تھی مگر اس سے وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے ، کفار مکہ ماہ حرام کی بےحرمتی کا جو پروپیگنڈا کررہے تھ ، وہ تو محض ظاہرداری تھی ، اس کے پردے میں چھپ کر دراصل وہ ثابت یہ کرنا چاہتے تھے ، مسلمان زیادتی کررہے ہیں اور یہ ان کا موقف درست نہیں ہے ۔ حالانکہ ظلم و زیادتی کی ابتدا خود انہوں نے کی ۔ یہ وہی تھے جنہوں نے بیت الحرام کی حرمت کا کوئی خیال نہ کیا۔

اسلام زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ نظم ہے ۔ وہ محض مثالوں اور نطریاتی شکلوں پر مبنی نہیں ہے وہ انسانی زندگی کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کرتا ہے۔ اس کی مشکلات ، اس کے میلانات اور اس کے واقعی حالات پر نظر رکھتا ہے۔ اس کی حقیقت پسندانہ راہنمائی کرتا ہے ۔ وہ اس زندگی کو زمین پر بطور حقیقت واقعیہ چلاتا ہے اور آہستہ آہستہ اسے ترقی کی سمت میں لے جاتا ہے ۔ وہ اس کے مسائل کو اس طرح حل کرتا ہے کہ وہ حل ایک عملی حل ہو۔ محض خام خیالی اور فلسفیانہ تخلیات ہی نہ ہوں بلکہ وہ ایسا حل پیش کرتا ہے جو عملی دنیا میں چل بھی سکے ۔

اب ذرا قریش کی حالت کو دیکھئے ۔ یہ لوگ سخت ظالم اور سرکش تھے ، مقامات مقدسہ میں کچھ حیثیت ہی نہ رکھتے تھے ۔ وہ حرمتوں کے تقدس کے قائل ہی نہ تھے ۔ وہ ہر اچھے اخلاق ، ہر دینداری اور ہر اچھے نظریہ کو کچل رہے تھے ۔ حق کے مقابلے میں اکڑگئے تھے اور لوگوں کو حق قبول کرنے سے روکتے تھے ۔ مومنین کو انہوں نے فتنوں میں مبتلا کررکھا تھا ، اور انہیں سخت اذیتیں پہنچاتے تھے ، وہ انہیں مسجد حرام سے نکال رہے تھے حالانکہ عربوں کی روایات کے مطابق مسجد حرام اور بیت الحرام درالامان تھے اور ان میں انسان کیا ، حیوانوں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی امن امان حاصل تھا ، لیکن ان سب حقائق کے باوجود ان لوگوں نے ان حرمتوں کی آڑ میں پوری دنیا کو سر پر اٹھا رکھا تھا ، اور ان حرمتوں کا ڈھنڈوراپیٹ رہے تھے ۔ وہ چلاتے تھے دیکھو ، یہ ہے محمد ﷺ اور اس کے ساتھی ، انہوں نے حرام ماہ کی حرمت کو پامال کردیا۔

اب دیکھئے اسلام ان کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ کیا اسلام ان کے مقابلے میں کوئی نظری ، مثالی اور خیالی جواب لاتا ہے اور مسئلے کا نظریاتی جائزہ لیتا ہے ۔ اگر اسلام اس معاملے میں کوئی خیالی حل پیش کرتا ہے تو یقینا ً وہ آئیڈیل ضرور ہوتا لیکن نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں کی حالت یہ ہوتی کہ ان کو غیر مسلح کردیا جاتا۔ جب کہ ان کا مقابلہ ایک ایسے شریر اور سرکش دشمن سے تھا ، جو ہر ہتھیار استعمال کرتا تھا اور کوئی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہ کرتا تھا ۔ ہرگز نہیں ، اسلام کبھی بھی یہ رویہ اختیار نہیں کرتا کیونکہ اس کا مقابلہ ایک حقیقی صورت حال سے تھا۔ اس نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنا تھا ۔ اور اسے اپنے راستے سے ہٹانا تھا۔ اسلام شر و فساد کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ وہ اس زمین کے اختیارات ایک صالح قوت کے ہاتھ میں دینا چاہتا تھا ، وہ اختیارات اور قیادت ایک صالح جماعت کے ہاتھ میں دینا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ ہرگز یہ نہ کرسکتا تھا کہ یہ حرمتیں مفسدوں اور باغیوں کے لئے قلعہ بن جائیں اور اس کے اندر پناہ لے کر یہ لوگ پاک طینت صالح اور تعمیری کام کرنے والوں پر وار کریں ۔ اور جوابی حملے سے بالکل محفوظ بیٹھے ہوں۔

اسلام تو ان لوگوں کے مقابلے میں حرمتوں کا بہت خیال رکھتا ہے جو خود ان کا لحاظ رکھیں اور وہ حرمتوں کے اصول ودرایت کا سختی سے پابند ہے ۔ لیکن وہ ہرگز کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ خود تو ان حرمتوں کا کوئی خیال نہ کرے ، ان کو خوب توڑے اور اپنے لئے انہیں ایک حصار قرار دے رہے ہیں اور اس کی اوٹ سے نیک بندوں کو اذیت دے ، بھلے لوگوں کو قتل کرے اور ہر برائی کا مزے سے ارتکاب کرے اور ان حرمتوں کی اوٹ میں جوابی حملے سے محفوظ ومامون رہے اور لوگوں کو تلقین کرے کہ ان حرمتوں کا لحاظ رکھو۔

اسلام نے ہر معاملے میں یہی پالیسی اختیار کی ہے ، مثلاً اسلام میں غیبت حرام ہے ، لیکن فاسق کی غیبت ، غیبت ہی نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے فسق وفجور میں مشہور ہو تو جو لوگ اس کے فسق وفجور کے نتیجے میں داغہائے سینہ رکھتے ہیں ۔ وہ معاف ہیں ۔ اسلام الجہر (بدگوئی ) کو حرام قرار دیتا ہے لیکن اس شخص کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے ، جس پر ظلم کیا گیا ہو ، اگر کوئی مظلوم ہے تو وہ اس ظالم کے خلاف علی الاعلان بدگوئی کرسکتا ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے ۔ اگر ظالم کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی ، اس نیت سے کہ وہ غیبت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ظالم کو ایک اچھے اصول کی پناہ دیتے ہیں حالانکہ وہ اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ وہ اس اصول سے فائدہ اٹھائے۔

لیکن برابر کے اس معاملے میں باوجود اسلام اپنا معیار گرنے نہیں دیتا ، وہ اپنی اونچی سطح سے اتر کر ان شریروں اور ظالموں کی سطح تک نہیں اترتا ۔ وہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں اوچھے ہتھیار استعمال کرتا ہے ، نہ غیر اخلاقی وسائل یا قابل نفرت ذرائع ۔ وہ مسلمانوں کو صرف یہ حکم دیتا ہے کہ ظالموں کے ہاتھ توڑدو ، ان سے لڑائی کرو ، ان کو قتل کردو۔ اور زندگی کے ماحول کو ان سے پاک کردو ، کھلے طور پر اور علی الاعلان ۔

اصل مسئلہ ہے قیادت کا ، جب قیادت پاک لوگوں کے ہاتھ میں آجائے ، جو مومن ہوں ، سلیم الفطرت ہوں اور جب زمین کو ان لوگوں کی نجاست سے پاک کردیا جائے جو کسی حرمت کا لحاظ نہیں رکھتے اور تمام مقدسات کو پامال کرتے ہیں تب جاکر تمام مقدسات کی حرمت بحال ہوگی اور اس طرح بحال ہوگی جس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔

یہ ہے اسلام ۔ صریح ، واضح ، قوی اور باطل کا سر پھوڑنے والا جس میں کوئی لگی لپٹی نہیں ۔ کوئی ہیر پھیر نہیں ۔ نہ وہ کسی دوسری طاقت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی ہیرا پھیری کرے یا اس سے کوئی دھوکہ دے ۔ اور یہ ہے قرآن مجید جو مسلمانوں کو ایک مضبوط موقف عطا کرتا ہے ۔ اس قدر مضبوط جس پر ان کے قدم ڈگمگانہ پائیں ۔ وہ راہ اللہ میں آگے ہی بڑھتے جائیں اور اللہ کی اس زمین کو ہر قسم کے شر و فساد سے پاک کردیں ۔ قرآن مجید ان کے دل و دماغ کو شیشے کی طرح صاف نقطہ عطا کرتا ہے ، وہ ان کے دلوں میں کسی قسم کا قلق ، کسی قسم کا خلجان نہیں رہنے دیتا ، شبہات ووساوس ان کے دلوں سے ختم کردیئے جاتے ہیں ۔ قرآن صاف صاف کہتا ہے دیکھو ! وہ شر ہے ، فساد ہے ، نافرمانی ہے اور باطل ہے ، لہٰذا اسے کوئی حرمت اور کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ اس باطل کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ان حرمتوں کو ڈھال بناکر خود ان کی حرمتوں پر ضربیں لگائے ۔ قرآن مجید واضح طور پر یہ ہدایت کرتا ہے کہ اپنی منزل کی طرف بڑھتے چلو ، یقین کے ساتھ ، اطمینان کے ساتھ ، اپنے ضمیر کی سلامتی کے ساتھ اور اپنے اللہ کے ساتھ جڑے ہوئے ۔

اس حقیقت کے بیان اور اچھی طرح ذہن نشین کرنے اور مسلمانوں کو دلجمعی اور صبر وثبات دینے کے بعد اب انہیں بتایا جاتا ہے کہ جس شر سے ان کا مقابلہ ہے وہ کوئی سطحی شر نہیں ہے وہ بہت ہی گہری برائی ہے ۔ دشمنوں کا منصوبہ بہت ہی گہرا ہے اور وہ اس پر بطور اصول جمے ہوئے ہیں ۔

وَلا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ” اور وہ تم سے لڑتے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہارے دین سے تم کو پھیرکر لے جائیں۔ “

یہ ہے صحیح رپورٹ ، جو علیم وخبیر کی طرف سے ہے اور جو بتاتی ہے کہ شر اپنے ناپاک موقف پر کس قدر مصر ہے ، کفار ، مسلمانوں کو اپنے دین سے ہٹانے کے لئے کس قدر زور لگا رہے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کے دشمنوں کا یہ ایک مستقل نصب العین ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں کسی طرح اسلام سے دور کردیں ۔ دشمنان اسلام کا یہ نصب العین ایسا مستقل نصب العین ہے کہ یہ کسی دور میں اور کسی علاقے میں کبھی تبدیل نہیں ہوا ۔ زمین پر اسلام کا وجود ہی ان کو ناگوار ہے ۔ دین کے دشمن اس سے ہمیشہ خائف رہے ہیں ۔ ہر دور میں یہ لوگ اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک سے خائف رہتے ہیں ۔ نفس اسلام سے انہیں چڑ ہے ، انہیں اس سے سخت اذیت ہوتی ہے ۔ وہ ہر وقت اس سے خوف کھاتے ہیں ۔ اسلامی نظام کی قوت اور اس کی سنجیدگی سے ہر باطل پرست خائف رہتا ہے ۔ اللہ کا ہر باغی اس سے مرعوب ہوتا ہے ۔ ہر مفسد اسلام کا ناپسند کرتا ہے ۔ اسلام بذات خود کفر سے ایک جنگ ہے ۔ اسلام کی روشن سچائی ، اس کا پائیدار نظام زندگی اور اس کا پائیدار طریق کار ہی باطل کے لئے چیلنج ہے ۔ ان خوبیوں کی وجہ سے اسلام بذات خودکفر اور فساد کے لئے اعلان جنگ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باطل پرست ، باغی اور مفسد کبھی اسلام کو برداشت نہیں کرتے ۔ وہ ہر وقت اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ اہل اسلام کو کسی نہ کسی طرح فتنے میں ڈال دیں ۔ انہیں واپس کفر کی طرف لے آئیں ۔ چاہے کفر کی کوئی صورت ہی وہ اختیار کریں لیکن اسلام کو چھوڑدیں ۔ جب تک اس کرہ ارض پر کوئی ایسی جماعت بھی موجود ہے جس کا نصب العین اسلامی نظام زندگی ہے ، جو اسلام کی پیروکار ہو اور اسلام میں زندہ رہنا چاہتی ہو ۔ اس وقت تک باطل پرست اپنے باطل پر اور اپنے فساد پر پر امن طور پر گامزن نہیں رہ سکتے ۔ اس لئے وہ تحریک اسلامی سے ہر وقت خائف رہتے ہیں ۔

اسلام کے یہ دشمن ، مسلمانوں کے خلاف کئی قسم کی جنگ لڑتے ہیں اور اس میں قسم قسم کے ہتھیار استعمال کرتے ہیں ، لیکن ان کا مقصد ایک ہی رہتا ہے اور ہمیشہ وہی ان کے پیش نظر رہتا ہے یہ کہ اگر ان کا بس چل سکے تو یہ لوگ صادق مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیر دیں۔ جب ان کا کوئی ہتھیار ناکارہ ہوجاتا ہے تو یہ فوراً دوسرا ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ جب ان کا ایک ہتھیار کند ہوجاتا ہے تو یہ لوگ دوسرا ہتھیار تیز کرلیتے ہیں ، لیکن علیم وخبیر کی یہ سچی رپورٹ اپنی جگہ قائم ہے اور مسلمانوں کو ان مخالفین کے ہتھکنڈوں سے خبردار کرتی ہے کہ وہ ہتھیار نہ ڈالیں ۔ مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کفار کی سازشوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں ۔ ان کے ساتھ جنگ پیش آئے تو اس میں صبر و تحمل سے کام لیں ۔ اور اگر ایسا نہ کریں گے تو دنیا وآخرت میں خسارہ اٹھائیں گے ۔ وہ ایسے عذاب سے دوچار ہوں گے جو کسی عذر سے معاف نہ ہوگا اور جو کسی جواز سے کم نہ ہوگا :

وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ” تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوجائیں گے ۔ ایسے لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ “

حبطت حبوط سے نکلا ہے ۔ عرب کہتے ہیں حبطت الناقۃ ، یعنی اونٹنی پھول گئی ۔ جب وہ کوئی ایسی چیز لے جس سے وہ پھول جائے اور آخر کار مرجائے (جس طرح شفتل اور بعض دوسرے چاروں سے جانور پھول جاتے ہیں ) ۔ قرآن مجید نے اس لفظ کو کفار کے اعمال کے لئے استعمال کیا ہے جس سے حسی اور معنوی مفاہیم کا تطابق بھی معلوم ہوتا ہے ۔ جس طرح اونٹنی بظاہر پھول کر بڑی ہوجاتی ہے لیکن اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے ۔ اس طرح کفار کے اعمال بہت ہی بڑے اور پھولے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ لیکن انجام ان کا کچھ نہیں ہوتا بلکہ تباہ ہوجاتے ہیں ۔

یہی حال اس شخص کا ہوگا ، جو اسلام کو سمجھنے اور اس کا تجربہ کرلینے کے بعد ، اس سے روگردانی کرے گا ۔ محض اذیتوں اور مصیبتوں سے گھبر اکر ۔ اگر وہ حد سے گزرجائیں تو اس کا انجام یہی ہوگا جس کا اللہ نے ذکر فرمایا : کہ دنیا وآخرت میں اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے ۔

جو دل ایمان کا ذوق آشنا ہوجائے ، صحیح طرح وہ اسلام کو سمجھ لے ، اس بات کا امکان ہی نہیں کہ وہ فی الواقع اسلام کو چھوڑ دے اور راہ ارتداد اختیار کرے ۔ الا یہ کہ کسی کا دل و دماغ اس قدر فاسد ہوجائے جس کی اصلاح کی کوئی صورت نہ رہے لیکن یہ حکم ان لوگوں کا نہیں ہے جو ناقابل برداشت عذاب سے بچنے کے لئے تقیہ اختیار کرلیں۔ اللہ رحیم وکریم ہے ، اس نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ جب مصائب اس کی قوت برداشت سے بڑھ جائیں تو وہ ظاہری رواہ روی اختیار کرلیں بشرطیکہ ان کا دل اسلام پر ثابت قدم ہو ، قلب ایمان پر مطمئن ہو ۔ لیکن اللہ نے کسی صورت میں بھی کفر حقیقی اور ارتداد حقیقی اختیار کرنے کی کوئی رخصت نہیں دی ۔ یوں کہ وہ کافر ہوکر رہ جائے نعوذ باللہ من ذلک۔

اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ تنبیہ اور تحذیر روز قیامت تک اپنی جگہ پر قائم ہے۔ مسلمان کے لئے اس بات کا کوئی عذر نہیں ہے کہ وہ مصائب اور شدائد سے تنگ آکر اپنا دین ایمان چھوڑ دے ۔ اور ایمان واسلام سے منحرف ہوجائے اور اس حق کو ترک کردے جو اس نے چکھا اور جانا ۔ بلکہ یہ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جس قدر ممکن ہو وہ مجاہدہ کرے ۔ جبر وثبات سے کام لے اور سخت جانی سے کام لے ۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو اس پر ایمان لے آئیں اور پھر اس کی راہ میں مصائب برداشت کریں یونہی نہیں چھوڑ دیتا ۔ وہ ان کی تکالیف پر انہیں جزائے خیر دیتا ہے اور وہ دو باتوں میں سے ایک ضروری ہوتی ہے یا اس کی نصرت آجاتی ہے اور مومن کامیاب ہوجاتا ہے اور یا اسے شہادت کا مقام بلند حاصل ہوجاتا ہے۔

آیت 217 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ط قتال کا حکم آنے کے بعد اب وہ پوچھتے تھے کہ یہ جو حرمت والے مہینے ہیں ان میں جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اس لیے کہ سیرت میں یہ واقعہ آتا ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش رض کو چند افراد کے دستے کا کمانڈر بنا کر ہدایت فرمائی تھی کہ مکہ اور طائف کے درمیان جا کر وادئ نخلہ میں قیام کریں اور قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ وادئ نخلہ میں قیام کے دوران وہاں قریش کے ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک عمرو بن عبداللہ الحضرمی مارا گیا۔ اس روز رجب کی آخری تاریخ تھی اور رجب کا مہینہ اشہر حرم میں سے ہے۔ یہ ہجرت کے بعد پہلا خون تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ اس پر مشرکین نے بہت واویلا کیا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہے ‘ بنے پھرتے ہیں اللہ والے ‘ رسول ﷺ والے ‘ دین والے ‘ آخرت والے اور انہوں نے حرمت والے مہینے کو بٹہّ لگا دیا ‘ اس میں جنگ کی۔ تو یہ دراصل اللہ تعالیٰ اپنے ان مؤمن بندوں کی طرف سے گویا خود صفائی پیش کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ حرمت والے مہینوں میں قتال کا کیا حکم ہے ؟قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ط وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ق وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ ج۔ یہ وہ سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب مشرکین مکہ کی جانب سے ہو رہا تھا۔ یہاں فرمایا گیا کہ یہ سب کام اشہر حرم میں جنگ کرنے سے بھی بڑے جرائم ہیں۔ لہٰذا ان کے سدبابّ کے لیے اگر اشہر حرم میں جنگ کرنی پڑجائے تو کوئی حرج نہیں۔ ُ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ط۔ قبل ازیں آیت 191 میں الفاظ آ چکے ہیں : وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج فتنہ ہر وہ کیفیت ہے جس میں صاحب ایمان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اسلام پر عمل کرنا مشکل ہوجائے۔ آج کا پورا معاشرہ فتنہ ہے۔ اسلام پر عمل کرنا مشکل ہے ‘ بدمعاشی اور حرام خوری کے راستے کھلے ہوئے ہیں ‘ اکل حلال اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ دانتوں پسینہ آئے تو شاید نصیب ہو۔ نکاح اور شادی کے جائز راستوں پر بڑی بڑی شرطیں اور قدغنیں عائد ہیں ‘ جبکہ ناجائز مراسم اور زنا کے راستے کھلے ہیں۔ جس معاشرے کے اندر باطل کا غلبہ ہوجائے اور حق پر چلنا ممکن نہ رہے وہ بڑے فتنے میں مبتلا ہے۔ باطل کا غلبہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ فتنہ قتل کے مقابلے میں بہت بڑی شے ہے۔وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ط۔ وہ تو اس پر تلے ہوئے ہیں کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ یہاں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے ‘ کیونکہ اب یہ غزوۂ بدر کی تمہید چل رہی ہے۔ اس کے بعد غزوۂ بدر ہونے والا ہے ‘ اس کے لیے اہل ایمان کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے اور انہیں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مشرکین کی جنگ کا مقصد تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کرنا ہے ‘ وہ تو اپنی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے لوٹا کر واپس لے جائیں۔وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ اور اسی حالت میں اس کی موت آگئی کہ وہ کافر ہی تھا فَاُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ج۔ پہلے خواہ کتنی ہی نیکیاں کی ہوئی تھیں ‘ کتنی ہی نمازیں پڑھی ہوئی تھیں ‘ کتنا ہی انفاق کیا ہوا تھا ‘ صدقات دیے تھے ‘ جو کچھ بھی کیا تھا سب کا سب صفر ہوجائے گا۔

حضرمی کا قتل رسول اللہ ﷺ نے ایک جماعت کو بھیجا اور اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا جب وہ جانے لگے تو حضور ﷺ سے جدائی کے صدمہ سے رو دئیے آپ نے انہیں روک لیا اور ان کے بدلے حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کو سردار لشکر مقرر کیا اور انہیں ایک خط لکھ کردیا اور فرمایا کہ جب تک بطن نخلہ نہ پہنچو اس خط کو نہ پڑھنا اور وہاں پہنچ کر جب اس مضمون کو دیکھو تو ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا چناچہ حضرت عبداللہ اس مختصر سی جماعت کو لے کر چلے جب اس مقام پر پہنچے تو فرمان نبی پڑھا اور کہا میں فرمانبرداری کے لئے تیار ہوں پھر اپنے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا اور واقعہ بیان کیا دو شخص تو لوٹ گئے لیکن اور سب ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوگئے آگے چل کر ابن الحضرمی کافر کو انہوں نے پایا چونکہ یہ علم نہ تھا کہ جمادی الاخری کا یہ آخری دن ہے یا رجب کا پہلا دن ہے انہوں نے اس لشکر پر حملہ کردیا ابن الحضرمی مارا گیا اور صحابہ کی یہ جماعت وہاں واپس ہوئی اب مشرکین نے مسلمانوں پر اعتراض کرنا شروع کیا کہ دیکھو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی اور قتل بھی کیا اس بارے میں یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم) ایک اور روایت میں ہے کہ اس جماعت میں حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابو حذیفہ بن عبتہ بن ربیعہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عتبہ بن غزوان سلمی، حضرت سہیل بن بیضاء، حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت واقد بن عبداللہ یربوعی ؓ تھے۔ بطن نخلہ پہنچ کر حضرت عبداللہ بن جحش نے صاف فرما دیا تھا کہ جو شخص شہادت کا آرزو مند ہو وہی آگے بڑے یہاں سے واپس جانے والے حضرت سعد بن ابی وقاص اور عتبہ ؓ تھے ان کے ساتھ نہ جانے کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان کا اونٹ گم ہوگیا تھا جس کے ڈھونڈنے میں وہ رہ گئے ،۔ مشرکین میں حکم بن کیسان، عثمان بن عبداللہ وغیرہ تھے۔ حضرت واقد کے ہاتھوں عمرو قتل ہوا اور یہ جماعت مال غنیمت لے کر لوٹی۔ یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمان صحابہ کو ملی اور یہ جانباز جماعت دو قیدیوں کو اور مال غنیمت لے کر واپس آئی مشرکین مکہ نے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا چاہا (یہاں اصل عربی میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے) اور انہوں نے اعتراضا کہا کہ دیکھو حضرت ﷺ کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہیں لیکن حرمت والے مہینوں کی کوئی حرمت نہیں کرتے اور ماہ رجب میں جدال و قتال کرتے ہیں، مسلمان کہتے تھے کہ ہم نے رجب میں قتل نہیں کیا بلکہ جمادی الاخری میں لڑائی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ رجب کی پہی رات اور جمادی الاخری کی آخری شب تھی رجب شروع ہوتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میان میں ہوگئی تھیں، مشرکین کے اس اعتراض کا جواب اس آیت میں دیا جا رہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ان مہینوں میں جنگ حرام ہے لیکن اے مشرکوں تمہاری بداعمالیاں تو برائی میں اس سے بھی بڑھ کر ہیں، تم اللہ کا انکار کرتے ہو تم میرے نبی اور ان کے ساتھیوں کو میری مسجد سے روکتے ہو تم نے انہیں وہاں سے نکال دیا پس اپنی ان سیاہ کاریوں پر نظر ڈالو کہ یہ کس قدر بدترین کام ہیں، انہی حرمت والے مہینوں میں ہی مشرکین نے مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے روکا تھا اور وہ مجبورا واپس ہوئے تھے اگلے سال اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں میں ہی مکہ کو اپنے نبی کے ہاتھ فتح کروایا۔ انہیں ان آیتوں میں لاجواب کیا گیا عمرو بن الحضرمی جو قتل کیا گیا یہ طائف سے مکہ کو آ رہا تھا، گو رجب کا چاند چرھ چکا تھا لیکن صحابہ کو معلوم نہ تھا وہ اس رات کو جمادی الاخری کی آخری رات جانتے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش کے ساتھ آٹھ آدمی تھے سات تو وہی جن کے نام اوپر بیان ہوئے آٹھویں حضرت رباب اسدی ؓ تھے انہیں بدر اولیٰ سے واپسی کے وقت حضور ﷺ نے بھیجا تھا یہ سب مہاجر صحابہ تھے ان میں ایک بھی انصاری نہ تھا دو دن چل کر حضور ﷺ کے اس نامہ مبارک کو پڑھا جس میں تحریر تھا کہ میرے اس حکم نامہ کو پڑھ کر مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں جاؤ وہاں ٹھہرو اور قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور ان کی خبریں معلوم کر کے مجھے پہنچاؤ یہ بزرگ یہاں سے چلے تو سب ہی چلے تھے دو صحابی جو اونٹ کو ڈھونڈنے کے لئے رہ گئے تھے وہ بھی یہاں سے ساتھ ہی تھے لیکن فرغ کے اوپر معدن پر پہنچ کر نجران میں انہیں اونٹوں کی تلاش میں رک جانا پڑا، قریشیوں کے اس قافلہ میں زیتون وغیرہ تجارتی مال تھا مشرکین میں علاوہ ان لوگوں کے جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں نوفل بن عبداللہ وغیرہ بھی تھے مسلمان اول تو انہیں دیکھ کر گھبرائے لیکن پھر مشورہ کر کے مسلمانوں نے حملہ یہ سوچ کر کیا کہ اگر انہیں چھوڑ دیا تو اس رات کے بعد حرمت کا مہینہ آجائے گا تو ہم پھر کچھ بھی نہ کرسکیں گے انہوں نے شجاعت و مردانگی کے ساتھ حملہ کیا حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی ؓ نے عمرو بن حضرمی کو ایسا تاک کر تیر لگایا کہ اس کا تو فیصلہ ہی ہوگیا عثمان اور حکم کو قید کرلیا اور مال وغیرہ لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے راستہ میں ہی سردار لشکر نے کہہ دیا تھا کہ اس مال میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کے رسول ﷺ کا ہے چناچہ یہ حصہ تو الگ کر کے رکھ دیا گیا اور باقی مال صحابہ میں تقسیم کردیا اور اب تک یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا چاہئے، جب یہ لشکر سرکار نبوی میں پہنچا تو آپ نے واقعہ سن کر ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کو کب کہا تھا نہ تو قافلہ کا کچھ مال آپ نے لیا نہ قیدیوں کو قبضہ میں کیا حضور ﷺ کے اس قول وفعل سے یہ مسلمان سخت نادم ہوئے اور اپنی گنہگاری کا انہیں یقین ہوگیا پھر اور مسلمانوں نے بھی انہیں کچھ کہنا سننا شروع کیا ادھر قریشیوں نے طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد اور آپ کے صحابہ حرمت والے مہینوں میں بھی جدال و قتال سے باز نہیں رہتے دوسری جانب یہودیوں نے ایک بدفالی نکالی چونکہ عمرو قتل کیا گیا تھا انہوں نے کہا عمرت الحرب لڑائی پر رونق اور خوب زوروشور سے لمبی مدت تک ہوگی اس کے باپ کا نام حضرمی تھا اس سے انہوں نے فال لی کہ حضرت الحرب وقت لڑائی آپہنچا، قاتل کا نام واقد تھا جس سے انہوں نے کہا وقدت الحرب لڑائی کی آگ بھڑک اٹھی لیکن قدرت نے اسے برعکس کردیا اور نتیجہ تمام تر مشرکین کے خلاف رہا اور ان کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر بالفرض جنگ حرمت والے مہینہ میں ہوئی بھی ہو تو اس سے بھی بدترین تمہاری سیاہ کاریاں موجود ہیں تمہارا یہ فتنہ کہ تم دین اللہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی اپنی تمام تر امکانی کوششیں کر رہے ہو یہ اس قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور تم نہ تو اپنے ان کاموں سے رکتے ہو نہ توبہ کرتے ہو نہ اس پر نادم ہوتے ہو، ان آیات کے نازل ہونے کے بعد مسلمان اس رنج و افسوس نجات پائے۔ اور حضور ﷺ نے قافلہ اور قیدیوں کو اپنے قبضہ میں لیا، قریشیوں نے پھر آپ کے پاس قاصد بھیجا کہ ان دونوں قیدیوں کا فدیہ لے لیجئے مگر آپ نے فرمایا کہ میرے دونوں صحابی سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان ؓ جب آجائیں تب آؤ مجھے ڈر ہے کہ تم انہیں ایذاء نہ پہنچاؤ چناچہ جب وہ آگئے تو آپ نے فدیہ لے لیا اور دونوں قیدیوں کو رہا کردیا حکم بن کیسان ؓ تو مسلمان ہوگئے اور حضور ﷺ کی خدمت میں ہی رہ گئے آخر بیر معونہ کی لڑائی میں شہید ہوئے ؓ ہاں عثمان بن عبداللہ مکہ واپس گیا اور وہیں کفر میں ہی مرا، ان غازیوں کو یہ آیت سن کر بڑی خوشی حاصل ہوئی اور حضور ﷺ کی ناراضگی کی وجہ سے حرمت والے مہینوں کی بےادبی کے سبب سے دوسرے صحابی کی چشمک کی بنا پر کفار کے طعنہ کے باعث جو رنج وغم ان کے دلوں پر تھا سب دور ہوگیا لیکن اب یہ فکر پڑی کہ ہمیں اخروی اجر بھی ملے گا یا نہیں ہم غازیوں میں بھی شمار ہوں گے یا نہیں جب حضور ﷺ سے یہ سوالات کئے گئے تو اس کے جواب میں یہ آیت (ان الذین امنوا) الخ، نازل ہوئی اور ان کی بڑی بڑی امیدیں بندھ گئیں ؓ اجمعین، اسلام اور کفر کے مقابلہ میں کافروں میں سب سے پہلے یہی ابن الحضرمی مارا گیا، کفار کا وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کیا حرمت والے مہینوں میں قتل کرنا جائز ہے اور اس پر یہ آیت (یسئلونک) الخ، نازل ہوئی یہی مال غنیمت تھا جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور سب سے پہلے پانچواں حصہ حضرت عبداللہ بن جحش نے ہی نکالا جو اسلام میں باقی رہا اور حکم الہ بھی اس طرح نازل ہوا اور یہی دو قیدی تھے جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے، اس واقعہ کو ایک نظم میں بھی ادا کیا گیا ہے بعض تو کہتے ہیں کہ یہ اشعار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہیں لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اشعار عبداللہ بن جحش کے ہیں جو اس مختصر سے لشکر کے سردار تھے اللہ ان سے خوش ہو۔

آیت 217 - سورۃ البقرہ: (يسألونك عن الشهر الحرام قتال فيه ۖ قل قتال فيه كبير ۖ وصد عن سبيل الله وكفر به والمسجد الحرام...) - اردو