سورۃ البقرہ: آیت 216 - كتب عليكم القتال وهو كره... - اردو

آیت 216 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًٔا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّوا۟ شَيْـًٔا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kutiba AAalaykumu alqitalu wahuwa kurhun lakum waAAasa an takrahoo shayan wahuwa khayrun lakum waAAasa an tuhibboo shayan wahuwa sharrun lakum waAllahu yaAAlamu waantum la taAAlamoona

آیت 216 کی تفسیر

قتال فی سبیل اللہ بہت بارگراں فریضہ ہے ۔ اس کے باوجود یہ ایسا ہے کہ اس کی ادائیگی واجب ہے ۔ اس لئے کہ اس میں ایک مسلمان کے لئے بھی بڑی خیر ہے ، اسلامی جماعت کے لئے بھی خیر کثیر ہے بلکہ اس میں پوری انسانیت کی عظیم بھائی ہے ۔ یہ فریضہ محض سچائی کے لئے ہے ، بھلائی کے لئے ہے اور اصلاح احوال کے لئے ہے ۔

اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے ، اس لئے وہ ہر معاملے میں اپنا موقف اور نقطہ نظر بھی عین فطرت کے مطابق اختیار کرتا ہے ۔ اس فریضے کی ادائیگی میں جو مشقتیں اور دشواریاں ہیں اللہ ان کا انکار نہیں کرتا۔ نہ اسے آسان اور ہلکا تصور کیا جاتا ہے۔ نہ اس بات کا انکار کیا جاتا ہے کہ نفس انسانی اسے بتقاضائے فطرت ناپسند کرتا ہے اور اسے بھاری سمجھتا ہے ۔ اسلام نہ فطرت کا انکار کرتا ہے ۔ نہ کسی معاملے میں نظام فطرت سے متصادم ہوتا ہے ۔ نہ انسان پر اس کے ان فطری احساسات کو حرام قرار دیتا ہے ، جن کے انکار کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ جن کو کالعدم نہیں گردانا جاسکتا ۔ البتہ اسلام ان فطری احساسات کا علاج ایک دوسرے طریقے سے کرتا ہے ۔ اسلام فطرت کی ان تاریکیوں کو ایک جدید قسم کی روشنی سے ختم کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تم جو فرض عائد کیا گیا ہے بیشک وہ شاق ناپسندیدہ ہے ، لیکن اس کے پس منظر میں ایک عظیم مصلحت ہے جس کی وجہ سے وہ بہت ہی ہلکا ہوجاتا ہے ، آسان ہوجاتا ہے ۔ اس کی مشقت کم ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے ذائقے کی کڑواہٹ کم ہوجاتی ہے ۔ اس کے ذریعہ ایک پوشیدہ بھلائی وجود میں آتی ہے ۔ اس پوشیدہ بھلائی کو انسان کی سطحی نظر اچھی طرح نہیں دیکھ سکتی ۔ اس نقطہ نظر کو پالینے کے بعد ، انسانی روح پر معرفت کے لئے دروازے کھل جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ انسان اس معاملے کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ۔ اب انسان جہاد و قتال کے مسئلے پر ایک نئے زاویہ سے نگاہ ڈالتا ہے ۔ اور پھر جب انسان مشکلات سے دوچار ہوتا ہے اور مصائب میں گھر اہوتا ہے ، تو اس کے روح کے اس زاویہ ار معرفت کے اس نئے دروازے سے اس کے قلب ونظر پر ٹھنڈی ٹھنڈی خوشگوار ہواچلتی ہے اور اسے اطمینان نصیب ہوتا ہے اس لئے کہ عین ممکن ہے شاید ان مشکلات کے بعد آسانیاں ہوں اور کسے خبر ہے کہ شاید پسندیدہ امر کا انجام یہ نہ ہوگا ۔ یہ تو وہی ہے جو دور دراز انتہاؤں کا علم رکھنے والا ہے جبکہ تمام لوگ اس علم کے ایک حصہ سے بھی خبردار نہیں ہیں ۔

جب نفس انسانی پر یہ خوشگوار بادنسیم چلتی ہے تو اس پر ٹوٹنے والے تمام مصائب اور مشقتیں اور سختیاں آسان ہوجاتی ہیں ۔ امید وبقا کے دریچے کھل جاتے ہیں ، سخت تپش میں بھی دل ٹھنڈک محسوس کرتا ہے اور یقین وامید کے ساتھ اطاعت اور ادائے فرض کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔

اسلام فطرت کے ساتھ یوں معاملہ کرتا ہے کہ وہ انسان کے فطری رجحانات پر کوئی نکیر نہیں کرتا ۔ اور نہ ہی انسان کو کسی مشکل فرض کے سرانجام دینے پر محض آرڈر اور حکم کے ذریعہ مجبور کرتا ہے ، بلکہ وہ انسان کی تربیت کرکے اسے اطاعت پر آمادہ کرتا ہے ۔ امید کا دائرہ وسیع کردیتا ہے ۔ وہ اسے یہ تعلیم دیتا ہے کہ ادنیٰ چیز کو خرچ کرکے اعلیٰ ترین حاصل کرو ، وہ انسان کو ذاتی خواہشات کے مقابلے میں نہیں بلکہ خوشی ورضا سے کھڑا کرتا ہے تاکہ انسان کی فطرت کو اس بات کا احساس ہو کہ اللہ کا رحم وکرم اس کے شامل حال ہے کیونکہ وہ انسانی کمزوریوں سے خوب واقف ہے ۔ وہ وہ معترف ہے کہ انسان پر جو فریضہ عائد کیا گیا ہے وہ ایک مشکل کام ہے ۔ وہ اس کی مجبوریوں سے بھی واقف ہے اور انسان کی بھی قدر کرتا ہے اور بلندہمتی ، التجا اور امید کے ذریعے اسے مسلسل آگے بڑھانے کی ہمت بھی دیتا رہتا ہے ۔

یوں اسلام انسانی فطرت کی تربیت کرتا ہے ، وہ فرائض پر ملول نہیں ہوتی ، صدمات کی ابتلا میں جزع وفزع نہیں کرتی اور نہ مصائب شروع ہوتے ہی وہ ہمت ہار بیٹھتی ہے ۔ اگر مشکلات کے مقابلے میں کمزوری ظاہر ہوجائے تو شرمندہ ہو کر صاف گرہی نہیں جاتی بلکہ ثابت قدم رہنے کی سعی کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے عنداللہ معذور سمجھاجائے گا۔ اسے یہ امید ہوتی ہے کہ اللہ اس کی امداد کرے گا اور اپنی طرف سے قوت بخشے گا اور مصائب کا مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیتی ہے ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان مشکلات کی تہہ میں کچھ خیر پوشیدہ ہو۔

مشکلات کے بعد آسانیاں آجائیں ۔ تھکاوٹ اور ضعف کے بعد بہت بڑا آرام نصیب ہوجائے ۔ یہ فطرت محبوبات ومرغوبات پر فریفتہ نہیں ہوتی اس لئے کہ عیش و عشرت کا نتیجہ حسرت بھی تو ہوسکتی ہے۔ محبوب کی تہہ سے مکروہ بھی برآمد ہوسکتا ہے ۔ کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روشن تر امیدوں کے پس پردہ ہلاکت اور مصیبت انتظار کررہی ہو۔

تربیت کا یہ عجیب نظام ہے ۔ بہت ہی گہرا اور بہت ہی سادہ ۔ یہ نظام نفس انسانی کے سرچشموں ، اس کے پوشیدہ گوشوں اور اس کے مختلف گزرگاہوں کا شناسا ہے ۔ یہ نظام تربیت سچائی اور صداقت سے کام لیتا ہے ۔ اس میں جھوٹے اشارے ، جھوٹے تاثرات اور نظر فریب جعل سازی نہیں ہوتی ۔ پس یہ حقیقت ہے انسان کا ناقص اور ضعیف ذہن کسی بات کو ناپسند کرے حالانکہ وہ خیر ہی خیر ہو۔ اور یہ بھی حق ہے کہ انسان کسی چیز کو پسند کرے اور اس کا جانثار ہو ۔ لیکن اس میں شر ہی شر ہو ۔ اور یہ بھی حق ہے کہ اللہ جانتا ہے اور انسان نہیں جانتے ۔ لوگوں کو عواقب اور انجام کا کیا علم ہے ۔ وہ کیا جانیں کیونکہ پردہ گرا ہوا ہے اور پس پردہ کیا ہے ؟ غرض لوگوں کو ان حقائق کا علم نہیں ہوسکتا جو ہماری خواہشات ، جہالت اور نفس کے تابع نہیں ہیں۔

قلب انسانی کے اندر یہ ربانی احساس ، اس کے دریچے کھول دیتا ہے ۔ اس کے سامنے ایک نئی دنیا نمودار ہوجاتی ہے ۔ یہ دنیا اس محدود دنیا سے بالکل مختلف ہے جسے ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔ اس کی نظروں کے سامنے کچھ دوسرے عوامل بھی آجاتے ہیں جو اس کائنات کی گہرائیوں میں کام کررہے ہوتے ہیں ، جو معاملات کی کا یا پلٹ دیتے ہیں ، جو نتائج کی اس ترتیب کو الٹ دیتے ہیں جن میں انسان کو تمنا ہوتی ہے یا وہ ان کی توقع کئے ہوئے ہوتا ہے ۔ جب قلب مومن تن بہ تقدیر اس ربانی احساس کے تابع ہوجاتا ہے ، تو پھر وہ پرامیدہوکر کام کرتا ہے ۔ اسے امید بھی ہوتی ہے اور اللہ کا ڈر بھی ، لیکن وہ تمام نتائج برضا ورغبت دست قدرت کے سپرد کردیتا ہے جو حکیم ہے اور علیم ہے ۔ جس کا علم سب کو گھیرے ہوئے ہے ۔ یہ ہے دراصل سلامتی کے کھلے دروازے کا داخلہ ۔ نفس انسانی کو اسلام کا صحیح شعور اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتا ، جب تک اس میں یہ یقین پیدا نہ ہوجائے کہ خیر اسی میں ہے جسے اللہ نے خیر بتایا ، بھلائی اس میں ہے کہ اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کو آزمانے اور اللہ سے براہین طلب کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔ پختہ یقین ، پرسکوں امید اور سعی پیہم ہی سلامتی کے دروازے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انہی دروازوں سے داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے اور حکم دیتا کہ نیمے دروں اور نیمے بیروں میں نہیں بلکہ پورے پورے ان دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بڑے سادہ عجیب لیکن بہت گہرے منہاج کے ساتھ اس سلامتی کی طرف لے جارہا ہے ۔ بڑی نرمی ، بڑی آسانی اور دھیمی رفتار سے ۔ سلامتی کے اس راستے پر وہ انہیں اس طریقے سے لے جارہا ہے کہ آخرکار وہ ان پر قیام امن کے لئے قتال بھی فرض کردیتا ہے ۔ سلامتی کیا چیز ہے ؟ سلامتی یہ ہے کہ میدان جنگ میں انسان کی روح اور اس کا ضمیر مطمئن اور امن وسلامتی سے رہیں ۔

قرآن کریم کی اس آیت میں قتال کی نسبت سے جو اشارہ کیا گیا ہے ، وہ قتال تک ہی محدود نہیں ہے ۔ قتال تو ان امور کی ایک واضح مثال ہے جسے نفس انسانی فطرتاً پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس میں نتائج کے اعتبار سے بھلائی ہوتی ہے ۔ یہ نکتہ دراصل مومن کی پوری زندگی میں اس کا فلسفہ حیات ہے ۔ اس کے تمام واقعات زندگی پر اس کا پرتو ہوتا ہے ۔ انسان تو کسی معاملے میں یہ نہیں جانتا کہ خیر کہاں ہے اور شر کہاں ہے ؟ بدر کے دن مسلمان نکلے کہ قریش کے قافلے کو لوٹ لیں اور ان کے مال تجارت پر قبضہ کرلیں ۔ اللہ نے ان سے غنیمت کا وعدہ بھی کر رکھا تھا ، وہ سمجھتے تھے کہ یہی قافلہ اور اس کا مال تجارت بس انہیں ملنے ہی والا ہے ۔ ان کے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ انہیں قریش کی فوج کے ساتھ دوچار ہونا پڑے گا ، لیکن اللہ کا کرنا یہ تھا کہ قافلہ بچ نکلا اور ان کا سامنا قریش کی ساز و سامان سے لیس فوج سے ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں اہل اسلام کو وہ کامیابی نصیب ہوئی جس کی آواز بازگشت پورے جزیرۃ العرب میں سنی گئی ۔ اب دیکھئے کہ مسلمانوں کی کامیابی کے مقابلہ میں قافلہ اور اس کے تجارتی سامان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ اب دیکھئے ، مسلمانوں نے اپنے لئے جو پسند کیا اس کی قدر و قیمت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو اختیار کیا اس کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے اور لوگ نہیں جانتے ۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی نوجوان اپنا کھانا بھول گیا یعنی مچھلی ۔ جب پتھر کے پاس پہنچے تو مچھلی دریا میں چلی گئی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے چلے گئے اور اپنے خادم سے کہا لاؤ ہمارا ناشتہ آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں ۔ خادم نے کہا آپ نے دیکھا ، یہ کیا ہوا ؟ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے ، اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کردیا کہ میں اس کا ذکر آپ سے کرنا بھول گیا ۔ مچھلی توعجیب طریقے سے نکل کردریا میں چلی گئی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اسی کی تو ہمیں تلاش تھی ، چناچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا ۔ یہی وہ مقصد تھا جس کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سفر اختیار کیا ۔ اگر مچھلی کا واقع نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہ لوٹتے اور وہ پورا مقصد فوت ہوجاتا جس کے لئے انہوں نے یہ تھکا دینے والا سفر اختیار کیا تھا۔

ہر اگر انسان اگر تامل کرے تو وہ بعض مخصوص تجربوں میں اس سچائی کو دریافت کرسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کئی ایسے تجربات سے دوچار ہوا جو اسے ناپسند تھے ۔ لیکن ان کے پس پردہ وہ خیر عظیم کارفرما تھی ۔ اور کئی پر ذائقہ اور لذید چیزیں بھی تھیں ۔ لیکن ان کی تہہ میں شر عظیم نہا تھا۔ کئی ایسے مقاصد ہوتے ہیں کہ جن سے انسان محروم ہوجاتا ہے اور اسے اپنی اس محرومی کا بےحد صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن ایک عرصہ کے بعد نتائج دیکھ کر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محروم رکھ کر دراصل بلائے عظیم سے نجات دی تھی ۔ کئی مصائب وشدائد ایسے جاں گسل ہوتے ہیں ، کہ انسان بڑی ناخوش گواری سے ان کے کڑوے گھونٹ بھرتا ہے اور قریب ہوتا ہے کہ ان مصائب کی سختی کے نتیجے میں اس کی جان ہی نکل جائے ، لیکن ایک طویل عرصہ نہیں گزرتا کہ ان سختیوں کے نتائج اتنے اچھے نکلتے ہیں جتنے ایک طویل پر آسائش زندگی کے نتیجے میں اچھے نہ ہوسکتے تھے۔

یہ ہے منہاج تربیت جس کے مطابق اللہ نفس انسانی کو لیتا ہے کہ وہ ایمان لے آئے ، اسلام میں داخل ہوجائے اور آنے والے نتائج اللہ کے سپرد کردے ۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ بقدر استطاعت ، ظاہری جدوجہد کے میدان میں اپنی پوری قوت لگادے ۔

تحریک اسلامی کو امن وسلامتی کی طرف لے جایا جارہا تھا کہ وہ پوری کی پوری سلامتی کے نظام میں داخل ہوجائے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی حرام مہینوں میں قتال کے بارے میں فتویٰ بھی ہے ۔ چناچہ فرماتے ہیں

آیت 216 کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ج واضح رہے کہ سورة البقرۃ سے پہلے سورة محمد ﷺ نازل ہوچکی تھی اور اس میں قتال کی فرضیتّ آچکی تھی۔ چنانچہ اس کا ایک نام سورة القتال بھی ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے کچھ لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ خاص طور پر منافقین یہ کہتے تھے کہ بھائی صلح جوئی سے کام لو ‘ بس دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لاؤ ‘ یہ جنگ وجدال اور لڑائی بھڑائی تو کوئی اچھا کام نہیں ہے ‘ اس میں تو بہت خرابی ہے۔ ان کے علاوہ ایسے مسلمان جن کا ایمان قدرے کمزور تھا ‘ اگرچہ وہ منافق تو نہیں تھے ‘ لیکن ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا ‘ ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے اور تربیت کے مراحل سے ابھی نہیں گزرے تھے ‘ ان میں سے بھی بعض لوگوں کے دلوں میں انقباض پیدا ہو رہا تھا۔ یہاں قتال کی فرضیتّ کے لیے کُتِبَ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ روزے ‘ قصاص اور وصیت کے ضمن میں آچکا ہے۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ اج الْوَصِیَّۃُ۔۔ فرمایا کہ تم پر جنگ فرض کردی گئی ہے اور وہ تمہیں بری لگ رہی ہے۔ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْ ج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ تم اپنی عقل پر ایمان نہ رکھو ‘ اللہ کی وحی پر ایمان رکھو ‘ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان رکھو۔ جس وقت کے لیے جو حکم موزوں تھا وہی تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے دیا گیا۔ چودہ برس تک تمہیں قتال سے منع کیا گیا۔ اس وقت تمہارے لیے حکم تھا : کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ اپنے ہاتھ روکے رکھو ! اب تم پر قتال فرض کیا جا رہا ہے ‘ لہٰذا اب اس حکم پر سر تسلیم خم کرنا تمہارے لیے لازم ہے۔

جہاد بقائے ملت کا بنیادی اصول دشمنان اسلام سے دین اسلام کے بچاؤ کے لئے جہاد کی فرضیت کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے زہری فرماتے ہیں جہاد ہر شخص پر فرض ہے، خواہ لڑائی میں نکلے خواہ بیٹھا رہے سب کا فرض ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں جب ان سے فریاد کی جائے یہ فریاد رسی کریں جب انہیں میدان میں بلایا جائے یہ نکل کھڑے ہوں صحیح حدیث شریف میں ہے جو شخص مرجائے اور اس نے نہ تو جہاد کیا ہو نہ اپنے دل میں جہاد کی بات چیت کی ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور حدیث میں ہے، فتح مکہ کے بعد ہجرت تو نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت موجود ہے اور جب تم سے جہاد کے لئے نکلنے کو کہا جائے تو نکل کھڑے ہو یہ حکم آپ نے مکہ کی فتح کے دن فرمایا تھا۔ پھر فرمایا ہے حکم جہاد گو تم پر بھاری پڑے گا اور اس میں تمہیں مشقت اور تکلیف نظر آئے گی ممکن ہے قتل بھی کئے جاؤ ممکن ہے زخمی ہوجاؤ پھر سفر کی تکلیف دشمنوں کی یورش کا مقابلہ ہو لیکن سمجھو تو ممکن ہے تم برا جانو اور ہو تمہارے لئے اچھا کیونکہ اسی سے تمہارا غلبہ اور دشمن کی پامالی ہے ان کے مال ان کے ملک بلکہ ان کے بال بچے تک بھی تمہارے قدموں میں گرپڑیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لئے اچھا جانو اور وہ ہی تمہارے لئے برا ہو عموما ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک چیز کو چاہتا ہے لیکن فی الواقع نہ اس میں مصلحت ہوتی ہے نہ خیروبرکت اسی طرح گو تم جہاد نہ کرنے میں اچھائی سمجھو دراصل وہ تمہارے لئے زبردست برائی ہے کیونکہ اس سے دشمن تم پر غالب آجائے گا اور دنیا میں قدم ٹکانے کو بھی تمہیں جگہ نہ ملے گی، تمام کاموں کے انجام کا علم محض پروردگار عالم ہی کو ہے وہ جانتا ہے کہ کونسا کام تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے اچھا ہے اور کونسا برا ہے، وہ اسی کام کا حکم دیتا ہے جس میں تمہارے لئے دونوں جہان کی بہتری ہو تم اس کے احکام دل وجان سے قبول کرلیا کرو اور اس کے ہر ہر حکم کو کشادہ پیشانی سے مان لیا کرو اسی میں تمہاری بھلائی اور عمدگی ہے۔

آیت 216 - سورۃ البقرہ: (كتب عليكم القتال وهو كره لكم ۖ وعسى أن تكرهوا شيئا وهو خير لكم ۖ وعسى أن تحبوا شيئا وهو...) - اردو