سورۃ البقرہ: آیت 205 - وإذا تولى سعى في الأرض... - اردو

آیت 205 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ ٱلْحَرْثَ وَٱلنَّسْلَ ۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْفَسَادَ

اردو ترجمہ

جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha tawalla saAAa fee alardi liyufsida feeha wayuhlika alhartha waalnnasla waAllahu la yuhibbu alfasada

آیت 205 کی تفسیر

نفس انسانی کے یہ عجیب خدوخال ، کسی ماہر فن عکاس کی قلم سے ہیں اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ یہ کلام کسی انسان کا کلام نہیں ہے ۔ یہ تصویر کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے ۔ اس کلام اور اس نفسیاتی عکاسی کا سرچشمہ انسانی دماغ ہرگز نہیں ہے ۔ کیونکہ کوئی انسان اس قدر مختصر الفاظ میں ، اتنی مختصر عکاسی کے ساتھ ، اس طرح انسانی نفسیات کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اور نفس انسانی کے ایسے گہرے خدوخال سامنے نہیں لاسکتا۔ جو اس قدر وسیع بھی ہوں اور اس قدر واضح بھی ۔

اس کلام کا ہر لفظ تصویر کی ایک لکیر ہے ، جو انسان کے کسی خدوخال ، کسی خصوصیت کا اظہار کرتی ہے ، جلد ہی یہ نقش ونگار چلتے پھرتے زندہ انسانوں کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔ جس کی تصویر کھینچی گئی ہے ۔ وہ ایک الگ شخصیت بن جاتی ہے ، جس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ لاکھوں انسانوں میں سے ، اسے الگ کیا جاسکتا ہے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ شخص جس کی مصوری قرآن نے کی ہے ۔ الفاظ میں تصویر کشی بھی ایک قسم کی تخلیق ہے جس طرح زندہ چیزیں دست قدرت سے ، رات اور دن پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔

اب یہ زندہ شخصیت ہے ۔ گویا بھی ہے اور چلتی پھرتی ہے ۔ اور اس کی ذات نیکی کا خلاصہ اور اخلاص کا پتلا ہے ۔ محبت ویکسوئی کا نمونہ اور بلند ہمت ہے ، بھلائی و نیکی اور طہارت و پاکیزگی کی ایک تڑپ ہے ۔ جو اس کے اندر پائی جاتی ہے ۔

اور یہ دوسری شخصیت جس کی باتیں بھلی معلوم ہوتی ہیں جو بہت زبان دراز ہے ۔ اس کی آواز کڑاکے دار ہے ، بات کرتا ہے تو بھلائی ، نیکی اور اصلاح کی بات کرتا ہے ۔ اپنی نیک نیتی پر اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے تاکہ اس کی بات زیادہ موثر اور واضح ہو۔ اور اس کی یکسوئی اور خلوص میں شبہ نہ ہو ، اس سے بظاہر نیکی اور اللہ خوفی کا اظہار ہو ، حالانکہ یہ شخص فی الحقیقت اللہ کا بدترین دشمن ہے ۔ اس کا نفس کینے اور جھگڑے سے بھر پڑا ہے۔ اس میں محبت اور شرافت کا ہلکا سا پرتو بھی نہیں یہ محبت وبھلائی سے یکسر محروم ہے ۔ احسان وایثار اس میں نام کو نہیں ۔

اس شخص کا ظاہر اس کے باطن سے الٹ ہے ۔ اس کا عیاں اس کے نمایاں سے دور ہے ۔ وہ جھوٹ کو بڑی چابکدستی سے سچ کا رنگ دے سکتا ہے لیکن جب عمل کا میدان آتا ہے تو وہ یہاں عیاں ہوجاتا ہے۔ حقیقت پردے سے باہر آجاتی ہے اور اس کا شر و فساد ، اور اس کا فتنہ کھل کر سامنے آجاتا ہے اس کی دشمنی اور کینہ پروری عیاں ہوجاتے ہیں وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الْفَسَادَ ” جب اسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اسی لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کا غارت کرے ، اور نسل انسانی کو تباہ کرے ۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ “

جب وہ کسی عملی کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کا رجحان شروفساد ، سنگدلی اور ظلم کی جانب ہوتا ہے ۔ ہر معاملے میں سخت جھگڑالو ۔ وہ کھیتوں کو غارت کرتا ہے ، کھیتوں کے پھل ، سبزیاں اور روئیدگی وسرسبزی چھین لیتا ہے اور نسل انسانی کو بھی برباد کردیتا ہے ۔

وہ ہر قسم کی بھلائی کا دشمن ہے ۔ کھیتوں کو غارت کردیتا ہے ۔ پھل اور سبزیاں اور غلے تباہ ہوجاتے ہیں ۔ سرسبزی اور شادابی کی جگہ خشکی وویرانی آبستی ہے ۔ اور اس کا غلبہ نسل انسانی کی ہلاکت کا باعث ہوتا ہے۔

زندگی کی ہلاکت سے مراد وہ کینہ وشر اور وہ غدروفساد ہے ، جو اس بداخلاق شخص کے وجود میں پرورش پارہی تھی لیکن یہ شخص اسے اپنی چرب زبانی اور شیریں کلامی ، نیکی کے مظاہرے اور اصلاح و شرافت اور بھلائی وتقویٰ کی نمائش کے ذریعے چھپائے رکھتا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا اور ان مفسدین کو بھی پسند نہیں کرتا جو اس کائنات میں فساد پھیلانے کا موجب بنتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے اس قسم کے لوگ ہرگز پوشیدہ نہیں رہ سکتے ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ طمع کاری اور یہ پالش کارگر نہیں ہوسکتی ، ہاں انسانوں میں کبھی کبھار یہ روغن سازی اور طمع کاری دھوکہ دے سکتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو اس قسم کے بد اخلاق اور بدفطرت شخص کی ملمع سازی دھوکہ نہیں دے سکتی ۔ ہاں عوام الناس جن کے سامنے خفیہ راز نہیں ہوتے اور ظاہر داری انہیں دھوکہ دے سکتی ہے ۔ ان کی نظروں میں ضرور اس قسم کے لوگ کسی قدروقعت رکھتے ہیں ۔

آیت 205 وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ط یہ لوگ جب آپ ﷺ کے پاس سے ہٹتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور لوگوں کی کھیتیاں اور جانیں تباہ و برباد کریں۔

آیت 205 - سورۃ البقرہ: (وإذا تولى سعى في الأرض ليفسد فيها ويهلك الحرث والنسل ۗ والله لا يحب الفساد...) - اردو