آیت 202 اُولٰٓءِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ط۔ یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ محض دعا کافی نہیں ہوجائے گی ‘ بلکہ اپنا عمل بھی ضروری ہے۔ یہاں پر یہ جو فرمایا کہ ان کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے کیوں ؟ وہ تو سارا ملنا چاہیے ! لیکن نہیں ‘ بندے کو اپنے اعمال پر غرّہ نہیں ہونا چاہیے ‘ اسے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی مسئلے میں میری نیت میں فساد نہ آگیا ہو ‘ ممکن ہے میرے کسی عمل کے اندر کوئی کمی یا کوتاہی ہوگئی ہو۔ اس لیے یہ نہ سمجھ لیں کہ جو کچھ بھی کیا ہے اس کا اجر لازماً ملے گا۔ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے اس میں اگر خلوص ہے ‘ ریاکاری نہیں ہے ‘ اس کے تمام آداب اور شرائط ملحوظ رکھے گئے ہیں تو ان کو ان کا حصہ ملے گا۔وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ اللہ تعالیٰ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی ‘ وہ بہت جلدی حساب کرلے گا۔ اب تو ہمارے لیے یہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں رہا ‘ ہمارے ہاں کمپیوٹرز پر کتنی جلدی حساب ہوجاتا ہے ‘ اللہ کے ہاں تو پتا نہیں کیسا سپر کمپیوٹر ہوگا کہ اسے حساب نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی !