سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 31 (آیات 197 سے 202 تک)

ٱلْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَٰتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ ٱلْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِى ٱلْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ ٱللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا۟ فَإِنَّ خَيْرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقْوَىٰ ۚ وَٱتَّقُونِ يَٰٓأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا۟ فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَآ أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَٰتٍ فَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ عِندَ ٱلْمَشْعَرِ ٱلْحَرَامِ ۖ وَٱذْكُرُوهُ كَمَا هَدَىٰكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ ثُمَّ أَفِيضُوا۟ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسْتَغْفِرُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَٰسِكَكُمْ فَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا وَمَا لَهُۥ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنْ خَلَٰقٍ وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا۟ ۚ وَٱللَّهُ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
31

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے پس اے ہوش مندو! میر ی نا فرمانی سے پرہیز کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhajju ashhurun maAAloomatun faman farada feehinna alhajja fala rafatha wala fusooqa wala jidala fee alhajji wama tafAAaloo min khayrin yaAAlamhu Allahu watazawwadoo fainna khayra alzzadi alttaqwa waittaqooni ya olee alalbabi

پچھلے رکوع سے مناسک حج کا تذکرہ شروع ہوچکا ہے۔ اب اس پچیسویں رکوع میں حج کا اصل فلسفہ ‘ اس کی اصل حکمت اور اس کی اصل روح کا بیان ہے۔ فرمایا : آیت 197 اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌج ۔ یعنی عرب میں جو بھی پہلے سے رواج چلا آ رہا تھا اس کی توثیق فرما دی گئی کہ واقعی حج کے مواقیت کا تعین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ّفَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ لازم کرنے سے مراد حج کا عزم اور نیت پختہ کرنا ہے اور اس کی علامت احرام باندھ لینا ہے۔فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِی الْْحَجِّ ط۔ زمانۂ حج میں جن باتوں سے روکا گیا ہے ان میں اوّلین یہ ہے کہ شہوت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ میاں بیوی بھی اگر ساتھ حج کر رہے ہوں تو احرام کی حالت میں ان کے لیے وہی قید ہے جو اعتکاف کی حالت میں ہے۔ باقی یہ کہ فسوق وجدال یعنی اللہ کی نافرمانی اور باہم لڑائی جھگڑا تو ویسے ہی ناجائز ہے ‘ دورانِ حج اس سے خاص طور پر روک دیا گیا۔ اس لیے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے ‘ سفر میں بھی لوگ ساتھ ہوتے ہیں۔ اس حالت میں لوگوں کے غصوں کے پارے جلدی چڑھ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے خاص طور پر روکا گیا تاکہ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران امن اور سکون ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ آج بھی یہ بات معجزات میں سے ہے کہ دنیا بھر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے کے باوجود وہاں امن و سکون رہتا ہے اور جنگ وجدال اور جھگڑا و فساد وغیرہ کہیں نظر نہیں آتا۔ مجھے الحمد للہ پانچ چھ مرتبہ حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے ‘ لیکن وہاں پر جھگڑا اور گالم گلوچ کی کیفیت میں نے کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ ط۔ حج کے دوران مناسک حج پر مستزاد جو بھی نیکی کے کام کرسکو ‘ مثلاً نوافل پڑھو یا اضافی طواف کرو تو تمہاری یہ نیکیاں اللہ کے علم میں ہوں گی ‘ کسی اور کو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّاد التَّقْوٰیز۔ اس کے دو معنی لیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ یعنی سفر حج میں مادی زاد راہ کے علاوہ تقویٰ کی پونجی بھی ضروری ہے۔ اگر آپ نے اخراجات سفر کے لیے روپیہ پیسہ تو وافر لے لیا ‘ لیکن تقویٰ کی پونجی سے تہی دامن رہے تو دورانِ حج اچھی سہولیات تو حاصل کرلیں گے مگر حج کی روح اور اس کی برکات سے محروم رہیں گے۔لیکن اس کا ایک دوسرا مفہوم بھی بہت اہم ہے کہ اگر انسان خود اپنا زاد راہ ساتھ نہ لے تو پھر وہاں دوسروں سے مانگنا پڑتا ہے۔ اس طرح یہاں تقویٰ سے مراد سوال سے بچنا ہے۔ یعنی بہتر یہ ہے کہ زاد راہ لے کر چلو تاکہ تمہیں کسی کے سامنے سائل نہ بننا پڑے۔ اگر تم صاحب استطاعت نہیں ہو تو حج تم پر فرض ہی نہیں ہے۔ اور ایک شے جو تم پر فرض نہیں ہے اس کے لیے خواہ مخواہ وہاں جا کر بھیک مانگنا یا یہاں سے بھیک مانگ کر یا چندہ اکٹھا کر کے جانا قطعاً غلط حرکت ہے۔

اردو ترجمہ

اور اگر حج کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہں پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو، جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa AAalaykum junahun an tabtaghoo fadlan min rabbikum faitha afadtum min AAarafatin faothkuroo Allaha AAinda almashAAari alharami waothkuroohu kama hadakum wain kuntum min qablihi lamina alddalleena

آیت 198 لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط آدمی ہندوستان سے یا پاکستان سے حج کے لیے جا رہا ہے اور وہ اپنے ساتھ کچھ ایسی اجناس لے جائے جنہیں وہاں پر بیچ کر کچھ نفع حاصل کرلے تو یہ تقویٰ کے منافی نہیں ہے۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِص۔ وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ 24 یعنی اصل حج تو عرفہ ہی ہے۔ اگر کسی سے حج کے باقی تمام مناسک رہ جائیں ‘ صرف قیام عرفہ میں شمولیت ہوجائے تو اس کا حج ہوگیا ‘ باقی جو چیزیں رہ گئی ہیں ان کا کفارہ ادا کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص عرفات کے قیام میں ہی شریک نہیں ہوا تو پھر اس کا حج نہیں ہوا۔ ایّامِ حج کا ٹائم ٹیبل نوٹ کیجیے کہ 8 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے نکل کر رات منیٰ میں گزارنا ہوتی ہے۔ اگلا دن 9 ذوالحجہ یوم عرفہ ہے۔ اس روز صبح کو عرفات کے لیے قافلے چلتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوپہر سے پہلے وہاں پہنچ جایا جائے۔ وہاں پر ظہر کے وقت ظہر اور عصر دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک عرفات کا قیام ہے ‘ جس میں کوئی نماز نہیں۔ یعنی روایتی عبادت کے سب دروازے بند ہیں۔ اب تو صرف دعا ہے۔ اگر آپ کے اندر دعا کی ایک روح پیدا ہوچکی ہے ‘ آپ اپنے رب سے ہم کلام ہوسکتے ہیں اور آپ کو حلاوت مناجات حاصل ہوگئی ہے تو بس دعا مانگتے رہیے۔ قیام عرفہ کے دوران کھڑے ہو کر یا بیٹھے ہوئے ‘ جس طرح بھی ہو اللہ سے مناجات کی جائے۔ یا اس میں اگر کسی وجہ سے کمی ہوجائے تو آدمی تلاوت کرے۔ لیکن عام نماز اب کوئی نہیں۔ 9 ذوالحجہ کو وقوف عرفات کے بعد مغرب کی نماز کا وقت ہو چکنے کے بعد عرفات سے روانگی ہے ‘ لیکن وہاں مغرب کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اب مزدلفہ میں جا کر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے ادا کرنی ہیں اور رات وہیں کھلے آسمان تلے بسر کرنی ہے۔ یہ مزدلفہ کا قیام ہے۔ مشعر حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے۔وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰٹکُمْ ج۔ یعنی اللہ کا ذکر کرو جس طرح اللہ نے تمہیں اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سکھایا ہے۔ ذکر کے جو طور طریقے رسول اللہ ﷺ نے سکھائے ہیں انہیں اختیار کرو اور زمانۂ جاہلیت کے طریقے ترک کر دو۔ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ۔ تم حج کی حقیقت سے ناواقف تھے۔ حج کی بس شکل باقی رہ گئی تھی ‘ اس کی روح ختم ہوگئی تھی ‘ اس کے مناسک میں بھی ردّوبدل کردیا گیا تھا۔

اردو ترجمہ

پھر جہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma afeedoo min haythu afada alnnasu waistaghfiroo Allaha inna Allaha ghafoorun raheemun

آیت 199 ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ زمانۂ جاہلیت میں قریش مکہّ عرفات تک نہ جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری خاص حیثیت ہے ‘ لہٰذا ہم منیٰ ہی میں مقیم رہیں گے ‘ باہر سے آنے والے لوگ عرفات جائیں اور وہاں سے طواف کے لیے واپس لوٹیں ‘ یہ سارے مناسک ہمارے لیے نہیں ہیں۔ یہاں فرمایا گیا کہ یہ ایک غلط بات ہے جو تم نے ایجاد کرلی ہے۔ تم بھی وہیں سے طواف کے لیے واپس لوٹو جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں ‘ یعنی عرفات سے۔وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط۔ اپنی اگلی تقصیر پر نادم ہو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو۔

اردو ترجمہ

پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha qadaytum manasikakum faothkuroo Allaha kathikrikum abaakum aw ashadda thikran famina alnnasi man yaqoolu rabbana atina fee alddunya wama lahu fee alakhirati min khalaqin

آیت 200 فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ ‘ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط یعنی دسویں ذوالحجہ کو جب افعالِ حج سے فراغت پا چکو تو قیام منیٰ کے دوران اللہ کا خوب ذکر کرو جیس ئزمانہ جاہلیت میں اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کیا کرتے تھے ‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔ ان کا قدیم دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر تین دن منیٰ میں قیام کرتے اور بازار لگاتے۔ وہاں میلے کا سا سماں ہوتا جہاں مختلف قبائل کے شعراء اپنے قبیلوں کی مدح سرائی کرتے تھے اور اپنے اسلاف کی عظمت بیان کرتے تھے۔ اللہ کا ذکر ختم ہوچکا تھا۔ فرمایا کہ جس شدو مدّ کے ساتھ تم اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کرتے رہے ہو اب اسی انداز سے ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ شدومدّ کے ساتھ ‘ اللہ کا ذکر کرو۔فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ یعنی ارض حرم میں پہنچ کر دورانِ حج بھی ان کی ساری دعائیں دنیوی چیزوں ہی کے لیے ہیں۔ چناچہ وہ مال کے لیے ‘ اولاد کے لیے ‘ ترقی کے لیے ‘ دنیوی ضروریات کے لیے اور اپنی مشکلات کے حل کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں دنیا رچی بسی ہوئی ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کا تقدس اور اس کی محبت جاگزیں کردی گئی تھی اسی طرح ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت گھر کرچکی ہے ‘ لہٰذا وہاں جا کر بھی دنیا ہی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہاں واضح فرما دیا گیا کہ ایسے لوگوں کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waminhum man yaqoolu rabbana atina fee alddunya hasanatan wafee alakhirati hasanatan waqina AAathaba alnnari

آیت 201 وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ یہی وہ دعا ہے جو طواف کے ہر چکر میں رکن یمانی سے حجرِ اسود کے درمیان چلتے ہوئے مانگی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا خیر ایمان اور ہدایت ہے۔ دنیا کا کوئی خیر خیر نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ ہدایت اور ایمان نہ ہو۔ چناچہ سب سے پہلے انسان ہدایت ‘ ایمان اور استقامت طلب کرے ‘ پھر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دنیا میں کشادگی اور رزق میں کشائش کی دعا بھی کرے تو یہ بات پسندیدہ ہے۔

اردو ترجمہ

ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika lahum naseebun mimma kasaboo waAllahu sareeAAu alhisabi

آیت 202 اُولٰٓءِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ط۔ یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ محض دعا کافی نہیں ہوجائے گی ‘ بلکہ اپنا عمل بھی ضروری ہے۔ یہاں پر یہ جو فرمایا کہ ان کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے کیوں ؟ وہ تو سارا ملنا چاہیے ! لیکن نہیں ‘ بندے کو اپنے اعمال پر غرّہ نہیں ہونا چاہیے ‘ اسے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی مسئلے میں میری نیت میں فساد نہ آگیا ہو ‘ ممکن ہے میرے کسی عمل کے اندر کوئی کمی یا کوتاہی ہوگئی ہو۔ اس لیے یہ نہ سمجھ لیں کہ جو کچھ بھی کیا ہے اس کا اجر لازماً ملے گا۔ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے اس میں اگر خلوص ہے ‘ ریاکاری نہیں ہے ‘ اس کے تمام آداب اور شرائط ملحوظ رکھے گئے ہیں تو ان کو ان کا حصہ ملے گا۔وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ اللہ تعالیٰ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی ‘ وہ بہت جلدی حساب کرلے گا۔ اب تو ہمارے لیے یہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں رہا ‘ ہمارے ہاں کمپیوٹرز پر کتنی جلدی حساب ہوجاتا ہے ‘ اللہ کے ہاں تو پتا نہیں کیسا سپر کمپیوٹر ہوگا کہ اسے حساب نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی !

31