سورۃ البقرہ: آیت 200 - فإذا قضيتم مناسككم فاذكروا الله... - اردو

آیت 200 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَٰسِكَكُمْ فَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا وَمَا لَهُۥ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنْ خَلَٰقٍ

اردو ترجمہ

پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha qadaytum manasikakum faothkuroo Allaha kathikrikum abaakum aw ashadda thikran famina alnnasi man yaqoolu rabbana atina fee alddunya wama lahu fee alakhirati min khalaqin

آیت 200 کی تفسیر

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، اختتام حج کے بعد عرب سوق عکاظ ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازاروں کو جاتے ۔ یہ بازار صرف خروید وفروخت ہی کے بازار نہ تھے ۔ بلکہ ان میں تقریروں ، اشعار اور آباء اجداد کی نفرتوں کا بھی مقابلہ ہوتا ۔ ان بازاروں میں ہر شخص اپنا نسب نامہ بیان کرتا ۔ اس وقت عربوں کی حالت یہ تھی کہ ان نفرتوں اور کارہائے نمایاں کے بیان و اظہار کے علاوہ عربوں کے پاس کوئی پروگرام ہی نہ تھا ۔ ان کے پاس کوئی انسانی مشن نہ تھا ، جس کی راہ میں وہ اپنی عظیم قوت گویائی اور بلاغت اور عظیم عملی قوتوں کو کام میں لاتے ۔

عربوں کو بلند ترانسانی مشن تو صرف اسلام نے دیا ہے ۔ اسلام سے پہلے ان کی حالت یہ تھی کہ نہ زمین پر ان کا کوئی پروگرام ہے اور نہ آسمانوں پر ان کا کوئی ذکر یا مقام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حج سے فارغ ہوکر لوگ ان میلوں اور بازاروں میں اپنے قیمتی اوقات اور اپنی قیمتی طاقتوں کو ان لغو اور بےکار باتوں میں صرف کرتے ۔ اپنے حسب ونسب بیان کرتے ، اپنے آجاؤ اجداد کے کارنامے یاد کرتے ۔ اور فخر ومباہات کے ساتھ ........ لیکن جب اسلام آیا اور انہیں ایک عظیم نصب العین دیا گیا ، انہیں زندگی کا ایک جدید تصور دیا گیا ، بلکہ انہیں ایک نیا جنم دیا گیا تو وہ بامقصد اور بامراد قوم بن گئے ۔ قرآن کریم انہیں صرف وہ تعلیم دیتا ہے جس میں ان کی بھلائی ہے۔

مناسک حج ادا کرچکنے کے بعد ، اب اسلامی تعلیم پر کھئے کہ آباء و اجداد کے تذکروں کی بجائے اللہ تعالیٰ کو یاد کرو فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ” پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کرچکو ۔ تو جس طرح پہلے اپنے آباء اجداد کا ذکر کرتے تھے ، اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ “........” جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کرتے تھے ۔ “ ان الفاظ سے معلوم ہوتا نہیں کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ اب بھی آباء و اجداد کا تذکرہ جائز ہے ۔ اس تمثیل میں تنقیدی پہلو ہے اور مقصد یہ ہے کہ اس کام سے بہتر کام میں اپنے اوقات صرف کرو یعنی جس طرح تم پہلے اپنے آباء اجداد کا تذکرہ کرتے تھے جو ایک فضول حرکت تھی ۔ جو کوئی جائز یا مستحسن کام نہیں تھا ، اس کو بدل دو ۔ اب اللہ کو یاد کرو بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرو بالخصوص موسم حج میں جبکہ تم نے عام لباس بھی اتار کر ایک خاص لباس پہن لیا ہے ۔ اسی طرح آباء اجداد پر تکابر وتخافر کے لباس کو اتار پھینکو۔ صرف اللہ کے ذکر ہی سے انسان کا رتبہ بلند ہوتا ہے ۔ آباء اجداد کے جائز وناجائز تفاخر کے ذریعے نہیں ۔ اب زندگی کی جدید قدروں کا میزان ومعیار تقویٰ ہے ۔ اللہ کا خوف ہے اور تعلق باللہ ہے ۔ اس کا ذکر اور اس کی خشیت ہے۔

آیت 200 فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ ‘ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط یعنی دسویں ذوالحجہ کو جب افعالِ حج سے فراغت پا چکو تو قیام منیٰ کے دوران اللہ کا خوب ذکر کرو جیس ئزمانہ جاہلیت میں اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کیا کرتے تھے ‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔ ان کا قدیم دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر تین دن منیٰ میں قیام کرتے اور بازار لگاتے۔ وہاں میلے کا سا سماں ہوتا جہاں مختلف قبائل کے شعراء اپنے قبیلوں کی مدح سرائی کرتے تھے اور اپنے اسلاف کی عظمت بیان کرتے تھے۔ اللہ کا ذکر ختم ہوچکا تھا۔ فرمایا کہ جس شدو مدّ کے ساتھ تم اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کرتے رہے ہو اب اسی انداز سے ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ شدومدّ کے ساتھ ‘ اللہ کا ذکر کرو۔فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ یعنی ارض حرم میں پہنچ کر دورانِ حج بھی ان کی ساری دعائیں دنیوی چیزوں ہی کے لیے ہیں۔ چناچہ وہ مال کے لیے ‘ اولاد کے لیے ‘ ترقی کے لیے ‘ دنیوی ضروریات کے لیے اور اپنی مشکلات کے حل کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں دنیا رچی بسی ہوئی ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کا تقدس اور اس کی محبت جاگزیں کردی گئی تھی اسی طرح ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت گھر کرچکی ہے ‘ لہٰذا وہاں جا کر بھی دنیا ہی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہاں واضح فرما دیا گیا کہ ایسے لوگوں کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

تکمیل حج کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ فراغت حج کے بعد اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو، اگلے جملے کے ایک معنی تو یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح بچہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اہل جاہلیت حج کے موقع پر ٹھہرتے وقت کوئی کہتا تھا میرا باپ بڑا مہمان نواز تھا کوئی کہتا تھا وہ لوگوں کے کام کاج کردیا کرتا تھا سخاوت و شجاعت میں یکتا تھا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ فضول باتیں چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی بزرگیاں بڑائیاں عظمتیں اور عزتیں بیان کرو، اکثر مفسرین نے یہی بیان کیا ہے، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو، اسی لئے او اشد پر زبر تمہیز کی بنا پر لائی گئی ہے، یعنی اس طرح اللہ کی یاد کرو جس طرح اپنے بڑوں پر فخر کیا کرتے تھے۔ او سے یہاں خبر کی مثلیت کی تحقیق ہے جیسے (او اشد قسوۃ) میں اور (او اشد خشیۃ) میں اور (او یزیدون) میں اور (او ادنیٰ) میں، ان تمام مقامات میں لفظ " او " ہرگز ہرگز شک کے لئے نہیں ہے بلکہ " فجر عنہ " کی تحقیق کے لئے ہے، یعنی وہ ذکر اتنا ہی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کر کے دعائیں مانگو کیونکہ یہ موقعہ قبولیت کا ہے، ساتھ ہی ان لوگوں کی برائی بھی بیان ہو رہی ہے جو اللہ سے سوال کرتے ہوئے صرف دنیا طلبی کرتے ہیں اور آخرت کی طرف نظریں نہیں اٹھاتے فرمایا ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ بعض اعراب یہاں ٹھہر کر صرف یہی دعائیں مانگتے ہیں کہ الہ اس سال بارشیں اچھی برسا تاکہ غلے اچھے پیدا ہوں اولادیں بکثرت ہوں وغیرہ۔ لیکن مومنوں کی دعائیں دونوں جہان کی بھلائیوں کی ہوتی تھیں اس لئے ان کی تعریفیں کی گئیں، اس دعا میں تمام بھلائیاں دین و دنیا کی جمع کردی ہیں اور تمام برائیوں سے بچاؤ ہے، اس لئے کہ دنیا کی بھلائی میں عافیت، راحت، آسانی، تندرستی، گھر بار، بیوی بچے، روزی، علم، عمل، اچھی سواریاں، نوکر چاکر، لونڈی، غلام، عزت و آبرو وغیرہ تمام چیزیں آگئیں اور آخرت کی بھلائی میں حساب کا آسان ہونا گھبراہٹ سے نجات پانا نامہ اعمال کا دائیں ہاتھ میں ملنا سرخ رو ہونا بالآخر عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہونا سب آگیا، پھر اس کے بعد عذاب جہنم سے نجات چاہنا اس سے یہ مطلب ہے کہ ایسے اسباب اللہ تعالیٰ مہیا کر دے مثلا حرام کاریوں سے اجتناب گناہ اور بدیوں کا ترک وغیرہ، قاسم فرماتے ہیں جسے شکر گزاروں اور ذکر کرنے والی زبان اور صبر کرنے والا جسم مل گیا اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی اور عذاب سے نجات پا گیا، بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ اس دعا کو بکثرت پڑھا کرتے تھے اس حدیث میں ہے ربنا سے پہلے اللہم بھی ہے، حضرت قتادہ نے حضرت انس سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ زیادہ تر کس دعا کو پڑھتے تھے تو آپ نے جواب میں یہی دعا بتائی (احمد) حضرت انس ؓ جب خود بھی کبھی دعا مانگتے اس دعا کو نہ چھوڑتے، چناچہ حضرت ثابت نے ایک مرتبہ کہا کہ حضرت آپ کے یہ بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے لئے دعا کریں آپ نے یہی دعا (اللہم اٰتنا فی الدنیا) الخ پڑھی پھر کچھ دیر بیٹھے اور بات چیت کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو پھر دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا کیا تم ٹکڑے کرانا چاہتے ہو اس دعا میں تو تمام بھلائیاں آگئیں (ابن ابی حاتم) آنحضرت ﷺ ایک مسلمان بیمار کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بالکل دبلا پتلا ہو رہا ہے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے آپ نے پوچھا کیا تم کوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ؟ اس نے کہا ہاں میری یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جو عذاب تو مجھے آخرت میں کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں ہی کر ڈال آپ نے فرمایا سبحان اللہ کسی میں ان کے برداشت کی طاقت بھی ہے ؟ تو نے یہ دعا ربنا اتنا (آخرتک) کیوں نہ پڑھی ؟ چناچہ بیمار نے اب سے اسی دعا کو پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شفا دے دی (احمد) رکن نبی حج اور رکن اسود کے درمیان حضور ﷺ اس دعا کو پڑھا کرتے تھے (ابن ماجہ وغیرہ) لیکن اس کی سند میں ضعف ہے واللہ اعلم، آپ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی رکن کے پاس سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں فرشتہ ہے اور وہ آمین کہہ رہا ہے تم جب کبھی یہاں سے کزرو تو دعا آیت (ربنا اتنا) الخ پڑھا کرو (ابن مردویہ) حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شخص نے آکر پوچھا کہ میں نے ایک قافلہ کی ملازمت کرلی ہے اس اجرت پر وہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیں اور حج کے موقعہ پر مجھے وہ رخصت دے دیں کہ میں حج ادا کرلوں ویسے اور دنوں میں میں ان کی خدمت میں لگا رہوں تو فرمائیے کیا اس طرح میرا حج ادا ہوجائے گا آپ نے فرمایا ہاں بلکہ تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان ہے آیت (اولئک لہم نصیب) (مستدرک حاکم)

آیت 200 - سورۃ البقرہ: (فإذا قضيتم مناسككم فاذكروا الله كذكركم آباءكم أو أشد ذكرا ۗ فمن الناس من يقول ربنا آتنا في الدنيا وما...) - اردو