سورۃ البقرہ: آیت 198 - ليس عليكم جناح أن تبتغوا... - اردو

آیت 198 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا۟ فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَآ أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَٰتٍ فَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ عِندَ ٱلْمَشْعَرِ ٱلْحَرَامِ ۖ وَٱذْكُرُوهُ كَمَا هَدَىٰكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ

اردو ترجمہ

اور اگر حج کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہں پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو، جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa AAalaykum junahun an tabtaghoo fadlan min rabbikum faitha afadtum min AAarafatin faothkuroo Allaha AAinda almashAAari alharami waothkuroohu kama hadakum wain kuntum min qablihi lamina alddalleena

آیت 198 کی تفسیر

مزید احکام حج بیان ہوتے ہیں ، کیا تجارت جائز ہے ۔ کیا دوران حج حاجی مزدوری کرسکتا ہے ؟ وقوف کہاں ہو اور کہاں سے واپسی جائز ہے ؟ ذکر و استغفار کا کیا طریقہ ہے ، یہ مسائل سنئے !

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (198) ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر جب عرفات سے چلو ۔ تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے نہیں کی ہے ، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے ۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو ، اور اللہ سے معافی چاہو ، یقینا ً وہ معاف کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے ۔ “

امام بخاری (رح) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے ، فرماتے ہیں عکاظ مجنہ اور ذوالمجاز دور جاہلیت کے مشہور تجارتی میلے ہوا کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ شاید دور اسلام میں ان میلوں میں تجارت کرنا اب جائز نہیں ہے ۔ اس پر حکم آیا کہ موسم حج میں ” اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ “

ابوداؤد نے ، اپنی سند کے ساتھ ایک دوسرے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے ۔ فرماتے ہیں : مسلمان ایام حج اور اس کے بعد تجارتی موسم میں خرید وفروخت سے پرہیز کرتے تھے ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ تو اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ، اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرتے جاؤ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

ابوامامہ تیمی کی ایک روایت میں ہے ، کہتے ہیں میں حضرت ابن عمر سے پوچھا ہم باربرداری کا کام کرتے ہیں ۔ کیا ہمارا بھی حج ہوگا ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم طواف نہیں کرتے ، نیکی کے کام نہیں کرتے ، جمرے نہیں مارتے ، پھر سر نہیں منڈواتے ؟ کہتے ہیں ہم نے جواب دیا ہاں ، ابن عمر نے فرمایا ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اس نے آپ ﷺ سے یہی سوال دریافت کیا جو آپ لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں ۔ آپ نے اس وقت تک کوئی جواب نہ دیا جب تک جبریل یہ آیت لے کر آ نہیں پہنچے ۔ اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

ابن جریر (رح) نے ابوصالح ، حضرت عمر ؓ کے آزاد کردہ غلام ، سے روایت کی ہے۔ اس نے کہا اس نے سوال کیا امیر المومنین کیا تم حج میں تجارت کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا بھائی ہمارے لوگوں کی معیشت کا دارومدار ہی حج پر تھا۔

تجارت کے بارے میں اوپر کی پہلی دوروایات سے اہل اسلام کی جس احتیاط کا اظہار ہوتا ہے پھر وہ دوسری روایت میں بار برداری اور مزدوری کے بارے میں جس احتیاط اور پرہیز کا ذکر ہے ، یہ اسی احتیاط اور پرہیز گاری کا ایک حصہ ہے جو اسلام نے مسلمانوں کے اندر دور جاہلیت کے ہر فعل وہر رسم کے خلاف پیدا کردی تھی ۔ مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ دور جاہلیت کے کسی فعل یا کسی رسم کا ارتکاب اس وقت تک نہ کرتے تھے جب تک اس کے بارے میں اسلام کوئی فیصلہ نہ سنا دیتا ۔ اس پارے کی ابتداء میں ہم اس پر بحث کرچکے ہیں ، یعنی صفاومروہ کے درمیان سعی کے بیان کے ضمن میں ۔ ایام حج کے دوران بیع وشراء باربرداری و مزدوری کی اجازت قرآن نے دے دی مگر اس کی تعبیر یوں ہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے ۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ ” تم اگر اپنے رب کا فضل تلاش کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ “ حلال کمائی کی تعبیر فضل الٰہی سے کی گئی ہے ۔ تاکہ تجارت کرنے والے ، مزدوری کرنے والے یا دوسرا کوئی نفع اور کام کرنے والے ، یہ سمجھیں کہ وہ محض دولت نہیں کماتے بلکہ یہ اللہ کا فضل بھی ہے ۔ یہ کام صرف مادی جسم کا سروساماں ہی نہیں ہے بلکہ اسے تقدس حاصل ہے اور فضل اللہ ہے ۔ اور اللہ اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے ۔ اس لئے تجارت کی اس نوعیت یعنی فضل خداوندی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ فضل خداوندی اسے تب ہی مل سکتا ہے جب وہ لین دین کرے اور ان اسباب کے ذریعے ہی اسے تلاش کرے جو اللہ تعالیٰ نے نظام رزق کے لئے مقررکئے ہوئے ہیں ۔ جب قلب مومن میں یہ احساس جاگزیں ہوجاتا ہے اور پھر وہ طلب رزق میں نکلتا ہے تو وہ اس سعی میں بھی دراصل عبادت کی حالت میں ہوتا ہے اور اس کے لئے یہ سرگرمی حالت حج کے خلاف نہیں ہے ۔ کیونکہ حج بھی اللہ کے لئے ہے اور یہ تجارت بھی فضل الٰہی ہے ۔ اسلام سب سے پہلے قلب مومن میں ایسے جذبات اور ایسے تصورات بٹھا دیتا ہے اور پھر اسے میدان میں عمل اتار دیتا ہے اور کھلا چھوڑدیتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے کام کرے ۔ اس نقطہ نظر سے اس کا ہر فعل ، اس کی ہر حرکت اللہ کی عبادت ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ طلب رزق ، تجارت کے حکم کو بھی احکام حج کے عین وسط میں بیان کردیا اور تلاش فضل کے ساتھ ہی شہر حرام کے پاس ذکر اور عرفات سے واپسی کے مسائل بیان ہوئے۔

فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ” پھر جب عرفات سے چلو ، تو مشعرالحرام کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے ۔ “

عرفات پر وقوف (کھڑا ہونا) افعال حج کا مرکزی ستون ہے ۔ اصحاب سنن نے دیلمی کی روایت نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا : حج عرفات ہے (تین مرتبہ فرمایا) کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفات تک جاپہنچے تو گویا اس نے حج پالیا۔ منیٰ میں قیام کے تین دن ہیں ۔ لیکن اگر کوئی دو دن گزار کر چلاجائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور کوئی تاخیر کرے تو بھی گناہ گار نہیں ۔

عرفات کے میدان میں کھڑے ہونے کا وقت یوم عرفہ کے زوال کے بعد شروع ہوجاتا ہے یعنی 8 ذوالحجہ کے دن ظہر سے ۔ اور یہ وقت دوسرے دن ، یعنی یوم النحر ، قربانی کے دن کے طلوع فجر تک ۔ امام احمد کا قول یہ ہے کہ وقوف عرفہ کا وقت دن کے شروع ہی سے شروع ہوجاتا ہے ۔ وہ ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو انہوں نے روایت کی ہے۔ دوسرے اصحاب سنن کے علاوہ امام ترمذی نے روایت کرکے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شعبی عروہ بن مضرس ابن حارثہ ابن لام الطائی سے روایت کرتے ہیں ۔ میں رسول ﷺ کے پاس مقام مزدلفہ میں آیا ، جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے ، میں نے کہا اللہ کے رسول ﷺ میں طے پہاڑ سے آیا ہوں ۔ میری سواری بھی تھک گئی ہے اور میں بھی چور چور ہوگیا ۔ اللہ کی قسم میں ہر پہاڑ پر کھڑا ہوا ہوں ۔ کیا میرا حج مکمل ہوگیا ؟ اس پر رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص ہماری اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ یہاں توقف کرے یہاں تک کہ ہم یہاں سے چل پڑیں ۔ بشرطیکہ وہ اس سے پہلے دن کے وقت یا رات کے وقت میدان عرفات میں کھڑا ہوچکا ہو۔ تو اس کا حج پورا ہوگیا اور اس کی تکلیف دور ہوگئی۔

درج بالا دو اقوال کے مطابق ، رسول ﷺ نے عرفات پر وقوف کے وقت کو قدرے بڑھایا یا اسے یوم النحر کی صبح تک بڑھادیا ، یعنی ذوالحجہ کی دسویں تک ، یہ کیوں ؟ اس لئے کہ مسلمانوں کا طرزعمل مشرکین کے طرزعمل سے قدرے مختلف ہوجائے ۔ ابن مردویہ اور حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے۔ دونوں نے عبدالرحمٰن بن مبارک سے حضرت مسور ابن مخرمہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ہمیں عرفات میں خطبہ دیا۔ حمد وثناء کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا (امابعد) آج کا دن حج اکبر کا دن ہے ۔ مشرکین اور بت پرست غروب شمس سے پہلے ہی چلنا شروع کردیتے تھے ۔ جب سورج ابھی پہاڑیوں کے سروں پر ہوتا اور سورج کے سامنے پہاڑیاں یوں نظر آئیں گویا کہ آدمیوں کے عمامے ہیں اور ہم ان کے طرز عمل کے خلاف دوسرے دن طلوع الشمس سے پہلے پہلے یہاں سے چلیں گے ۔

رسول ﷺ کی یہ روایت کہ آپ یوم عرفہ کے دن ، غروب آفتاب کے بعد عرفات سے روانہ ہوئے ۔ صحیح مسلم میں جابر ؓ بن عبداللہ کی روایت میں ہے ۔ آپ یوں عرفات میں کھڑے رہے ، سورج غروب ہوگیا ، زردی تھوڑی تھوڑی واضح ہوگئی ۔ اور سورج کی ٹکیہ صاف غائب ہوگئی ۔ اسامہ آپ کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھ گئے ۔ رسول ﷺ اب آگے بڑھے ۔ اونٹنی کی لگام خوب کھینچ لی ۔ یہاں تک کہ اس کا سر ہودج کے اگلے حصے سے لگنے لگا ۔ آپ ﷺ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ فرماتے رہے : لوگو ! آرام سے ، رک رک کر چلوجب راستے میں پہاڑی آجاتی اور سواری کو اوپر چڑھنا ہوتا تو آپ مہار ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ سہولت سے چڑھ جائے ۔ جب آپ ﷺ مزدلفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں ایک اذان اور دواقامتوں کے ساتھ پڑھائیں ۔ دونوں نمازوں کے درمیان تسبیح کچھ نہ تھی ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے آرام فرمایا۔ صبح طلوع ہونے کے بعد جب روشنی خوب پھیل گئی تو آپ ﷺ نے صبح کی نماز ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ پڑھائی ۔ آپ ﷺ پھر اونٹنی پر سوار ہوگئے اور مشعرالحرام تک آئے اور رو قبلہ ہوکر وہاں دعا فرمائی ۔ تکبیر وتہلیل فرمائی ۔ یہاں آپ ﷺ کھڑے ہی رہے ، یہاں تک کہ زردی پھیل گئی ۔ اور طلوع آفتاب سے پہلے ہی آپ وہاں سے روانہ ہوگئے ۔ یہ ہے وہ فریضہ جو ادا کیا اور رسول ﷺ نے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّين ” پھر جب تم عرفات سے چلو ، تو مشعر حرام کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو ۔ اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے تو تم بھٹکے ہوئے تھے۔ “

مشعر حرام سے مراد مزدلفہ ہے ۔ قرآن مجید کا حکم یہ ہے کہ عرفات سے واپسی پر یہاں آکر اللہ کو یاد کرو ، یاد دلایا جاتا ہے کہ اس ذکر کی بھی اس نے انہیں ہدایت کی ہے ۔ اس کی ہدایات میں سے یہ ہدایت ہے اور یہ ذکر گویا ان کی جانب سے ایک شکر یہ ہے کہ جو وہ اللہ تعالیٰ کا ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ وہی ہے جس نے انہیں ہدایت دی ورنہ اس ہدایت سے پہلے تو ان کی حالت یہ تھی وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّين ” ورنہ اس سے پہلے تو تم بھٹکے ہوئے تھے۔ “

پہلی جماعت مسلمہ ، صحابہ کرام اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کا گہرا احساس اپنے اندر پاتے تھے ۔ عرب گمراہی میں ڈوبے ہوئے تھے ، انہوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔ عقائد خراب ، بتوں ، جنوں اور ملائکہ کے پجاری ، فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھنے والے ، جنوں کو اللہ تعالیٰ کا رشتہ دار سمجھنے والے ، غرض یہ اور اس قسم کے بیشمار نطریاتی اور عملی گمراہیوں میں یہ لوگ ڈوبے ہوئے تھے ۔ ان غلط تصورات اور باطل عقائد کی اساس پر ان لوگوں نے اپنے لئے ایک نظام عبادت اور نطام زندگی وضع کرلیا تھا ۔ بعض جانوروں کی پشت کا گوشت اور یا پورا گوشت بغیر کسی معقول جواز کے انہوں نے حرام قرار دے دیا تھا ، جواز یہ پیش کرتے تھے کہ ان جانوروں کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہے ۔ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے لئے نذر کرتے اور جنات کو اس میں شریک کرتے ۔ اور اس کے علاوہ بےشمارجاہلی عبادات ورسومات تھے جن کا کوئی جواز نہ تھا ، صرف ان بےبنیاد اور غلط عقائد کا نتیجہ تھے ۔ نیز ان عقائد کی وجہ سے ان کا اجتماعی نظام فاسد ہوچکا تھا اور وہ بحیثیت قوم اخلاق باختہ تھے ۔ ان کے اندر طبقاتی امتیازات گھر کرچکے تھے مثلاً ایک یہ کہ وہ عرفات تک نہ جاتے اور جس کی اصلاح اس آیت سے کی گئی ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ” پھر جہاں سے اور لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو۔ “ اور قرآن مجید نے ان تمام فسادات اور رسومات کو ختم کرکے رکھ دیا ۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان مسلسل خاندانی رقابتیں اور قبائلی جنگیں جاری رہتی تھیں اور وہ اجتماعی طور پر کسی بھی وقت ایک قوم نہ بن سکتے تھے تاکہ اقوام کی برادری میں ان کی کچھ وقعت ہوتی ۔ ان کا خاندانی نظام برباد ہوچکا تھا اور جنسی تعلقات میں سخت بےراہ روی پائی جاتی تھی اور وہ اس جنسی بےراہ روی پر فخر کرتے تھے ۔ ان کے زبردست لوگ ضعفاء کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے تھے اور اس سلسلے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے سوا ان کے معاشرے میں کوئی میزان عدالت نہ تھی ۔ غرض اس وقت کے عرب معاشرے کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو وہ انسان کی فکری اور عملی گمراہی اور فساد کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا۔

اور یہ صرف اسلام تھا ، جس نے اس معاشرے کو بلند کیا اور اسے فکری اور عملی ضلالت سے نجات دی ۔ اور جب وہ قرآن مجید کی یہ آواز سنتے وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّين ” اللہ کو اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے ۔ “ تو ان کے حافظہ کے اسکرین پر ان کے تخیلات کے نگار خانہ میں ، ان کے شعور کے نہاں خانہ سے یکلخت وتصاویر ۔ ان کی زندگی کی بھدی تصاویر ، ان کی زندگی کے گرے ہوئے بدنما نقشے سامنے آجاتے ہوں گے ۔ ان کی تاریخ تو ان بدنما مناظر سے بھری پڑی تھی ۔ خیال و شعور کی اسکرین پر اپنی یہ تصاویر دیکھ کر جب وہ پھر اپنی موجودہ پاکیزہ زندگی اور اپنے اس بلند مقام پر نگاہ ڈالتے ہوں گے جو اسلام نے انہیں عطا کیا ، جہاں تک اسلام نے انہیں بلند کیا ۔ تو وہ اس سچائی کی گہرائیوں تک جاپہنچے ہوں گے ۔ وہ بغیر کسی مبحث کے یہ سمجھ جاتے ہوں گے کہ ان کی زندگی میں اسلام کا اساسی رول کیا ہے ؟

عربوں کے علاوہ بھی ہر قوم ، ہر نسل کے مسلمانوں کے سلسلے میں یہ بات اب بھی ایک زندہ حقیقت ہے ۔ اسلام کے بغیر ان کی حیثیت کیا رہ جاتی ؟ اس نظریہ حیات کو اگر نظر انداز کردیاجائے تو ان کا وزن کیا رہ جاتا ہے ؟ جب لوگ اسلام کی روشنی پالیتے ہیں ، اور جب ان کی پوری زندگی میں اسلامی نظام حیات نافذ ہوجاتا ہے اور ایک حقیقت بن جاتا ہے ۔ تو وہ گراوٹ سے رفعت ، چھٹ پنے کے مقابلے میں عظمت ، گمراہی کے بدلے ہدایت اور پریشان خیالی کے مقابلے میں فکر مستقیم پاجاتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں یہ تبدیلی اس وقت رونما نہیں ہوتی جب تک وہ صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بن جاتے ۔ اور جب تک وہ اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظام حیات کے مطابق استوار نہیں کرلیتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پوری انسانیت ایک اندھی جاہلیت میں سرگرداں ہے ۔ اور اس وقت تک یوں ہی رہے گی جب تک وہ اسلام کے حظیرہ ہدایت میں داخل نہیں ہوجاتی ۔ اس راز کو تو صرف وہی شخص کماحقہ پاسکتا ہے ، جس نے جاہلیت میں کچھ دن گزارے ہوں ، جس میں آج کل پوری انسانیت مبتلا ہے اور جس نے پوری دنیا کو بدی سے مالا مال کردیا ہے ، جس کا ہر جگہ دور دورہ ہے ، پھر ایسا شخص اسلامی تصور حیات کو پالے اور پھر اس کے مطابق زندگی بسر کرکے دیکھ لے اور تجربہ کرکے معلوم کرے کہ اسلامی نظام زندگی کس قدر اعلیٰ وارفع نظام ہے اور اس کے علاوہ اس کے ماحول میں جو نظام ہیں وہ ناپاکی ، غلاظت اور گندگی کے ڈھیر ہی ڈھیر ہیں ۔

جب انسان اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کی بلند ترین چوٹی پر چڑھ جاتا ہے وہاں سے پوری انسانیت کے تمام تصورات زندگی ، تمام مروجہ اجتماعی نظام اور زندگی کے تمام طور وطریقوں پر نظر ڈالتا ہے ، ان تمام بڑے بڑے فلسفیوں کے تصورات پر ، تمام جدید وقدیم مفکرین کے افکار پر ، تمام جدید وقدیم نطام ہائے زندگی پر انسان اس بلندی اور اسلامی نظام حیات کی بلند چوٹی سے جب نظر ڈالتا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے کہ پوری انسانیت کس مصیبت ، کس بدبختی میں مبتلا ہے ۔ ان فضولیات اور ان بدبختوں نے اس کس قدر ذلیل ولاغر کردیا ہے ۔ وہ ایسی ژولیدہ فکری اور علمی افراتفری میں مبتلا ہے کہ کوئی عقلمند آدمی اس میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اور پھر وہ بزعم خود غلط انسان کا دعویٰ یہ ہے کہ اسے اللہ کے بھیجے ہوئے نظام زندگی کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہ ہے وہ حقیقت جس کی یاد دہانی اللہ تعالیٰ یہاں کرا رہے ہیں اور جس کا احسان مومنین کو یاد دلایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم کرم ہے کہ اس نے تمہیں اس نعمت کبریٰ سے سرفراز کیا وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ” اور اسے اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے۔ اگرچہ اس سے قبل تم گم کردہ راہ تھے۔ “

آیت 198 لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط آدمی ہندوستان سے یا پاکستان سے حج کے لیے جا رہا ہے اور وہ اپنے ساتھ کچھ ایسی اجناس لے جائے جنہیں وہاں پر بیچ کر کچھ نفع حاصل کرلے تو یہ تقویٰ کے منافی نہیں ہے۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِص۔ وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ 24 یعنی اصل حج تو عرفہ ہی ہے۔ اگر کسی سے حج کے باقی تمام مناسک رہ جائیں ‘ صرف قیام عرفہ میں شمولیت ہوجائے تو اس کا حج ہوگیا ‘ باقی جو چیزیں رہ گئی ہیں ان کا کفارہ ادا کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص عرفات کے قیام میں ہی شریک نہیں ہوا تو پھر اس کا حج نہیں ہوا۔ ایّامِ حج کا ٹائم ٹیبل نوٹ کیجیے کہ 8 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے نکل کر رات منیٰ میں گزارنا ہوتی ہے۔ اگلا دن 9 ذوالحجہ یوم عرفہ ہے۔ اس روز صبح کو عرفات کے لیے قافلے چلتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوپہر سے پہلے وہاں پہنچ جایا جائے۔ وہاں پر ظہر کے وقت ظہر اور عصر دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک عرفات کا قیام ہے ‘ جس میں کوئی نماز نہیں۔ یعنی روایتی عبادت کے سب دروازے بند ہیں۔ اب تو صرف دعا ہے۔ اگر آپ کے اندر دعا کی ایک روح پیدا ہوچکی ہے ‘ آپ اپنے رب سے ہم کلام ہوسکتے ہیں اور آپ کو حلاوت مناجات حاصل ہوگئی ہے تو بس دعا مانگتے رہیے۔ قیام عرفہ کے دوران کھڑے ہو کر یا بیٹھے ہوئے ‘ جس طرح بھی ہو اللہ سے مناجات کی جائے۔ یا اس میں اگر کسی وجہ سے کمی ہوجائے تو آدمی تلاوت کرے۔ لیکن عام نماز اب کوئی نہیں۔ 9 ذوالحجہ کو وقوف عرفات کے بعد مغرب کی نماز کا وقت ہو چکنے کے بعد عرفات سے روانگی ہے ‘ لیکن وہاں مغرب کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اب مزدلفہ میں جا کر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے ادا کرنی ہیں اور رات وہیں کھلے آسمان تلے بسر کرنی ہے۔ یہ مزدلفہ کا قیام ہے۔ مشعر حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے۔وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰٹکُمْ ج۔ یعنی اللہ کا ذکر کرو جس طرح اللہ نے تمہیں اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سکھایا ہے۔ ذکر کے جو طور طریقے رسول اللہ ﷺ نے سکھائے ہیں انہیں اختیار کرو اور زمانۂ جاہلیت کے طریقے ترک کر دو۔ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ۔ تم حج کی حقیقت سے ناواقف تھے۔ حج کی بس شکل باقی رہ گئی تھی ‘ اس کی روح ختم ہوگئی تھی ‘ اس کے مناسک میں بھی ردّوبدل کردیا گیا تھا۔

تجارت اور حج صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازار تھے اسلام کے بعد صحابہ کرام ؓ ایام حج میں تجارت کو گناہ سمجھ کر ڈرے تو انہیں اجازت دی گئی کہ ایام حج میں تجارت کرنا گناہ نہیں، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حج کے دنوں میں احرام سے پہلے یا احرام کے بعد حاجی کے لئے خریدو فروخت حلال ہے، ابن عباس کی قرأت میں آیت (من ربکم) کے بعد فی مواسم الحج کا لفظ بھی ہے، ابن زبیر سے بھی یہی مروی ہے دوسرے مفسرین نے بھی اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے، حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص حج کو نکلتا ہے اور ساتھ ہی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی (ابن جریر) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ابو امامہ تیمی نے حضرت ابن عمر سے پوچھا کہ ہم حج میں جانور کرایہ پر دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرتے ؟ کیا تم عرفات میں نہیں ٹھہرتے ؟ کیا تم شیطانوں کو کنکریاں نہیں مارتے ؟ کیا تم سر نہیں منڈواتے ؟ اس نے کہا یہ سب کام تو ہم کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا سنو ایک شخص نے یہی سوال نبی ﷺ سے کیا تھا اور اس کے جواب میں حضرت جبرائیل ؑ آیت (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ) 2۔ البقرۃ :198) لے کر اترے اور حضور ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا کہ تم حاجی ہو تمہارا حج ہوگیا۔ مسند عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے کہ اور تفسیر عبد بن حمید وغیرہ میں بھی، بعض روایتوں میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی بھی ہے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کیا تم احرام نہیں باندھتے ؟ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا آپ حضرات حج کے دنوں میں تجارت بھی کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا اور تجارت کا موسم ہی کونسا تھا ؟ عرفات کو منصرف (یعنی تصرف کر کے) پڑھا گیا ہے حالانکہ اس کے غیر منصرف ہونے کے دو سبب اس میں موجود ہیں یعنی اسم علم اور تانیث، اس لئے کہ دراصل یہ جمع ہے جیسے مسلمات اور مومنات ایک خاص جگہ کا نام مقرر کردیا گیا ہے اس لئے اصلیت کی رعایت کی گئی اور منصرف پڑھا گیا عرفہ وہ جگہ ہے جہاں کا ٹھہرنا حج کا بنیادی رکن ہے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حج عرفات ہے تین مرتبہ حضور ﷺ نے یہی فرمایا جو سورج نکلنے سے پہلے عرفات میں پہنچ گیا اس نے حج کو پا لیا، منی کے تین دنوں میں جلدی یا دیر کی جاسکتی ہے، پر کوئی گناہ نہیں، ٹھہرنے کا وقت عرفے کے دن سورج ڈھلنے کے بعد سے لے کر عید کی صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے، نبی ﷺ حجۃ الوداع میں ظہر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک یہاں ٹھہرے رہے اور فرمایا تھا مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو، حضرت امام مالک ؒ ، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے کہ دسویں کی فجر سے پہلے جو شخص عرفات میں پہنچ جائے، اس نے حج پا لیا، حضرت امام احمد، فرماتے ہیں کہ ٹھہرنے کا وقت عرفہ کے دن کے شروع سے ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مزدلفہ میں نماز کے لئے نکلے تو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں طی کی پہاڑیوں سے آرہا ہوں اپنی سواری کو میں نے تھکا دیا اور اپنے نفس پر بڑی مشقت اٹھائی واللہ ہر ہر پہاڑ پر ٹھہرتا آیا ہوں کیا میرا حج ہوگیا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص ہمارے یہاں کی اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ چلتے وقت تک ٹھہرا رہے اور اس سے پہلے وہ عرفات میں بھی ٹھہر چکا ہو خواہ رات کو خواہ دن کو اس کا حج پورا ہوگیا اور وہ فریضہ سے فارغ ہوگیا۔ (مسند احمد وسنن) امام ترمذی اسے صحیح کہتے ہیں، امیر المومنین حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو بھیجا اور انہوں نے آپ کو حج کرایا جب عرفات میں پہنچے تو پوچھا کہ (عرفت) کیا تم نے پہچان لیا ؟ حضرت خلیل اللہ نے جواب دیا (عرفت) میں نے جان لیا کیونکہ اس سے پہلے یہاں آچکے تھے اس لئے اس جگہ کا نام ہی عرفہ ہوگیا، حضرت عطاء، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو مجلز سے بھی یہی مروی ہے واللہ اعلم۔ " مشعر الحرام " مشعر الاقصی " اور " الال " بھی ہے، اور اس پہاڑ کو بھی عرفات کہتے ہیں جس کے درمیان جبل الرحمۃ ہے، ابو طالب کے ایک مشہور قصیدے میں بھی ایک شعر ان معنوں کا ہے، اہل جاہلیت بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے جب پہاڑ کی دھوپ چوٹیوں پر ایسی باقی رہ جاتی جیسے آدمی کے سر پر عمامہ ہوتا ہے تو وہ وہاں سے چل پڑتے لیکن حضور ﷺ یہاں سے اس وقت چلے جب سورج بالکل غروب ہوگیا، پھر مزدلفہ میں پہنچ کر یہاں پڑاؤ کیا اور سویرے اندھیرے ہی اندھیرے بالکل اول وقت میں رات کے اندھیرے اور صبح کی روشنی کے ملے جلے وقت میں آپ نے یہیں نماز صبح ادا کی اور جب روشنی واضح ہوگئی تو صبح کی نماز کے آخری وقت میں آپ نے وہاں سے کوچ کیا حضرت مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ہمیں عرفات میں خطبہ سنایا اور حسب عادت حمد و ثنا کے بعد اما بعد کہہ کر فرمایا کہ حج اکبر آج ہی کا دن ہے دیکھو مشرک اور بت پرست تو یہاں سے جب دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہوتی تھی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامہ ہوتا ہے تو سورج غروب ہونے سے پیشتر ہی لوٹ جاتے تھے لیکن ہم سورج غروب ہونے کے بعد یہاں سے واپس ہوں گے وہ مشعر الحرام سے سورج نکلنے کے بعد چلتے تھے جبکہ اتنی وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر دھوپ اس طرح نمایاں ہوجاتی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامے ہوتے ہیں لیکن ہم سورج نکلنے سے پہلے ہی چل دیں گے ہمارا طریقہ مشرکین کے طریقے کے خلاف ہے (ابن مردویہ ومستدرک حاکم) امام حاکم نے اسے شرط شیخین پر اور بالکل صحیح بتلایا ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حضرت مسور ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ان لوگوں کا قول ٹھیک نہیں جو فرماتے ہیں کہ حضرت مسور نے حضور ﷺ کو دیکھا ہے لیکن آپ سے کچھ سنا نہیں، حضرت معرور بن سوید کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر ؓ کو عرفات سے لوٹتے ہوئے دیکھا گویا اب تک بھی وہ منظر میرے سامنے ہے، آپ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اپنے اونٹ پر تھے اور فرما رہے تھے ہم واضح روشنی میں لوٹے صحیح مسلم کی حضرت جابر والی ایک مطول حدیث جس میں حجۃ الوداع کا پورا بیان ہے اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورج کے غروب ہونے تک عرفات میں ٹھہرے جب سورج چھپ گیا اور قدرے زردی ظاہر ہونے لگی تو آپ نے اپنے پیچھے اپنی سواری پر حضرت اسامہ ؓ کو سوار کیا اور اونٹنی کی نکیل تان لی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے قریب پہنچ گیا اور دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگو آہستہ آہستہ چلو نرمی اطمینان وسکون اور دلجمعی کے ساتھ چلو جب کوئی پہاڑی آئی تو نکیل قدرے ڈھیلی کرتے تاکہ جانور بہ آسانی اوپر چڑھ جائے، مزدلفہ میں آکر آپ نے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اذان ایک ہی کہلوائی اور دونوں نمازوں کی تکبیریں الگ الگ کہلوائیں مغرب کے فرضوں اور عشا کے فرضوں کے درمیان سنت نوافل کچھ نہیں پڑھے پھر لیٹ گئے، صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی جس میں اذان واقامت ہوئی پھر قصوی نامی اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر الحرام میں آئے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا میں مشغول ہوگئے اور اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ اور اللہ کی توحید بیان کرنے لگے یہاں تک کہ خوب سویرا ہوگیا، سورج نکلنے سے پہلے ہی پہلے آپ یہاں سے روانہ ہوگئے، حضرت اسامہ ؓ سے سوال ہوتا ہے کہ حضور ﷺ جب یہاں سے چلے تو کیسی چال چلتے تھے فرمایا اور درمیانہ دھیمی چال سواری چلا رہے تھے ہاں جب راستہ میں کشادگی دیکھتے تو ذرا تیز کرلیتے (بخاری ومسلم) پھر فرمایا عرفات سے لوٹتے ہوئے مشعرالحرام میں اللہ کا ذکر کرو یعنی یہاں دونون نمازیں جمع کرلیں، عمرو بن میمون ؒ عبداللہ بن عمر ؓ سے مشعرالحرام کے بارے میں دریافت فرماتے ہیں تو آپ خاموش رہتے ہیں جب قافلہ مزدلفہ میں جا کر اترتا ہے تو فرماتے ہیں سائل کہا ہے یہ مشعر الحرام، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ مزدلفہ تمام کا تمام مشعر الحرام ہے، پہاڑ بھی اور اس کے آس پاس کی کل جگہ، آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ قزح پر بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں تو فرمایا یہ لوگ کیوں بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں ؟ یہاں کی سب جگہ مشعر الحرام ہے، اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی کل جگہ مشعر الحرام ہے، حضرت عطاء سے سوال ہوتا ہے کہ مزدلفہ کہاں ہے آپ فرماتے ہیں جب عرفات سے چلے اور میدان عرفات کے دونوں کنارے چھوڑے پھر مزدلفہ شروع ہوگیا وادی محسر تک جہاں چاہو ٹھہرو لیکن میں تو قزح سے ادھر ہی ٹھہرنا پسند کرتا ہوں تاکہ راستے سے یکسوئی ہوجائے، مشاعر کہتے ہیں ظاہری نشانوں کو مزدلفہ کو مشعر الحرام اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حرم میں داخل ہے، سلف صالحین کی ایک جماعت کا اور بعض اصحاب شافعی کا مثلا قفال اور ابن خزیمہ کا خیال ہے کہ یہاں کا ٹھہرنا حج کا رکن ہے بغیر یہاں ٹھہرے حج صحیح نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث حضرت عروہ بن مضرس سے اس معنی کی مروی ہے، بعض کہتے ہیں یہ ٹھہرنا واجب ہے حضرت امام شافعی ؒ کا ایک قول یہ بھی ہے اگر کوئی یہاں نہ ٹھہرا تو قربانی دینی پڑے گی، امام صاحب کا دوسرا قول یہ ہے کہ مستحب ہے اگر نہ بھی ٹہرا تو کچھ حرج نہیں، پس یہ تین قول ہوئے ہم یہاں اس بحث کو زیادہ طول دینا مناسب نہیں سمجھتے واللہ اعلم۔ (قرآن کریم کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی زیادہ تائید کرتے ہیں واللہ اعلم۔ مترجم) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ عرفات کا سارا میدان ٹھہرنے کی جگہ ہے، عرفات سے بھی اٹھو اور مزدلفہ کی کل حد بھی ٹھہرنے کی جگہ ہے ہاں وادی محسر نہیں، مسند احمد کی اس حدیث میں اس کے بعد ہے کہ مکہ شریف کی تمام گلیاں قربانی کی جگہ ہیں اور ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں، لیکن یہ حدیث بھی منقطع ہے اس لئے کہ سلیمان بن موسیٰ رشدق نے جبیر بن مطعم کو نہیں پایا لیکن اس کی اور سندیں بھی ہیں واللہ اعلم۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے کہ احکام حج وضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے اور خلیل اللہ کی اس سنت کو واضح کردیا۔ حالانکہ اس سے پہلے تم اس سے بیخبر تھے، یعنی اس ہدایت سے پہلے، اس قرآن سے پہلے، اس رسول سے پہلے، فی الواقع ان تینوں باتوں سے پہلے دنیا گمراہی میں تھی۔ فالحمدللہ۔

آیت 198 - سورۃ البقرہ: (ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم ۚ فإذا أفضتم من عرفات فاذكروا الله عند المشعر الحرام ۖ واذكروه...) - اردو