سورۃ البقرہ: آیت 190 - وقاتلوا في سبيل الله الذين... - اردو

آیت 190 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَقَٰتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوٓا۟ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ

اردو ترجمہ

اور تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqatiloo fee sabeeli Allahi allatheena yuqatiloonakum wala taAAtadoo inna Allaha la yuhibbu almuAAtadeena

آیت 190 کی تفسیر

بعض روایات میں آتا ہے کہ قانون جنگ کے سلسلے میں قرآن کریم کا یہ پہلا حکم ہے ۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان مومنین کو جن کے ساتھ کفار برسر پیکار تھے صرف جنگ کی اجازت دی تھی ۔ اس لئے کہ وہ مظلوم ہیں ۔ مسلمانوں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ اذن فرضیت جہاد کے لئے ایک تمہید ہے اور اللہ تعالیٰ اب اس زمین پر مسلمانوں کو تمکنت عطا کرنے والا ہے ، چناچہ سورة حج میں فرمایا :

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (39) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأرْضِ أَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأمُورِ (41)

” اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے ۔ صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ” ہمارا رب اللہ ہے “ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور مندر اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ “ وہ اس اذن کے معنی خود سمجھ گئے کیونکہ ان پر ظلم ہورہا ہے ، لہٰذا وہ ظلم کا بدلہ لے سکتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ ظلم کی مدافعت بھی نہ کرسکتے تھے ۔ وہاں انہیں حکم دیا گیا تھا : کُفُّوا اَیدِیکُم وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ ” ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ “

مکہ میں ہاتھ اٹھانے کی ممانعت بھی ایک خاص حکمت پر مبنی تھی ۔ اس حکمت کے بعض اہم پہلو ہم یہاں بیان کرتے ہیں :

1۔ جنگ اور مدافعت سے روکنے کا پہلا سبب یہ تھا کہ عرب مسلمانوں کے اندر ڈسپلن پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اطاعت امیر کے عادی ہوجائیں ، اپنی قیادت کے مطیع وفرماں ہو اور مدافعت اور قتال کے حکم کا انتظار کریں ۔ جاہلیت میں تو وہ سخت جنگجو تھے ۔ پہلی آواز پر آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور کسی خوشگوار بات کو دیکھ کر ان میں صبر کرنے کا مادہ تو تھا ہی نہیں ۔ انسانی تاریخ میں امت مسلمہ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس امت کی ایسی تربیت ہو اور اس کی سیرت کی تعمیر ایسی ہو کہ اس کی یہ تمام کمزوریاں ضبط ونظم میں ڈھل جائیں ، وہ ایک مقتدر ومدبر قیادت کے تابع فرمان بن جائیں ۔ اس حد تک تابع کہ وہ دور جاہلیت کی تمام عصبیتوں اور ناجائز عصبیتوں اور ناجائز طرفداروں کو چھوڑدیں ، جن کی حمایت میں وہ جنگ وجدل کے لئے کسی پکارنے والے کی پہلی پکار پر اٹھ کھڑے ہوجاتے تھے ۔

یہی تعمیر سیرت تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر بن الخطاب ؓ جیسے پرجوش شخص اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اور ان جیسے نڈر اشخاص امت مسلمہ کو سخت مصائب و شدائد میں دیکھتے اور اف تک نہ کرتے ۔ اس لئے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رسول ﷺ کی ہدایت کے مطابق اپنے آپ کو پوری طرح کنٹرول میں رکھیں ۔ اپنی ہائی کمان کی پوری اطاعت کریں اور قیادت عالیہ کا حکم تھا ۔

کُفُّوا اَیدِیکُم وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ ” ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ۔ “

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر پائی جانے والی تیزی سے کود پڑنے اور سوچنے سمجھنے ، جلد بازی اور تدبر اور حمیت اور اطاعت امر جیسی متضاد صفات کے درمیان توازن قائم ہوگیا اور پھر عرب جیسی بےحد ، پرجوش اور جنگجو قوم میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں میں اس قسم کی تربیت کا کامیاب ہونا اور ان کے اندر ڈسپلن کا پیدا ہونا ہی ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔

2۔ دوسرا اہم سبب جس کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو قتال سے روکا گیا تھا وہ یہ تھی کہ عرب معاشرہ ایک بہادر اور شریف معاشرہ تھا۔ لوگ خود دار اور عزت نفس کے مالک تھے ۔ مسلمانوں میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے تھے لیکن اس کے باوجود جب وہ مظالم پر صبر کرتے ، کئی شرفاء کی عزت نفس اور شرافت میں جوش آجاتا اور ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہوجاتے ۔

اس کا اظہار عملاً اس وقت ہوا جب قریش نے بنی ہاشم کے ساتھ بائیکاٹ کیا اور وہ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے ۔ قریش کا مطالبہ یہ تھا کہ بنی ہاشم حمایت رسول سے دستبردار ہوجائیں ۔ جب بنی ہاشم پر مصائب ناقابل برداشت ہوگئے تو بعض غیور اور شرفاء کی بہادری اور غیرت جوش میں آگئی ۔ انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ ڈالا ، جس کے مطابق انہوں نے بائیکاٹ کا معاہدہ کیا تھا۔ اور محض اس جذبہ شرافت کی وجہ سے یہ محاصرہ ختم ہوگیا ۔ جنگ اور مدافعت سے ہاتھ روکنے کی مکی پالیسی میں رسول برحق ﷺ نے عربوں کے ان جذبات کو پیش نظر رکھا تھا۔ اگر رسول ﷺ کی سیرت کا مطالعہ بحیثیت قائد تحریک کیا جائے تب ان حکمتوں کا اظہار ہر جگہ ہوتا ہے۔

داعی اسلام ﷺ کا یہ منشاء ہی نہ تھا کہ اسلام کی وجہ سے گھر گھر میں خونریزی شروع ہوجائے کیونکہ ہر خاندان میں سے کوئی نہ کوئی مسلمان تھا اور مسلمانوں کو ایذا رسانی میں ، اور انہیں دین اسلام سے روکنے میں ، خود مسلمانوں کے اپنے خاندان پیش پیش تھے ۔ وہاں کوئی منظم حکومت نہ تھی جو مسلمانوں پر تشدد کررہی تھی ۔ اگر اس مرحلے میں مسلمانوں کو یہ اجازت دے دی جاتی کہ وہ اپنی مدافعت میں جنگ کریں تو نتیجہ یہ ہوتا کہ گھر گھر میں فساد رونما ہوتا اور خاندان سے خاندان ٹکراتا اور خانہ جنگی شروع ہوجاتی ۔ ایسی صورت رونما ہوتی تو لازمی طور پر یہ تاثر قائم ہوجاتا کہ اسلام نے گھر گھر اور خاندان میں فتنہ و فساد کے شعلے بھڑکادئیے ہیں۔

ہجرت کے بعد صورتحال بالکل جدا ہوگئی ، اب جماعت اسلامی مدینہ طیبہ میں ایک مستقل اور منظم وحدت تھی اور اس کا مقابلہ مکہ مکرمہ کی ایک منظم برادری سے تھا جس میں افواج کی تنظیم ہورہی تھی اور وہ فوج تحریک اسلامی کے خلاف حملہ آور ہورہی تھی ۔ یہ صورتحال مکہ مکرمہ کی صورتحال سے بالکل مختلف تھی ۔ گویا واضح طور پر اپنی حفاظت کا مسئلہ سامنے تھا اور یہ حفاظت افراد کے بجائے پوری ملت تھی ۔ یہ ہیں وہ اسباب جو ایک انسان اپنے محدود ذہن کے ساتھ ، اس بارے میں سوچ سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو تشدد وبربریت کا جواب دینے سے کیوں روکا گیا تھا۔

ان اسباب کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسلمان تعداد کے اعتبار سے بہت ہی کم تھے ، پھر وہ مکہ مکرمہ میں محصور تھے ، اگر وہ مقابلہ شروع کردیتے تو ان کے خلاف فوراً مقاتلہ شروع ہوجاتا اور ان کا مقاتلہ ایسے لوگوں سے ہوتا جو ہر لحاظ سے ان کے مقابلے میں طاقتور اور بارسوخ تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعداد میں اجافہ ہوجائے اور وہ اپنے مستقل دارالحکومت میں علیحدہ ہوکر مجتمع ہوجائیں ۔ جب یہ کام ہوگئے تو انہیں جہاد و قتال کی اجازت دے دی گئی۔

بہرحال اس کے بعد ، تدریج کے ساتھ ، جزیرۃ العرب اور عرب سے باہر کے علاقوں میں ، حسب ضرورت مسلمانوں کو جنگ کے احکام دئیے جاتے رہے ۔

زیر بحث آیات اس سلسلے کی ابتدائی آیات ہیں اور ان میں قتال کے بعض ایسے احکام دئیے گئے ہیں جو اس وقت کے بنیادی متحارب کیمپوں میں ، اسلامی کیمپ اور مشرکین کے کیمپ کے درمیان محاذ آرائی کے لئے مناسب اور ضروری تھے ۔ جبکہ بعض احکام ایسے بھی ہیں جو اصولی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر جنگ میں عموماً ایسے حالات پیش آسکتے ہیں ۔ ان احکام میں معمولی رد وبدل سورت براءت کے احکام کے ذریعہ ہوا ہے۔

یہاں ، تفسیر آیات قتال سے پہلے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کے موضوع پر ایک مختصر نوٹ دے دیا جائے تاکہ آیات قتال اور دوسری آیات کی تفسیر کے لئے اساس کا کام دے ۔

اسلامی نظریہ ٔ حیات اپنی آخری شکل و صورت میں یعنی دین اسلام کی صورت میں رونما ہوا ۔ مقصد یہ تھا کہ اب سے یہ تمام انسانیت کی زندگی کا اصول بن جائے ۔ تمام انسانیت کا نظام زندگی قرار پائے اس نظام اور اس منہاج کو لے کر امت مسلمہ اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے پوری انسانیت کی قیادت کرے۔ یہ نظام زندگی ایک ایسا نظام ہے کہ یہ اس کائنات کے وسیع تر تصور پر مبنی ہے ۔ وجود انسانی کے اصل اور حقیقی مقاصد کی اساس پر تعمیر شدہ ہے اور اس کی توضیح وتشریح ایک کتاب میں کردی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ خالق کائنات کی جانب سے اتاری گئی ہے۔ نیز اس امت نے راہنمائی بھی ایک خالص بھلائی اور خیر محض کی طرف کرنی ہے ، جو کسی دوسرے جاہلی نظام میں نہیں ہے اور انسانیت کو ایک ایسے مقام بلند تک پہنچایا جہاں تک وہ اسلامی نظام زندگی کے سوا ، کسی اور نظام کے ذریعے نہیں سکتی ۔ اسے ایسی نعمت سے سرفراز کرنا ہے جس کے مقابلے میں کوئی نعمت نہیں ہے ۔ اسلام یقیناً وہ نظام زندگی ہے کہ اگر اس سے انسانیت محروم ہوجائے تو پھر اس کے لئے نجات و فلاح نہیں ہے۔ اگر انسانیت کو اس نیکی سے محروم کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ اسے جس بلندی ، جس پاکیزگی اور جس سعادت و کمال تک پہنچانا چاہتا ہے ، اسے اس سے روک دیا جائے تو انسانیت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور اس سے بری زیادتی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے ۔

یوں انسانیت کا یہ حق ہوجاتا ہے کہ اسلام کے اس مکمل نظام زندگی کی دعوت پوری انسانیت تک آزادی کے ساتھ پہنچ سکے ۔ اور اس کی راہ میں یعنی دعوت اسلامی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، اور کوئی حکومت بھی کسی صورت میں سدراہ نہ بن سکے ۔

ادھر انسانیت پر یہ لازم تھا کہ جب لوگوں تک دعوت اسلامی پہنچے تو وہ اس کے رد و قبول میں بالکل آزاد ہوں ۔ دین قبول کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ کوئی حکومت سد راہ بنی ہوئی نہ ہو ۔ اگر کوئی شخص اسلامی نظام کو قبول کرتا ہے تو حکومت رکاوٹ نہ ڈالے ، نیز اسے اختیار نہ ہو کہ دعوت اسلامی کو اپنی منزل تک بڑھنے سے روکے ۔ علاوہ ازیں انسانیت کا یہ بھی فرض تھا کہ اسلام قبول کرنے والوں کو اطمینان اور آزادی کی ضمانت دے اور تبلیغ دین کے سلسلے میں تحریک اسلامی کی راہ میں جو مشکلات درپیش آرہی ہیں وہ انہیں دور کردے ۔ اس سلسلے میں کارکنان دعوت اسلامی پر کوئی زیادتی نہ ہونے پائے ۔

اگر اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت نصیب فرمائے اور وہ دعوت اسلامی کو قبول کرلیں تو ان کا یہ بنیادی حق ہے کہ ان پر کسی قسم کا ظلم اور زیادتی نہ ہو ۔ ان پر تشدد نہ ہو اور ان کے خلاف اشتعال نہ ہو ۔ ان کی راہ میں اس قسم کی رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں جن کا مقصد لوگوں کو اسلامی نظام سے روکنے کے سوا اور کچھ نہ ہو۔

تحریک اسلامی کے کارکنان کے فرائض میں یہ بات داخل تھی کہ وہ قوت کے ساتھ تشدد اور اشتعال کا مقابلہ کریں تاکہ دنیا میں آزادی رائے جیسے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاسکے اور وہ لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں جنہوں نے اس دین کو اپنانا ہے تاکہ زندگی میں اسلامی نظام رائج ہو اور انسانیت اس بھلائی اور نیکی سے محروم نہ ہو۔ ان بنیادی حقوق کے قیام کے نتیجے میں جماعت مسلمہ پر ایک اور ذمہ داری یہ عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ہر اس قوت کو پاش پاش کردے جو دعوت اسلامی اور اس کی تبلیغ کے آڑے آئے ۔ یا وہ حق آزادی رائے کو چیلنج کرے یا وہ ایسے لوگوں پر تشدد کرے جنہوں نے دین ونظریہ کے معاملے میں آزادی سے کوئی نظریہ قبول کرلیا ہے ۔ امت مسلمہ کا یہ فرض اس وقت تک ہے جب تک اسلامی نظام قبول کرنے والوں کے لئے کوئی تشدد باقی رہتا ہے اور نظام زندگی صرف اللہ ہی کا رائج نہیں ہوجاتا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگوں کو اسلامی نظام زندگی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کردیا جاتا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام غالب ہونا چاہئے یوں کہ جو شخص بھی دین اسلام میں داخل ہونا چاہے اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو ، دنیا میں کوئی ایسی قوت نہ ہو جو کسی کو دین اسلام قبول کرنے سے روکے ، یا اس کی تبلیغ کرنے سے روکے ، یا اس دین پر قائم رہنے سے روکے ۔ دنیا میں کوئی ایسانظام نہ ہو جو اللہ کی ہدایت اور اس روشنی کو چھپا رہا ہو اور اس کے تحت رہنے والوں تک یہ ہدایت و روشنی پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہو ، یا عوام کو اللہ کے اس راہ سے گمراہ کیا جارہا ہو ، چاہے اس رکاوٹ کی نوعیت جو بھی ہو ۔

یہ تھے وہ بنیادی مقاصد جن کے لئے اسلام نے جہاد فی سبیل اللہ کو فرض کیا ہے ۔ یہ جہاد صرف انہی مقاصد عالیہ کے لئے تھا ، ان کے علاوہ اسلام کے پیش نظر اور کچھ نہ تھا ۔ نہ کوئی اور مقصد نہ کوئی اور رنگ ۔

یہ جہاد اسلامی نظریہ حیات کے لئے تھا ، کافرانہ نطریاتی پھیلاؤ کا محاصرہ توڑنے کے لئے تھا ، نظریہ ٔ تشدد کے خلاف تھا ، اور زندگی میں اسلامی نظام کے بچاؤ اور اسلامی شریعت کے قیام کے لئے تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کرہ ارض پر اسلامی جھنڈے بلند کردئیے جائیں ، اس طرح کہ اسلامی نطریہ حیات کے مخالفین دشہت زدہ ہوجائیں اور ہر وہ شخص جو اسلامی نظام زندگی میں دلچسپی رکھتا ہے ، وہ اس میں داخل ہوجائے اور اسے دنیا کی کسی قوت کی جانب سے یہ خوف نہ ہو کہ اسے روکا جائے گا ۔ اس پر تشدد ہوگا۔

یہ ہے اور صرف یہی ہے وہ جہاد جس کا اسلام نے حکم دیا تھا اور یہ ابھی تک برقرار ہے اور اسلامی نظام اس پر قائم ہے جو لوگ اس میں کام آئیں اسلام کی نظر میں شہید ہوتے ہیں اور جو لوگ جہاد کے مصائب برداشت کرتے ہیں وہ غازی اور اولیاء اللہ کہلاتے ہیں ۔

یہ تھی وہ صورتحال جس سے مدینہ طیبہ میں جماعت مسلمہ دوچار تھی اور جس کے بارے میں سورة بقرہ کے اس سبق کی یہ آیات نازل ہوئیں ، مشرکین قریش نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا تھا ۔ انہیں محض اس لئے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں ۔ ان کو صرف یہ اعتراض تھا کہ انہوں نے آزادانہ طور پر کیوں ایک نظریہ حیات قبول کرلیا ہے ۔ ان حالات میں خصوصی ہدایت کے ساتھ ساتھ یہ آیات اسلام کے نظریہ کے لئے قاعدہ کلیہ بھی بیان کردیتی ہیں جو یوں ہے کہ مسلمانو ! تم ان لوگوں سے جنگ کرو جنہوں نے تم سے ناحق جنگ کی اور ابھی تک برسر جنگ ہیں اور آئندہ بھی تمہارے لئے یہی ہدایت ہے کہ جو تم سے لڑے اس سے لڑو ۔ مگر زیادتی نہ کرو۔ ارشاد ہوا ! وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ” اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “

آیات قتال میں سے یہ پہلی آیت ہے اور پہلی آیت ہی میں قتال کے مقاصد کے بارے میں قطعی فیصلہ کردیا گیا اور واضح طور پر بتادیا گیا کہ وہ کون سا علم ہے جس کے تحت مسلمانوں کو معرکہ جہاد سر کرنا ہے۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ

” اور اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے لڑو ، جو تم سے لڑتے ہیں۔ “

یہ جہاد ، یہ قتال صرف اللہ کے لئے ہے اور انسان نے طویل انسانی تاریخ میں ، جن معروف مقاصد کے لئے زبردست جنگیں لڑیں ان میں سے کوئی مقصد بھی اسلامی جہاد کو مطلوب نہیں ہے۔ نہ خاندانی شرف کے لئے ، نہ علو فی الارض اور برتری کے لئے ، نہ دولت وغنیمت کے لئے ، منڈیوں اور خام اشیاء پر قبضے کے لئے ، نہ کسی طبقے پر دوسرے کی سیادت کے قیام کے لئے اور نہ کسی نسل پر کسی نسل کی حکومت کے لئے ۔ اسلامی جہاد صرف ان مقاصد کے لئے ہے جن کی تحدید اسلام نے کردی ہے ۔ دنیا میں اسلام کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ، اسلامی نظام زندگی کے نفاذ کے لئے ، مسلمانوں کو ظلم وتشدد سے بچانے کے لئے ، مسلمانوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچانے کے لئے ۔ غرض یہ ہیں اسلامی مقاصد ، ان کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے جو جنگیں لڑی جائیں وہ اسلامی جہاد کہلانے کی مستحق نہیں ہیں اور جو شخص بھی ایسی جنگوں میں حصہ لے گا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہے ۔ نہ ہی اللہ کے ہاں اس کا کوئی مقام ہے ۔

جنگ کے مقاصد کے تعین کے ساتھ ساتھ ، اس کی مقدار اور حد بھی مقرر کردی گئی :

وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ” مگر زیادتی نہ کرو ، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ “

زیادتی یوں ہوگی کہ جنگ لڑنے والے سپاہیوں کے علاوہ پرامن شہریوں کو بھی تکلیف دی جائے ، جو دعوت اسلامی کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں ، نہ ہی ان سے اسلامی جماعت کو کوئی خطرہ ہے ۔ مثلاً عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور جو لوگ اللہ کی عبادت کے لئے الگ ہوگئے ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب وملت سے متعلق ہوں حکم دیا گیا کہ جنگ میں ان حدود وقیود کو پامال نہ کیا جائے ، جو اسلام نے جنگ کے لئے مقرر کئے ہیں ۔۔ اسلام نے سب سے پہلے ، ان قباحتوں پر پابندی عائد کی جو جاہلیت میں عام طور پر معروف تھیں ۔ خواہ یہ جاہلیت قدیم ہو یا جدید ۔ یہ قباحتیں ہیں جن سے اسلامی نظام متصادم ہے ۔ جن سے اسلام کی روح ابا کرتی ہے ۔

اس سلسلے میں رسول ﷺ کی چند احادیث کا مطالعہ کیجئے ۔ آپ ﷺ کے ساتھیوں کی ہدایات پڑھیے ، ان سے ان آداب کا مزاج آپ پالیں گے۔ یہ وہ آداب جنگ ہیں ، جن سے انسانیت کا تعارف سب سے پہلے اسلام کے نظام جنگ کے مطالعہ کے بعد ہوا :

1۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں :” رسول ﷺ کے مغازی میں سے ایک موقعہ پر ایک عورت پائی گئی جسے قتل کردیا گیا تھا ، اس پر رسول ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل سے منع فرمایا۔ “ (مالک ، شیخین ، ابوداؤد اور ترمذی)

2۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا !” جب تم جنگ کررہے ہو ، تو اس وقت چہرے پر مارنے سے اجتناب کرو۔ “

3۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں !” ہمیں رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے لئے بھیجا ۔ اس موقع پر فرمایا :” اگر تم فلاں فلاں (قریش کے دو افراد) کو پاؤ تو انہیں آگ میں جلاؤ۔ “ جب ہم تیار ہوکر نکلنے لگے تو آپ نے فرمایا !” میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو آگ میں ڈالو ! لیکن آگ کے ساتھ اذیت دینا ، صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے ، لہٰذا حکم یہ ہے کہ اگر تم انہیں پاؤ تو دونوں کو قتل کردو۔ “ (بخاری ، ابوداؤد اور ترمذی)

4۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا !” جنگ میں سب سے زیادہ عفو و درگزر کرنے والے صرف اہل ایمان ہیں۔ “ (ابوداؤد)

5۔ عبدبن یزید انصاری سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں چوری اور قتل میں مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔

6۔ حضرت ابویعلیٰ ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں ہم عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کی قیادت میں شریک جنگ ہوئے۔ دشمن کے چار آدمی لائے گئے ۔ حکم دیا گیا کہ انہیں نیزے کے چپٹے حصے کی طرف سے قتل کیا جائے اور انہیں اس طرح قتل کیا گیا ۔ اس کی اطلاع حضرت ابویوب انصاری ؓ کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول ﷺ کو اذیت دے کر قتل کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ۔ اللہ کی قسم اگر مرغی ہوتی تو بھی میں اسے اذیت دے کر قتل نہ کرتا۔ جب اس کا علم عبدالرحمٰن ؓ کو ہوا تو انہوں نے چار غلام آزاد کئے ۔ (ابوداؤد)

7۔ حارث نے مسلم ابن حارث ؓ سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا ۔ جب ہم حملہ کی جگہ پہنچے تو میں نے گھوڑی کو ایڑ دی ۔ وہ میرے ساتھیوں سے آگے جانکلی ۔ میں نے دیکھا کہ آبادی کے لوگ (خوف کے مارے) چیخ و پکار کررہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا جلدی سے کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کا اقرار کرلو اور اپنے آپ کو بچالو ، انہوں نے کلمہ پڑھ لیا ۔ میرے ساتھیوں نے مجھے سخت ملامت کی اور کہنے لگے ، تم نے ہمیں مال غنیمت سے محروم کردیا ۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے واپس آئے ۔ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو میری حرکت سے آگاہ کیا ۔ آپ نے میری تعریف کی ۔ اس کے بعد مجھ سے کہا :” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ہر آدمی کے بدلے تمہارے لئے یہ یہ اجر لکھ دیا ہے۔ “ (ابوداؤد)

8۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ جب بھی کسی کو مجاہدوں کے دستے کا سردار مقرر کرتے یا کوئی سریہ بھیجتے تو انہیں سب سے پہلے خدا خوفی کی وصیت فرماتے ۔ پھر فرماتے کہ اپنے ساتھیوں سے حسن سلوک رکھو اور پھر فرماتے ” اللہ کے نام کے ساتھ لڑو ، اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے لڑو جنہوں نے کفر اختیار کیا ۔ لڑو لیکن غداری نہ کرو۔ مقتول کا مثلہ نہ کرو اور بچے کو نہ قتل کرو۔ “ (مسلم ، ابوداؤد اور ترمذی)

9۔ مالک نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی فوج کو وصیت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے یہ فرمایا ” تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے بزعم خود اپنے آپ کو اللہ کا کردیا انہیں ان کی حالت عزلت ہی میں چھوڑ دو ۔ عورت کو قتل نہ کرنا۔ بچے اور بہت زیادہ بوڑھے کو بھی قتل نہ کرنا۔ “

یہ ہے وہ جنگ جو اسلام فرض کرتا ہے اور یہ ہیں اسلام کے آداب جنگ ۔ وہ مقاصد جن کے لئے اسلام معرکہ جنگ برپا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور ان سب کا منبع قرآن مجید کا یہ حکم ہے ” اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو ، جو تمہارے ساتھ لڑیں اور زیادتی نہ کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “

قرون اول کے مسلمان اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ محض اپنی تعداد کے بل بوتے پر فتح حاصل نہیں کرسکتے ۔ ان کی تعداد تو بہت قلیل ہے ۔ وہ اپنی تعداد اور سازوسامان کی بدولت فتح مند نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ ان کا سازوسامان دشمن کے مقابلے میں بہت ہی قلیل ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ فتح صرف ایمان ، بندگی اور اللہ کی نصرت کے نتیجے میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کو ترک کیا تو وہ فتح ونصرت سے محروم ہوجائیں گے جو ان کا اصل سہارا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی جنگوں میں ان آداب جنگ کو سختی سے ملحوظ رکھتے تھے ۔۔ یہاں تک کہ یہ آداب انہوں نے اپنے ان ازلی دشمنوں کے ساتھ بھی ملحوظ رکھے جنہوں نے انہیں سخت سے سخت اذیتیں دی تھیں ۔ اور ان کے شہداء کی لاشوں کا مثلہ کیا تھا۔ ایک موقعہ پر رسول اللہ ﷺ کا غضب جوش میں تھا ، آپ نے بعض لوگوں کے جلادینے کے احکامات صادر فرمادیئے ، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آپ نے اپنے احکامات واپس لے لئے اور جلانے سے منع فرمایا۔ اس لئے کہ آگ کے ساتھ سزا صرف خاصہ خدا ہے۔

آیت 190 وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ لیجیے قتال کا حکم آگیا۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کی جو چار لڑیاں میں نے گنوائی تھیں یعنی عبادات ‘ معاملات ‘ انفاق اور قتال یہ ان میں سے چوتھی لڑی ہے۔ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کر رہے ہیں۔

حکم جہاد اور شرائط حضرت ابو العالیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے، حضور ﷺ اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورة برأت نازل ہوئی، بلکہ عبدالرحمن بن زید بن سلام ؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ) 9۔ التوبہ :5) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے اس لئے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو جیسے اور جگہ فرمایا آیت (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ) 9۔ التوبہ :36) یعنی مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں چناچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہئے۔ پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو، خیانت اور چوری نہ کرو، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگی نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو، حضرت ابن عباس ؓ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو، بدعہدی سے بچو، ناک کان وگیرہ اعضاء نہ کاٹو، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم و زیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو، بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور ﷺ نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا، مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک، تین، پانچ، سات، نو، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کردی باقی چھوڑ دیں فرمایا کہ کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کردیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم و زیادتی شروع کردی جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کردیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم و زیادتی شروع کردی جس کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لئے ناراض ہوگیا۔ یہ حدیث اسناداً صحیح ہے، مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آگئی تو انہوں نے ظلم و زیادتی شروع کردی فرمان باری تعالیٰ کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہوگیا، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم و زیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے، چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل وخون ہوتا ہے اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل وخون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر و شرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے، ابو مالک فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں۔ پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کرو جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ شہر حرمت والا ہے آسمان و زمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اسے حلال کردیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول ﷺ کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں۔ آپ کے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے۔ گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا حضور ﷺ نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے۔ پھر فرمایا کہ ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کردیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی یہیں ان سے لڑو تاکہ یہ ظلم دفع ہو سکے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ ﷺ نے درخت تلے اپنے اصحاب سے بیعت لی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو دفع کردیا چناچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے کہ وہ آیت (وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ) 48۔ الفتح :24) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کردیں اور اس سے باز آجائیں اور اسلام قبول کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالیٰ ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تاکہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب اور بلند ہوجائے اور تمام دین پر ظاہر ہوجائے، جیسے بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت و غیرت قومی سے لڑتا ہے، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو، بخاری ومسلم کی ایک اور حدیث میں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں ان کی جان ومال کا تحفظ میرے ذمہ ہوگا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آجائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہوگا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے یہی معنی ہیں۔ حضرت مجاہد کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے، یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ وجدال ہو، یہاں لفظ عدوان جو کہ زیاتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لئے ہے حقیقتا وہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا آیت (فمن اعتدی علیکم فاعتدو علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) یعنی تم پر جو زیادتی کرے تم بھی اس پر اس جیسی زیادتی کرلو اور جگہ ہے آیت (جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ) 10۔ یونس :27) یعنی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جگہ فرمان ہے آیت (وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ) 16۔ النحل :126) یعنی اگر تم سزا اور عذاب کرو تو اسی مثل سزا کرو جو تم کئے گئے ہو، پاس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا " بدلے " کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا و عذاب نہیں، حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو گھیر کر کہا کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ حضرت عمر ؓ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے ؟ آپ ؓ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کا خون حرام کردیا ہے، انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے آپ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین غالب آگیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ سے مخفی نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے سنو ! اسلام کی بنائیں پانچ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا، اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم آپ نے نہیں سنا کہ ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے، اور جگہ ارشاد ہے ان سے لڑو تاوقتیکہ فتنہ مٹ جائے آپ نے فرمایا ہم نے حضور ﷺ کے زمانہ میں اس کی تعمیل کرلی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آپڑتا تھا یا تو قتل کردیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بہ کثرت ہوگئے اور فتنہ برباد ہوگیا اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان ؓ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے فرمایا عثمان ؓ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور علی تو رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔

آیت 190 - سورۃ البقرہ: (وقاتلوا في سبيل الله الذين يقاتلونكم ولا تعتدوا ۚ إن الله لا يحب المعتدين...) - اردو