سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 29 (آیات 187 سے 190 تک)

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَٱلْـَٰٔنَ بَٰشِرُوهُنَّ وَٱبْتَغُوا۟ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا۟ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَٰجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ وَلَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَٰطِلِ وَتُدْلُوا۟ بِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا۟ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ۞ يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِىَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ ٱلْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا۟ ٱلْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا۟ ٱلْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَٰبِهَا ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَقَٰتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوٓا۟ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ
29

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ohilla lakum laylata alssiyami alrrafathu ila nisaikum hunna libasun lakum waantum libasun lahunna AAalima Allahu annakum kuntum takhtanoona anfusakum fataba AAalaykum waAAafa AAankum faalana bashiroohunna waibtaghoo ma kataba Allahu lakum wakuloo waishraboo hatta yatabayyana lakumu alkhaytu alabyadu mina alkhayti alaswadi mina alfajri thumma atimmoo alssiyama ila allayli wala tubashiroohunna waantum AAakifoona fee almasajidi tilka hudoodu Allahi fala taqrabooha kathalika yubayyinu Allahu ayatihi lilnnasi laAAallahum yattaqoona

ابتدأً یہ حکم تھا کہ اگر روزہ دار افطار کے بعد سوجائے تو اس پر کھانا پینا اور بیویوں کے پاس جانا حرام ہے ۔ اگر کسی کی آنکھ لگ جاتی اور پھر وہ اٹھتا تو اگرچہ طلوع فجر سے پہلے اٹھتا ۔ اس کے لئے بیوی کے پاس جانا اور کھانا پیناحرام ہوتا ۔ بارہا ایسا ہوتا کہ ایک صحابی پر افطار کے وقت نیند کا غلبہ ہوگیا اور آنکھ لگ گئی ۔ اب اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ مسلسل دوسرے دن روزہ رکھے ۔ ایک صاحب کے ساتھ ایسا ہی ہوا ۔ دوسرے دن اس نے بڑی مشکل سے روزہ پورا کیا ۔ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچی ۔ اس طرح ایسے واقعات بھی ہوئے کہ افطار کے بعد ایک صاحب سوگئے ، بیوی بھی سو گئی ۔ جب جاگے تو ہم بستری کی اور رسول ﷺ تک بات پہنچ گئی ۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر یہ حکم بھاری ہورہا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مشکل حکم کو منسوخ کردیا اور معاملہ آسان ہوگیا ۔ چونکہ روزے کے ان احکام میں مشکلات کا سامنا وہ کرچکے تھے ۔ تجربہ ان کے ذہن میں تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کو انہوں نے خوب محسوس کیا ۔ آیت نازل ہوئی اور ان کے لئے مغرب اور طلوع فجر کے درمیان کھنا پینا اور بیوی کے پاس جانا جائز قرار دیا گیا۔

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ” تمہارے لئے روزوں کے مہینے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے جانا جائز قرار دیا گیا ہے۔” الرفث “ کا مفہوم مباشرت کا آغاز ہے یا عین مباشرت ۔ یہاں دونوں کا جواز مقصود ہے ۔ دونوں جائز ہیں لیکن دوران بیان ، قرآن مجید پر ایک نظر پھیرتا ہوا خوشگوار تاثر چھوڑے بغیر نہیں رہتا ۔ میاں بیوی کے اس تعلق کے اندر ابریشم کی ملائمت ، تازگی اور شیشے کی سی صفائی پیدا کی جاتی ہے ۔ نیز اس کو حیوانی درشتگی اور حیوانی نقائص سے پاک کردیا جاتا ہے۔ “

هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ” وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ “ لباس پردہ پوشی کرتا ہے ۔ گرمی سردی سے بچاتا ہے ، اسی میاں بیوی کا باہمی تعلق دونوں کا پردہ پوش ہے ۔ ان کا محافظ ہے۔ اسلام مخلوق انسانی کو اس کی حقیقت واقعیہ کے لحاظ سے دیکھتا ہے ۔ اور حقیقت واقعیہ کے لحاظ سے اس کے فطری تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے اور اس طرح یہ نظام انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ ہے اسلام اور یہ ہے اس کا نظریہ حیات ۔ وہ گوشت و پوست کے فطری تقاضے پورے کرتا ہے اور پورے بھی کرتا ہے خوشگوار اور لطیف فضا میں ، پاکیزگی کے لطیف پردوں میں۔

اللہ علیم وخبیر ہے ۔ وہ بتا دیتا ہے کہ تمہارے خفیہ جذبات کیا ہیں ؟ اور پھر دکھاتا ہے کہ وہ تمہارے فطری دواعی پورنے کرنے کے لئے تمہاری حاجات کو پوری کرتا ہے۔

عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ” اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے ، مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ “ یہ خیانت کیا تھی ؟ ان کے دلوں میں دبی ہوئی خواہشات تھیں ۔ خفیہ جذبات تھے جو ارتکاب جرم کا تقاضا کررہے تھے ۔ یا مراد یہ ہے کہ تم چوری چھپے اس حکم کو توڑ رہے تھے ۔ جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ بعض حضرات سے اس کی خلاف ورزی کا ارتکاب ہوا لیکن دونوں قسم کے حضرات کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ چونکہ ان کی کمزوری اور ناتوانی ظاہر ہوگئی تھی ، اللہ تعالیٰ جانتے تھے چناچہ ان کی حاجت روائی کردی گئی فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ ” اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو۔ “

لیکن اس کا جواز بھی رضائے باری سے جوڑ دیا گیا۔ حکم دیا گیا کہ اس میں بھی تم اللہ کی طرف متوجہ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ” اور جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اسے حاصل کرو۔ “ یعنی عورتوں سے جو لطف اندوزی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز کردی ہے ، اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کے نتیجے میں آنے والی اولاد سے بھی بہرمند بنو۔ دونوں چیزیں حکم خداوندی میں شامل ہیں ۔ دونوں وہ سامان ہیں جن کا حاصل کرنا اور جن سے لطف اندوزہونا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز قرار دے دیا ہے لیکن اس لطف اندوزی کے پس منظر میں گہری حکمت پوشیدہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ایک بامقصد فریضہ ہے ۔ یہن جسمانی طلب اور مجرد حیوانی تلذذ ہی نہیں ہے جس کا تعلق محض جس سے ہو ۔ اس طرح میاں بیوی کے درمیان تعلق ایک بلند مقصد سے مربوط ہوکر فریضہ فطرت قرار پاتا ہے ۔ وہ لطف ولذت کے مختصر لمحے کے بجائے انسانیت کے افق پر ایک بامقصد قرار پاتا ہے ۔ اسلامی نظام حیات اور اسلام کی طرز زندگی کے اندر اس قسم کے اشارات و ارشادات دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام انسانی زندگی کے اندر کیا انقلاب لانا چاہتا ہے اور اسے کن خطوط پر ترقی دینا ہے یہ تمام کام وہ انسان کے حدود میں ، اس کی قوت برداشت کے اندر اور اس کی پیدائشی مزاج کے مطابق سر انجام دیتا ہے ۔ یہ ہے تربیت ، سربلندی اور ترقی کا اسلامی نظام ۔ جس کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے ، جو اسے مخلوقات کے حالات سے خوب خبردار ہے ۔ جو باریک بین اور لطیف وخبیر ہے۔

ان اوقات میں جس طرح بیوی کے پاس جانے کی اجازت دی گئی اسی طرح ان اوقات میں کھانے پینے کی اجازت بھی مل گئی۔ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ” راتوں کو کھاؤ یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نظر آجائے ۔ “ یعنی اس وقت تک افق اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر روشنی پھیل جائے ۔ اس سے مراد افق پر سفید دھاری کا محض ” ظہور “ نہیں ہے۔ اس کو فجر کاذب کہتے ہیں ۔ روزہ بند کرنے کے سلسلے میں جو روایات وارد ہیں ان کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وقت طلوع الشمس سے تھوڑا پہلے ہے ۔ آج کل ہمارے علاقے میں عام طور پر جو اوقات مقرر ہیں ہم انہی کے مطابق روزہ رکھتے ہیں ۔ یہ اوقات شرعی وقت سے قدرے پہلے ہی ہیں اور مزید احتیاط کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔

ابن جریر (رح) نے اپنی سند سے ، سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کی ہے ۔ فرماتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا :” ت میں بلال کی اذان اور ” مستطیل صبح “ کہیں تمہیں سحری سے نہ روک دے ۔

اس سے مراد وہ صبح ہے جو افق میں پھیل جائے (المستطیر) اور طلوع آفتاب سے قدرے پہلے صبح پھیلتی ہے ۔ ہوتا یہ تھا کہ حضرت بلال سوئے ہوئے لوگوں کو سحری سے آگاہ کرنے کے لئے بہت سویرے اذان دیتے تھے اور ابن مکتوم آخر میں روزہ بند کرنے کے لئے اذان دیتے تھے ۔ اس لئے کہا گیا کہ تم اذان بلال سے دھوکہ نہ کھاجاؤ۔

اس کے بعد مساجد میں اعتکاف کے دوران مباشرت کے حکم کا بیان ہوتا ہے۔ اعتکاف کے معنی ہیں مسجد میں علیحدہ ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور سوائے حاجات ضروریہ کے مسجد سے نہ نکلنا ۔ مثلاً کھانا پینا قضائے حاجت وغیرہ۔ یہ مستحب ہے اور رمضان شریف کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے ۔ رمضان شریف کے آخری عشرے میں رسول اللہ ﷺ اس پر عمل پیرا ہوتے تھے ، اعتکاف کا عرصہ عام معمولات زندگی سے الگ ہوکر صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا عرصہ ہوتا ہے ۔ اس لئے تجرد اور علیحدگی کو مکمل کرنے کے لئے حکم دیا گیا کہ اس عرصے میں بیویوں کے پاس جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔ تاکہ نفس انسانی تمام آلائشوں سے علیحدہ ہوجائے اور دل تمام مشغولیات سے پاک ہوجائے۔

وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ” اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ “ چاہے روزہ کا وقت ہو یعنی دن یا افطار کا وقت ہو یعنی رات۔

سب سے آخر میں تمام معاملے کو ذات باری کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ ہر انضباطی حکم اور ہدایت کے معاملے میں قرآن مجید کا مستقل انداز بیان ہے ۔ یعنی ہر امر میں ، ہر نہی میں ہر حرکت میں اور ہر سکون میں۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا ” یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ “

یہاں اس شدت سے روکا گیا ہے کہ قریب ہی مت جاؤ، تاکہ انسان اور ممنوعات کے درمیان امن کا ایک لازمی علاقہ موجود ہو۔ جو چرندہ چراگاہ کے اردگرد گھومتا ہے آخر کار اس میں داخل ہوجاتا ہے اور ہر وقت انسان بھی اپنے نفس کی نگرانی نہیں کرسکتا۔ اس لئے اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسی ممنوعات کے قریب گھومتا رہے جو مرغوب ہوں اور پھر اس اعتماد پر کہ وہ جب چاہے گا اپنے نفس پر قابو پالے گا ۔ کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایسے خطرناک امتحان میں ڈالے ، چناچہ یہ امت ایسے ہی معاملے سے وابستہ ہے جو پر لطف ہے اور مرغوبات میں سے ہے ۔ اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ قریب ہی مت جاؤ۔ حالانکہ مقصد صرف یہ ہے کہ ان ممنوعات کے اندر مبتلاہونے سے بچو کہ قریب جانے کی ممانعت نہیں ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ احتیاط اور خدا خوفی سے کام لینا چاہئے كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَاس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لئے بصراحت بیان کرتا ہے ۔ توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے ۔ “ بتایا جاتا ہے کہ نزول قرآن اور تبلیغ آیات کا آخری مقصد خدا خوفی کا حصول ہے۔ یہ وہ قیمتی اور عظیم مقصد ہے جس کی اہمیت اور قدر و قیمت صرف ان لوگوں کے ہاں ہے جو ایمان لانے والے ہیں اور جو ہر دور میں قرآن کے طالب ہیں ۔

روزہ کے بیان کی مناسبت سے ، کھانے کی ایک اور قسم کی بھی ممانعت کی گئی ہے ۔ اور وہ ہے لوگوں کا مال ناجائز طور پر کھانا ، انہیں مقدمات میں ملوث کرنا ۔ چالاکی سے انہیں پھنسانا اور ان کے خلاف حکام کے سامنے شواہد اور قرائن فراہم کرنا اور چالاکی اور چرب زبانی سے ان کے خلاف ڈگری حاصل کرلینا ۔ یہ سخت ممنوع ہے ۔ کیونکہ حاکم تو مقدمہ کے ظاہری حالات اور شہادت و دلائل کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا۔ اور اگر جھوئی شہادتیں پیش کردی جائیں تو یہ فیصلہ خلاف موقع ہوگا اس لئے یہ ممانعت اللہ کے مدد کے ذکر کے بعد خدا خوفی اور خدا ترسی کی مسلسل دعوت کے بعد کی گئی ہے تاکہ نہی کا یہ اہم حکم خدا خوفی کے ایسے ماحول میں وارد ہو جو انسان کو ارتکاب ممنوعات باز رکھے ۔

اردو ترجمہ

اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala takuloo amwalakum baynakum bialbatili watudloo biha ila alhukkami litakuloo fareeqan min amwali alnnasi bialithmi waantum taAAlamoona

ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے َعلی ابن ابوطلحہ ، حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں :” یہ اس شخص کے بارے میں ہے کہ اس پر دوسرے کا قرضہ ہو ۔ اور اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہو۔ وہ انکار کردے اور مقدمہ حکام کے پاس جائے ۔ وہ جانتا ہو کہ اس پر حق موجود ہے اور اسے خوب علم ہو کہ وہ گناہ گار اور حرام خور ہے ۔ “ مجاہد (رح) ، سعیدبن جبیر (رح) ، عکرمہ (رح) ، حسن ، قتادہ (رح) ، سدی (رح) ، مقاتل (رح) بن حیان اور عبدالرحمن بن زید بن اسلم سے روایت ہے ۔ ان سب نے کہا !” اگر تمہیں معلوم ہو کہ تم ظلم کررہے ہو تو ہرگز مقدمہ دائر نہ کرو۔ “ بخاری ومسلم میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! بہرحال میں ایک انسان ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور میں تم میں سے ایک شخص دوسرے کی نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے حق میں فیصلہ کروں ۔ یادرکھو کہ جس کے حق میں ، میں کسی دوسرے کی کسی چیز کا فیصلہ کردوں تو وہ اس کے حق میں دوزخ کا ایک ٹکڑا ہوگا۔ اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ اسے اٹھاتا ہے یا اسے چھوڑ دیتا ہے یوں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا معاملہ خود ان کے سپرد کردیتا ہے جو اپنے دعویٰ کی حقیقت سے باخبر ہوں ۔ جج کے فیصلے سے حرام حلال نہیں ہوجاتا ، نہ حلال حرام ہوجاتا ہے ۔ اس کی حیثیت صرف یہ ہوتی ہے کہ بظاہروہ فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے ۔ اور گناہ دھوکہ باز کے ذمہ ہوتا ہے ۔

حکم قصاص ، حکم وصیت اور احکام صیام کی طرح مقدمہ بازی Letigation اور مالی معاملات میں بھی معاملہ خدا خوفی اور تقویٰ کے سپرد کردیا جاتا ہے ۔ یہ سب احکام دراصل اسلامی نظام کے جسم اجتماعی کے مختلف اجزاء ہیں اور سب کی روح تقویٰ ہے۔ یہ تمام اجزاء تقویٰ کی مضبوط رسی میں بندھے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام حیات ایک وحدت ہے ۔ یہ جزلایتجزی ہے ۔ ایک ایسی اکائی ہے جس کے اجزء علیحدہ نہیں ہوسکتے ۔ اگر ہم اس کے بعض اجزا پر عمل کریں اور بعض کو ترک کردیں تو یہ بعض کتاب پر عمل ہوگا اور ایک حصے کا انکار ہوگا جو آخر کار کفر پر منتج ہوگا۔ نعوذ باللہ

اردو ترجمہ

لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہو: یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں نیز ان سے کہو: یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف داخل ہوتے ہو نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloonaka AAani alahillati qul hiya mawaqeetu lilnnasi waalhajji walaysa albirru bian tatoo albuyoota min thuhooriha walakinna albirra mani ittaqa watoo albuyoota min abwabiha waittaqoo Allaha laAAallakum tuflihoona

درس 12 ایک نظر میں

سابقہ اسباق کی طرح اس سبق میں امت کو بعض فرائض کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے بعض قومی اور بعض بین الاقوامی معاملات پر قانون سازی کی گئی ہے ۔

اس سبق میں چاند کی بڑھتی گھٹتی صورتوں کا بیان ہے ۔ گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہونے کا بیان ہے ، جاہلیت میں بعض اوقات لوگ اس رسم کی پابندی کرتے تھے ۔ احکام قتال ، حرام مہینوں میں مسجد حرام کے پاس جنگ اور حج وعمرہ کے اصلاح شدہ احکام ہیں ۔ ترتیب کے ساتھ اور مناسب ترامیم کے ساتھ ۔ ان تمام معاملات سے وہ اجزاء نکال دیئے گئے ہیں جن کا ربط دور جاہلیت سے تھا۔

سابقہ درس کی طرح اس میں بھی بعض احکام ، عقائد ونظریات سے متعلق ہیں اور بعض کا تعلق رسومات و عبادات سے ہے جبکہ بعض احکام کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ان سب کو ایک ہی نظم میں پرودیا گیا ہے ۔ یعنی اللہ کا ذکر اور اس کا ڈر یعنی تقویٰ ۔

جہاں حکم دیا جاتا ہے کہ تم گھروں میں پیچھے کی طرف سے نہ داخل ہو ، سیدھے آؤ۔ اس کے ساتھ ہی نیکی کے مفہوم اور تصور کو درست کردیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حرکات و سکنات کی ظاہری اشکال کا نام نیکی نہیں ہے ۔ بلکہ بر خدا خوفی کا نام ہے۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (189)

” یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے سے داخل ہوتے ہو۔ نیکی تو اصل یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “

حکم دیا جاتا ہے کہ دوران جنگ ظلم اور زیادتی سے بچو۔ لیکن اس سے بچنے کا محرک بھی اللہ سے لگاؤ اور اس کا خوف ہونا چاہئے ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَاللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مسجد حرام کے قریب جنگ کے حکم میں بھی کہا جاتا ہے۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ” اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ “

اب مواقیت حج کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ اس کے دوران میں شہوانی افعال ، بدفعلی اور لڑائی جھگڑے کی ممانعت ہوتی ہے اور نتیجہ وہی تقویٰ ہے ۔ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الألْبَابِ ” سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لے جاؤ اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیز گاری ہے ۔ پس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیز کرو ۔ “

انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا جاتا ہے اور اس میں آخری نتیجہ تقویٰ اور احسان ہے ۔ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ “

حج کے بعد لوگوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاؤ ۔ لیکن آخری نصیحت پھر تقویٰوَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ” اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔ “

صاف نظر آجاتا ہے کہ یہ تمام اور مختلف النوع احکام ایک مضبوط رسی میں نہایت مضبوطی سے باندھے ہوئے ہیں ۔ یہ رسی اور یہ رابطہ اس دین کے مجموعی مزاج سے وجود میں آتا ہے۔ اس دین کا مزاج یہ ہے کہ اس میں عبادات شعور سے جدا نہیں ہوتیں اور عبادات سے قوانین عامہ اور دنیاوی قواعد و ضوابط جدا نہیں ہوتے ۔ یہ دین اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک دنیاوی امور اور آخرت کے امور کو ساتھ نہ بٹھایا جائے ۔ نظریہ حیات اور قلب ونظر کی دنیا کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی معاملات کو وابستہ نہ کردیا جائے اور جب تک اس دین کو انسان کی پوری زندگی میں جاری وساری اور غالب نہ کردیا جائے اور حالت یہ نہ ہوجائے کہ پوری زندگی مکمل طور پر تصور وحدت کے مطابق چل رہی ہے ، ایک ہی ہم آہنگ نظام اس پر حاوی ہے ایک ہی اور کامل نظام ہے جو اس میں نافذ ہے اور یہ ایسا نظام ہے جو اللہ کی شریعت پر قائم ہے ۔ ایک اکائی ہے اور زندگی کے پورے معاملات کو اپنی حدود میں لئے ہوئے ہے ۔

سورت کے اس حصے کے آغاز ہی میں ہمارے سامنے ایک منظر آتا ہے ۔ اس منظر میں مسلمان زندگی کے مختلف شکلوں کے بارے میں اپنے پیارے نبی کے اسوہ حسنہ کی طرف نظر کرتے ہیں ۔ ایسے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں جو آئے دن زندگی میں انہیں پیش آتے رہتے ہیں ۔ وہ یہ جاننے کے لئے بےتاب نظر آتے ہیں کہ وہ ان معاملات میں ، اپنے جدید تصور حیات کے مطابق کیا طرزعمل اختیار کریں ۔ جوان کے جدید نظام زندگی کے مطابق ہو۔ وہ سب سے پہلے جس چیز کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں وہ مظاہر فطرت ہیں وہ چاند کے بارے میں غور کرتے ہیں کہ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ وہ ہلال نظر آتا ہے ۔ پھر وہ بتدریج مکمل ہوجاتا ہے اور پھر گھٹنے لگتا ہے ۔ پھر ہلال ہوجاتا ہے یہاں تک کہ غائب ہوجاتا ہے اور پھر نئے سرے سے ہلال ہوکر نکلتا ہے۔ پھر وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ مال کی کون سی قسم خرچ کریں ؟ وہ کس قدر خرچ کریں ؟ خرچ کس نسبت سے ہو ؟

پھر وہ سوچتے ہیں کہ مسجد حرام کے نزدیک جنگ کرنا کیسا ہے ؟ پھر حرام مہینوں میں جنگ کرنے کا کیا حکم ہے ؟ پھر وہ جوئے اور قمار بازی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ نئے نظام میں کیا حکم ہے ؟ کچھ ہی عرصہ تو پہلے وہ تو سب شراب خور تھے اور جوئے بازی کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہ تھا۔

پھر اچانک عورتوں کے ایام کے سلسلے میں پوچھتے ہیں کیا ان ایام میں تعلقات زن وشوئی جائز ہیں ؟ پھر وہ اپنی بیویوں کے خصوصی تعلقات کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسے سوالات خود بیویوں نے بھی کئے ۔ غرض پورے نظام زندگی کے بارے میں نہ صرف ان کی سوچ بدل جاتی ہے بلکہ طرز عمل بھی بدل جاتا ہے ۔ وہ طہارت اور پاکیزگی میں معراج کمال پر نظر آتے ہیں ۔

یہ سوالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور ان سے بیشمار حقائق کا اظہار ہوتا ہے مثلاً :

اولاً یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اجتماعی زندگی کی جو اشکال تھیں اور ان کے درمیان جو ربط ضبط تھا وہ زندہ ، ترقی پذیر اور وسعت پذیر تھا ۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید ہورہی تھی ، تشخص قائم ہورہا تھا اور نئی نئی صورتیں پیش کی جارہی تھیں ۔ افراد معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔ وہ اب بکھرے ہوئے افراد اور متفرق قبائل نہ تھے ۔ اب وہ ایک امت بن چکے تھے ، جس کا الگ وجود تھا ۔ اپنا نظام تھا ۔ اس کی اپنی وضع قطع تھی اور سب افراد اس نظام کے ساتھ پختہ طور پر وابستہ تھے ۔ ہر فرد کے لئے یہ بات اہم تھی کہ وہ زندگی کے پاکیزہ خطوط سے پوری طرح باخبر ہو ، باہمی تعلقات ورابطہ کی نوعیت کے بارے میں خبردار ہو۔ یہ نئی صورت حال دراصل نئے نظریہ حیات ، نئے نظام زندگی اور نئی قیادت کے نتیجے میں پیداہوئی تھی ۔ اور ان کی انسانیت ، ان کا شعور اور ان کی فکر غرض پوری سوسائٹی ہمہ جہت ترقی کررہی تھی۔

اس ہمہ جہت تجسس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دینی حس کس قدر تیز تھی ۔ اسلامی نظریہ حیات ان کے دلوں میں کس قدر اتر چکا تھا۔ یہ نظریہ ان کی زندگیوں پر یوں چھا گیا تھا کہ وہ روز مرہ کا کوئی کام بھی اس وقت تک نہ کرتے جب تک اس جدید نظریہ حیات کی روشنی میں یہ یقین نہ کرلیتے کہ وہ درست ہے ۔ اس لئے کہ ان سابقہ زندگی کی کوئی بات برقرار نہ تھی ۔ انہوں نے دور جاہلیت کی تمام رسموں اور عادتوں کا جوأ گردن سے اتار پھینکا تھا ۔ اب انہیں قدیم رسومات پر کوئی اعتماد نہ تھا اور زندگی کے ہر کام اور ہر موڑ پر ایک جدید تعلیم کے منتظر تھے ۔ وہ ہر وقت بیدار اور باشعور رہتے تھے اور ان کی یہ شعوری ھالت سچائی پر پختہ عقیدے کی وجہ سے تھی ۔ ان کے نفوس تمام جاہلی عادات اور طور طریقوں سے پاک ہوگئے تھے ۔ وہ جاہلیت کی ہر بات کا بڑی احتیاط سے جائزہ لیتے تھے اور اسے ترک کردیتے تھے ۔ جدید نظریہ حیات سے ہدایات لینے کے لئے وہ ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ وہ اپنی نئی زندگی کو خالصتاً اس نئے نظریہ حیات کے مطابق جلد ازجلد استوار کرنے کا عزم کرچکے تھے۔ یہ جدید نظریہ حیات ان کی زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھال رہا تھا ۔ قدیم عہد کی جن باتوں کو بدرجہ مجبوری باقی رکھا گیا تھا انہیں بھی وہ جدید رنگ اور تربیت کے ساتھ لیتے تھے ۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر آنے والا نظام قدیم نظام کی جزئیات تک کو ترک کردے ۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ جدید نظام کی بعض مصالح جزئیات کو منتخب کرکے انہیں جدید نظام میں سمو دیتا ہے ۔ وہ اس جدید نظام کا جزو ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً حج کے اکثرمناسک ایسے ہیں جنہیں اسلام نے باقی رکھا ہے ۔ اور وہ یوں ہوگئے کہ گویا وہ اسلامی نظام زندگی کے سرچشمے سے پھوٹے ہیں۔

تیسری بات اس دور کی تاریخ سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں مشرکین مکہ اور یہود مدینہ بار بار ، اسلامی اقدار کے سلسلے میں ، مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسلام نے جاہلیت کے رسوم عبادت میں جو ترمیمات کی تھیں یا اس دور میں جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے یہ عناصر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اور اسلام کے خلاف ہر وقت گمراہ کن پروپیگنڈے میں لگے رہتے تھے ۔ مثلاً مشرکین عبداللہ بن حجش کے سریہ کے سلسلے میں سخت اعتراض کرتے تھے ۔ انہوں نے حرام مہینوں میں مشرکین پر حملہ کردیا تھا ۔ اور اس کی وجہ سے بیشمار سوالات پیدا ہوگئے تھے جن کا جواب ضروری تھا۔ اندرونی طور پر قرآن کریم جاہلی تصورات ، جاہلی رسومات اور جاہلی نظام کا ابطال کررہا تھا تو ظاہری طور پر اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں کے خلاف اس نے اعلان جنگ کردیا تھا۔ یہ اندرونی اور بیرونی جنگ مسلمانوں کے لئے اب بھی بپا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی نفس اور انسانی ذہن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، اسلام کے وہی دشمن آج بھی تیغ بکف ہیں اور قرآن کریم اس وقت جو جواب دے رہا تھا آج بھی وہی جواب دے رہا ہے اور یہ امت آج بھی ، اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی جب تک حق و باطل کی اس جنگ میں قرآن عظیم کو اپنا رہنما نہیں بناتی ۔ یقیناً قرآن کریم آج بھی وہ کارہائے نمایاں دکھائے گا جو اس نے سینکڑوں سال پہلے دکھائے تھے ۔ جب تک مسلمان اس حقیقت کا یقین اور تسلیم نہ کریں گے اور اس پر عمل نہ کریں گے ، ان کے لئے کوئی نجات نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔

اس حقیقت پر غور کرنے کا ادنیٰ نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس تصور اور ادراک کے ساتھ ، اس کتاب کو قبول کرے۔ وہ اس کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ اس کی تعلیمات متحرک صورت میں نظر آئیں ، وہ میدان عمل میں ہو اور ذہن کو ایک جدید تصور حیات دے رہا ہو ۔ جاہلیت کے تصورات کا مقابلہ کررہا ہو ، اس امت کو لغزشوں سے بچارہا ہو اور اس کی مدافعت کررہاہو ، اس حال میں متوجہ نہ ہو ، جس طرح آج ہم اس کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ میٹھے نغمے کی طرح ایک اچھے کلام کی صورت میں جو ترتیل سے پڑھا جارہا ہے اور بس ........

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تو قرآن مجید کو ذہنی آسودگی حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک عظیمم مقصد کے لئے اتارا تھا ۔ اسے اس لئے اتارا تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک پاکیزہ اور مکمل زندگی تخلیق کرے ۔ اسے حرکت دے ۔ راستے کی مصیبتوں ، لغزشوں اور کانتوں کے درمیان سے انسان کی راہنمائی کرکے اسے پرامن منزل تک پہنچائے۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا گیا تھا ، جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں ، یعنی چاند کا ظہور اس کا گھٹنا بڑھنا کیونکر ہوتا ہے ؟ بعض روایات میں آتا ہے کہ سوال اس طرح تھا کہ رسول ﷺ چاند کیوں پیدا کیا گیا ہے ؟ سوال کا یہ انداز جواب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ۔ اس لئے رسول ﷺ سے کہا گیا کہ اے نبی تم یہ جواب دو : قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ” یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کے تعین اور حج کی علامتیں ہیں ۔ “ یعنی حج کا احرام باندھنے کا وقت ، حج سے باہر آنے کا وقت ، روزہ بند کرنے کا وقت ، روزہ کھولنے کا وقت۔ نکاح ، طلاق اور عدت کا وقت ۔ معاملات تجارت اور قرضوں کی ادائیگی کے اوقات وغیرہ ۔ تمام دینی امور میں اور تمام دنیاوی امور میں وقت کا حساب ضروری ہے اور اس لئے چاند کا حساب رکھنا تمام امور میں لابدی ٹھہرا۔

چاہے یہ پہلے سوال کا جواب ہو یا دوسرے کا ، تعلق اس کا بہرحال مسلمانوں کی عملی زندگی کے ایک حقیقی مسئلے سے ہے ۔ محض سائنسی اور علمی مسئلے کا حل یہاں مقصود نہیں ہے۔

قرآن کریم نے بھی انہیں چاند کے دوفائدے گنوادئیے جو ان کی عملی زندگی میں رات دن انہیں نظر بھی آتے تھے لیکن قرآن نے انہیں زمین کی گردش یا چاند کی گردش کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ، حالانکہ سوال کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ سوال یہ تھا : چاند ہلال بند جاتا ہے کیسے ؟ پھر اسی طرح قرآن کریم نے انہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ نظام شمسی میں چاندکاکام (Function) کیا ہے یا اجرام سماوی کی گردش میں چاند کا مدار کیا ہے ؟ یہ بات بھی یقینا ً سائل کے سوال میں شامل تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عملی جواب دیا تھا اس کا راز کیا ہے ۔ قرآن کریم نے سائنسی معلومات کے بجائے محض عملی فوائد کیوں گنوائے ؟

دراصل قرآن کریم کا مقصد نزول یہ تھا کہ انسان کو ایک خاص نظریہ حیات دے ۔ ایک خاص مقام زندگی عطا کرے ۔ اس کے نتیجے میں ایک مخصوص معاشرہ وجود میں آئے۔ قرآن کریم کے پیش نظر اس کرہ ارض پر ایک امت کی تشکیل تھا ، جس نے زمین پر پوری انسانیت کی قیادت کا اہم فریضہ ادا کرنا تھا۔ اس کو تاریخ انسانیت کے اندر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرنی تھی جو تمام گزشتہ انسانی معاشروں میں سبب سے زیادہ بلند ہو ۔ اس کو انسانی زندگی کا ایک ایسا نمونہ پیش کرنا تھا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہ ہو۔ اس کو طرز زندگی کے بنیادی اصول وضع کرنا تھے اور لوگوں کو ان کی طرف دعوت دینی تھی ۔

قرآن کی زبان میں کیا اللہ تعالیٰ اس سوال کا علمی جواب دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے قرآن ان احکام کا مجموعہ ہے جو انسانی زندگی کو پاکیزہ بنانے اور اللہ پرستی تک لے جانے والے ہیں ۔ یہ علم فلکیات کی کتاب نہیں ہے ۔ اس لئے کوئی علمی جواب تلاش کرنا قرآن کے مزاج اور موضوع سے بیخبر ی کی دلیل ہوگا۔ یو بھی یہ علوم ایک نہج پر نہیں ۔ نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ ان نظریات کو انسانی فہم وادراک تک لانے کے لئے بیشمار معلومات ونظریات کی ضرورت ہوتی رہی ہے ۔ اور اس وقت پوری انسانیت کو جو منبع علم تھا اس کے مطابق یہ علمی جواب ایک معمہ ہی نظرآتا۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن نے علمی جواب کو چھوڑدیا ۔ قرآن کریم اپنے مقصد نزول کو اولیت دیتا ہے اور اس فہم میں علم فلکیات کے انداز میں جواب موزوں ہی نہ ہوتا اور اگر یہ علمی جواب ضروری بھی ہوتا تو بھی قرآن کریم جیسی کتاب اس کے لئے موزوں نہ تھی جس کا موضوع سائنس نہیں ہے کیونکہ قرآن بلند تر مقاصد کے لئے نازل ہوا ہے ۔ قرآن مجید کے بعض نادان دوست اس میں علوم جدیدہ تلاش کرتے ہیں جو قرآن کا موضوع ہی نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں کینہ پرور دشمنوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید طبیعی علوم کا مخالف ہے ۔ یہ بھی خام خیالی ہے ۔ گوقرآن موضوع مادی علوم نہیں ، لیکن اس کا اعجاز یہ بھی ہے کہ ان علوم کے سرچشمے اس میں تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔

یہ دونوں طرف کے خیالات اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ ان کے حامل حضرات نے اس کتاب مقدس کے مزاج کو نہیں سمجھا ۔ اس کے مقاصد اور اس کے دائرہ کار ہی کو یہ حضرات متعین نہیں کرسکے ۔ قرآن کا دائرہ کار بالیقین نفس انسانی اور حیات انسانی کا تزکیہ ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کائنات اور ان موجودات کے سلسلے میں انسان کو ایک ایسا تصور دیا جائے جس کے ذریعے یہ اپنے خالق سے پیوستہ ہوجائیں اور پھر اس تصور کی اساس پر زندگی کا ایک پورانظام تعمیر کیا جائے جس میں انسان آزادی کے ساتھ اپنی پوری قوتوں کو کام میں لائے ۔ ظاہر ہے کہ انسانی قوتوں میں ، ایک قوت ، قوت عقل وادراک بھی ہے اور یہ قوت صحیح طرح کام تب ہی کرسکتی ہے جب اس کرہ ارض پر ایک صالح نظام قائم ہوجائے اور وقت عقلی کو آزادانہ طور پر تحقیقات علمیہ کا موقع دیا جائے اور علمی وسائنسی نتائج اخذ کرنے میں آزادانہ طور ترقی و کمال کے جس مقام تک پہنچنا چاہے پہنچ جائے ۔ لیکن انسان اپنی اس محدود قوت ادراک کے ذریعے میں جس مقام پر بھی پہنچے وہ آخری مقام نہ ہوگا جیسا کہ تجربات سے ظاہر ہے۔

قرآن کا موضوع ” انسان “ ہے۔ انسان کا تصور ونظریہ ، اس کا فہم اور شعور ، اس کا طرز عمل اور کردار ، اس کے تعلقات وباہمی روابط ہے ۔ رہے طبیعی علوم ، انواع و اقسام کی مادی ایجادات ، تو وہ قرآن کے موضوع بحث نہیں ۔ بلکہ یہ عقل انسانی کے لئے موضوع بحث اور مرکز عمل ہیں ۔ یہ عقل انسانی کا کام ہے کہ وہ اس میدان میں نظریات قائم کرے اور نئے نئے انکشافات کرے ۔ کیونکہ عقل انسانی کا فہم و ادراک ہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے خلیفۃ اللہ فی الارض کا مقام حاصل ہوا ہے ۔ اور یہ خصوصیت انسان کو اس کی تخلیق کے وقت سے دی گئی ہے ۔ رہا قرآن مجید تو وہ صرف فطرت انسانی کا رہنما ونگہبان ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ انسان کی فطرت میں فساد واقعہ نہ ہو ، اس نظم میں خلل نہ پڑے جس کے مطابق زندگی بسر کرکے یہ اپنی فطری طاقتوں کو کام میں لائے گا۔ قرآن کریم انسان کو اس کائنات کے بارے میں ایک جامع علم دیتا ہے ۔ یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات کا تعلق اس کے خالق کے ساتھ کیا ہے ؟ اس کے مختلف اجزاء کا (جن میں سے ایک خود انسان بھی ہے ) باہمی تعلق کیا ہے ؟ اس کے بعد قرآن نے انسان کو آزاد چھوڑدیا ہے کہ وہ جزئیات کا ادراک خود کرے اور اپنے منصب خلافت کی کارکردگی میں ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں ۔ قرآن کریم ان جزئیات کی تفصیل مہیا نہیں کرتا تو یہ انسان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔

مجھے تو قرآن مجید میں ان نام نہاد حامیوں کی سادہ لوحی پر بےاختیار ہنسی آتی ہے ، جو قرآن مجید کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت کرتے ہیں جو اس کا حصہ نہیں اور نہ وہ اس کے مقاصد میں شامل ہیں ۔ یہ لوگ قرآن مجید سے علم طب ، علم کیمیا اور علم فلکیات کی جزئیات ثابت کرتے ہیں ۔ کیا ان لوگوں کے نزدیک قرآن مجید کی عظمت ثابت کرنے کے لئے یہی بات رہ گئی ہے ؟

اپنے موضوع کے اعتبار سے بالیقین قرآن کریم ایک عظیم وکامل کتاب ہے اور ان تمام علوم کے مقابلے میں قرآن کا موضوع ایک عظیم الشان موضوع ہے ۔ کیونکہ اس کا موضوع خود انسان ہے ۔ ادراک (جس سے یہ علوم عبارت ہیں ) کا سرچشمہ انسان کی قوت مدرکہ ہے جو انکشافات کرتی ہے اور دنیا میں انسان ان سے جو فائدہ اٹھاتا ہے ۔ تحقیقات وتجربات اور ان سے نتائج کا اخذ کرنا عقل کے خواص ہیں اور عقل خود انسان کا ایک جزء ہے اس کے مقابلے میں قرآن مجید کا موضوع خود انسان کی تشکیل وتکوین ہے ۔ اس کی شخصیت کی تعمیر ، اس کے ضمیر ، اس کی عقل اور اس کی فکر کی تعمیر ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید ایک صالح انسانی معاشرہ کی تعمیر سے بحث کرتا ہے جس میں انسان ان قوتوں کو کام میں لائے جو اللہ تعالیٰ نے نفس انسان میں ودیعت کی ہیں ۔ جب ایک سلیم الطبع انسان صحیح تصور حیات ، صحیح فکر ، پختہ شعور پالیتا ہے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ اسے مل جاتا ہے جس میں وہ آزادی سے کام کرتا ہے تو پھر قرآن مجید اسے آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ سائنس اور دوسرے علوم کے میدان میں وہ تحقیقات اور تجربے کرے ۔ قرآن صرف صحیح فکر ، صحیح شعور اور صحیح تصور حیات کے معیار مقرر کردیتا ہے اور بس۔

قرآن کریم بعض اوقات اس کا ئنات کے وجود کے بارے میں اور اس کے اجرام کے باہمی ربط اور پھر کائنات اور اس کے خالق کے درمیان ربط کے بارے میں صحیح فکر دینے کے لئے کچھ آخری حقائق بیان کرتا ہے ۔ یہ وہ حقائق ہوتے ہیں جن پر علم طبیعات جاکر ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا ان حقائق کے ساتھ ہمیں عقل انسانی کے ان مفروضات کو نہیں ملانا چاہئے جو انسانی نظریات ہیں اور جنہیں عوام سائنسی حقائق کہتے ہیں ۔ اور جن تک انسان ان تجربات کے نتیجے میں پہنچا ہے اور جنہیں وہ قطعی اور آخری حقائق سمجھتا ہے ، اس لئے قرآن کریم جن حقائق کا ذکر کرتا ہے وہ قطعی اور انتہائی ہیں ۔ لیکن وہ حقائق جن تک انسان بذریعہ عقل و تجربہ پہنچتا ہے ۔ وہ آخری اور قطعی ہرگز نہیں ہوتے ۔ وہ انسان کے تجربات ، میسر آلات کے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں اور آلات کی قوت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ، لہٰذا یہ حقائق فہم انسانی اور اس کو میسر آلات کی قوت کی حد تک ہی ہوسکتے ہیں ۔ خود انسانی تحقیقات اور تجربات کے جو مسلم اصول ہیں ان کے مطابق بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کے انسان کی دریافت کردہ حقائق ، قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق کے مقابلے میں معیار صحت ہوسکتے ہیں ، کیونکہ یہ حقائق علم بشری کے حدود تک ہیں ۔ (اور قرآنی حقائق علم بشری سے ماوریٰ ہیں)

یہ تو تھی بات سائنسی تجربات کی ۔ رہے وہ نظریات یا مفروضات جنہیں سائنسی اور علمی کہا جاتا ہے ۔ مثلاً فلکیات کے بارے میں نظریات ، انسان کی تخلیق اور ترقی کے بارے میں نظریات ، انسان کی نفسیات اور اس کے طرز عمل کے بارے میں نظریات ، انسانی معاشرے اور اس کی ترقی کے بارے میں نظریات ، یہ سب نظریات معروضی ہیں اور انسانی قیاس اور گمان پر مبنی ہیں ۔ انہیں کسی مفہوم میں بھی سائنسی حقائق نہیں کہا جاسکتا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظریات ، اس کائنات کے مظاہر ، انسانی زندگی ، انسانی نفسیات اور انسانی معاشرے کی تفسیر وتشریح ہیں اور ان کی اصلیت یہ ہے کہ ایک نظریے کی جگہ دوسرا نظریہ لیتا چلا آرہا ہے ۔ ان کا اعتبار اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک دوسرا نظریہ اس کی جگہ نہیں لے لیتا۔

یہی وجہ ہے کہ یہ مفروضات اور یہ نظریات ہمیشہ تغیر اور تبدل کے قابل ہوتے ہیں اور ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض اوقات تو وہ یکلخت الٹ ہوجاتے ہیں ، اس لئے کہ بعض اوقات انسان تجربات اور ملاحظہ کا کوئی جدید اور زیادہ طاقتور آلہ دریافت کرلیتا ہے ۔ یا بعض اوقات جب انسان ان تمام مشاہدات کو اکٹھا کرتا ہے اور ان پر مجموعی حیثیت سے غور کرتا ہے تو وہ ایک جدید نظریہ اور مفروضہ قائم کرلیتا ہے ۔

وہ کوشش اور تفسیر ، جو ان عام قرآنی اشارات کو سائنس کے متغیر ومعتبدل نظریات سے وابستہ کرتی ہے ، یا ان سائنسی حقائق سے وابستہ کرتی ہے جو بذات خود آخری اور قطعی نہیں ہیں تو ایسا نتیجہ مرتب نہیں ہوتا جسے قطعی کہا جاسکے ۔ یہ کوشش ایک تو خود سائنس کے منہاج بحث وتحقیق کے خلاف ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایسی کسی کوشش کے فوائد ومقاصد صرف تین ہوسکتے ہیں اور تینوں ایسے ہیں جو قرآن مجید کے شان جلالت اور علو مرتبت کے منافی ہیں ۔

1۔ یہ ایک قسم کی اندرونی اور ذہنی شکست خوردگی ہے جو لوگ اس ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید سائنس قرآن مجید پر غالب ہے اور اس سے برتر درجہ رکھتی ہے ۔ یہ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح میں سائنس کے اکتشافات بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن مجید خود اپنے موضوع پر ایک مکمل کتاب ہے ۔ اور اس نے جو حقائق بیان کئے ہیں وہ آخری حقائق ہیں ، جبکہ سائنس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے موضوع کے ہر دائرے میں ناقص ہے ۔ وہ آج جس حقیقت کو ثابت کررہی ہے ، کل خود اس کی تردید کردیتی ہے ۔ سائنس کی رسائی جہاں تک بھی ہو ، وہ آخری اور مطلق نہیں کہلاسکتی ۔ سائنس کی ہر دریافت ، انسانی قوات ، اس کے عقلی ادراکات اور اس کے آلات معاونہ کے حدود وقیود کے ساتھ مقید ہوتی ہے اور یہ سب ادوات وآلات ایسے ہیں جو اپنے مزاج وساخت کے اعتبار سے کوئی ایک آخری اور مطلق حقیقت کو گرفت میں نہیں لاسکتے ۔

2۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ایسے حضرات نے سرے سے قرآن مجید کے مزاج اور اس کے مقاصد ہی کو نہیں سمجھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید آخری اور مطلق حقائق کا مجموعہ ہے اور وہ انسان کی تعمیر وتربیت بعینہ ایسے انداز میں کرنا چاہتا ہے جو نوامیس فطرت اور اس کائنات کے مزاج کے خلاف نہ ہو اور جہاں تک انسانی مزاج اس کا متحمل ہو۔ یہ اس لئے کہ انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے درمیان کوئی تصادم نہ ہو ، بلکہ انسان اس کائنات کے راز معلوم کرے ، قوانین فطرت دریافت کرے اور انہیں اپنے منصب خلافت فی الارض کے فرائض سر انجام دینے میں استعمال کرے ۔ ان قوانین فطرت کو جو مکمل فکر ونظر ، تحقیق وتطبیق اور عمل و تجربہ کے نتیجے میں خود اس نے حاصل کئے ہوں ۔ یہ نہ ہو کہ اسے کوئی تیار علوم دے دے اور وہ انہیں من وعن تسلیم کرلے۔

3۔ تیسری قباحت یہ ہے کہ ان حضرات کو بڑے ہی تکلف اور چالاکی کے ساتھ ، آیات قرآنی میں مسلسل تاویل کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ حضرات ان آیات کو اٹھائے ہوئے ، بےآبروئی کے ساتھ ان سائنسی نظریات اور مفروضات کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں ، جنہیں کوئی ثبات وقرار حاصل نہیں ہے ۔ ان نظریات کے شب وروز میں تو ہر شب تاریک تر ہوتی جارہی ہے اور ہر دن ایک نیا نظریہ لے کر آتا ہے جو سابق نظریہ کو باطل کردیتا ہے ۔ کیا ہم بھی سابق تفاسیر کو باطل کرتے چلے جائیں ؟

جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ، یہ انداز فکر ، نہ صرف یہ ہے کہ قرآن عظیم کی شان و عظمت و جلالت کے خلاف ہے ، بلکہ خود سائنس کے منہاج تحقیق و تجربہ کے بھی خلاف ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ سائنس نے اس کائنات ، نسل انسانی اور زندگی کے بارے میں جو حقائق ونطریات پیش کئے ہیں یا مسلسل دریافت ہورہے ہیں ، ہم قرآن مجید کے فہم وادراک میں ان سے کام نہ لیں اور انہیں بالکل نظر انداز کردیں ۔ ہرگز نہیں ۔ ہماری مراد یہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود فرماتے ہیں :

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ(53) ” عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ “

اس آیت کا مقتضا یہ ہے کہ ہم نفس انسانی اور آفاق کے متعلق سائنس کی فراہم کردہ تازہ بتازہ معلومات پر مسلسل غور وفکر کرتے رہیں اور اپنی اس محدود قوت مدرکہ اور دائرہ تصور میں ، قرآنی مدلولات ومفاہیم کا دائرہ وسیع کرتے چلے جائیں۔

یہ کیسے ؟ اور پھر بغء یر اس قباحت کے قرآن مجید کے مطلق اور آخری مطالب کو ان سائنسی اکتشافات سے وابستہ بھی نہ کریں جو آخری نہیں ہیں جو مطلق نہیں ہیں ، اضافی ہیں ۔ یہاں ایک مثال مفید طلب ہے :

قرآن کریم میں ہے وَخَلَقَ کُلَّ شَئٍ فَقَدَّرَہُ تَقدِیرًا ” اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ، پورے پورے اندازے سے ۔ “

جب سائنس نے ترقی کی تو معلوم ہوا کہ اس کرہ ارض پر بعض نہایت ہی پنہاں سہولتیں ہیں ، بعض نہایت ہی دقیق ہم آہنگیاں ہیں ۔ یہ کرہ ارض ، اپنی اس مخصوص ہیئت کے ساتھ ، سورج سے اس مخصوص فاصلے پر ، چاند سے ایک متعین بعد پر ، سورج اور چاند کے مقابلے میں ایک حساس حجم لئے ہوئے ، اس قدر تیزی سے رواں دواں ، اپنے محور کے گرد ایک خاص انداز میں جھکا ہوا ، اس موجودہ پانی اور سطح کے ساتھ اور ان کے علاوہ اپنی ہزاروں دوسری خصوصیات کے ساتھ ، صرف یہ کرہ ارض ہی اس قابل ہے کہ یہاں زندگی اور زندگی کے دوسرے ملحقات قائم رہ سکتے ہیں ۔ ان حقائق میں سے کوئی بھی عارضی انتظام نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ کام بغیر کسی منصوبے کے یوں اتفاقاً ہورہا ہے ۔ ان حقائق کا سائنٹیفک مطالعہ قرآن مجید کی اس آیت میں کس قدر وسعت پیدا کردیتا ہے : وَخَلَقَ کُلَّ شَئٍ فَقَدَّرَہُ تَقدِیرًا

ذرا سوچئے اکتشافات جدیدہ نے اس آیت کے مفہوم کو کیا وسعت دے دی ہے ۔ پوری سائنس آیت کی تفسیر ہوگئی ، لہٰذا قدرت کی مزید کاریگری معلوم کیجئے اور یوں آیت کے مفہوم کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جائیے۔

قرآن کریم میں ہے خَلَقَ الاِنسَانَ مِن سُلٰلَةٍ مِّن طِینٍ ” اس نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ۔ “ صدیوں بعد والاس اور ڈارون نظریہ ارتقا پیش کرتے ہیں ۔ وہ فرض کرتے ہیں کہ زندگی کا آغاز ایک خلیہ سے ہوا ۔ اس خلیہ نے پانی میں نشوونما پائی ۔ وہ خلیہ ارتقا کی منزلیں طے کرتے کرتے موجودہ انسان پر منتج ہوا۔ ضرورت تھی کہ اس نظریئے کو علمی معیار پر پرکھا جاتا ، لیکن ہم دوڑے قرآن مجید کو اٹھاتے ہوئے ، نہایت بےآبروئی کے ساتھ اس نظریہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ اسے قرآن کی تفسیر بنادیا۔

اول تو یہ نظریہ کوئی آخری نظریہ نہیں ہے ۔ ابھی ایک صدی بھی نہیں گزری کہ اس میں بیشمار رتبدیلیاں رونما ہوگئیں ۔ قریب ہے کہ سرے سے پورا نظریہ ہی ختم ہوجائے ۔ کیونکہ یہ ناقص معلومات پر مبنی تھا اور اس کی کمزوریاں ظاہر بھی ہوچکی ہیں ۔ مثلاً حیوانات کے ہر نوع کے کچھ موروثی خصائص ہوتے ہیں اور ہر نوع کی مروثی اکائیان ان کا تحفظ کرتی ہیں ۔ یہ ایک نوع کو دوسرے نوع کی طرف منتقل ہونے ہی نہیں دیتیں ۔ یہ ایک ایسا نقص ہے جس کے ذریعہ سرے سے یہ نظریہ ہی ختم ہوسکتا ہے اور آج نہیں تو کل یہ نظریہ ختم ہوگا۔ جبکہ قرآن مجید آخری حقائق پر مشتمل ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ قرآن مجید کا مفہوم یہی ہو جو نظریہ ارتقاء نے پیش کیا ۔ قرآن نے تو صرف انسانی کی اصلی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے ، انسان کی نشوونما کی تفصیلات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اصل تحقیق ایک آخری حقیقت ہے ۔ وہ آخری نقطہ جہاں سے وجود انسان کا آغاز ہوا بس یہی آیت کا مفہوم ہے ۔ اس کی مزید تفصیلات کیا تھیں ان کا ذکر یہاں نہیں ہے ۔

قرآن مجید نے کہا وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا (یٰس : 38) ” اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے ۔ “ اس آیت میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ سورج چلتا ہے ۔ سائنس کی دریافت ہے کہ سورج اپنے اردگرد کے تاروں کی نسبت سے تو 12 میل کی سیکنڈ کی رفتار سے چلتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی کہکشاں کو لئے ہوئے ، جس کا وہ خود بھی ایک ستارہ ہے ، 170 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلا جارہا ہے ، لیکن سائنس کی یہ معلومات بھی قرآن مجید کی اس کا آیت عین مدلول نہیں ہیں ۔ کیونکہ سائنس نے ابھی تک جو کچھ دریافت کیا ہے وہ نسبتی ہے ۔ آخری علم یا حقیقت نہیں ۔ اس میں تبدیلی ہوسکتی ہے ۔ رہی آیت تو اس میں اس آخری حقیقت کا اظہار ہوا ہے کہ سورج چلا جارہا ہے۔ بس ہم اس رفتار کو کسی سائنسی رفتار سے وابستہ نہیں کرسکتے جو بذات خود متبدل ہے ۔

ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے : اَوَلَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاھُمَا ” کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے ) انکار کردیا غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے انہیں جدا کیا۔ “ سائنس ایک نظریہ پیش کرتی ہے ۔” یہ کہ کرہ ٔ ارض سورج کا ایک حصہ تھا ، جو اس سے جدا ہو “ اور ہم بھاگے ، سانس پھولا ہوا ، زبان نکلی ہوئی ۔ ہم نے کوشش کی کہ اس نظریہ کو اٹھالیں اور قرآن مجید کی آیت کو لے جاکر اس سے ملادیا ۔ اور کہنے لگے بس یہی تو ہے جس کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے ۔

ہرگز نہیں ، یہ ہمارا مقصد کبھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سائنس کا یہ تو کوئی آخری نظریہ نہیں ہے ۔ زمین کی طبیعاتی تشکیل کے لئے کئی سائنسی نظریات موجود ہیں ۔ کئی ہوسکتے ہیں رہا قرآن مجید تو اس نے فقط یہ کہا ہے اور جو آخری حقیقت ہے کہ زمین آسمان سے جدا ہوئی ہے اور بس ۔ وہ کیسے جدا ہوئی ؟ آسمانوں کے کس حصے سے جدا ہوئی ؟ ان تفصیلات کا ذکر آیت نے نہیں کیا ہے ، لہٰذا اس موضوع پر سائنس جو نظریہ پیش کرے ، جس مفروضے پر چاہے بحث کرے ، ہم یہ نہیں کرسکتے کہ آیت کا مفہوم سائنس کے موجودہ نظریئے کے مطابق ہے اور یہی آخری ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کی مناسبت سے یہاں یہ تفصیل کافی ہے ۔ یہاں ہمارا مقصد صرف یہ تھا کہ سائنس کے انکشافات کو آیت کے فہم اور آیات کے مفہوم میں وسعت اور عمق پیدا کرنے کے لئے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ بغیر اس قباحت کے کہ ہم کس آیت کو سائنس کے کسی نظریہ کے ساتھ وابستہ کردیں اور وہ بھی اس طرح کہ دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے ، دونوں کو ایک دوسرے کا مصداق گردانا جائے ۔ ہمارا مقصد صرف یہ تھا کہ ان دونوں صورتوں میں فرق کرلیا جائے۔ اب ہم قرآن کی اصل عبارت کی طرف لوٹتے ہیں : وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” نیز ان سے کہو ! یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو۔ نیکی تو دراصل یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضگی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “

آیت کے دونوں حصوں کے درمیان ربط یہ ہے کہ پہلے حصے میں بیان کیا گیا کہ چاند کی بڑھتی گھٹتی شکلیں اوقات مناسک حج کے تعین کی خاطر ہیں اور دوسرے حصے میں دو رجاہلیت کی اس رسم کی اصلاح کردی گئی جو ایام حج سے وابستہ تھی ۔ (بخاری ومسلم میں حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں : انصار کا رواج یہ تھا کہ جب وہ حج کرنے جاتے تو واپسی کے وقت گھروں میں دروازوں کی جانب سے داخل نہ ہوتے ۔ ایک بار ان کا ایک آدمی آیا وہ سیدھا دروازے کی طرف سے داخل ہوگیا ۔ لوگوں نے اسے ملامت کی ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،” یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو ، نیکی تو دراصل یہ ہے کہ آدمی ، اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے میں سے آیا کرو۔ “

ابوداؤد نے شعبہ بن اسحاق ؓ اور براء بن عازب ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ :” انصار جب کسی بھی سفر سے لوٹتے تو دروازے کی جانب سے داخل نہ ہوتے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ “

یہ رسم چاہے ہر سفر کے موقع پر ہو یا صرف حج میں ہو (سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حج میں تھی) بہرحال ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ نیکی کا کوئی کام ہے ۔ ایمان کا جزء ہے ۔ قرآن کریم نے اس باطل تصور کو ختم کردیا کیونکہ یہ ایک فضول حرکت تھی ۔ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی ۔ نہ اس میں کوئی دنیاوی فائدہ تھا ۔ قرآن کریم نے نیکی کا صحیح تصور دے دیا کہ نیکی خدا خوفی کا نام ہے ۔ ظاہر و باطن میں اللہ کی نگرانی اور اس کے وجود کا پختہ شعور ہی نیکی ہے ۔ وہ کسی ایسی ظاہری شکل کا نام نہیں ہے ، جس کے پس منظر میں کوئی ایمانی شعور کارفرما نہ ہو ، بلکہ محض ایک رسم جاہلیت ہی ہو۔

حکم دیا گیا کہ دور جہالت کی رسم و رواج ترک کرکے گھروں میں دروازے سے داخل ہوا کرو اور پھر اشارہ کیا کہ تقویٰ ہی راہ نجات ہے ۔ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “

یوں دلوں کو اصلی ایمانی حقیقت سے مربوط کردیا گیا ۔ یعنی تقویٰ کو ، دنیا وآخرت کی فلاح و بہبود سے جوڑا گیا۔ اور جاہلیت کی اس رسم کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا جس کے پس منظر میں کوئی ایمانی جذبہ نہ تھا اور مومنین کو متوجہ کردیا گیا کہ اللہ کی اس نعمت کو سمجھنے کی کوشش کریں جو اللہ نے چاند کی شکل میں ، ان کے اوقات اور مناسک حج کے تعین کے لئے فراہم کی گئی ہے ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک آیت میں ایسے اہم مضامین بیان فرمادیئے۔

اب جنگ کی عمومی بحث شروع ہوجاتی ہے ۔ پھر مخصوص طور پر مسجد حرام کے ساتھ ، ، حرم اور ممنوعہ مہینوں میں جنگ کے بارے میں احکام آتے ہیں ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت بھی دی جاتی ہے جو جہاد و قتال کے ساتھ گہرا ربط رکھتا ہے ۔ فرمایا :

اردو ترجمہ

اور تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqatiloo fee sabeeli Allahi allatheena yuqatiloonakum wala taAAtadoo inna Allaha la yuhibbu almuAAtadeena

بعض روایات میں آتا ہے کہ قانون جنگ کے سلسلے میں قرآن کریم کا یہ پہلا حکم ہے ۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان مومنین کو جن کے ساتھ کفار برسر پیکار تھے صرف جنگ کی اجازت دی تھی ۔ اس لئے کہ وہ مظلوم ہیں ۔ مسلمانوں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ اذن فرضیت جہاد کے لئے ایک تمہید ہے اور اللہ تعالیٰ اب اس زمین پر مسلمانوں کو تمکنت عطا کرنے والا ہے ، چناچہ سورة حج میں فرمایا :

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (39) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأرْضِ أَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأمُورِ (41)

” اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے ۔ صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ” ہمارا رب اللہ ہے “ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور مندر اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ “ وہ اس اذن کے معنی خود سمجھ گئے کیونکہ ان پر ظلم ہورہا ہے ، لہٰذا وہ ظلم کا بدلہ لے سکتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ ظلم کی مدافعت بھی نہ کرسکتے تھے ۔ وہاں انہیں حکم دیا گیا تھا : کُفُّوا اَیدِیکُم وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ ” ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ “

مکہ میں ہاتھ اٹھانے کی ممانعت بھی ایک خاص حکمت پر مبنی تھی ۔ اس حکمت کے بعض اہم پہلو ہم یہاں بیان کرتے ہیں :

1۔ جنگ اور مدافعت سے روکنے کا پہلا سبب یہ تھا کہ عرب مسلمانوں کے اندر ڈسپلن پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اطاعت امیر کے عادی ہوجائیں ، اپنی قیادت کے مطیع وفرماں ہو اور مدافعت اور قتال کے حکم کا انتظار کریں ۔ جاہلیت میں تو وہ سخت جنگجو تھے ۔ پہلی آواز پر آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور کسی خوشگوار بات کو دیکھ کر ان میں صبر کرنے کا مادہ تو تھا ہی نہیں ۔ انسانی تاریخ میں امت مسلمہ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس امت کی ایسی تربیت ہو اور اس کی سیرت کی تعمیر ایسی ہو کہ اس کی یہ تمام کمزوریاں ضبط ونظم میں ڈھل جائیں ، وہ ایک مقتدر ومدبر قیادت کے تابع فرمان بن جائیں ۔ اس حد تک تابع کہ وہ دور جاہلیت کی تمام عصبیتوں اور ناجائز عصبیتوں اور ناجائز طرفداروں کو چھوڑدیں ، جن کی حمایت میں وہ جنگ وجدل کے لئے کسی پکارنے والے کی پہلی پکار پر اٹھ کھڑے ہوجاتے تھے ۔

یہی تعمیر سیرت تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر بن الخطاب ؓ جیسے پرجوش شخص اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اور ان جیسے نڈر اشخاص امت مسلمہ کو سخت مصائب و شدائد میں دیکھتے اور اف تک نہ کرتے ۔ اس لئے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رسول ﷺ کی ہدایت کے مطابق اپنے آپ کو پوری طرح کنٹرول میں رکھیں ۔ اپنی ہائی کمان کی پوری اطاعت کریں اور قیادت عالیہ کا حکم تھا ۔

کُفُّوا اَیدِیکُم وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ ” ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ۔ “

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر پائی جانے والی تیزی سے کود پڑنے اور سوچنے سمجھنے ، جلد بازی اور تدبر اور حمیت اور اطاعت امر جیسی متضاد صفات کے درمیان توازن قائم ہوگیا اور پھر عرب جیسی بےحد ، پرجوش اور جنگجو قوم میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں میں اس قسم کی تربیت کا کامیاب ہونا اور ان کے اندر ڈسپلن کا پیدا ہونا ہی ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔

2۔ دوسرا اہم سبب جس کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو قتال سے روکا گیا تھا وہ یہ تھی کہ عرب معاشرہ ایک بہادر اور شریف معاشرہ تھا۔ لوگ خود دار اور عزت نفس کے مالک تھے ۔ مسلمانوں میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے تھے لیکن اس کے باوجود جب وہ مظالم پر صبر کرتے ، کئی شرفاء کی عزت نفس اور شرافت میں جوش آجاتا اور ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہوجاتے ۔

اس کا اظہار عملاً اس وقت ہوا جب قریش نے بنی ہاشم کے ساتھ بائیکاٹ کیا اور وہ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے ۔ قریش کا مطالبہ یہ تھا کہ بنی ہاشم حمایت رسول سے دستبردار ہوجائیں ۔ جب بنی ہاشم پر مصائب ناقابل برداشت ہوگئے تو بعض غیور اور شرفاء کی بہادری اور غیرت جوش میں آگئی ۔ انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ ڈالا ، جس کے مطابق انہوں نے بائیکاٹ کا معاہدہ کیا تھا۔ اور محض اس جذبہ شرافت کی وجہ سے یہ محاصرہ ختم ہوگیا ۔ جنگ اور مدافعت سے ہاتھ روکنے کی مکی پالیسی میں رسول برحق ﷺ نے عربوں کے ان جذبات کو پیش نظر رکھا تھا۔ اگر رسول ﷺ کی سیرت کا مطالعہ بحیثیت قائد تحریک کیا جائے تب ان حکمتوں کا اظہار ہر جگہ ہوتا ہے۔

داعی اسلام ﷺ کا یہ منشاء ہی نہ تھا کہ اسلام کی وجہ سے گھر گھر میں خونریزی شروع ہوجائے کیونکہ ہر خاندان میں سے کوئی نہ کوئی مسلمان تھا اور مسلمانوں کو ایذا رسانی میں ، اور انہیں دین اسلام سے روکنے میں ، خود مسلمانوں کے اپنے خاندان پیش پیش تھے ۔ وہاں کوئی منظم حکومت نہ تھی جو مسلمانوں پر تشدد کررہی تھی ۔ اگر اس مرحلے میں مسلمانوں کو یہ اجازت دے دی جاتی کہ وہ اپنی مدافعت میں جنگ کریں تو نتیجہ یہ ہوتا کہ گھر گھر میں فساد رونما ہوتا اور خاندان سے خاندان ٹکراتا اور خانہ جنگی شروع ہوجاتی ۔ ایسی صورت رونما ہوتی تو لازمی طور پر یہ تاثر قائم ہوجاتا کہ اسلام نے گھر گھر اور خاندان میں فتنہ و فساد کے شعلے بھڑکادئیے ہیں۔

ہجرت کے بعد صورتحال بالکل جدا ہوگئی ، اب جماعت اسلامی مدینہ طیبہ میں ایک مستقل اور منظم وحدت تھی اور اس کا مقابلہ مکہ مکرمہ کی ایک منظم برادری سے تھا جس میں افواج کی تنظیم ہورہی تھی اور وہ فوج تحریک اسلامی کے خلاف حملہ آور ہورہی تھی ۔ یہ صورتحال مکہ مکرمہ کی صورتحال سے بالکل مختلف تھی ۔ گویا واضح طور پر اپنی حفاظت کا مسئلہ سامنے تھا اور یہ حفاظت افراد کے بجائے پوری ملت تھی ۔ یہ ہیں وہ اسباب جو ایک انسان اپنے محدود ذہن کے ساتھ ، اس بارے میں سوچ سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو تشدد وبربریت کا جواب دینے سے کیوں روکا گیا تھا۔

ان اسباب کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسلمان تعداد کے اعتبار سے بہت ہی کم تھے ، پھر وہ مکہ مکرمہ میں محصور تھے ، اگر وہ مقابلہ شروع کردیتے تو ان کے خلاف فوراً مقاتلہ شروع ہوجاتا اور ان کا مقاتلہ ایسے لوگوں سے ہوتا جو ہر لحاظ سے ان کے مقابلے میں طاقتور اور بارسوخ تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعداد میں اجافہ ہوجائے اور وہ اپنے مستقل دارالحکومت میں علیحدہ ہوکر مجتمع ہوجائیں ۔ جب یہ کام ہوگئے تو انہیں جہاد و قتال کی اجازت دے دی گئی۔

بہرحال اس کے بعد ، تدریج کے ساتھ ، جزیرۃ العرب اور عرب سے باہر کے علاقوں میں ، حسب ضرورت مسلمانوں کو جنگ کے احکام دئیے جاتے رہے ۔

زیر بحث آیات اس سلسلے کی ابتدائی آیات ہیں اور ان میں قتال کے بعض ایسے احکام دئیے گئے ہیں جو اس وقت کے بنیادی متحارب کیمپوں میں ، اسلامی کیمپ اور مشرکین کے کیمپ کے درمیان محاذ آرائی کے لئے مناسب اور ضروری تھے ۔ جبکہ بعض احکام ایسے بھی ہیں جو اصولی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر جنگ میں عموماً ایسے حالات پیش آسکتے ہیں ۔ ان احکام میں معمولی رد وبدل سورت براءت کے احکام کے ذریعہ ہوا ہے۔

یہاں ، تفسیر آیات قتال سے پہلے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کے موضوع پر ایک مختصر نوٹ دے دیا جائے تاکہ آیات قتال اور دوسری آیات کی تفسیر کے لئے اساس کا کام دے ۔

اسلامی نظریہ ٔ حیات اپنی آخری شکل و صورت میں یعنی دین اسلام کی صورت میں رونما ہوا ۔ مقصد یہ تھا کہ اب سے یہ تمام انسانیت کی زندگی کا اصول بن جائے ۔ تمام انسانیت کا نظام زندگی قرار پائے اس نظام اور اس منہاج کو لے کر امت مسلمہ اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے پوری انسانیت کی قیادت کرے۔ یہ نظام زندگی ایک ایسا نظام ہے کہ یہ اس کائنات کے وسیع تر تصور پر مبنی ہے ۔ وجود انسانی کے اصل اور حقیقی مقاصد کی اساس پر تعمیر شدہ ہے اور اس کی توضیح وتشریح ایک کتاب میں کردی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ خالق کائنات کی جانب سے اتاری گئی ہے۔ نیز اس امت نے راہنمائی بھی ایک خالص بھلائی اور خیر محض کی طرف کرنی ہے ، جو کسی دوسرے جاہلی نظام میں نہیں ہے اور انسانیت کو ایک ایسے مقام بلند تک پہنچایا جہاں تک وہ اسلامی نظام زندگی کے سوا ، کسی اور نظام کے ذریعے نہیں سکتی ۔ اسے ایسی نعمت سے سرفراز کرنا ہے جس کے مقابلے میں کوئی نعمت نہیں ہے ۔ اسلام یقیناً وہ نظام زندگی ہے کہ اگر اس سے انسانیت محروم ہوجائے تو پھر اس کے لئے نجات و فلاح نہیں ہے۔ اگر انسانیت کو اس نیکی سے محروم کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ اسے جس بلندی ، جس پاکیزگی اور جس سعادت و کمال تک پہنچانا چاہتا ہے ، اسے اس سے روک دیا جائے تو انسانیت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور اس سے بری زیادتی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے ۔

یوں انسانیت کا یہ حق ہوجاتا ہے کہ اسلام کے اس مکمل نظام زندگی کی دعوت پوری انسانیت تک آزادی کے ساتھ پہنچ سکے ۔ اور اس کی راہ میں یعنی دعوت اسلامی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، اور کوئی حکومت بھی کسی صورت میں سدراہ نہ بن سکے ۔

ادھر انسانیت پر یہ لازم تھا کہ جب لوگوں تک دعوت اسلامی پہنچے تو وہ اس کے رد و قبول میں بالکل آزاد ہوں ۔ دین قبول کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ کوئی حکومت سد راہ بنی ہوئی نہ ہو ۔ اگر کوئی شخص اسلامی نظام کو قبول کرتا ہے تو حکومت رکاوٹ نہ ڈالے ، نیز اسے اختیار نہ ہو کہ دعوت اسلامی کو اپنی منزل تک بڑھنے سے روکے ۔ علاوہ ازیں انسانیت کا یہ بھی فرض تھا کہ اسلام قبول کرنے والوں کو اطمینان اور آزادی کی ضمانت دے اور تبلیغ دین کے سلسلے میں تحریک اسلامی کی راہ میں جو مشکلات درپیش آرہی ہیں وہ انہیں دور کردے ۔ اس سلسلے میں کارکنان دعوت اسلامی پر کوئی زیادتی نہ ہونے پائے ۔

اگر اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت نصیب فرمائے اور وہ دعوت اسلامی کو قبول کرلیں تو ان کا یہ بنیادی حق ہے کہ ان پر کسی قسم کا ظلم اور زیادتی نہ ہو ۔ ان پر تشدد نہ ہو اور ان کے خلاف اشتعال نہ ہو ۔ ان کی راہ میں اس قسم کی رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں جن کا مقصد لوگوں کو اسلامی نظام سے روکنے کے سوا اور کچھ نہ ہو۔

تحریک اسلامی کے کارکنان کے فرائض میں یہ بات داخل تھی کہ وہ قوت کے ساتھ تشدد اور اشتعال کا مقابلہ کریں تاکہ دنیا میں آزادی رائے جیسے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاسکے اور وہ لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں جنہوں نے اس دین کو اپنانا ہے تاکہ زندگی میں اسلامی نظام رائج ہو اور انسانیت اس بھلائی اور نیکی سے محروم نہ ہو۔ ان بنیادی حقوق کے قیام کے نتیجے میں جماعت مسلمہ پر ایک اور ذمہ داری یہ عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ہر اس قوت کو پاش پاش کردے جو دعوت اسلامی اور اس کی تبلیغ کے آڑے آئے ۔ یا وہ حق آزادی رائے کو چیلنج کرے یا وہ ایسے لوگوں پر تشدد کرے جنہوں نے دین ونظریہ کے معاملے میں آزادی سے کوئی نظریہ قبول کرلیا ہے ۔ امت مسلمہ کا یہ فرض اس وقت تک ہے جب تک اسلامی نظام قبول کرنے والوں کے لئے کوئی تشدد باقی رہتا ہے اور نظام زندگی صرف اللہ ہی کا رائج نہیں ہوجاتا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگوں کو اسلامی نظام زندگی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کردیا جاتا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام غالب ہونا چاہئے یوں کہ جو شخص بھی دین اسلام میں داخل ہونا چاہے اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو ، دنیا میں کوئی ایسی قوت نہ ہو جو کسی کو دین اسلام قبول کرنے سے روکے ، یا اس کی تبلیغ کرنے سے روکے ، یا اس دین پر قائم رہنے سے روکے ۔ دنیا میں کوئی ایسانظام نہ ہو جو اللہ کی ہدایت اور اس روشنی کو چھپا رہا ہو اور اس کے تحت رہنے والوں تک یہ ہدایت و روشنی پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہو ، یا عوام کو اللہ کے اس راہ سے گمراہ کیا جارہا ہو ، چاہے اس رکاوٹ کی نوعیت جو بھی ہو ۔

یہ تھے وہ بنیادی مقاصد جن کے لئے اسلام نے جہاد فی سبیل اللہ کو فرض کیا ہے ۔ یہ جہاد صرف انہی مقاصد عالیہ کے لئے تھا ، ان کے علاوہ اسلام کے پیش نظر اور کچھ نہ تھا ۔ نہ کوئی اور مقصد نہ کوئی اور رنگ ۔

یہ جہاد اسلامی نظریہ حیات کے لئے تھا ، کافرانہ نطریاتی پھیلاؤ کا محاصرہ توڑنے کے لئے تھا ، نظریہ ٔ تشدد کے خلاف تھا ، اور زندگی میں اسلامی نظام کے بچاؤ اور اسلامی شریعت کے قیام کے لئے تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کرہ ارض پر اسلامی جھنڈے بلند کردئیے جائیں ، اس طرح کہ اسلامی نطریہ حیات کے مخالفین دشہت زدہ ہوجائیں اور ہر وہ شخص جو اسلامی نظام زندگی میں دلچسپی رکھتا ہے ، وہ اس میں داخل ہوجائے اور اسے دنیا کی کسی قوت کی جانب سے یہ خوف نہ ہو کہ اسے روکا جائے گا ۔ اس پر تشدد ہوگا۔

یہ ہے اور صرف یہی ہے وہ جہاد جس کا اسلام نے حکم دیا تھا اور یہ ابھی تک برقرار ہے اور اسلامی نظام اس پر قائم ہے جو لوگ اس میں کام آئیں اسلام کی نظر میں شہید ہوتے ہیں اور جو لوگ جہاد کے مصائب برداشت کرتے ہیں وہ غازی اور اولیاء اللہ کہلاتے ہیں ۔

یہ تھی وہ صورتحال جس سے مدینہ طیبہ میں جماعت مسلمہ دوچار تھی اور جس کے بارے میں سورة بقرہ کے اس سبق کی یہ آیات نازل ہوئیں ، مشرکین قریش نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا تھا ۔ انہیں محض اس لئے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں ۔ ان کو صرف یہ اعتراض تھا کہ انہوں نے آزادانہ طور پر کیوں ایک نظریہ حیات قبول کرلیا ہے ۔ ان حالات میں خصوصی ہدایت کے ساتھ ساتھ یہ آیات اسلام کے نظریہ کے لئے قاعدہ کلیہ بھی بیان کردیتی ہیں جو یوں ہے کہ مسلمانو ! تم ان لوگوں سے جنگ کرو جنہوں نے تم سے ناحق جنگ کی اور ابھی تک برسر جنگ ہیں اور آئندہ بھی تمہارے لئے یہی ہدایت ہے کہ جو تم سے لڑے اس سے لڑو ۔ مگر زیادتی نہ کرو۔ ارشاد ہوا ! وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ” اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “

آیات قتال میں سے یہ پہلی آیت ہے اور پہلی آیت ہی میں قتال کے مقاصد کے بارے میں قطعی فیصلہ کردیا گیا اور واضح طور پر بتادیا گیا کہ وہ کون سا علم ہے جس کے تحت مسلمانوں کو معرکہ جہاد سر کرنا ہے۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ

” اور اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے لڑو ، جو تم سے لڑتے ہیں۔ “

یہ جہاد ، یہ قتال صرف اللہ کے لئے ہے اور انسان نے طویل انسانی تاریخ میں ، جن معروف مقاصد کے لئے زبردست جنگیں لڑیں ان میں سے کوئی مقصد بھی اسلامی جہاد کو مطلوب نہیں ہے۔ نہ خاندانی شرف کے لئے ، نہ علو فی الارض اور برتری کے لئے ، نہ دولت وغنیمت کے لئے ، منڈیوں اور خام اشیاء پر قبضے کے لئے ، نہ کسی طبقے پر دوسرے کی سیادت کے قیام کے لئے اور نہ کسی نسل پر کسی نسل کی حکومت کے لئے ۔ اسلامی جہاد صرف ان مقاصد کے لئے ہے جن کی تحدید اسلام نے کردی ہے ۔ دنیا میں اسلام کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ، اسلامی نظام زندگی کے نفاذ کے لئے ، مسلمانوں کو ظلم وتشدد سے بچانے کے لئے ، مسلمانوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچانے کے لئے ۔ غرض یہ ہیں اسلامی مقاصد ، ان کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے جو جنگیں لڑی جائیں وہ اسلامی جہاد کہلانے کی مستحق نہیں ہیں اور جو شخص بھی ایسی جنگوں میں حصہ لے گا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہے ۔ نہ ہی اللہ کے ہاں اس کا کوئی مقام ہے ۔

جنگ کے مقاصد کے تعین کے ساتھ ساتھ ، اس کی مقدار اور حد بھی مقرر کردی گئی :

وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ” مگر زیادتی نہ کرو ، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ “

زیادتی یوں ہوگی کہ جنگ لڑنے والے سپاہیوں کے علاوہ پرامن شہریوں کو بھی تکلیف دی جائے ، جو دعوت اسلامی کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں ، نہ ہی ان سے اسلامی جماعت کو کوئی خطرہ ہے ۔ مثلاً عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور جو لوگ اللہ کی عبادت کے لئے الگ ہوگئے ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب وملت سے متعلق ہوں حکم دیا گیا کہ جنگ میں ان حدود وقیود کو پامال نہ کیا جائے ، جو اسلام نے جنگ کے لئے مقرر کئے ہیں ۔۔ اسلام نے سب سے پہلے ، ان قباحتوں پر پابندی عائد کی جو جاہلیت میں عام طور پر معروف تھیں ۔ خواہ یہ جاہلیت قدیم ہو یا جدید ۔ یہ قباحتیں ہیں جن سے اسلامی نظام متصادم ہے ۔ جن سے اسلام کی روح ابا کرتی ہے ۔

اس سلسلے میں رسول ﷺ کی چند احادیث کا مطالعہ کیجئے ۔ آپ ﷺ کے ساتھیوں کی ہدایات پڑھیے ، ان سے ان آداب کا مزاج آپ پالیں گے۔ یہ وہ آداب جنگ ہیں ، جن سے انسانیت کا تعارف سب سے پہلے اسلام کے نظام جنگ کے مطالعہ کے بعد ہوا :

1۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں :” رسول ﷺ کے مغازی میں سے ایک موقعہ پر ایک عورت پائی گئی جسے قتل کردیا گیا تھا ، اس پر رسول ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل سے منع فرمایا۔ “ (مالک ، شیخین ، ابوداؤد اور ترمذی)

2۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا !” جب تم جنگ کررہے ہو ، تو اس وقت چہرے پر مارنے سے اجتناب کرو۔ “

3۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں !” ہمیں رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے لئے بھیجا ۔ اس موقع پر فرمایا :” اگر تم فلاں فلاں (قریش کے دو افراد) کو پاؤ تو انہیں آگ میں جلاؤ۔ “ جب ہم تیار ہوکر نکلنے لگے تو آپ نے فرمایا !” میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو آگ میں ڈالو ! لیکن آگ کے ساتھ اذیت دینا ، صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے ، لہٰذا حکم یہ ہے کہ اگر تم انہیں پاؤ تو دونوں کو قتل کردو۔ “ (بخاری ، ابوداؤد اور ترمذی)

4۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا !” جنگ میں سب سے زیادہ عفو و درگزر کرنے والے صرف اہل ایمان ہیں۔ “ (ابوداؤد)

5۔ عبدبن یزید انصاری سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں چوری اور قتل میں مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔

6۔ حضرت ابویعلیٰ ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں ہم عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کی قیادت میں شریک جنگ ہوئے۔ دشمن کے چار آدمی لائے گئے ۔ حکم دیا گیا کہ انہیں نیزے کے چپٹے حصے کی طرف سے قتل کیا جائے اور انہیں اس طرح قتل کیا گیا ۔ اس کی اطلاع حضرت ابویوب انصاری ؓ کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول ﷺ کو اذیت دے کر قتل کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ۔ اللہ کی قسم اگر مرغی ہوتی تو بھی میں اسے اذیت دے کر قتل نہ کرتا۔ جب اس کا علم عبدالرحمٰن ؓ کو ہوا تو انہوں نے چار غلام آزاد کئے ۔ (ابوداؤد)

7۔ حارث نے مسلم ابن حارث ؓ سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا ۔ جب ہم حملہ کی جگہ پہنچے تو میں نے گھوڑی کو ایڑ دی ۔ وہ میرے ساتھیوں سے آگے جانکلی ۔ میں نے دیکھا کہ آبادی کے لوگ (خوف کے مارے) چیخ و پکار کررہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا جلدی سے کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کا اقرار کرلو اور اپنے آپ کو بچالو ، انہوں نے کلمہ پڑھ لیا ۔ میرے ساتھیوں نے مجھے سخت ملامت کی اور کہنے لگے ، تم نے ہمیں مال غنیمت سے محروم کردیا ۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے واپس آئے ۔ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو میری حرکت سے آگاہ کیا ۔ آپ نے میری تعریف کی ۔ اس کے بعد مجھ سے کہا :” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ہر آدمی کے بدلے تمہارے لئے یہ یہ اجر لکھ دیا ہے۔ “ (ابوداؤد)

8۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ جب بھی کسی کو مجاہدوں کے دستے کا سردار مقرر کرتے یا کوئی سریہ بھیجتے تو انہیں سب سے پہلے خدا خوفی کی وصیت فرماتے ۔ پھر فرماتے کہ اپنے ساتھیوں سے حسن سلوک رکھو اور پھر فرماتے ” اللہ کے نام کے ساتھ لڑو ، اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے لڑو جنہوں نے کفر اختیار کیا ۔ لڑو لیکن غداری نہ کرو۔ مقتول کا مثلہ نہ کرو اور بچے کو نہ قتل کرو۔ “ (مسلم ، ابوداؤد اور ترمذی)

9۔ مالک نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی فوج کو وصیت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے یہ فرمایا ” تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے بزعم خود اپنے آپ کو اللہ کا کردیا انہیں ان کی حالت عزلت ہی میں چھوڑ دو ۔ عورت کو قتل نہ کرنا۔ بچے اور بہت زیادہ بوڑھے کو بھی قتل نہ کرنا۔ “

یہ ہے وہ جنگ جو اسلام فرض کرتا ہے اور یہ ہیں اسلام کے آداب جنگ ۔ وہ مقاصد جن کے لئے اسلام معرکہ جنگ برپا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور ان سب کا منبع قرآن مجید کا یہ حکم ہے ” اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو ، جو تمہارے ساتھ لڑیں اور زیادتی نہ کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “

قرون اول کے مسلمان اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ محض اپنی تعداد کے بل بوتے پر فتح حاصل نہیں کرسکتے ۔ ان کی تعداد تو بہت قلیل ہے ۔ وہ اپنی تعداد اور سازوسامان کی بدولت فتح مند نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ ان کا سازوسامان دشمن کے مقابلے میں بہت ہی قلیل ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ فتح صرف ایمان ، بندگی اور اللہ کی نصرت کے نتیجے میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کو ترک کیا تو وہ فتح ونصرت سے محروم ہوجائیں گے جو ان کا اصل سہارا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی جنگوں میں ان آداب جنگ کو سختی سے ملحوظ رکھتے تھے ۔۔ یہاں تک کہ یہ آداب انہوں نے اپنے ان ازلی دشمنوں کے ساتھ بھی ملحوظ رکھے جنہوں نے انہیں سخت سے سخت اذیتیں دی تھیں ۔ اور ان کے شہداء کی لاشوں کا مثلہ کیا تھا۔ ایک موقعہ پر رسول اللہ ﷺ کا غضب جوش میں تھا ، آپ نے بعض لوگوں کے جلادینے کے احکامات صادر فرمادیئے ، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آپ نے اپنے احکامات واپس لے لئے اور جلانے سے منع فرمایا۔ اس لئے کہ آگ کے ساتھ سزا صرف خاصہ خدا ہے۔

29