سورۃ البقرہ: آیت 168 - يا أيها الناس كلوا مما... - اردو

آیت 168 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُوا۟ مِمَّا فِى ٱلْأَرْضِ حَلَٰلًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا۟ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيْطَٰنِ ۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

اردو ترجمہ

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu kuloo mimma fee alardi halalan tayyiban wala tattabiAAoo khutuwati alshshaytani innahu lakum AAaduwwun mubeenun

آیت 168 کی تفسیر

سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ وہی ایک معبود اور اللہ ہے ۔ وہی ایک خالق ہے اور جو لوگ دوسروں کو اللہ ہمسر بناتے ہیں ۔ ایک شدید ان کا منتظر ہے ۔ اب یہاں بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے بندوں کا رازق بھی وہی ہے۔ حلال و حرام کے بارے میں قانون سازی کا اختیار بھی اسی کو ہے اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ وحدت الوہیت کا یہ قدرتی ثمرہ ہے ۔ جس ذات نے پیدا کیا ہے اور پھر پرورش کی ، وہی اس بات کی مستحق ہے کہ حلال و حرام کے معاملے میں قانون سازی کرے اور قانون سازی اور نظریات عقائد سے ہم آہنگ ہو۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ، سوائے ان کے جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ حرام و حلال کے تعین میں صرف اللہ تعالیٰ سے راہ نمائی حاصل کرو اور ان معاملات میں سے کسی ایک میں بھی شیطان کی پیروی نہ کرو ۔ وہ تو تمہارا دشمن ہے ۔ وہ ہرگز تمہیں نیکی کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ تو تمہیں غلط تصورات دیتا ہے۔ غلط افعال کی ترغیب دیتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان خود اپنی مرضی سے بعض چیزوں کو حلال قرار دے اور بعض کو حرام ۔ حالانکہ اس پر اللہ کی جانب سے کوئی دلیل وسند نہ ہو اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسے انسان کو یہ زعم بھی ہو کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہ عین شریعت کے مطابق ہے ۔ جیسا کہ یہود مدینہ اور مشرکین مکہ اپنے عقائد ونظریات اور افعال و اعمال کے بارے میں کرتے تھے۔

(یہ حکم کہ زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے جائز ومباح ہیں ۔ الا یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو ، ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات ایک سادہ اور وسیع نظریہ ہے ۔ وہ اس کائنات کے مزاج اور پھر اس میں بسنے والوں کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو پیدا انسان کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس کے لئے ان کا استعمال جائز قرار دیا ہے اور یہ کہ کسی چیز کے بارے میں ممانعت کا کوئی حکم آیاہو ، یا یہ کہ کوئی حکم نہ بھی ہو تو بھی یہ عام حکم موجود ہے کہ کسی چیز کا استعمال حد اعتدال سے زیادہ نہ ہو ۔ لیکن اصل پالیسی یہ ہے کہ دنیا کی تمام پاک چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ، تقاضائے فطرت کے عین مطابق ، تنگی ، سخت گیری اور ناجائز پابندیوں کے بغیر ۔ صرف ایک شرط ضرور ہے وہ یہ لوگوں کے لئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے ؟ اس کا فیصلہ صرف اللہ کے پاس ہو ، کیونکہ اللہ ہی نے ان طیبات کو پیدا کیا ہے ، لہٰذا حلال و حرام کے احکامات وہ اس شیطان سے اخذ نہ کریں جو ان کا بین دشمن ہے ۔ وہ تو انہیں صرف برائی اور فحش کا حکم دیتا ہے ۔ اور بغیر کسی ثبوت ویقین کے یہ شیطان اللہ پر افتراء باندھتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف کفر کی نسبت کرکے اس کی توہین کرتا ہے۔

آیت 168 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ یہ بحث دراصل سورة الانعام میں زیادہ وضاحت سے آئے گی۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ بتوں کے نام پر کوئی جانور چھوڑ دیتے تھے ‘ جس کو ذبح کرنا وہ حرام سمجھتے تھے۔ ایسی روایات ہندوؤں میں بھی تھیں جنہیں ہم نے بچپن میں دیکھا ہے۔ مثلاً کوئی سانڈ چھوڑ دیا ‘ کسی کے کان چیر دیے کہ یہ فلاں بت کے لیے یا فلاں دیوی کے لیے ہے۔ ایسے جانور جہاں چاہیں منہ ماریں ‘ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ظاہر ہے ان کا گوشت کیسے کھایا جاسکتا تھا ! تو عرب میں بھی یہ رواج تھے اور ظہور اسلام کے بعد بھی ان کے کچھ نہ کچھ اثرات ابھی باقی تھے۔ آباء و اَجداد کی رسمیں جو قرنوں سے چلی آرہی ہوں وہ آسانی سے چھوٹتی نہیں ہیں ‘ کچھ نہ کچھ اثرات رہتے ہیں۔ جیسے آج بھی ہمارے ہاں ہندوانہ اثرات موجود ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ مشرکانہ توہماتّ کی بنیاد پر تمہارے مشرک باپ دادا نے اگر کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تھا اور کچھ کو حلال قرار دے لیا تھا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم شیطان کی پیروی میں مشرکانہ توہمات کے تحت اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام مت ٹھہراؤ۔ جو چیز بھی اصلاً حلال اور پاکیزہ و طیب ہے اسے کھاؤ۔

روزی دینے والا کون ؟اوپر چونکہ توحید کا بیان ہوا تھا اس لئے یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ تمام مخلوق کا روزی رساں بھی وہی ہے، فرماتا ہے کہ میرا یہ احسان بھی نہ بھولو کہ میں نے تم پر پاکیزہ چیزیں حلال کیں جو تمہیں لذیذ اور مرغوب ہیں جو نہ جسم کو ضرر پہنچائیں نہ صحت کو نہ عقل و ہوش کو ضرر دیں، میں تمہیں روکتا ہوں کہ شیطان کی راہ پر نہ چلو جس طرح اور لوگوں نے اس کی چال چل کر بعض حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے اسے ان کے لئے حلال کردیا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹا دیا اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کردیا، حضور ﷺ کے سامنے جس وقت اس آیت کی تلاوت ہوئی تو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے کھڑے ہو کر کہا حضور میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے، آپ نے فرمایا اے سعد پاک چیزیں اور حلال لقمہ کھاتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے حرام کا لقمہ جو انسان اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی نحوست کی وجہ سے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو گوشت پوست حرام سے پلا وہ جہنمی ہے۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، جیسے اور جگہ فرمایا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو اسکی اور اس کے دوستوں کی تو یہ عین چاہت ہے کہ لوگوں کو عذاب میں جھونکیں اور جگہ فرمایا آیت (اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا) 18۔ الکہف :50) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو ؟ حالانکہ حقیقتا وہ تمہارا دشمن ہے ظالموں کے لئے برا بدلہ ہے آیت (خطوات الشیطان) سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت ہے جس میں شیطان کا بہکاوا شامل ہوتا ہے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا، آپ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ نے پوچھا کیا روزے سے ہو ؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کرچکا ہوں آپ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنے قسم کا کفارہ دو اور کھالو، ابو رافع کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اب میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ تو آپ نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے، پھر میں حضرت زینب بنت ام سلمہ ؓ کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا، عاصم اور ابن عمر نے بھی یہی فتویٰ ، حضرت ابن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے برابر دے دے۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا، لہذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے۔

آیت 168 - سورۃ البقرہ: (يا أيها الناس كلوا مما في الأرض حلالا طيبا ولا تتبعوا خطوات الشيطان ۚ إنه لكم عدو مبين...) - اردو