سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 25 (آیات 164 سے 169 تک)

إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلْفُلْكِ ٱلَّتِى تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلْمُسَخَّرِ بَيْنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ لَءَايَٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ ٱللَّهِ ۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ إِذْ يَرَوْنَ ٱلْعَذَابَ أَنَّ ٱلْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعَذَابِ إِذْ تَبَرَّأَ ٱلَّذِينَ ٱتُّبِعُوا۟ مِنَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوا۟ وَرَأَوُا۟ ٱلْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ ٱلْأَسْبَابُ وَقَالَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوا۟ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا۟ مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ ٱللَّهُ أَعْمَٰلَهُمْ حَسَرَٰتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَٰرِجِينَ مِنَ ٱلنَّارِ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُوا۟ مِمَّا فِى ٱلْأَرْضِ حَلَٰلًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا۟ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيْطَٰنِ ۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلْفَحْشَآءِ وَأَن تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
25

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

(اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکا رہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee khalqi alssamawati waalardi waikhtilafi allayli waalnnahari waalfulki allatee tajree fee albahri bima yanfaAAu alnnasa wama anzala Allahu mina alssamai min main faahya bihi alarda baAAda mawtiha wabaththa feeha min kulli dabbatin watasreefi alrriyahi waalssahabi almusakhkhari bayna alssamai waalardi laayatin liqawmin yaAAqiloona

اسی طرح پوری کائنات اور اس کی ہرگز رگاہ اللہ کی رحمت اور اس کی وحدانیت پر شاہد عادل ہے ۔

احساس و شعور کو بیدار کرنے کے لئے یہ بالکل ایک نیا انداز ہے ۔ اس کے ذریعے عجائبات دنیا کے نظاروں اور کائنات کے گہرے مطالعہ سے قلب ونظر کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اس کائنات کے عجائب سے چونکہ ہم مانوس ہوچکے ہیں ، رات دن انہیں دیکھتے رہتے ہیں ۔ اس لئے ان کی جدت وندرت ، احساس و شعور پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ کائنات انسان کے لئے ایک معمولی چیز بن گئی ہے ۔ اس لئے انسان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دفعہ لوٹ کر ، کھلی آنکھوں کے ساتھ ، تیز احساس کے ساتھ اور زندہ دل کے ساتھ ، اس کائنات پر یوں نظر ڈالے جیسے وہ اسے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو اور پھر وہ بار بار مشاہدہ کرے ۔ یوں وہ اس کائنات میں عجیب و غریب مشاہدات کرسکے گا ۔ یہاں بیشمار مناظر ایسے ہیں کہ جب ان پر انسان نے پہلی نظر ڈالی تو آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور دل متحیر ہوگئے لیکن پھر کیا ہوا ؟ قلب ونظر کے لئے وہ مناظر معمول بن گئے ۔ دنیا کے اس عجیب میلے کو ہر روز دیکھتے رہے ۔ ہم اس سے مانوس ہوگئے ۔ گردش ایام کوئی اچھنبے کی بات نہ رہی ۔ اس کا انوکھا پن یک لخت ختم ہوگیا اور یہ رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظر فطرت تو اب ہمارے لئے جاذب نظر ہی نہ رہے ۔

یہ آسمان و زمین ، یہ خوفناک فاصلے ، یہ دیوہیکل اجرام فلکی ، یہ حیران کن آفاق اور پھر یہ معلوم اور نامعلوم بیشمار جہاں اس فضا میں ان جہانوں کی گردش ، انکے مواقع ومدارات ، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کے تصور ہی سے سرچکرانے لگتا ہے۔ یہ اسرار کائنات جو پردہ غیب میں نہاں ہیں ، جو کائنات کے پردوں سے نفس انسانی کو جھانکتے ہیں ۔ آسمان و زمین پر مشتمل یہ عظیم کائنات ۔ اور پھر یہ انسان ان ابعاد اور فاصلوں سے بیخبر ، ان کے حجم اور عظمت سے بیخبر اور ان کے اسرار و رموز سے عاجز ۔ ہاں جب انسانی ادراک ترقی کرجائے گا اور جدید علوم اور انکشافات اس کی ممد ومعاون ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے کچھ راز ہائے دروں سے خبردار کرے گا۔ (سید قطب شہید کی پیش گوئی کے عین مطابق یہ سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ مترجم)

شب وروز کا اختلاف ، نور وظلمت کا باہمی تعاقب ۔ صبح شام کی گردش یہ طلوع اور وہ غروب ، اور نگہ اولیں پر ابتدائے آفرینش سے چٹکیاں لینے لگتا تھا ، دل دھڑکتے تھے اور سب مناظر انسان کے لئے عجب العجائب تھے ، پھر کیا ہوا ؟ انسان بار بار مشاہدہ کرتارہا ، اور یہ سب کچھ اس کے لئے ایک معمول بن گیا ۔ انوکھا پن نہ رہا ۔ کشش ختم ہوگئی ۔ اور انسان غافل ہوگیا لیکن قلب مومن ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ اس کے احساس میں یہ بات مشاہدات تازہ بتازہ ہوبہو رہتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان میں اللہ کو دیکھتا ہے ، اسے یاد کرتا ہے اور وہ ان مشاہد و عجائب کو ہر باریوں دیکھتا ہے کہ ایک جہان نو ، ایک تخلیق نو ابھی ابھی اس دکھائی گئی ہو ۔

دیکھئے لوگوں کی ضروریات لئے ہوئے بحری جہاز جارہا ہے (اور اس منظر کا بقدر حصہ میں نے خود احساس کیا ہے ) کیا ہی منظر ہے ۔ ایک عظیم سمندر میں سیاہ نقطہ ہے جس پر ہم سوار ہیں جو ہمیں لے کر رواں دواں ہے ، ہر طرف سے متلاطم موجوں کے تھپیڑے ہیں اور تاحد نظر نیلگوں بحر بیکراں کی وسعت ہے ۔ یہ کشتی تیر رہی ہے ۔ ادھر کرتی ، ادھر پڑتی جارہی ہے ۔ اللہ کی قدرت اور اللہ کی نگہبانی کے سوا کوئی اور طاقت نہیں ، جس کا یہاں بس چل سکے ۔ یہاں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی حکمرانی ہے ۔ ایک چھوٹا سانقطہ ہے ، لہروں کے مٹتے ہوئے خطوط پر ، خوفناک بیکراں کے سینے پر ۔

بس وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کی بلندیوں سے پانی اتارا۔ باغ دراغ اجڑے ہوئے تھے ۔ خزاں کا دوردورہ تھا۔ زمین مرچکی تھی ۔ یکایک وہ پھر سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے ۔ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجاتی ہے ۔ نوع بنوع کے جانور اس پر دوڑتے پھرتے ہیں ۔ قسم قسم کے پرندے اڑتے اور چہچہاتے ہیں ۔ ہوائیں چلتی ہیں جن میں درخت جھومتے ہیں ۔ زمین و آسمان کے درمیان بادل جھومتے ہیں مگر ہیں قید میں ۔ کیا مناظر ہیں یہ اگر انسان ، قرآنی اشارات کی سمت میں ان پر قرآنی زاویہ نگاہ سے غور وفکر کرے تو اللہ کی عظیم قدرت اور پھر اس کی وسیع شان رحیمی دیکھ کر ، اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ یہ زندگی جس کے ادراک سے ہم قاصر ہیں ۔ جس کا جوہر لطیف سرحدات ادراک سے ماورائی ہے ۔ جو بڑے لطف سے کرہ ارض پر نمودار ہوتی ہے ۔ پھر یک لخت کھل کر سامنے آجاتی اور طاقتور بن جاتی ۔ گٹھلی سے درخت بن جاتا ہے ۔ یہ کہاں سے آگئی ؟ اگر تخم اور گٹھلی کے اندر پوشیدہ تھی تو پھر گٹھلی اور تخم کہاں سے آئے ؟ اور ان میں یہ زندگی کیسے داخل ہوئی ؟ اس کا اصل کیا ہے ؟ اس کا پہلا مصدر کیا ہے ؟ آپ بھاگ نہیں سکیں گے ۔

ٹھہرئیے ! فطرت اصرار کرتی ہے کہ آپ اس سوال کا جواب دیں ۔ ملحدین نے اس سوال کے جواب سے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی ہے ۔ بیشک بہت مشکل سوال ہے ۔ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ ایک قادر مطلق ، تخلیق کنندہ موجود ہے ۔

وہی ہے جو مردے کو زندگی بخشتا ہے ۔ ملحدین مغرب ، لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مردہ چیز کو زندگی بخشنے کی تحقیق کررہے ہیں تاکہ اللہ کو ماننے کی ضرورت ہی نہ رہے لکن سعی وپیہم کے بعد اپنے کفر والحاد کے باجود آخرکار انہیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم اس سلسلے میں ناکام ہیں۔ زندگی کی ایجاد محال ہے آج ملحد روس میں ، حیاتیات کے ماہرین کو یہ اعلان کرنا پڑا ہے ہم اس راز کے ادراک سے عاجز ہیں ۔ اس سے قبل بھی حیاتیات کے ایک مشہور عالم ڈارون نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا ۔

اور پھر یہ ہوائیں ، کبھی ادھر رواں ہیں ، کبھی ادھر چلتی ہیں ، اپنے کندھوں پر بادل لئے ہوئے ۔ بادل زمین و آسمان کے درمیان مقید ہیں ۔ کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ نے جو قوانین مقرر کئے ہیں ان کے عین مطابق ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہواؤں کے چلنے کے اسباب گنوادیں ۔ مادہ پرستوں کے نظریات پڑھ دیں ۔ یہ بتادیں کہ بادل یوں بنتے ہیں اور یوں برستے ہیں ۔ راز تو کچھ اور ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان اسباب کی حقیقت کیا ہے ؟ قدرت ، اس کا منبع اس کا موجودہ توازن اور اس کے موجودہ قوانین ، جو زندگی کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں ۔ زندگی کے اسباب بادل ، بارش اور شبنم ان سب کا سر حلقہ کیا ہے ؟ یہ سہولتیں ، جو ہم معلوم کرسکے ہیں ہزاروں ہیں اور اگر ان سب سے صرف ایک ہی نہ تو زندگی یک لخت معدوم ہوجائے یا اس طرح خوشگواری سے نہ چلے ۔ جس طرح رواں دواں ہے ۔ عناصر فطرت کی یہ پیچیدہ ہم آہنگی بتاتی ہے کہ زندگی کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے ۔ یقیناً اس کے پس منظر میں ایک ارادہ کارفرما ہے ۔ ایک اختیار کارگر ہے ۔ یہ ارادہ صرف ایک ہے ۔ اس میں دوئی نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ کوئی اس میں تضاد نہیں اور نہایت مشفقانہ ہے اس لئے اس کی ہر حرکت زندگی کے لئے معاون ہے ۔ (بےشمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں) انسان کو دنیا کی الفت اور غفلت نے کند کردیا ہے ۔ اگر وہ الفت اور غفلت کے ان پردوں کو دماغ سے اتار پھینکے تو یقیناً ان مشاہدات فطرت کو ایک جدید احساس کے ساتھ دیکھ سکے گا ۔ بالغ نظری سے دیکھ سکے گا ۔ وہ ایک ایسے دل کے ساتھ غور کرسکے گا ، جو نور ایمان سے لبریز ہو ۔ اگر وہ اس کرہ ارض پر ایک نووارد کی طرح نگاہ ڈالے گا جو گویا کسی دوسرے جہان سے اس زمین پر پہلی مرتبہ اترا ہے ، تو وہ ہر چمک کی طرف ملتفت ہوجائے ۔ اس کے کان ہر آواز کی طرف متوجہ ہوں ۔ اس کا احساس ہر حرکت نوٹ کرے اور قلب ونظر اور حس و شعور نئی نئی واردات سے دوچار ہوں اور وہ حیرت واستعجاب سے کانپ اٹھے ۔

اردو ترجمہ

(مگر وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے اِن کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں کاش، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سُوجھنے والا ہے وہ آج ہی اِن ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yattakhithu min dooni Allahi andadan yuhibboonahum kahubbi Allahi waallatheena amanoo ashaddu hubban lillahi walaw yara allatheena thalamoo ith yarawna alAAathaba anna alquwwata lillahi jameeAAan waanna Allaha shadeedu alAAathabi

یہ ہیں ایمان کی کارستانیاں اور ایمان کی برکات ! وسعت نظر حد احساس و شعور ، حسن ، ہم آہنگی اور کمال قدردانی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اس کائنات کا ادراک جدید ہے ۔ اور حسن و جمال کا ایک نیا شعور ہے ۔ ایمان دراصل ، اللہ تعالیٰ کے قوانین کے رنگین میلے میں چہل پہل کا نام ہے جس میں صبح وشام تماشائے قدرت کا نئے سے نیا نظارہ پیش ہوتا ہے ۔ لیکن کارگاہ حیات کی ان نیرنگیوں کے باوجود ، یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو عقل کے ادراک سے کورے ہیں ۔ ان کی نظر کوتاہ ہے اور وہ قوانین فطرت کی ایسی وحدت کو اور اس کائنات کے چلانے والے اس واحد اور منضبط نظام کو جو عقیدہ توحید کی طرف صاف صاف اشارہ کرتا ہے نظر انداز کردیتے ہیں اور ان سب چیزوں پر سے یونہی گزرجاتے ہیں یا ان کے لئے مختلف خدا اور مختلف اسباب تلاش کرتے ہیں وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ” اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں ۔ اور ان کے لئے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے ۔ “

ہاں بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں ۔ جن لوگوں سے قرآن مخاطب تھا ۔ ان کے معاشرے میں اللہ کے یہ ہمسر درخت ، پتھر ، ستارے اور ملائکہ و شیاطین تھے ۔ جاہلیت کے مختلف ادوار میں کبھی عام چیزیں ، کبھی افراد واشخاص ، کبھی اشارات واعتبارات اللہ کے ہمسر رہے ہیں۔ بعض اوقات یہ ہمسری شرک خفی کی تعریف میں آتی ہے اور کبھی شرک ظاہر وجلی کی صورت میں ۔ جب ان اشیاء کا ذکر اللہ کے ساتھ ہو اور دل میں ان کے بارے میں وہی عظمت و محبت ہو ، جو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے تو یہ خفیہ شرک ہوگا اور اگر صورت احوال یہ ہو کہ دل سے اللہ کی محبت بالکل نکل جائے اور اس کی جگہ کسی اور چیز کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوجائے تو یہ کھلا شرک ہوگا۔

مؤمنین کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت اور اللہ کی عظمت کی طرح کسی دوسری چیز کی عظمت نہیں کرتے اور نہ اس کی عظمت کے قائل ہوتے ہیں ۔ نہ اپنی جان سے نہ کسی اور کی جان سے نہ کسی شخصیت سے ، نہ کسی اشارہ و اعتبار سے ، نہ کسی نعرہ ونظریہ سے اور نہ ان جدید اقدار میں سے کسی ایک قدر کے ساتھ ، جن کے پیچھے آج کل مخلوق خدا بھاگ رہی ہے۔ غرض ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی وہ ربط وتعلق نہیں رکھتے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ” حالانکہ ایمان والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں ۔ “ ان کے دلوں میں اللہ کی شدید محبت ہوتی ہے ۔ صرف اللہ کی محبت بلاقید وبلا قدر ۔ ان تمام محبتوں پر جو دوسری چیزوں کے لئے ان کے دل میں ہوتی ہیں۔ اللہ کی محبت شدید تر ہوتی ہے ۔ سبب پر غالب ہوتی ہے ۔

بندہ اور اللہ کے مابین تعلق کی تعبیر محبت سی کی گئی ہے ۔ یہ بہت اچھی تعبیر ہے ۔ ایک سچے مومن اور حق تعالیٰ کے دور میں محبت ہی کا تعلق ہوتا ہے ۔ قلبی محبت کا تعلق ، روحانی کشش کا رابطہ ، قرب ودوستی کا تعلق اور ایک پر خلوص نورانی جذبہ محبت کا تعلق ۔ یہ افسر وماتحت کا سرکاری تعلق نہیں ہوتا۔

یہ لوگ ہیں جنہوں نے غیر اللہ کو اللہ کا ہمسر بنایا ، انہوں نے سچائی کے ساتھ ظلم کیا ۔ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ کاش وہ آنکھیں کھول کر دیکھتے ۔ اس منظر کے بارے میں کچھ سوچتے کہ ان کو ایک دن اللہ وحدہ لاشریک کے سامنے کھڑا ہونا ہے ۔ کاش وہ چشم بصیرت سے اس عذاب کو دیکھ سکتے جو ظالموں کا انتظار کررہا ہے ۔ ہاں اگر وہ آنکھیں کھولتے تو یقیناً دیکھ لیتے کہ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ” تمام طاقتیں اور اختیارات گو اللہ ہی کے ہیں ۔ “ لہٰذا وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ نہ کسی کو اس کا ہمسربنائے اور ان کو معلوم ہوجاتا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ” یہ کہ اللہ بہت ہی سخت عذاب دینے والا ہے۔ “

اردو ترجمہ

جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے، مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith tabarraa allatheena ittubiAAoo mina allatheena ittabaAAoo waraawoo alAAathaba wataqattaAAat bihimu alasbabu

اردو ترجمہ

اور وہ لوگ جو دنیا میں اُن کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں، ہم اِن سے بیزار ہو کر دکھا دیتے یوں اللہ اِن لوگوں کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اِس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena ittabaAAoo law anna lana karratan fanatabarraa minhum kama tabarraoo minna kathalika yureehimu Allahu aAAmalahum hasaratin AAalayhim wama hum bikharijeena mina alnnari

کاش وہ اس منظر کو دیکھ سکتے کہ پیشوا اپنے مریدوں سے بےتعلقی کا اظہار کررہے ہیں ۔ انہوں نے عذاب خود دیکھ لیا ہے ۔ ان کے درمیان تعلقات اور دوستیاں ختم ہوچکی ہیں ۔ پیشوا ہے کہ مرید دونوں نفسا نفسی کی حالت میں ہیں ۔ وہ قیادت اور ریاست ڈھیر ہوگئی جس کی وجہ سے پیروکار ان کے پیچھے بھاگتے تھے ۔ قائدین کو خود اپنی پڑی ہے ۔ وہ پیروؤں کی عزت پر کیا توجہ کریں ، ان کو کس طرح بچائیں ۔ اب تو الٰہ واحد کی حقیقت اور طاقت ظاہر ہوچکی ہے ۔ اب تو ان کے سامنے صرف ایک ہی قدرت ہے ۔ گمراہ قیادتوں کا جھوٹ ، ان کی کمزوری اور اللہ کے سامنے ان کا عجز اور عذاب الٰہی کے سامنے ان کی سراسیمگی اور بےبسی سب پر ظاہر ہوچکی ہے ۔ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ” اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے ، کہیں گے کاش کہ ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ظاہر کررہے ہیں ، ہم ان سے بیزار ہوکر دکھادیتے ۔ “ وہاں یہ فریب خوردہ پیروکار اپنی گمراہ قیادت پر سخت غیض وغضب کا اظہار کریں گے ۔ وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش ایک موقع ہمیں اور مل جاتا اور ہم زمین پر دوبارہ لوٹادیئے جاتے تاکہ اپنی کمزور اور ناکارہ دھوکہ باز قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ۔ کیا وہ ہولناک منظر ہے یہ ، قائد اور پیروکار ایک دوسرے پر تبرّا بھیج رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے ہیں ۔ کل کے دوست آج سخت دشمن ہیں ۔ ان کے اس حسرتناک انجام پر یہ نتیجہ بیان کیا جاتا ہے۔ كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ” یوں اللہ ان لوگوں کے اعمال ، جو یہ دنیا میں کررہے ہیں ، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے ۔ مگر آگ سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔ “

اب بتادیا جاتا ہے کہ زندگی کی پاک چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ، ناپاک اور خبیث چیزوں سے دور رہو ، خبردار ! شیطان کی اطاعت نہ کرو ، وہ تو ہر وقت ناپاک چیزوں کی طرف پکارتا ہے ۔ شیطان بعض چیزوں کو اللہ کی طرف سے حلال قرار دیتا ہے اور بعض کو حرام قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے اسے تحلیل وتحریم اور قانون سازی کا اختیار ہرگز نہیں دیا ۔ (مسلمانوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اپنے عقائد ونظریات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ذریعے سے راہ نمائی حاصل نہ کریں۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر ، ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ سمجھتی ہیں ۔ ان کے اس احمقانہ فعل پر تنبیہ کی جاتی ہے ۔ یوں ان آیات کا فصل سابق کی آیات کے ساتھ معنوی ربط بھی واضح ہوجاتا ہے ۔

اردو ترجمہ

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu kuloo mimma fee alardi halalan tayyiban wala tattabiAAoo khutuwati alshshaytani innahu lakum AAaduwwun mubeenun

سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ وہی ایک معبود اور اللہ ہے ۔ وہی ایک خالق ہے اور جو لوگ دوسروں کو اللہ ہمسر بناتے ہیں ۔ ایک شدید ان کا منتظر ہے ۔ اب یہاں بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے بندوں کا رازق بھی وہی ہے۔ حلال و حرام کے بارے میں قانون سازی کا اختیار بھی اسی کو ہے اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ وحدت الوہیت کا یہ قدرتی ثمرہ ہے ۔ جس ذات نے پیدا کیا ہے اور پھر پرورش کی ، وہی اس بات کی مستحق ہے کہ حلال و حرام کے معاملے میں قانون سازی کرے اور قانون سازی اور نظریات عقائد سے ہم آہنگ ہو۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ، سوائے ان کے جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ حرام و حلال کے تعین میں صرف اللہ تعالیٰ سے راہ نمائی حاصل کرو اور ان معاملات میں سے کسی ایک میں بھی شیطان کی پیروی نہ کرو ۔ وہ تو تمہارا دشمن ہے ۔ وہ ہرگز تمہیں نیکی کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ تو تمہیں غلط تصورات دیتا ہے۔ غلط افعال کی ترغیب دیتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان خود اپنی مرضی سے بعض چیزوں کو حلال قرار دے اور بعض کو حرام ۔ حالانکہ اس پر اللہ کی جانب سے کوئی دلیل وسند نہ ہو اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسے انسان کو یہ زعم بھی ہو کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہ عین شریعت کے مطابق ہے ۔ جیسا کہ یہود مدینہ اور مشرکین مکہ اپنے عقائد ونظریات اور افعال و اعمال کے بارے میں کرتے تھے۔

(یہ حکم کہ زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے جائز ومباح ہیں ۔ الا یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو ، ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات ایک سادہ اور وسیع نظریہ ہے ۔ وہ اس کائنات کے مزاج اور پھر اس میں بسنے والوں کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو پیدا انسان کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس کے لئے ان کا استعمال جائز قرار دیا ہے اور یہ کہ کسی چیز کے بارے میں ممانعت کا کوئی حکم آیاہو ، یا یہ کہ کوئی حکم نہ بھی ہو تو بھی یہ عام حکم موجود ہے کہ کسی چیز کا استعمال حد اعتدال سے زیادہ نہ ہو ۔ لیکن اصل پالیسی یہ ہے کہ دنیا کی تمام پاک چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ، تقاضائے فطرت کے عین مطابق ، تنگی ، سخت گیری اور ناجائز پابندیوں کے بغیر ۔ صرف ایک شرط ضرور ہے وہ یہ لوگوں کے لئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے ؟ اس کا فیصلہ صرف اللہ کے پاس ہو ، کیونکہ اللہ ہی نے ان طیبات کو پیدا کیا ہے ، لہٰذا حلال و حرام کے احکامات وہ اس شیطان سے اخذ نہ کریں جو ان کا بین دشمن ہے ۔ وہ تو انہیں صرف برائی اور فحش کا حکم دیتا ہے ۔ اور بغیر کسی ثبوت ویقین کے یہ شیطان اللہ پر افتراء باندھتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف کفر کی نسبت کرکے اس کی توہین کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama yamurukum bialssooi waalfahshai waan taqooloo AAala Allahi ma la taAAlamoona
25