سورۃ البقرہ: آیت 164 - إن في خلق السماوات والأرض... - اردو

آیت 164 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلْفُلْكِ ٱلَّتِى تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلْمُسَخَّرِ بَيْنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ لَءَايَٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

اردو ترجمہ

(اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکا رہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee khalqi alssamawati waalardi waikhtilafi allayli waalnnahari waalfulki allatee tajree fee albahri bima yanfaAAu alnnasa wama anzala Allahu mina alssamai min main faahya bihi alarda baAAda mawtiha wabaththa feeha min kulli dabbatin watasreefi alrriyahi waalssahabi almusakhkhari bayna alssamai waalardi laayatin liqawmin yaAAqiloona

آیت 164 کی تفسیر

اسی طرح پوری کائنات اور اس کی ہرگز رگاہ اللہ کی رحمت اور اس کی وحدانیت پر شاہد عادل ہے ۔

احساس و شعور کو بیدار کرنے کے لئے یہ بالکل ایک نیا انداز ہے ۔ اس کے ذریعے عجائبات دنیا کے نظاروں اور کائنات کے گہرے مطالعہ سے قلب ونظر کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اس کائنات کے عجائب سے چونکہ ہم مانوس ہوچکے ہیں ، رات دن انہیں دیکھتے رہتے ہیں ۔ اس لئے ان کی جدت وندرت ، احساس و شعور پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ کائنات انسان کے لئے ایک معمولی چیز بن گئی ہے ۔ اس لئے انسان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دفعہ لوٹ کر ، کھلی آنکھوں کے ساتھ ، تیز احساس کے ساتھ اور زندہ دل کے ساتھ ، اس کائنات پر یوں نظر ڈالے جیسے وہ اسے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو اور پھر وہ بار بار مشاہدہ کرے ۔ یوں وہ اس کائنات میں عجیب و غریب مشاہدات کرسکے گا ۔ یہاں بیشمار مناظر ایسے ہیں کہ جب ان پر انسان نے پہلی نظر ڈالی تو آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور دل متحیر ہوگئے لیکن پھر کیا ہوا ؟ قلب ونظر کے لئے وہ مناظر معمول بن گئے ۔ دنیا کے اس عجیب میلے کو ہر روز دیکھتے رہے ۔ ہم اس سے مانوس ہوگئے ۔ گردش ایام کوئی اچھنبے کی بات نہ رہی ۔ اس کا انوکھا پن یک لخت ختم ہوگیا اور یہ رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظر فطرت تو اب ہمارے لئے جاذب نظر ہی نہ رہے ۔

یہ آسمان و زمین ، یہ خوفناک فاصلے ، یہ دیوہیکل اجرام فلکی ، یہ حیران کن آفاق اور پھر یہ معلوم اور نامعلوم بیشمار جہاں اس فضا میں ان جہانوں کی گردش ، انکے مواقع ومدارات ، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کے تصور ہی سے سرچکرانے لگتا ہے۔ یہ اسرار کائنات جو پردہ غیب میں نہاں ہیں ، جو کائنات کے پردوں سے نفس انسانی کو جھانکتے ہیں ۔ آسمان و زمین پر مشتمل یہ عظیم کائنات ۔ اور پھر یہ انسان ان ابعاد اور فاصلوں سے بیخبر ، ان کے حجم اور عظمت سے بیخبر اور ان کے اسرار و رموز سے عاجز ۔ ہاں جب انسانی ادراک ترقی کرجائے گا اور جدید علوم اور انکشافات اس کی ممد ومعاون ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے کچھ راز ہائے دروں سے خبردار کرے گا۔ (سید قطب شہید کی پیش گوئی کے عین مطابق یہ سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ مترجم)

شب وروز کا اختلاف ، نور وظلمت کا باہمی تعاقب ۔ صبح شام کی گردش یہ طلوع اور وہ غروب ، اور نگہ اولیں پر ابتدائے آفرینش سے چٹکیاں لینے لگتا تھا ، دل دھڑکتے تھے اور سب مناظر انسان کے لئے عجب العجائب تھے ، پھر کیا ہوا ؟ انسان بار بار مشاہدہ کرتارہا ، اور یہ سب کچھ اس کے لئے ایک معمول بن گیا ۔ انوکھا پن نہ رہا ۔ کشش ختم ہوگئی ۔ اور انسان غافل ہوگیا لیکن قلب مومن ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ اس کے احساس میں یہ بات مشاہدات تازہ بتازہ ہوبہو رہتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان میں اللہ کو دیکھتا ہے ، اسے یاد کرتا ہے اور وہ ان مشاہد و عجائب کو ہر باریوں دیکھتا ہے کہ ایک جہان نو ، ایک تخلیق نو ابھی ابھی اس دکھائی گئی ہو ۔

دیکھئے لوگوں کی ضروریات لئے ہوئے بحری جہاز جارہا ہے (اور اس منظر کا بقدر حصہ میں نے خود احساس کیا ہے ) کیا ہی منظر ہے ۔ ایک عظیم سمندر میں سیاہ نقطہ ہے جس پر ہم سوار ہیں جو ہمیں لے کر رواں دواں ہے ، ہر طرف سے متلاطم موجوں کے تھپیڑے ہیں اور تاحد نظر نیلگوں بحر بیکراں کی وسعت ہے ۔ یہ کشتی تیر رہی ہے ۔ ادھر کرتی ، ادھر پڑتی جارہی ہے ۔ اللہ کی قدرت اور اللہ کی نگہبانی کے سوا کوئی اور طاقت نہیں ، جس کا یہاں بس چل سکے ۔ یہاں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی حکمرانی ہے ۔ ایک چھوٹا سانقطہ ہے ، لہروں کے مٹتے ہوئے خطوط پر ، خوفناک بیکراں کے سینے پر ۔

بس وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کی بلندیوں سے پانی اتارا۔ باغ دراغ اجڑے ہوئے تھے ۔ خزاں کا دوردورہ تھا۔ زمین مرچکی تھی ۔ یکایک وہ پھر سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے ۔ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجاتی ہے ۔ نوع بنوع کے جانور اس پر دوڑتے پھرتے ہیں ۔ قسم قسم کے پرندے اڑتے اور چہچہاتے ہیں ۔ ہوائیں چلتی ہیں جن میں درخت جھومتے ہیں ۔ زمین و آسمان کے درمیان بادل جھومتے ہیں مگر ہیں قید میں ۔ کیا مناظر ہیں یہ اگر انسان ، قرآنی اشارات کی سمت میں ان پر قرآنی زاویہ نگاہ سے غور وفکر کرے تو اللہ کی عظیم قدرت اور پھر اس کی وسیع شان رحیمی دیکھ کر ، اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ یہ زندگی جس کے ادراک سے ہم قاصر ہیں ۔ جس کا جوہر لطیف سرحدات ادراک سے ماورائی ہے ۔ جو بڑے لطف سے کرہ ارض پر نمودار ہوتی ہے ۔ پھر یک لخت کھل کر سامنے آجاتی اور طاقتور بن جاتی ۔ گٹھلی سے درخت بن جاتا ہے ۔ یہ کہاں سے آگئی ؟ اگر تخم اور گٹھلی کے اندر پوشیدہ تھی تو پھر گٹھلی اور تخم کہاں سے آئے ؟ اور ان میں یہ زندگی کیسے داخل ہوئی ؟ اس کا اصل کیا ہے ؟ اس کا پہلا مصدر کیا ہے ؟ آپ بھاگ نہیں سکیں گے ۔

ٹھہرئیے ! فطرت اصرار کرتی ہے کہ آپ اس سوال کا جواب دیں ۔ ملحدین نے اس سوال کے جواب سے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی ہے ۔ بیشک بہت مشکل سوال ہے ۔ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ ایک قادر مطلق ، تخلیق کنندہ موجود ہے ۔

وہی ہے جو مردے کو زندگی بخشتا ہے ۔ ملحدین مغرب ، لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مردہ چیز کو زندگی بخشنے کی تحقیق کررہے ہیں تاکہ اللہ کو ماننے کی ضرورت ہی نہ رہے لکن سعی وپیہم کے بعد اپنے کفر والحاد کے باجود آخرکار انہیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم اس سلسلے میں ناکام ہیں۔ زندگی کی ایجاد محال ہے آج ملحد روس میں ، حیاتیات کے ماہرین کو یہ اعلان کرنا پڑا ہے ہم اس راز کے ادراک سے عاجز ہیں ۔ اس سے قبل بھی حیاتیات کے ایک مشہور عالم ڈارون نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا ۔

اور پھر یہ ہوائیں ، کبھی ادھر رواں ہیں ، کبھی ادھر چلتی ہیں ، اپنے کندھوں پر بادل لئے ہوئے ۔ بادل زمین و آسمان کے درمیان مقید ہیں ۔ کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ نے جو قوانین مقرر کئے ہیں ان کے عین مطابق ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہواؤں کے چلنے کے اسباب گنوادیں ۔ مادہ پرستوں کے نظریات پڑھ دیں ۔ یہ بتادیں کہ بادل یوں بنتے ہیں اور یوں برستے ہیں ۔ راز تو کچھ اور ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان اسباب کی حقیقت کیا ہے ؟ قدرت ، اس کا منبع اس کا موجودہ توازن اور اس کے موجودہ قوانین ، جو زندگی کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں ۔ زندگی کے اسباب بادل ، بارش اور شبنم ان سب کا سر حلقہ کیا ہے ؟ یہ سہولتیں ، جو ہم معلوم کرسکے ہیں ہزاروں ہیں اور اگر ان سب سے صرف ایک ہی نہ تو زندگی یک لخت معدوم ہوجائے یا اس طرح خوشگواری سے نہ چلے ۔ جس طرح رواں دواں ہے ۔ عناصر فطرت کی یہ پیچیدہ ہم آہنگی بتاتی ہے کہ زندگی کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے ۔ یقیناً اس کے پس منظر میں ایک ارادہ کارفرما ہے ۔ ایک اختیار کارگر ہے ۔ یہ ارادہ صرف ایک ہے ۔ اس میں دوئی نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ کوئی اس میں تضاد نہیں اور نہایت مشفقانہ ہے اس لئے اس کی ہر حرکت زندگی کے لئے معاون ہے ۔ (بےشمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں) انسان کو دنیا کی الفت اور غفلت نے کند کردیا ہے ۔ اگر وہ الفت اور غفلت کے ان پردوں کو دماغ سے اتار پھینکے تو یقیناً ان مشاہدات فطرت کو ایک جدید احساس کے ساتھ دیکھ سکے گا ۔ بالغ نظری سے دیکھ سکے گا ۔ وہ ایک ایسے دل کے ساتھ غور کرسکے گا ، جو نور ایمان سے لبریز ہو ۔ اگر وہ اس کرہ ارض پر ایک نووارد کی طرح نگاہ ڈالے گا جو گویا کسی دوسرے جہان سے اس زمین پر پہلی مرتبہ اترا ہے ، تو وہ ہر چمک کی طرف ملتفت ہوجائے ۔ اس کے کان ہر آواز کی طرف متوجہ ہوں ۔ اس کا احساس ہر حرکت نوٹ کرے اور قلب ونظر اور حس و شعور نئی نئی واردات سے دوچار ہوں اور وہ حیرت واستعجاب سے کانپ اٹھے ۔

اب جو آیت آرہی ہے اس کے مطالعہ سے پہلے ایک بات سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ کا نصف ثانی جو بائیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور جس کا آغاز انیسویں رکوع سے ہوا ہے ‘ اس میں ترتیب کیا ہے۔ سورة البقرۃ کے پہلے اٹھارہ رکوعوں کی تقسیم عمودی verticle ہے۔ یعنی چار رکوع ادھر ‘ دس درمیان میں ‘ پھر چار ادھر۔ لیکن انیسویں رکوع سے اب افقی horizontal تقسیم کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس حصے ّ میں چار مضامین تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ چار لڑیاں ہیں جن کو بٹ کر رسّی بنا دیا گیا ہے۔ ان چار میں سے دو لڑیاں تو شریعت کی ہیں ‘ جن میں سے ایک عبادات کی اور دوسری احکام و شرائع کی ہے کہ یہ واجب ہے ‘ یہ کرنا ہے ‘ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ نماز فرض ہے ‘ روزہ فرض ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ احکام و شرائع میں خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ معاشرت انسانی کی بنیاد یہی ہے۔ لہٰذا اس سورت میں آپ دیکھیں گے کہ عائلی قوانین کے ضمن میں تفصیلی احکام آئیں گے۔ جبکہ دوسری دو لڑیاں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی ہیں۔ جہاد بالنفس کی آخری انتہا قتال ہے جہاں انسان نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان کارزار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ اب ان چاروں مضامین یا چاروں لڑیوں کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ فرض کیجیے ایک سرخ لڑی ہے ‘ ایک پیلی ہے ‘ ایک نیلی ہے اور ایک سبز ہے ‘ اور ان چاروں لڑیوں کو ایک رسّی کی صورت میں بٹ دیا گیا ہے۔ آپ اس رسّی کو دیکھیں گے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔ پہلے سرخ ‘ پھر پیلا ‘ پھر نیلا اور پھر سبز نظر آئے گا۔ لیکن اگر رسّی کے بل کھول دیں تو ہر لڑی مسلسل نظر آئے گی۔ چناچہ سورة البقرۃ کے نصف آخر میں عبادات ‘ احکام شریعت ‘ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کے چار مضامین چار لڑیوں کی مانند گتھے ہوئے ہیں۔ یہ چاروں لڑیاں تانے بانے کی طرح بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اسی بنتی میں بہت بڑے بڑے پھول موجود ہیں۔ یہ پھول قرآن مجید کی عظیم ترین اور طویل آیات ہیں ‘ جن کی نمایاں ترین مثال آیت الکرسی کی ہے۔ ان عظیم آیات میں سے ایک آیت یہاں بیسویں رکوع کے آغاز میں آرہی ہے ‘ جسے میں نے آیت الآیات کا عنوان دیا ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی کسی اور آیت میں اس قدر مظاہر فطرت phenomena of nature یکجا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مظاہر فطرت کو اپنی آیات قرار دیتا ہے۔ آسمان اور زمین کی تخلیق ‘ رات اور دن کا الٹ پھیر ‘ آسمان کے ستارے اور زمین کی نباتات ‘ یہ سب آیات ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ‘ لیکن یہاں بہت سے مظاہر فطرت کو جس طرح ایک آیت میں سمو یا گیا ہے یہ حکمت قرآنی کا ایک بہت بڑا پھول ہے جو ان چار لڑیوں کی بنتی کے اندر آگیا ہے۔ آیت 164 اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا بے آب وگیاہ زمین پڑی تھی ‘ بارش ہوئی تو اسی میں سے روئیدگی آگئی۔ وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ہواؤں کی گردش کے مختلف انداز اور مختلف پہلو ہیں۔ کبھی شمالاً جنوباً چل رہی ہے ‘ کبھی مشرق سے آرہی ہے ‘ کبھی مغرب سے آرہی ہے۔ اس گردش میں بڑی حکمتیں کارفرما ہیں۔وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ ان مظاہر فطرت کو دیکھو اور ان کے خالق اورّ مدبر کو پہچانو ! ان آیات آفاقی پر غور و فکر اور ان کے خالق کو پہچاننے کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے اور جس تک عام طور پر لوگ نہیں پہنچ پاتے اب اگلی آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔ نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ پھر محبوب اللہ ہی ہو ‘ شکر اسی کا ہو ‘ اطاعت اسی کی ہو ‘ عبادت اسی کی ہو۔ جب سورج میں اپنا کچھ نہیں ‘ اسے اللہ نے بنایا ہے اور اسے حرارت عطا کی ہے ‘ چاند میں کچھ نہیں ‘ ہوائیں چلانے والا بھی وہی ہے تو اور کسی شے کے لیے کوئی شکر نہیں ‘ کوئی عبادت نہیں ‘ کوئی ڈنڈوت نہیں ‘ کوئی سجدہ نہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہی مطلوب و مقصود بن جائے ‘ وہی محبوب ہو۔ لَا مَحْبُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ‘ لَا مَقْصُوْدَ الاَّ اللّٰہُ ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ جن لوگوں کی یہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی وہ کسی اور شے کو اپنا محبوب و مطلوب بنا کر اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ خدا تک نہیں پہنچے تو ع اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں کے مصداق اپنے نفس ہی کو معبود بنا لیا اور خواہشات نفس کی پیروی میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں نے اپنی قوم کو معبود بنا لیا اور قوم کی برتری اور سربلندی کے لیے جانیں بھی دے رہے ہیں۔ بعض نے وطن کو معبود بنا لیا۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے سمجھا ہے کہ اس دور کا سب سے بڑا بت وطن ہے۔ ان کی نظم وطنیّت ملاحظہ کیجیے : ؂ اِس دور میں مَے اور ہے ‘ جام اور ہے ‘ جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جوپیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے !اگلی آیت میں تمام معبودان باطل کی نفی کر کے ایک اللہ کو اپنا محبوب اور مطلوب و مقصود بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔

ٹھوس دلائل مطلب یہ ہے کہ اس اللہ کی فرماں روائی اور اس کی توحید کی دلیل ایک تو یہ آسمان ہے جس کی بلندی لطافت کشادگی جس کے ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے والے روشن ستارے تم دیکھ رہے ہو، پھر زمین کی پیدائش جو کثیف چیز ہے جو تمہارے قدموں تلے بچھی ہوئی ہے، جس میں بلند بلند چوٹیوں کے سر بہ فلک پہاڑ ہیں جس میں موجیں مارنے والے بےپایاں سمندر ہیں جس میں انواع واقسام کے خوش رنگ بیل بوٹے ہیں جس میں طرح طرح کی پیداوار ہوتی ہے جس میں تم رہتے سہتے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق آرام دہ مکانات بنا کر بستے ہو اور جس سے سینکڑوں طرح کا نفع اٹھاتے ہو، پھر رات دن کا آنا جانا رات گئی دن گیا رات آگئی۔ نہ وہ اس پر سبقت کرے نہ یہ اس پر۔ ہر ایک اپنے صحیح انداز سے آئے اور جائے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں جائے کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں آجائے، پھر کشتیوں کو دیکھوں جو خود تمہیں اور تمہارے مال و اسباب اور تجارتی چیزوں کو لے کر سمندر میں ادھر سے ادھرجاتی آتی رہتی ہیں، جن کے ذریعہ اس ملک والے اس ملک والوں سے اور اس ملک والے اس ملک والوں سے رابطہ اور لین دین کرسکتے ہیں، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں پہنچ سکتی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کاملہ سے بارش برسانا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردینا، اس سے اناج اور کھیتیاں پیدا کرنا، چاروں طرف ریل پیل کردینا، زمین میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کار آمد جانوروں کو پیدا کرنا ان سب کی حفاظت کرنا، انہیں روزیاں پہنچانا ان کے لئے سونے بیٹھنے چرنے چگنے کی جگہ تیار کرنا، ہواؤں کو پورب پچھم چلانا، کبھی ٹھنڈی کبھی گرم کبھی کم کبھی زیادہ، بادلوں کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرنا، انہیں ایک طرف سے دوسری کی طرف لے جانا، ضرورت کی جگہ برسانا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے عقل مند اپنے اللہ کے وجود کو اور اس کی وحدانیت کو پالیتے ہیں، جیسے اور جگہ فرمایا کہ آسمان و زمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے انہیں بیکار نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قریشی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے ہم اس سے گھوڑے اور ہتھیار وغیرہ خریدیں اور تیرا ساتھ دیں اور ایمان بھی لائیں آپ نے فرمایا پختہ وعدے کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں پختہ وعدہ ہے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت جبرائیل ؑ آئے اور فرمایا تمہاری دعا تو قبول ہے لیکن اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر اللہ کا وہ عذاب آئے گا جو آج سے پہلے کسی پر نہ آیا ہو، آپ کانپ اٹھے اور عرض کرنے لگے نہیں اللہ تو انہیں یونہی رہنے دے میں انہیں تیری طرف بلاتا رہوں گا کیا عجب آج نہیں کل اور کل نہیں تو پرسوں ان میں سے کوئی نہ تیری جھک جائے اس پر یہ آیت اتری کہ اگر انہیں قدرت کی نشانیاں دیکھنی ہیں تو کیا یہ نشانیاں کچھ کم ہیں ؟ ایک اور شان نزول بھی مروی ہے کہ جب آیت (والھکم) الخ اتری تو مشرکین کہنے لگے ایک اللہ تمام جہاں کا بندوبست کیسے کریگا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اللہ اتنی بڑی قدرت والا ہے، بعض روایتوں میں ہے اللہ کا ایک ہونا سن کر انہوں نے دلیل طلب کی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قدرت کے نشان ہائے ان پر ظاہر کئے گئے۔

آیت 164 - سورۃ البقرہ: (إن في خلق السماوات والأرض واختلاف الليل والنهار والفلك التي تجري في البحر بما ينفع الناس وما أنزل الله من...) - اردو