سورۃ البقرہ: آیت 16 - أولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى... - اردو

آیت 16 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلضَّلَٰلَةَ بِٱلْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَٰرَتُهُمْ وَمَا كَانُوا۟ مُهْتَدِينَ

اردو ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika allatheena ishtarawoo alddalalata bialhuda fama rabihat tijaratuhum wama kanoo muhtadeena

آیت 16 کی تفسیر

اب قرآن کریم چند آخری کلمات میں ان کی حقیقت حال اور ان کے اس خسارے کو بیان کرتا ہے جو ان کی اس روش کی وجہ سے انہیں پہنچ رہا ہے ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ” یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے مگر یہ سودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں ۔ “ اگر وہ چاہتے تو ہدایت کی راہ ان کے پاس تھی ۔ ان پر ہدایت کے دریا بہادیئے گئے تھے ۔ یہ ان کے ہاتھ میں تھی لیکن انہوں نے اپنی مرضی سے ہدایت دے کر اس کے بدلے ضلالت خرید لی ۔ جیسا کہ ایک غافل تاجر کا انجام ہوتا ہے ۔ ویسا ہی انجام ان کا بھی ہوا۔ اس سودے میں انہیں کوئی نفع نہ ہوا اور ہدایت بھی ہاتھ سے جاتی رہی ۔

آپ نے دیکھا کہ قرآن نے ان آیات میں تین قسم کے لوگوں کی تصویر کشی کی ہے ۔ ان میں سے اس تیسرے فریق نے لوح قرطاس میں نسبتاً زیادہ وسیع جگہ لی ۔ اس کے وسیع خاکے میں ہمیں مختلف رنگ بھرے ہوئے نظر آتے ہیں ، جو پہلی اور دوسری تصویر میں نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی اور دوسری تصویر میں جو لوگ دکھائے گئے ہیں ان کی راہ ورسم کسی نہ کسی شکل میں متعین ہے۔ وہ سیدھی طرح ایک مخصوص روش پر قائم ہیں ۔ پہلی تصویر میں ایک ایسا کردار نظر آتا ہے جو فکر مستقیم کا مالک ہے ۔ ایک سیدھی راہ ہے جس پر وہ بالکل سیدھا جارہا ہے ۔ دوسری تصویر میں ایک نابینا شخص دکھایا گیا ہے جو حیران وسرگردان ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہے ۔ لیکن تیسرے شخص کی نفسیاتی حالت اس قدر پیچیدہ اس کا دل اس قدر بیمار ہے اور فکر اس قدر پریشان ہے کہ اس پر مزید آخری ، ایک آخری تبصرے کی ضرورت ہے ۔ اس تصویر میں کچھ مزید خاکے ہیں اور ان میں رنگ بھرے گئے ہیں تاکہ اس گروہ کی مکروہ اور متلون شخصیت کے خدوخال اچھی طرح واضح ہوسکیں ۔

اس تفصیلی بحث سے ایک طرف تو وہ کردار بھی اچھی طرح ہمارے سامنے آجاتا ہے جو منافقین مدینہ ، فدائیان اسلام کی ایذارسانی ، ان کے اندرانتشار اور بےچینی پھیلانے کے سلسلے میں ادا کررہے تھے ۔ دوسری طرف اسلامی جماعت کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ ہر دور میں ایک منافق ، نظم جماعت کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔ اور اسلامی جماعت میں ان منافقین کی پردہ وری اور ان کی سازشوں کو بےنقاب کرنے کی کتنی اہمیت و ضرورت ہے ۔

آیت 16 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰیص یہ بڑا پیارا انداز بیان ہے۔ ان کے سامنے دونوں options تھے۔ ایک شخص نے گمراہی کو چھوڑا اور ہدایت لے لی۔ اسے اس کی بھاری قیمت دینا پڑی۔ اسے تکلیفیں اٹھانی پڑیں ‘ آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا ‘ قربانیاں دینا پڑیں۔ اس نے یہ سب کچھ منظور کیا اور ہدایت لے لی۔ جبکہ ایک شخص نے ہدایت دے کر گمراہی لے لی ہے۔ آسانی تو ہوگئی ‘ فوری تکلیف سے تو بچ گئے ‘ دونوں طرف سے اپنے مفادات کو بچالیا ‘ لیکن حقیقت میں سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا یہی ہے۔فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ”رَبِحَ یَرْبَحُ“ کے معنی ہیں تجارت وغیرہ میں نفع اٹھانا ‘ جو ایک صحیح اور جائز نفع ہے ‘ جبکہ ”رب و“ مادہ سے رَبَا یَرْبُوْکے معنی بھی مال میں اضافہ اور بڑھوتری کے ہیں ‘ لیکن وہ حرام ہے۔ تجارت کے اندر جو نفع ہوجائے وہ ”رِبح“ ہے ‘ جو جائز نفع ہے اور اپنا مال کسی کو قرض دے کر اس سے سود وصول کرنا ”رِبا“ ہے جو حرام ہے۔ اب یہاں دو بڑی پیاری تمثیلیں آرہی ہیں۔ پہلی تمثیل کفار کے بارے میں ہے اور دوسری تمثیل منافقین کے بارے میں۔

ایمان فروش لوگ حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے کہ انہوں نے ہدایت چھوڑ دی اور گمراہی لے لی۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں انہوں نے ایمان کے بدلے کفر قبول کیا۔ مجاہد فرماتے ہیں ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔ قتادہ فرماتے ہیں " ہدایت پر گمراہی کو پسند کرتے ہیں۔ " جیسے اور جگہ قوم ثمود کے بارے میں ہے آیت (وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ) 41۔ فصلت :17) یعنی باوجود اس کے کہ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت سے روشناس کردیا مگر پھر بھی انہوں نے اس رہنمائی کی جگہ اندھے پن کو پسند کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ منافقین ہدایت سے ہٹ کر گمراہی پر آگئے اور ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی گویا ہدایت کو بیچ کر گمراہی خرید لی۔ اب ایمان لا کر پھر کافر ہوئے ہوں خواہ سرے سے ایمان ہی نصیب نہ ہوا ہو اور ان منافقین میں دونوں قسم کے لوگ تھے۔ چناچہ قرآن میں ہے آیت (ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ) 63۔ المنافقون :3) یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ایسے بھی منافق تھے جنہیں ایمان نصیب ہی نہ ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میں فائدہ ہوا، نہ راہ ملی، بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں، جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر تنہائیوں کی تنگ جیل میں، امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں اور سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آگئے۔

آیت 16 - سورۃ البقرہ: (أولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى فما ربحت تجارتهم وما كانوا مهتدين...) - اردو