سورۃ البقرہ: آیت 151 - كما أرسلنا فيكم رسولا منكم... - اردو

آیت 151 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

كَمَآ أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْكُمْ ءَايَٰتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا۟ تَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

جس طرح (تمہیں اِس چیز سے فلاح نصیب ہوئی کہ) میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمہیں میری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے، جو تم نہ جانتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kama arsalna feekum rasoolan minkum yatloo AAalaykum ayatina wayuzakkeekum wayuAAallimukumu alkitaba waalhikmata wayuAAallimukum ma lam takoonoo taAAlamoona

آیت 151 کی تفسیر

اس آیت کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انہی باتوں کو دہرایا گیا ہے ، جن کی دعوت اس صورت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی تھی ۔ اس وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے ۔ جناب خلیل اللہ نے دعا فرمائی تھی کہ :” اے اللہ ، میری اولاد میں سے جو اس گھر کے جوار میں رہتی ہے ، ایک نبی مبعوث فرما ۔ جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے ۔ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کردے۔ “ یوں مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کا مبعوث کیا جانا ، اور خود ان کا بطور مسلمان پایاجانا ، یہ دراصل ان کے اباجان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی براہ راست قبولیت ہے ۔ اس میں یہ اشارہ بھی مضمر ہے کہ ان کی تحریک کوئی نئی تحریک نہیں ہے ۔ ایک قدیم تحریک ہے ۔ ان کا قبلہ کوئی نیا قبلہ نہیں ہے ، بلکہ ان کے ابا ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ ہے ۔ اور ان پر اسلام نے جو جودوکرم کیا ہے وہ وہی جودوکرم ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست سے کیا تھا ۔

اس نے تمہیں تمہارا پرانا قبلہ دے دیا ، تمہیں ایک مستقل شخصیت عطاکردی ۔ یہ تو اس کے انعامات کا ایک نمونہ ہے جو وہ تم پر مسلسل کرتا چالا آرہا ہے ۔ اور سب سے پہلی نعمت یہ ہے کہ اس نے تم میں اپنا رسول ﷺ تم ہی میں سے مبعوث فرمایا : كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ ” جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا “

اس نے تمہارے اندر رسالت قائم کردی ۔ کیا یہ تمہارے لئے کوئی کم عزت افزائی ہے ؟ یہودی ایک عرصہ سے آخری رسول کا انتظار کررہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ انہیں میں سے ہوگا اور اس کی قیادت میں وہ قریش پر فتح پائیں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ خاتم الرسل تم میں سے چن لیا : يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا ” تمہیں میری آیات سناتا ہے۔ “

وہ جو کچھ پڑھ کر تمہیں سناتا ہے وہ حق ہے ۔ اس فقرے میں ایک شاہانہ حوصلہ افزائی ہے ۔ اللہ کا کلام ، رسول اللہ ﷺ پر نازل ہورہا ہے ، لیکن خطاب اپنے بندوں سے ہورہا ہے ۔ اس انداز کلام پر غور کیا جائے تو یہ ایک عظیم عزت افزائی معلوم ہوتی ہے ۔ دل مارے خوشی کے جھوم جاتا ہے ۔ کیا شان ہے ان لوگوں کی ! وہ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ خداوند قدوس ان سے خطاب کررہا ہے ۔ خود اپنے الفاظ میں ان سے بات ہورہی ہے ۔ کیا عظیم قدردانی ہے یہ ؟ اگر اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل وکرم نہ کرتا تو یہ وہ شان کہاں سے حاصل کرتے ۔ یہ محض اللہ کی جانب سے باران رحمت کا نتیجہ ہے ۔ ابتدائے آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا ڈھانچہ تیار کیا اور اس میں روح پھونکی ۔ اس کی نسل چلائی تاکہ ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ کے انعامات کے مستحق ہوں۔ وہ ایسے ہوں ، جو انعامات کو خوش آمدید کہیں۔

وَيُزَكِّيكُمْ ” وہ تمہیں پاک کردے گا۔ “ اگر اللہ نہ ہوتا تو مشرکین اہل عرب اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی پاک نہ ہوتا ۔ نہ پاک ہوتا اور نہ ہی مرتبہ بلند پاتا ۔ اللہ نے ان میں سے رسول بھیجا تاکہ وہ انہیں پاک کردے ۔ ان کے دل کو شرک کی آلائش اور جاہلیت کی آلودگی سے پاک کردے ۔ ان کی روح کو ایسے تمام تصورات سے پاک کردے جن کے بوجھ تلے انسانی روح صدیوں سے دفن ہوکر رہ گئی تھی۔

وہ انہیں شہوانی قوت کی آلودگیوں سے بھی پاک کرتا ہے ، لہٰذا ان کی روح جنسی بےراہ روی کے گڑھے میں نہیں گرتی ۔ وہ لوگ جنہیں اسلام پاک نہیں کرتا ، چاہے زمانہ قدیم کے باشندے ہوں یا زمانہ جدید کے ، وہ گویا گندے پانی کے چشمے سے جنسی پیاس بجھاتے ہیں ۔ جس سے طبیعت نفرت کرتی ہے اور جس سے انسان کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے ۔ اور ایک حیوان جو صرف حیوانی فطرت کا پابند ہوتا ہے ۔ اس انسان سے ارفع و برتر ہوجاتا ہے ۔ وہ لوگ جو ایمان سے محروم ہیں ان سے یہ حیوان بدرجہا پاک ہوتا ہے ۔ اسی طرح اللہ ان کے معاشرے کو لوٹ کھسوٹ اور سود وساہو کاری سے بھی پاک کرتا ہے ۔ یہ سب چیزیں بھی ایک قسم کی گندگی ہیں ۔ یہ انسانی شعور اور انسانی روح کو گندہ کردیتی ہیں ۔ اور اجتماعی زندگی ان سے آلودہ ہوجاتی ہے۔ وہ ان کی زندگی کو ظلم و زیادتی سے پاک کرتا ہے اور انہیں نظام عدل و احسان عطا کرتا ہے ۔ وہ عدل و انصاف جو اسلامی نظام حیات ، اسلامی نظام حکومت سے پہلے انسانیت نے نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا ۔ غرض انہیں تمام گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک وصاف کردیتا ہے جو ان کے گرد پھیلی ہوئی جاہلیت کے چہرے کا بدنما داغ ہیں اور ہر اس معاشرے میں پائی جاتی ہیں ، جسے اسلامی روح نے پاک نہ کیا ہو ، جس میں اسلام کا پاک وصاف نظام رائج نہ ہو ۔

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ” تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ “ اس سے پہلے جو فرمایا گیا کہ وہ رسول ہی آیات پڑھ کر تمہیں سناتا ہے ، اس سے بھی مراد یہ ہے کہ رسول تمہیں کتاب پڑھاتا ہے لیکن یہاں تعلیم کتاب کے ساتھ تعلیم حکمت کو شامل کیا گیا ہے ۔ حکمت درحقیقت تعلیم کتاب کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ حکمت اس مہارت کا نام ہے جس کے ذریعے انسان ہر چیز کو اس کا اصلی اور صحیح مقام دے دے ۔ ہر بات اور ہر مسئلے کو ایک صحیح معیار پر پرکھے اور احکام وہدایات کی صحیح غرض وغایت سمجھ سکے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کو تربیت دی تھی اور جن کو آیات کتاب اللہ کے ذریعے پاک فرمایا تھا ، وہ حکمت و دانائی میں اس طرح کامل ہوگئے تھے جس طرح ایک پھل درخت کے اوپر پوری طرح پک جاتا ہے ۔

وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (151) ” اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے ۔ “ اسلامی جماعت کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یہ ایک عظیم سچائی ہے ۔ اسلام نے اس جماعت کو عربی معاشرے سے چنا ۔ جس کے پاس چند متفرق معلومات کے سوا کوئی ذخیرہ علم نہ تھا ۔ صرف وہ علم جو صحراء میں ایک قبیلے کی زندگی کے لئے ضروری تھا یا صحرا کے درمیان گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے شہروں کی ضرورت کے لئے کافی تھا۔ اسلام نے اس صحرائی جماعت کو ایک ایسی امت بنادیا جو پوری انسانیت کو حکیمانہ اور عادلانہ قیادت فراہم کرنے لگی۔ ایک مختصر عرصے میں یہ حالت ہوگئی تھی کہ اب یہ امت کڑی نگاہ رکھتی ہے ۔ امور عالم سے باخبر ہے اور زیور علم سے آراستہ ہے قرآن و حکمت قرآن پر مبنی ہدایات رسول ﷺ اس امت کے لئے لئے راہ ہدایت اور سرچشمہ علم بن گئے ہیں۔

مدینہ میں مسجد نبوی جہاں قرآن کریم اور قرآن پر مبنی ارشادات رسول پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے ، امت کے لئے ایک عظیم یونیورسٹی بن گئی ۔ اس یونیورسٹی سے وہ لوگ فارغ ہوکر نکلے جنہوں نے پوری انسانیت کی حکیمانہ راہنمائی کی ایسی قیادت کی جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی ہے اور نہ اس کے بعد آج تک ملتی ہے۔

اسلامی نظام حیات ، جس نے یہ قیادت فراہم کی اور انسانوں کا یہ معیاری گروہ تیار کیا ، آج بھی یہ استعداد رکھتا ہے کہ انسانیت کو ویسی ہی قیادت فراہم کرے ، بشرطیکہ یہ امت صحیح طرح اس قرآن کریم پر ایمان لے آئے ۔ اسے صحیح طرح اپنے لئے زندگی کا ماخذ قرار دے ۔ اور اسے خوش الحانی سے پڑھ کر قوت سامعہ کی تسکین کے لئے استعمال نہ کرے ، بلکہ اسے دستور حیات بنالے۔

آیت 151 کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ یہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا یاد کر لیجیے جو آیت 129 میں مذکور ہوئی۔ اس دعا کا ظہور تین ہزار برس بعد بعثت محمدی ﷺ ‘ کی شکل میں ہو رہا ہے۔ یہاں ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا میں جو ترتیب تھی ‘ یہاں اللہ نے اس کو بدل دیا ہے۔ دعا میں ترتیب یہ تھی : تلاوت آیات ‘ تعلیم کتاب و حکمت ‘ پھر تزکیہ۔ یہاں پہلے تلاوت آیات ‘ پھر تزکیہ اور پھر تعلیم کتاب و حکمت آیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو بات کہی وہ بھی غلط تو نہیں ہوسکتی ‘ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی تنفیذ شدہ imposed صورت یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی۔ اس لیے کہ تزکیہّ مقدم ہے ‘ اگر نیت صحیح نہیں ہے تو تعلیم کتاب و حکمت مفید نہیں ہوگی ‘ بلکہ گمراہی میں اضافہ ہوگا۔ نیت کج ہے تو گمراہی بڑھتی چلی جائے گی۔ تزکیہ کا حاصل اخلاص ہے ‘ یعنی نیت درست ہوجائے۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا بڑا شیطان بھی بن سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بڑے بڑے فتنے عالموں نے ہی اٹھائے ہیں۔ دین اکبری یا دین الٰہی کی تدوین کا خیال تو اکبر کے باپ دادا کو بھی نہیں آسکتا تھا ‘ یہ تو ابوالفضل اور فیضی جیسے علماء تھے جنہوں نے اسے یہ پٹیّ پڑھائی۔ اسی طرح غلام احمد قادیانی کو بھی الٹی پٹیاں پڑھانے والا حکیم نور الدین تھا ‘ جو بہت بڑا اہل حدیث عالم تھا۔ تو درحقیقت کوئی جتنا بڑا عالم ہوگا اگر اس کی نیت کج ہوگئی تو وہ اتنا ہی بڑا فتنہ اٹھا دے گا۔ اس پہلو سے تزکیہ مقدمّ ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہی مضمون سورة آل عمران میں اور پھر سورة الجمعہ میں بھی آیا ہے ‘ وہاں بھی ترتیب یہی ہے : 1 تلاوت آیات 2 تزکیہ 3 تعلیم کتاب و حکمت۔

اللہ کی یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے !یہاں اللہ تعالیٰ اپنی بہت بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی مبعوث فرمایا، جو اللہ تعالیٰ کی روشن اور نورانی کتب کی آیتیں ہمارے سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی شرارتوں اور جاہلیت کے کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے اور کتاب و حکمت یعنی قرآن و حدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے پس آپ کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جہل چھایا ہوا تھا جنہیں صدیوں سے تاریکی نے گھیر رکھا تھا جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تو بھی نہیں پڑا تھا دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے، وہ علم میں گہرے تکلف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے، دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بجائے خود حضور ﷺ کی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت (لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ) 3۔ آل عمران :164) یعنی ایسے اولوالعزم پیغمبر کی بعثت مومنوں پر اللہ کا ایک زبردست احسان ہے اس نعمت کو قدر نہ کرنے والوں کو قرآن کہتا ہے آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ) 14۔ ابراہیم :28) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جنہوں نے اللہ کی اس نعمت کے بدلے کفر کیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالا یہاں اللہ کی نعمت سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں اسی لئے اس آیت میں بھی اپنی نعمت کا ذکر فرما کر لوگوں کو اپنی یاد اور اپنے شکر کا حکم دیا کہ جس طرح میں نے احسان تم پر کیا تم بھی میرے ذکر اور میرے شکر سے غفلت نہ کرو۔

آیت 151 - سورۃ البقرہ: (كما أرسلنا فيكم رسولا منكم يتلو عليكم آياتنا ويزكيكم ويعلمكم الكتاب والحكمة ويعلمكم ما لم تكونوا تعلمون...) - اردو