سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 23 (آیات 146 سے 153 تک)

ٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَٰهُمُ ٱلْكِتَٰبَ يَعْرِفُونَهُۥ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَآءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ ٱلْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِينَ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَٱسْتَبِقُوا۟ ٱلْخَيْرَٰتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا۟ يَأْتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُۥ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُۥ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِى وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِى عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ كَمَآ أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْكُمْ ءَايَٰتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا۟ تَعْلَمُونَ فَٱذْكُرُونِىٓ أَذْكُرْكُمْ وَٱشْكُرُوا۟ لِى وَلَا تَكْفُرُونِ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱسْتَعِينُوا۟ بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٰةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ
23

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اِس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے) ایسا پہچانتے ہیں، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena ataynahumu alkitaba yaAArifoonahu kama yaAArifoona abnaahum wainna fareeqan minhum layaktumoona alhaqqa wahum yaAAlamoona

مسلمانوں سے اس مختصر خطاب کے بعد اب روئے سخن پھر اصل موضوع پر لوٹ آتا ہے ۔ بات وہی ہے کہ اہل کتاب اس بات کو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حق وہی ہے جس کا اظہار قرآن شریف کرتا ہے اور جس کا حکم رسول ﷺ دیتے ہیں لیکن وہ اپنے اس یقینی علم کے باوجود ، اس حق کو چھپاتے ہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اللہ پرست نہیں بلکہ نفس پرست ہیں !

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” جن کو ، ہم نے کتاب دی ہے۔ وہ اس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے ) ایسا ہی پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپارہا ہے۔ “

اپنے بچوں کو پہچاننا علم ومعرفت کی اعلیٰ ترین مثال ہے ۔ عربی زبان میں یہ مثال ایک ایسے مقام اور ایسے واقعہ کے لئے استعمال ہوتی ہے جو یقینی ہو اور اس کے علم ومعرفت میں کوئی شک وشبہ نہ ہو۔ اہل کتاب کی حالت یہ ہے کہ ان کو سچائی کا یقینی علم ہوچکا ہے ۔ تحویل قبلہ کا حکم بھی اسی عالم گیر سچائی کا ایک حصہ ہے اور پھر بھی وہ اس سچائی کو چھپاتے ہیں جو یقینی علم کے طور پر انہیں حاصل ہے ۔ تو پھر مؤمنین کے درست راہ عمل یہ ہے کہ وہ یہودیوں کے کذب وافتراء سے ہرگز متاثر نہ ہوں ۔ ان کو یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی کہ وہ ان یہودیوں سے کوئی چیز اخذ کریں جنہیں حقیقت کا علم ہے اور پھر بھی وہ اسے چھپاتے ہیں ۔ وہ خود اپنے دین کے اس حصے کا بھی انکار کردیتے ہیں جسے مسلمانوں کے رسول امین وحی کی صورت میں پیش کریں ۔ محض تعصب کی وجہ سے ۔

اردو ترجمہ

یہ قطعی ایک امر حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، لہٰذا اس کے متعلق تم ہرگز کسی شک میں نہ پڑو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhaqqu min rabbika fala takoonanna mina almumtareena

اہل کتاب کے سلسلے میں بیان کے بعد اب روئے سخن نبی ﷺ کی ذات کی طرف ہوجاتا ہے الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ” یہ ایک قطعی امر حق ہے ، جو تمہارے رب کی طرف سے ہے ، لہٰذا اس کے متعلق تم ہرگز کسی شک میں نہ پڑو۔ “

کیا رسول اللہ ﷺ نے کبھی شک کیا ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ ایک دوسری آیت میں جب کہا گیا : فَاِن کُنتَ فِی شَکٍّ مِّمَّا اَنزَلنَا اِلَیکَ فَساَلِالَّذِینَ یَقرَءُونَ الکِتَابَ مِن قَبلِکَ ” جو کلام ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ، اگر تمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تم سے پہلے کتاب پڑھتے چلے آرہے ہیں ۔ “

اس پر آپ ﷺ نے فرمایا !” نہ مجھے شک ہے اور نہ ہی میں ان سے پوچھتا ہوں۔ “

تو پھر رسول اللہ ﷺ کو ذاتی طور پر کیوں مخاطب کیا گیا ؟ مسلمانوں کو متوجہ کرنا تھا ۔ چاہے وہ مسلمان جو آپ کے ساتھ موجود تھے اور یہودیوں کے خرافات سے متاثر ہورہے تھے یا وہ لوگ جو بعد میں آنے والے تھے اور دینی معاملات میں یہودیوں کے اباطیل واکاذیب سے متاثر ہوسکتے تھے ۔

میں کہوں گا کہ آج مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ذرا اس تنبیہ پر کان دھریں ۔ آج ہم ایسی نادانی میں مبتلا ہیں جس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے ۔ ہم اپنے دینی معاملات میں بھی یہودونصاریٰ اور اشتراکی ملحدین سے یہ ہدایت طلب کرتے ہیں اور فتویٰ لیتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں سے خود اپنی تاریخ پڑھتے ہیں ۔ ہم ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ورثہ کے بارے میں کوئی بات کریں ۔ وہ ہمارے قرآن اور ہمارے رسول ﷺ کی سنت اور آپ کی سیرت کے بارے میں جو شکوک پیدا کرتے ہیں یہ ان پر اطمینان سے کان دھرتے ہیں ۔ ہم ان کے پاس اپنے طلبہ بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان سے اسلامی تعلیمات حاصل کریں اور ان کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر آئیں اور جب ہمارے پاس لوٹیں تو ان کی عقل ان کا ضمیر فاسد ہوچکا ہو اور وہ فاضل کہلائیں ۔

یاد رکھئے ! یہ قرآن ہمارے لئے کتاب شریعت ہے ۔ وہ پوری امت مسلمہ کی کتاب ہے ۔ یہ امت کی وہ دائمی کتاب ہے جس میں اسے راہ عمل بتایا گیا ہے اور اسے راہ بد سے ڈرایا گیا ہے ۔ اس کے بالمقابل اہل کتاب بہرحال اہل کتاب ہیں ۔ کفار ، کفار ہیں ۔ ان کا دین ان کا دین ہے ، اور ہمارا دین ہمارا دین !

اردو ترجمہ

ہر ایک کے لیے ایک رُخ ہے، جس کی طرف وہ مڑتا ہے پس بھلا ئیوں کی طرف سبقت کرو جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پا لے گا اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walikullin wijhatun huwa muwalleeha faistabiqoo alkhayrati ayna ma takoonoo yati bikumu Allahu jameeAAan inna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

اب بات کا رخ اصل موضوع کی طرف پھرجاتا ہے ۔ مسلمانوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اہل کتاب کی باتوں پر کان ہی نہ دھریں ۔ ان کی ہدایات و رہنمائی قبول ہی نہ کریں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے طریق زندگی اور اپنے نقطہ نظر کی طرف بڑھتے چلے جائیں ۔ ہر گروہ کا اپنا رخ رفتار ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کا رخ نیکی اور خیر کی طرف ہے ۔ انہیں چاہئے کہ کسی چیز کی طرف بھی نظریں نہ اٹھائیں اور بڑھتے چلے جائیں ۔ آخر کار انہیں خداوند قیامت کے سامنے حاضر ہونا ہے جو اس پر اچھی طرح قدرت رکھتا ہے کہ انہیں جمع کرے ۔ وہ قادر ہے کہ وہاں سب کو جزا وسزا دے : وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” ہر ایک کے لئے ایک رخ ہے ، جس کی طرف وہ مڑتا ہے ۔ بس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو ۔ جہاں بھی تم ہوگے ، اللہ تمہیں پالے گا ۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ۔ “

اہل کتاب جو فتنے پھیلاتے تھے اور جو سازشیں کرتے تھے اور اللہ کے کلام کی جو تاویلات و تحریفات کرتے تھے یہاں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اہل کتاب کی ان کارستانیوں میں بالکل دلچسپی نہ لیں ۔ وہ راہ عمل پر گامزن ہوں اور نیکی کے کام میں میں ایک دوسرے کے آگے بڑھیں ۔ ساتھ ساتھ یہ یاد دہانی بھی کرائی جاتی ہے کہ آخرکار انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے آنا ہے ۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ اس کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے ۔ نہ ہی کوئی چیز اس کی نظروں سے اوجھل ہوسکتی ہے ۔ یہ ہے وہ سچائی جس کے مقابلے میں تمام اقوال احوال باطل ہیں ، جن کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہوتی۔

اردو ترجمہ

تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو، وہیں اپنا رُخ (نماز کے وقت) مسجد حرام کی طرف پھیر دو، کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل حق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin haythu kharajta fawalli wajhaka shatra almasjidi alharami wainnahu lalhaqqu min rabbika wama Allahu bighafilin AAamma taAAmaloona

پھر تحویل قبلہ کی بات دھرائی جاتی ہے ، تاکیدا حکم دیا جاتا ہے کہ جدید قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاکرو ، جسے اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہے ، اس موقع پر کچھ نئی تعریفات مرتب ہوئی ہیں اور کچھ نتائج نکالے جاتے ہیں ۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ” تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو ، وہیں سے اپنا رخ (نماز کے وقت ) مسجد حرام کی طرف پھیردو ، کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل برحق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بیخبر نہیں ہے۔ “

اس تاکیدی حکم میں یہودیوں کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی قبلے کے سلسلے میں ان کے موقف کا ذکر ہے ۔ کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ جہاں بھی ہوں اور ان کا گزر جس مقام سے بھی ہو ، وہ نماز کے وقت بیت اللہ کی طرف پھیردیں ۔ کیونکہ یہ ان کے رب کا برحق فیصلہ ہے ۔ اشارۃً یہ بھی کہہ دیا گیا کہ کہیں تمہیں اس سچائی سے روگردانی نہ کردو ۔ قرآن مجید کے الفاظ :” اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بیخبر نہیں ہے “ واضح طور پر اس طرف اشارہ ہوتا ہے ۔ ان الفاظ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ واقعی بعض مسلمانوں کے دلوں میں خلجان تھا اور ایسی صورت حال موجود تھی کہ اللہ تعالیٰ کو باربار تاکید کرنی پڑی اور شدید وعید بھی فرمائی۔

اردو ترجمہ

اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رُخ مسجد حرام کی طرف پھیرا کرو، اور جہاں بھی تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نما ز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے ہاں جو ظالم ہیں، اُن کی زبان کسی حال میں بند نہ ہوگی تو اُن سے تم نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو اور اس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں اور اس توقع پر کہ میرے اس حکم کی پیروی سے تم اسی طرح فلاح کا راستہ پاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin haythu kharajta fawalli wajhaka shatra almasjidi alharami wahaythu ma kuntum fawalloo wujoohakum shatrahu lialla yakoona lilnnasi AAalaykum hujjatun illa allatheena thalamoo minhum fala takhshawhum waikhshawnee waliotimma niAAmatee AAalaykum walaAAallakum tahtadoona

تیسری مرتبہ پھر بالکل ایک جدید غرض کی خاطر ، قبلہ کے معاملے میں تاکید کی جاتی ہے ۔ مسلمان یہودیوں کے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اور یہودی اور دوسرے لوگ اس پر استدلال کرتے تھے کہ ان کا دین مسلمانوں کے دین سے زیادہ افضل ہے ۔ کیونکہ ان کا قبلہ اصل ہے ، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا نظام زندگی بھی اصل ہے ۔ اس لئے تحویل قبلہ کے حکم کی تاکید مزید کرکے اس استدلال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا ۔ (دوسری طرف مشرکین عرب بیت الحرام کو ایک مقدس مقام سمجھتے تھے اور اس کا بےحد احترام کرتے تھے ۔ وہ بھی بیت المقدس کے قبلہ ہونے پر یوں اعتراض کرتے تھے کہ مسلمان تو یہودیوں کے تابع ہیں ۔ انہوں نے اپنے مقدس مقام کو چھوڑ دیا ہے اور بنی اسرائیل کے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلأتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ” اور جہاں بھی تمہارا گزر ہو ، اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیرا کرو اور جہاں بھی تم ہو ، اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے ۔ ہاں جو ظالم ہیں ان کی زبان کسی حال میں بھی بند نہ ہوگی ۔ تو ان سے تم نہ ڈرو ، بلکہ مجھ سے ڈرو ، اور اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں ۔ اس توقع پر کہ تم یہ ہدایت و فلاح کا راستہ پالو۔ “

رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا گزر جہاں سے بھی ہو ، مسجد حرام کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جہاں بھی وہ ہوں اپنا منہ بیت اللہ کی طرف پھیر کر نماز پڑھاکریں۔

ارشاد ہوا ! لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ” تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف حجت نہ ملے ۔ “ ظالم اپنی بات کرتے ہی رہیں گے ۔ وہ کسی حجت اور کسی دلیل کے آگے نہیں جھکتے ۔ ہدایت ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو نظرانداز کردیا جائے ۔ یہ لوگ کٹ حجتی کرتے ہیں اور عناد میں مبتلا ہیں ۔ ایسے لوگوں کو کسی بھی طرح مطمئن نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ اپنی حجت بازی جاری رکھیں گے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي ” ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو “

ان کو تم پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ تمہاری زمام کار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ یہ بات تمہارے شایان شان نہیں ہے کہ تم ان سے ڈر کر ان احکام کو ترک کردو ، جو میری جانب سے تم پر نازل ہوئے ۔ ڈر اور خشیت کے لائق تو میں ہوں ۔ اس لئے کہ تمہاری دنیا وآخرت کے تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں ۔

ظالموں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو اللہ کے انعام واکرام یاد دلائے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے اپنا رویہ درست رکھا اور احکام خداوند کی اطاعت کی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ مزید انعامات کی بارش ہوگی : وَلأتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ” اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اس توقع پر کہ تم راہ ہدایت پالو۔ “

غرض یہ ایک یاد دہانی ہے جس میں ایک خاص اشارہ ہے ، ایک بڑھتی ہوئی حوصلہ افزائی ہے ، اور بار بار اللہ کے فضل وکرم کی طرف اشارہ ہے ۔

وہ کیا انعام ہے ؟ وہ تو ان کے ہاتھوں میں ہے ، خود ان کے دل و دماغ گواہ ہیں کہ وہ کیا ہے ؟ ان کی پوری زندگی میں موجود ہے ۔ وہ اپنے موقف اور اپنے معاشرہ میں اسے پاتے ہیں ۔ اس کائنات میں انہوں نے جو مقام اپنے لئے متعین کیا ہے اس میں بھی وہ اس نعمت کو پاتے ہیں ۔

وہ جاہلیت کی جہالتوں اور تاریکیوں میں زندگی بسر کرچکے تھے ۔ وہ اپنی آنکھوں سے جاہلیت کی تاریکیوں کو دیکھ چکے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے خود نور ایمان کو اختیار کیا ۔ پاکیزگی اور طہارت کو اختیار کیا اور علم ومعرفت کو اختیار کیا ۔ اس لئے وہ اپنے دل و دماغ میں اس نعمت کا اثر ہر وقت تروتازہ ، گہرا اور واضح پاتے ہیں ۔

وہ کوتاہ اندیشانہ قبائلی زندگی بسر کرچکے تھے ، گھٹیا مقاصد کے لئے سالہا سال کشت وخون کرتے رہتے تھے ۔ پھر وہ اپنی خوشی سے ایک نظریہ حیات کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے ، ایک قوت اور شوکت بن گئے ۔ ان کے مقاصد بلند ہوگئے اور ترجیحات وسیع ہوگئیں ۔ ان کا نقطہ نظر خاندانوں اور قبائل کے محدود دائرے سے بلند ہو کر تمام بشریت کی بنیادوں پر استوار ہوگیا ۔ اور اس نے وسعت اختیار کرلی ۔ اس لئے وہ اپنے اندر اور اپنے ماحول میں انعامات الٰہیہ کا وسیع شعور رکھتے ہیں ۔

اسلام سے پہلے وہ کس مقام پر کھڑے تھے ؟ گراپڑا غلیظ معاشرہ ، افکار پریشان اور زندگی کی اقدار مضطرب ، یعنی جاہلی معاشرہ کے مقابلے میں ۔ انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسلام کا پاک اور بلند معاشرہ اپنایا ، جس کے نظریات اور عقائد شیشے کی طرح صاف تھے ، جس کی اقدار متوازن تھیں ۔ اس لئے اسلام ان کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھا ۔ وہ اپنے مقام کو دیکھ کر محسوس کرتے تھے کہ سرتاپا اسلام کے انعامات وبرکات میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

اس لئے اللہ کا فرمان وَلأتِمَّ نِعْمَتِي ” اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں “ تو اللہ کی طرف سے ، اس فقرے میں دراصل ایک خفیہ اشارہ ہے ، ایک قسم کی حوصلہ افزائی تھی اور ہے ، ان انعامات واکرامات کی طرف جس کا احساس خود مسلمانوں کو تھا۔

یہاں تحویل قبلہ کے حکم میں تکرار سے کام لیا گیا ہے ۔ لیکن اس تکرار میں ہر مرتبہ ایک نیا مفہوم دیا گیا ہے ۔ پہلی مرتبہ کہا گیا کہ رسول ﷺ چونکہ تحویل قبلہ کی خواہش رکھتے تھے ۔ اس خواہش کا انداز بیان باادب خموشی تھا۔ آپ بار بار آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ منظور فرمالیا۔ دوسری مرتبہ کہا گیا کہ اگرچہ رسول ﷺ کی طلب اور خواہش بھی تھی ، لیکن حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور عین حق ہے ۔ تیسری مرتبہ جو حکم دیا گیا اس میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ تحویل قبلہ کی حکمت کیا ہے ؟ یہ کہ دشمنان اسلام اس سے اپنے دین کی برتری کے لئے استدلال کرتے تھے اور اس لئے حکم تحویل صادر ہوا ۔ اس لئے مقصد یہ تھا کہ جو لوگ حق کا ساتھ نہیں دیتے ، براہین و دلائل کو تسلیم نہیں کرتے ، وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی کوئی عزت نہ ہو اور وہ ہر معاملے میں ہلکے ہوں۔

ان وجوہ کے ساتھ ، اس وقت مدینہ طیبہ میں اس نوخیز اسلامی تحریک کی صفوں میں ، ایسے حالات پائے جاتے تھے ، جو اس تکرار وتاکید اور استدلال وبیان کے متقاضی تھے۔ بعض مسلمانوں کے دلوں پر مخالفین کے گمراہ کن پروپیگنڈے اور باطل استدلالات کا اثر پایا جاتا تھا ، جس کا اندازہ اس امر سے ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں بار بار تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو خطاب فرماتے ہیں اور اس اثر کے ازالے کے لئے قرآن مجید نے یہ زوردار انداز بیان اختیار کیا ہے اور تحویل قبلہ کی ان وقتی ہدایات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قرآن مجید کا جزء بنادیا گیا ۔ تاکہ اس قسم کے حالات میں ، مسلمان ایسا ہی طرز عمل اختیار کریں ، کیونکہ وہ ایک ایسے معرکے میں کود پڑے ہیں جو تاقیامت جاری رہے گا ، کبھی ٹھنڈا نہ ہوگا ، کبھی نرم نہ ہوگا ، یعنی معرکہ انقلاب اسلامی۔

اس مناسبت سے قرآن مجید مسلمانوں کو پھر یاد دلاتا ہے کہ اللہ نے تمہیں اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے تمہاری طرف اپنے نبی کو بھیجا ، وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو قبلہ مسلمین بیت الحرام کے معمار اول تھے ۔ یوں قرآن مجید مسلمانوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا روحانی وارث قرار دیتا ہے ۔ اور مسلمانوں کا براہ راست تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قائم کردیا جاتا ہے ۔

اردو ترجمہ

جس طرح (تمہیں اِس چیز سے فلاح نصیب ہوئی کہ) میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمہیں میری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے، جو تم نہ جانتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kama arsalna feekum rasoolan minkum yatloo AAalaykum ayatina wayuzakkeekum wayuAAallimukumu alkitaba waalhikmata wayuAAallimukum ma lam takoonoo taAAlamoona

اس آیت کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انہی باتوں کو دہرایا گیا ہے ، جن کی دعوت اس صورت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی تھی ۔ اس وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے ۔ جناب خلیل اللہ نے دعا فرمائی تھی کہ :” اے اللہ ، میری اولاد میں سے جو اس گھر کے جوار میں رہتی ہے ، ایک نبی مبعوث فرما ۔ جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے ۔ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کردے۔ “ یوں مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کا مبعوث کیا جانا ، اور خود ان کا بطور مسلمان پایاجانا ، یہ دراصل ان کے اباجان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی براہ راست قبولیت ہے ۔ اس میں یہ اشارہ بھی مضمر ہے کہ ان کی تحریک کوئی نئی تحریک نہیں ہے ۔ ایک قدیم تحریک ہے ۔ ان کا قبلہ کوئی نیا قبلہ نہیں ہے ، بلکہ ان کے ابا ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ ہے ۔ اور ان پر اسلام نے جو جودوکرم کیا ہے وہ وہی جودوکرم ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست سے کیا تھا ۔

اس نے تمہیں تمہارا پرانا قبلہ دے دیا ، تمہیں ایک مستقل شخصیت عطاکردی ۔ یہ تو اس کے انعامات کا ایک نمونہ ہے جو وہ تم پر مسلسل کرتا چالا آرہا ہے ۔ اور سب سے پہلی نعمت یہ ہے کہ اس نے تم میں اپنا رسول ﷺ تم ہی میں سے مبعوث فرمایا : كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ ” جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا “

اس نے تمہارے اندر رسالت قائم کردی ۔ کیا یہ تمہارے لئے کوئی کم عزت افزائی ہے ؟ یہودی ایک عرصہ سے آخری رسول کا انتظار کررہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ انہیں میں سے ہوگا اور اس کی قیادت میں وہ قریش پر فتح پائیں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ خاتم الرسل تم میں سے چن لیا : يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا ” تمہیں میری آیات سناتا ہے۔ “

وہ جو کچھ پڑھ کر تمہیں سناتا ہے وہ حق ہے ۔ اس فقرے میں ایک شاہانہ حوصلہ افزائی ہے ۔ اللہ کا کلام ، رسول اللہ ﷺ پر نازل ہورہا ہے ، لیکن خطاب اپنے بندوں سے ہورہا ہے ۔ اس انداز کلام پر غور کیا جائے تو یہ ایک عظیم عزت افزائی معلوم ہوتی ہے ۔ دل مارے خوشی کے جھوم جاتا ہے ۔ کیا شان ہے ان لوگوں کی ! وہ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ خداوند قدوس ان سے خطاب کررہا ہے ۔ خود اپنے الفاظ میں ان سے بات ہورہی ہے ۔ کیا عظیم قدردانی ہے یہ ؟ اگر اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل وکرم نہ کرتا تو یہ وہ شان کہاں سے حاصل کرتے ۔ یہ محض اللہ کی جانب سے باران رحمت کا نتیجہ ہے ۔ ابتدائے آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا ڈھانچہ تیار کیا اور اس میں روح پھونکی ۔ اس کی نسل چلائی تاکہ ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ کے انعامات کے مستحق ہوں۔ وہ ایسے ہوں ، جو انعامات کو خوش آمدید کہیں۔

وَيُزَكِّيكُمْ ” وہ تمہیں پاک کردے گا۔ “ اگر اللہ نہ ہوتا تو مشرکین اہل عرب اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی پاک نہ ہوتا ۔ نہ پاک ہوتا اور نہ ہی مرتبہ بلند پاتا ۔ اللہ نے ان میں سے رسول بھیجا تاکہ وہ انہیں پاک کردے ۔ ان کے دل کو شرک کی آلائش اور جاہلیت کی آلودگی سے پاک کردے ۔ ان کی روح کو ایسے تمام تصورات سے پاک کردے جن کے بوجھ تلے انسانی روح صدیوں سے دفن ہوکر رہ گئی تھی۔

وہ انہیں شہوانی قوت کی آلودگیوں سے بھی پاک کرتا ہے ، لہٰذا ان کی روح جنسی بےراہ روی کے گڑھے میں نہیں گرتی ۔ وہ لوگ جنہیں اسلام پاک نہیں کرتا ، چاہے زمانہ قدیم کے باشندے ہوں یا زمانہ جدید کے ، وہ گویا گندے پانی کے چشمے سے جنسی پیاس بجھاتے ہیں ۔ جس سے طبیعت نفرت کرتی ہے اور جس سے انسان کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے ۔ اور ایک حیوان جو صرف حیوانی فطرت کا پابند ہوتا ہے ۔ اس انسان سے ارفع و برتر ہوجاتا ہے ۔ وہ لوگ جو ایمان سے محروم ہیں ان سے یہ حیوان بدرجہا پاک ہوتا ہے ۔ اسی طرح اللہ ان کے معاشرے کو لوٹ کھسوٹ اور سود وساہو کاری سے بھی پاک کرتا ہے ۔ یہ سب چیزیں بھی ایک قسم کی گندگی ہیں ۔ یہ انسانی شعور اور انسانی روح کو گندہ کردیتی ہیں ۔ اور اجتماعی زندگی ان سے آلودہ ہوجاتی ہے۔ وہ ان کی زندگی کو ظلم و زیادتی سے پاک کرتا ہے اور انہیں نظام عدل و احسان عطا کرتا ہے ۔ وہ عدل و انصاف جو اسلامی نظام حیات ، اسلامی نظام حکومت سے پہلے انسانیت نے نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا ۔ غرض انہیں تمام گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک وصاف کردیتا ہے جو ان کے گرد پھیلی ہوئی جاہلیت کے چہرے کا بدنما داغ ہیں اور ہر اس معاشرے میں پائی جاتی ہیں ، جسے اسلامی روح نے پاک نہ کیا ہو ، جس میں اسلام کا پاک وصاف نظام رائج نہ ہو ۔

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ” تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ “ اس سے پہلے جو فرمایا گیا کہ وہ رسول ہی آیات پڑھ کر تمہیں سناتا ہے ، اس سے بھی مراد یہ ہے کہ رسول تمہیں کتاب پڑھاتا ہے لیکن یہاں تعلیم کتاب کے ساتھ تعلیم حکمت کو شامل کیا گیا ہے ۔ حکمت درحقیقت تعلیم کتاب کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ حکمت اس مہارت کا نام ہے جس کے ذریعے انسان ہر چیز کو اس کا اصلی اور صحیح مقام دے دے ۔ ہر بات اور ہر مسئلے کو ایک صحیح معیار پر پرکھے اور احکام وہدایات کی صحیح غرض وغایت سمجھ سکے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کو تربیت دی تھی اور جن کو آیات کتاب اللہ کے ذریعے پاک فرمایا تھا ، وہ حکمت و دانائی میں اس طرح کامل ہوگئے تھے جس طرح ایک پھل درخت کے اوپر پوری طرح پک جاتا ہے ۔

وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (151) ” اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے ۔ “ اسلامی جماعت کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یہ ایک عظیم سچائی ہے ۔ اسلام نے اس جماعت کو عربی معاشرے سے چنا ۔ جس کے پاس چند متفرق معلومات کے سوا کوئی ذخیرہ علم نہ تھا ۔ صرف وہ علم جو صحراء میں ایک قبیلے کی زندگی کے لئے ضروری تھا یا صحرا کے درمیان گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے شہروں کی ضرورت کے لئے کافی تھا۔ اسلام نے اس صحرائی جماعت کو ایک ایسی امت بنادیا جو پوری انسانیت کو حکیمانہ اور عادلانہ قیادت فراہم کرنے لگی۔ ایک مختصر عرصے میں یہ حالت ہوگئی تھی کہ اب یہ امت کڑی نگاہ رکھتی ہے ۔ امور عالم سے باخبر ہے اور زیور علم سے آراستہ ہے قرآن و حکمت قرآن پر مبنی ہدایات رسول ﷺ اس امت کے لئے لئے راہ ہدایت اور سرچشمہ علم بن گئے ہیں۔

مدینہ میں مسجد نبوی جہاں قرآن کریم اور قرآن پر مبنی ارشادات رسول پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے ، امت کے لئے ایک عظیم یونیورسٹی بن گئی ۔ اس یونیورسٹی سے وہ لوگ فارغ ہوکر نکلے جنہوں نے پوری انسانیت کی حکیمانہ راہنمائی کی ایسی قیادت کی جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی ہے اور نہ اس کے بعد آج تک ملتی ہے۔

اسلامی نظام حیات ، جس نے یہ قیادت فراہم کی اور انسانوں کا یہ معیاری گروہ تیار کیا ، آج بھی یہ استعداد رکھتا ہے کہ انسانیت کو ویسی ہی قیادت فراہم کرے ، بشرطیکہ یہ امت صحیح طرح اس قرآن کریم پر ایمان لے آئے ۔ اسے صحیح طرح اپنے لئے زندگی کا ماخذ قرار دے ۔ اور اسے خوش الحانی سے پڑھ کر قوت سامعہ کی تسکین کے لئے استعمال نہ کرے ، بلکہ اسے دستور حیات بنالے۔

اردو ترجمہ

لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faothkuroonee athkurkum waoshkuroo lee wala takfurooni

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ ” تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ “ یہ وہ کرم ہے جس کا صدور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ہوسکتا ہے جس کے خزانوں میں کمی نہیں ، جس کے خزانوں پر کوئی چوکیدار نہیں اور جس کی دادوہش کا نہ حساب ہے ، نہ محاسب ۔ اس کے خزانوں سے طلب اور بلاسبب دادوہش ہوتی رہتی ہے ، اس لئے نہیں کہ ضرورت مند ہے ، بلکہ اس کے وہ معطی ہے ، وہ فیاض ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے :” جس نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی اسے دل میں یاد کروں گا ، جس نے مجھے بھری مجلس میں یاد کیا میں بھی اسے ایسے لوگوں میں یاد کروں گا ، جو اس کے لوگوں سے افضل واخیر ہوں گے۔ “ (حدیث صحیح)

ایسی ہی ایک دوسری حدیث شریف کا مضمون ہے !” رسول اللہ فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے بنی آدم ! اگر تو نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی تجھے دل میں یاد کروں گا اور اگر تونے مجھے لوگوں میں یاد کیا تو میں بھی تجھے ملائکہ میں یاد کروں گا۔ “

بعض روایات میں آتا ہے ” ایسے لوگوں میں جو ان سے بہتر ہوں گے ۔ اگر تو ایک بالشت میرے قریب آئے گا میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا ۔ اگر تم ایک ہاتھ میرے قریب آؤگے تو میں دوہاتھ تیرے قریب آؤں گا ۔ اگر تو میری طرف چل کر آئے گا تو میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔ “

یہ ہے وہ فضل وکرم جس کا بیان الفاظ میں نہیں ہوسکتا ۔ اس کا شکر ، سوائے اس کے کہ دل اپنی گہرائیوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوجائے ، ادا نہیں ہوسکتا۔

اللہ کی یاد کیسے ہو ، الفاظ ضروری نہیں ہیں ، یہ تو دل کی توجہ ہے ۔ دل کا اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے ، چاہے الفاظ ساتھ ہوں یا نہ ہوں ۔ یاد تو ایک دلی شعور ہے اور انفعال ہے اور اس شعور وانفعال کے ادنیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان اللہ کی اطاعت پر آمادہ ہوجائے اور اعلیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان کو اللہ کا دیدار نصیب ہو ، جو لوگ وصول الی اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور جو ذوق دیدار چکھ لیتے ہیں ان کے پیش نظر اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ صرف دیداریار۔

وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ ” میرا شکر ادا کرو اور کفر نہ کرو۔ “ شکر کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اقرار کرے ۔ اور پھر اس کی نافرمانی سے حیا کرے ۔ اور آخری درجہ یہ ہے کہ انسان مجسمہ شکر بن جائے ۔ بدن کی ہر حرکت ، زبان کا ہر لفظ ، دل کی ہر دھڑکن اور دماغ کا ہر تصور نمونہ شکر ہو ۔ کفر سے روکا گیا ہے ۔ اشارہ اس آخری مقام کی طرف ہے ، جس تک آخرکار ایک ناشکر گزار انسان پہنچ جاتا ہے ۔ لاتکفرون سے وہ آخری نکتہ بتایا گیا ہے جہاں ناشکری کے خط کی انتہا ہوجاتی ہے ۔ العیاذ باللہ ۔

تحویل قبلہ کے موقع پر اشتباہ اور ہدایات بالکل واضح اور مناسب ہیں ۔ ذکر الٰہی وہ نقطہ ہے جہاں آکر مومن کا دل اللہ کی عبادت کے لئے تیار ہوتا ہے ۔ پھر وہ ایک خالصتاً اللہ کا ہوجاتا ہے اور اسی نسبت سے منسوب ہوتا ہے ، یعنی بندگی کی وجہ سے بندہ ہوجاتا ہے۔

یہودی سازشوں سے خبردار کرنے کے موقع پر بھی فکر وشکر کی ہدایت دینا مناسب ہے ۔ ہم کہہ آئے ہیں کہ یہودیوں کا آخری مقصد یہ تھا کہ مومنین کو دوبارہ کفر میں داخل کردیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے یہ نعمت چھن جائے ، جو بطور خاص اللہ نے انہیں دی تھی ۔ کیا نعمت ؟ نعمت ایمان ۔ وہ بلند ترین نعمت جو کسی فرد یا کسی جماعت کو دی جاسکتی ہے ۔ خصوصاً عربوں کے لئے تو یہ ایک عظیم نعمت سے بھی عظیم تر تھی ۔ اسی سے تو عربوں کا وجود قائم ہوا۔ تاریخ آدمیت میں عربوں نے ایک عظیم رول ادا کیا ، ان کا نام اس نظریہ حیات سے منسلک ہوگیا جس کے وہ حامل تھے اور جسے انہوں نے بنی نوع آدم تک پہنچانا تھا۔

اسی نعمت کے بغیر عرب کچھ نہ تھے ۔ گمنام تھے ، اب بھی گمنام ہیں اور اگر وہ نہ ہو۔ آئندہ بھی گمنام ہوں گے اگر اسے نہ اپنائیں گے ۔ اسلامی نظریہ حیات کے سوا ان کے پاس تھا ہی کیا ؟ جس کے ذریعے وہ دنیا میں کوئی نام پیدا کرتے ، کیا کسی نظریہ حیات کے بغیر کوئی قوم دنیا میں مقام قیادت حاصل کرسکتی ہے ؟

مقام قیادت کے لئے ایسی فکر کی ضرورت ہے جو پوری زندگی کی قیادت کرتے ۔ انسانی حیات کو ترقی کی راہ دکھائے ۔ اسلامی نظریہ حیات دراصل زندگی کا پورا نظام ہے ۔ وہ صرف ایک نعرہ ہی نہیں ہے جس کے پیچھے مثبت عمل نہ ہو بلکہ ایسا عمل ہے جو اس نظریہ کی تائید کرے ۔ اسلام کے کلمہ طیبہ کے ساتھ ساتھ عمل طیب بھی ضروری ہے جو کلمہ کا مصداق ہو۔

امت کے لئے ضروری بلکہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کو یاد رکھے تاکہ اللہ اسے یاد رکھے ۔ اور اللہ اسے نسیاً منسیاً نہ کردے اور جسے اللہ نے بھلادیا سمجھو وہ ڈوب گیا ۔ زمین پر اس کا ذکر خیر نہ رہے گا ۔ آسمانوں پر اس کا کوئی خیرخواہ نہ رہے گا۔ اور جو اللہ کو یاد کرے گا اللہ اسے یاد کرے گا ۔ آسمانوں پر بھی اس کا ذکر ہوگا ، اور طویل و عریض کائنات میں بھی اس کا ذکر خیر گونج اٹھے گا ۔

ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اللہ کو یاد کیا ۔ پھر اللہ نے بھی انہیں یاد کیا۔ پھر کیا تھا ؟ ان کا نام پوری کائنات میں بلند ہوگیا ، دنیا کی قیادت صالح قیادت ان کے سپرد ہوگئی ۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے رب ذوالجلال کو بھلادیا ۔ تو اس نے بھی ان کو بھلادیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مہمل بن گئے ۔ ضائع ہوگئے ۔ وہ اقوام کی برادری میں حقیر تابع کے مقام تک جاگرے ۔ علاج اب بھی موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ بلاتا ہے ” تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میرا شکر ادا کرو اور کفر اختیار نہ کرو۔ “

درس 9 ایک نظر میں

تحویل قبلہ کے بعد اور امت مسلمہ کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت دینے اور ایسا تشخص عطا کرنے کے بعد ، جو اس امت کے ممتازنظریہ حیات کے ساتھ مناسب تھا ، مسلمانوں کو پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ وہ صبر وصلوٰۃ سے مددلیں کیونکہ انہیں ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ یہ منصب بڑی بڑی قربانیاں چاہتا ہے ۔ شہداء کو خون پیش کرنا ہوگا۔ جانی نقصان ، مالی نقصان ، متاع وثمرات کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ وہ بھوک کے دن دیکھیں گے اور خوفناک راتوں سے دوچار ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہیں بیشمار قربانیاں دینی ہوں گی ۔ ان سب قربانیوں کے لئے انہیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔

انہیں اپنے نفس سے اور اس پوری دنیا سے اسلامی نظام کے قیام کے لئے جہاد کرنا ہوگا ۔ اس عظیم جہاد کی خوفناکیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور مقابلہ اور تیاری اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اہل ایمان صبر وصلوٰۃ سے امداد حاصل کریں۔ انہیں اس امت کا دل اللہ سے جوڑنا ہوگا ۔ اپنے قلوب کو اللہ کے لئے خالص کرنا ہوگا اور اپنے تمام کاموں میں اللہ اور رسول اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ کس لئے کیا کس انعام کے لالچ میں آیا اللہ کی رضامندی کے حصول کے لئے ؟ اس کی رحمت وہدایت کی طلبگاری کی خاطر ؟ کس قدر عظیم اجر ہے یہ ؟ اس کی قدر و قیمت دل مومن ہی سے پوچھئے !

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo istaAAeenoo bialssabri waalssalati inna Allaha maAAa alssabireena

قرآن کریم میں صبر کا تذکرہ بتکرار ہوا ہے ۔ اس لئے کہ تحریک اسلامی کو سخت ترین مخالفتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ اس راہ میں صبر و استقامت کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ تحریک اسلامی کو مسلسل مشکلات اور لگاتار کشمکشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا لہٰذا اس بات کی ضرورت تھی کہ اہل ایمان صبر سے کام لیں اور ان کے نفوس داخلی اور خارجی معاملات میں بیدار رہیں ۔ اہل ایمان کی قوتیں منظم رہیں اور ان کے اعصاب پختہ رہیں ۔ ایسے حالات میں صبر و استقامت کے سوا چارہ کار ہی کیا ہے ؟ اس طرح عبادت میں بھی صبر کی ضرورت ، گناہوں سے بچنے میں صبر کی ضرورت ، غرض ان مختلف النوع سازشوں کے خلاف صبر ، نصرت خداوندی میں تاخیر پر صبر ، طویل ترجدوجہد پر صبر ، باطل کی قوت پر صبر ، دین کے حامیوں کی قلت پر صبر ، بغض وعداوت کے بوجھ پر اور غرض پرستی کی تلخی پر صبر۔

جب صبر طویل ہوجاتا ہے اور مشکلات بڑھ جاتی ہے تو قوت صبر کمزور پڑجاتی ہے ۔ اور بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر بیرونی امداد میسر نہ ہو تو پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا ہے ، اس لئے نماز کے ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی کی جارہی ہے ۔ نماز وہ سرچشمہ ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا ۔ یہ وہ زاد راہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ یہ طبع تجدید قوت ہے ، یہ قوت دل کا سامان ہے ۔ اس سے صبر کی بھرپور قوت حاصل ہوجاتی ہے اور صبر کے ساتھ رضامندی وخندہ پیشانی اور یقین محکم پیدا ہوتا ہے۔

انسان فانی ہے ، ضعیف ہے اور محدود قوت کا مالک ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ قوت کبریٰ سے لو لگائے ۔ جب اس کا مقابلہ شر کی ظاہری اور باطنی قوتوں سے ہو اور معاملہ اس کی محدود قوت و برداشت سے بڑھ جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس ” عظیم قوت “ سے مددلے ۔ اس راہ میں ایسے مقامات آتے ہیں کہ خواہش نفس کا زور ہوجاتا ہے ، طمع و لالچ کی شدیدکشش ہوتی ہے ۔ اور راہ حق پر استقامت کی جدوجہد بھاری ہوجاتی ہے ، فسق وفجور اور ظلم وعدوان کی قوتیں زور پکڑلیتی ہیں اور مقابلہ دشوار ہوجاتا ہے ، راستہ طویل ہوجاتا ہے ، مشقت بڑھ جاتی ہے اور زندگی کے شب وروز تاریک نظر آتے ہیں۔

انسان غور کرتا ہے دیکھتا ہے کہ ابھی وہ کسی مقام تک نہیں پہنچ سکا ، لیکن موت قریب ہے ۔ اس نے کچھ پایا نہیں اور زندگی کا سورج قریب الی الغروب ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ شر دھنی ہوئی روئی کی طرح پھولا ہوا ہے اور حق سکڑا ہوا ہے۔ منزل دور ہے ، افق پر سے آخری شعاع امید غائب بھی ہے اور راستے پر کوئی نشان راہ نہیں ۔ ایسے حالات میں صبر وصلوٰۃ ہی سرچشمہ قوت ہوتے ہیں۔

ایسے مقامات اور ایسی منازل ہی پر نماز کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے ۔ انسان فانی اور خدائے باقی کے درمیان واحد براہ راست رابطہ نماز سے قائم ہوتا ہے ۔ یہ وہ مقام التقا ہے جس پر ایک تنہا قطرہ ابدی سرچشمہ سے آملتا ہے ۔ یہ اللہ کے ان خزانوں کی کنجی ہے جو مستغنی کردیتے ہیں ، جھولی بھردیتے ہیں اور رحمتوں کی بارش کردیتے ہیں ۔ یہ ایک جست ہے اس کے ذریعے انسان اس چھوٹی اور محدود دنیا کی حدود کو پھاڑ کر عظیم تر کائنات کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے ۔ وہ سخت گرمی اور تپتی ہوئی دھوپ میں ۔ ٹھنڈی چھاؤں ہے ، نسیم سحر اور خوشگوار شبنم ہے ۔ وہ تھکے مارے دل کے لئے ایک خوشگوار احساس ہے ۔

حدیث میں آتا ہے کہ رسول ﷺ جب پریشان ہوتے ، سخت حالات سے دوچار ہوتے تو فرماتے تھے !” بلال ! ذرا ہمیں اس کے ذریعے تسکین دو ۔ “ جب بھی آپ ﷺ پریشانیوں کے ہجوم میں ہوتے ، نماز کثرت سے پڑھنا شروع کردیتے ۔

اسلامی نظام دراصل عبادت اور بندگی کا نظام ہے ۔ اس کی عبادت بھی حکیمانہ ہے اس کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ وہ زاد راہ ہے ۔ روحانی امداد کا سرچشمہ ہے ۔ اور دل کی صفائی ہے ۔ جب بھی انسان مصیبت میں مبتلاہو ، دل تنگ ہو ، یہ عبادت کشادگی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور انسان آرام ، خندہ پیشانی اور خوشگواری سے اس مصیبت کو انگیز کرتا ہے ۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو اس عظیم شعار اور بھاری منصب کے لئے منتخب کیا تو آپ کو حکم دیا : يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلا قَلِيلا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا (4)إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا (5)

” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو ، مگر کم ، آدھی رات ، یا اس سے کچھ کم کرلو ، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھالو ، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ “ (المزمل : 5 : 1)

یہ رات کا قیام ، یہ دن کے رکوع و سجود کیا تھے ؟ یہ بھاری کلام ، اور اس عظیم ذمہ داری کے لئے تیاری اور تربیت تھی ، جس کی راہ مصائب وشدائد سے پر تھی ۔ یہ وہ عبادت تھی جس سے سکون کے سوتے پھوٹ پڑے ہیں ۔ باہمی ربط مضبوط ہوجاتا ہے ، کام آسان ہوجاتا ہے ، آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں اور قلب مومن پر تسلی وتشفی اور آرام و اطمینان کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان ان مصائب وشدائد کی دہلیز تک جاپہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں صبر وصلوٰۃ کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا فرماتے ہیں : اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِینَ ” بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ “

اللہ ان کے ساتھ ہے ، ان کی مدد کرتا ہے ، انہیں قوت اور ثابت قدمی عطا کرتا ہے ، ان کے ساتھ انس و محبت رکھتا ہے ، اس کٹھن سفر میں وہ انہیں اکیلے نہیں چھوڑتا ۔ وہ انہیں اور ان کی محدود طاقت اور قوت کو چھوڑ کر ایک طرف نہیں ہوجاتا۔ جب بھی زاد راہ ختم ہو اس کی جانب سے رسد آجاتی ہے ۔ جب بھی وہ تھک کر چور چور ہوجائیں وہ انہیں از سر نو قوت عطا کرتا ہے ۔ وہ آیت کا آغاز :” اے ایمان والو “ کی پیاری آواز سے کرتا ہے اور اس کا اختتام ان حوصلہ افزا الفاظ پر کرتا ہے ۔” بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ “

صبر و تحمل کے بارے میں بیشمار احادیث وارد ہیں یہاں سیاق وسباق قرآنی کی مناسبت سے اور اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے امت مسلمہ کو تیار کرنے کی خاطر جس کے لئے اس امت کو برپا کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث کا ذکر مناسب ہے :

” حضرت خباب ؓ ، ابن الارت روایت بیان کرتے ہیں ! ہم نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی ۔ آپ ﷺ اس خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہمارے لئے نصرت طلب نہیں فرماتے ؟ ہمارے لئے دعا نہیں فرماتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص کو پکڑا جاتا ، اس کے لئے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں رکھ دیا جاتا ، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اسے دوٹکڑے کردیا جاتا ۔ اور لوہے کی کنگھیوں سے نوچ کر اس کی ہڈیوں سے گوشت الگ کردیا جاتا لیکن باوجود ان مشکلات کے کوئی طاقت اسے اپنے دین سے نہ روک سکتی ۔ اور اللہ کی قسم اللہ اس کام کو ضرور پورا کرے گا ۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا ، لیکن اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ بھیڑیا بھیڑیوں کی رکھوالی کرے گا لیکن افسوس کہ تم جلد بازی کرتے ہو۔ “ (بخاری ، ابوداؤد ، نسائی)

ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں ایک بار رسول اللہ ﷺ کسی نبی کا قصہ بیان کرتے تھے ، گویا کہ میں اب بھی انہیں دیکھ رہا ہوں ، اس کی قوم نے انہیں مارا اور لہولہان کردیا ۔ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کررہے تھے اور فرما رہے تھے !” اللہ میری قوم کو معاف کردے ۔ یہ لوگ جانتے نہیں۔ “ (بخاری ومسلم)

یحییٰ بن وثاب نے رسول اللہ ﷺ کے ایک بوڑھے ساتھی سے روایت کی ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ مسلمان جو لوگوں میں رہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرے اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے الگ رہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہ کرے۔ (ترمذی)

اور اب ، تحریک اسلامی مدینہ طیبہ میں ہے ۔ کرہ ارض پر ، اسلامی نظام کے قیام کے لئے ، وہ آگے بڑھ رہی ہے ۔ کیوں نہ بڑھے ! یہ روز اول سے اس کا مقسوم مقدر تھا ۔ اس نے حق کا علم اٹھالیا اور اس علم کو لے کر ایک طویل دشوار گزار سفر پر روانہ ہورہی ہے ۔ قرآن مجیدروحانی طور پر اسے تیار کررہا ہے اس عظیم تحریک جہاد کے دوران کھینچاتانی ہوگی ، مصائب حائل ہوں گے اور ان مجاہدین کو اپنی جانوں اور مالوں کی قربانی دینی ہوگی ، لہٰذا قرآن مجید یہاں انہیں ایک صحیح نقطہ نظر اور ایک درست نقطہ نظریہ حیات عطا کرتا ہے ۔ قرآن تحریک اسلامی کو ایک ایسا معیار ، ایسی کسوٹی ایک ایسی میزان عطا کرتا ہے ، جس پر وہ اس طویل اور کٹھن سفر میں اپنے تمام معاملات اور اپنی تمام اقدار کو پرکھ سکیں۔

23