سورۃ البقرہ: آیت 13 - وإذا قيل لهم آمنوا كما... - اردو

آیت 13 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ ءَامِنُوا۟ كَمَآ ءَامَنَ ٱلنَّاسُ قَالُوٓا۟ أَنُؤْمِنُ كَمَآ ءَامَنَ ٱلسُّفَهَآءُ ۗ أَلَآ إِنَّهُمْ هُمُ ٱلسُّفَهَآءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

اور جب ان سے کہا گیا جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha qeela lahum aminoo kama amana alnnasu qaloo anuminu kama amana alssufahao ala innahum humu alssufahao walakin la yaAAlamoona

آیت 13 کی تفسیر

آیت 13 وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ آخر دیکھو ‘ یہ دوسرے اہل ایمان ہیں ‘ جب بلاوا آتا ہے تو فوراً لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ‘ جبکہ تم نے اور ہی روش اختیار کر رکھی ہے۔ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ ط منافقینّ سچے اہل ایمان کے بارے میں کہتے تھے کہ انہیں تو اپنے نفع کی فکر ہے نہ نقصان کی ‘ نہ خطرات کا کوئی خیال ہے نہ اندیشوں کا کوئی گمان۔ جان ‘ مال اور اولاد کی کوئی پروا نہیں۔ یہ گھر بار کو چھوڑ کر آگئے ہیں ‘ اپنے بال بچے کفار مکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے ہیں کہ سرداران قریش ان کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں ‘ تو یہ تو بیوقوف لوگ ہیں۔ آج کل آپ ایسے لوگوں کو fanatics کہتے ہیں بھئی دیکھ بھال کر چلنا چاہیے ‘ دائیں بائیں دیکھ کر چلنا چاہیے۔ اپنے نفع و نقصان کا خیال کر کے چلنا چاہیے۔ ٹھیک ہے ‘ اسلام دین حق ہے ‘ لیکن بہرحال اپنی اور اپنے اہل و عیال کی مصلحتوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ یہ لوگ تو معلوم ہوتا ہے بالکل دیوانے اور fanatics ہوگئے ہیں۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُوْنَ وہ صادق الایمان جو ایمان کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہیں ‘ ان سے بڑا عقل مند اور ان سے بڑا سمجھ دار کوئی نہیں۔ انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ‘ یہ زندگی تو عارضی ہے ‘ تو اگر کل کے بجائے آج ختم ہوجائے یا ابھی ختم ہوجائے تو کیا فرق پڑے گا ؟ یہاں سے جانا تو ہے ‘ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں ‘ جانا تو ہے۔ تو عقل تو ان کے اندر ہے۔

خود فریبی کے شکار لوگ مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں اور رسولوں ﷺ پر ایمان لانے، موت کے بعد جی اٹھنے، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے، اللہ اور رسول ﷺ کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ فرقہ ایسے ایمان والوں کو بیوقوف قرار دیتا ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ، ربیع، انس، عبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ سفھاء سفیہ کی جمع ہے جیسے حکماء حکیم کی اور حلماء حلیم کی۔ جاہل، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو سفیہ کہتے ہیں۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت (وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا) 4۔ النسآء :5) بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو تمہارے قیام کا سبب ہیں۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں سفہاء سے مراد عورتیں اور بچے ہیں۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً حصر کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہوگی ؟

آیت 13 - سورۃ البقرہ: (وإذا قيل لهم آمنوا كما آمن الناس قالوا أنؤمن كما آمن السفهاء ۗ ألا إنهم هم السفهاء ولكن لا يعلمون...) - اردو