الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ” جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہوتا ہے ۔ وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرتے کا رویہ اختیار کریں وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ “
کیونکہ وہ ایمان سے محروم ہوگئے ہیں اور ایمان اس پوری کائنات میں اللہ کی جملہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ لہٰذا ایمان کے خسارے سے بڑا خسارہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اس فیصلہ کن اور زور دار تقریر کے بعد روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف پھرجاتا ہے ۔ گویا اس طویل مقابلے اور مجادلے کے بعد اور اللہ اور اس کے نبیوں کے ساتھ ان کے طرز عمل کی طویل تاریخ کے دہرانے کے بعد انہیں آخری بار متوجہ کیا جاتا ہے۔ انہیں چھوڑ کر حضرت نبی ﷺ اور مومنین کو خطاب کرنے کے بعد اب یہاں دوبارہ انہیں آخری بار دعوت دی جاتی ہے ۔ دراں حالیکہ وہ امانت الٰہی یعنی اسلامی نظریہ حیات کی حفاظت کے شرف سے حد درجہ غافل اور بےپر وہ ہوچکے ہیں ۔ حالانکہ یہ شرف اور ذمہ داری انہیں ازمنہ قدیم سے حاصل چلی آرہی تھی ۔ غرض اس تقریر کے آخری حصے میں بھی لوگوں کو وہی دعوت دی جاتی ہے جو اس کے آغاز میں انہیں دی گئی تھی ۔
آیت 121 اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تلاَوَتِہٖ ط۔ اس پر میں نے اپنے کتابچے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق میں بحث کی ہے کہ تلاوت کا اصل حق کیا ہے۔ ایک بات جان لیجیے کہ تلاوت کا لفظ ‘ جو قرآن نے اپنے لیے اختیار کیا ہے ‘ بڑا جامع لفظ ہے۔ تَلَا یَتْلُوْ کا معنی پڑھنا بھی ہے اور تَلَا یَتْلُوْ کسی کے پیچھے پیچھے چلنے to follow کو بھی کہتے ہیں۔ سورة الشمس کی پہلی دو آیات ملاحظہ کیجیے : وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰٹہَا قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آتا ہے۔ جب آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو آپ اس کے متن text کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ چناچہ بعض لوگ جو زیادہ ماہر نہیں ہوتے ‘ کتاب پڑھتے ہوئے اپنی انگلی ساتھ ساتھ چلاتے ہیں تاکہ نگاہ ادھر سے ادھر نہ ہوجائے ‘ ایک سطر سے دوسری سطر پر نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کی تلاوت کا اصل حق یہ ہوگا کہ آپ اس کتاب کو follow کریں ‘ اسے اپنا امام بنائیں ‘ اس کے پیچھے چلیں ‘ اس کا اتباعّ کریں ‘ اس کی پیروی کریں ‘ جس کی ہم دعا کرتے ہیں : وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً اور اسے میرے لیے امام اور روشنی اور ہدایت اور رحمت بنا دے ! اللہ تعالیٰ اس قرآن کو ہمارا امام اسی وقت بنائے گا جب ہم فیصلہ کرلیں کہ ہم اس کتاب کے پیچھے چلیں گے۔اُولٰٓءِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ط۔ یعنی جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کریں اور اس کی پیروی بھی کریں۔ اور جو نہ تو تلاوت کا حق ادا کریں اور نہ کتاب کی پیروی کریں ‘ لیکن وہ دعویٰ کریں کہ ہمارا ایمان ہے اس کتاب پر تو یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : مَا آمَنَ بالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ 14 جس شخص نے قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کرلیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں ہے۔وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ اب یہود کے ساتھ اس سلسلۂ کلام کا اختتام ہو رہا ہے جس کا آغاز چھٹے رکوع سے ہوا تھا۔ اس سلسلۂ کلام کے آغاز میں جو دو آیات آئی تھیں انہیں میں نے بریکٹ سے تعبیر کیا تھا۔ وہی دو آیات یہاں دوبارہ آرہی ہیں اور اس طرح گویا بریکٹ بند ہو رہی ہے۔