اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 120 وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ ط لہٰذا آپ ان سے امید منقطع کر لیجیے۔ اس لیے کہ زیادہ امید ہو تو پھر مایوسی ہوجاتی ہے۔ اقبال نے بندۂ مؤمن کے بارے میں بہت خوب کہا ہے : ع اس کی امیدیں قلیل ‘ اس کے مقاصد جلیل !مقصد اونچا ہو ‘ لیکن امید قلیل رہنی چاہیے۔ اللہ چاہے گا تو ہوجائے گا ‘ نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ بندۂ مؤمن کا کام اپنی حد تک اپنا فرض ادا کردینا ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش اگر اپنے دل میں پالیں گے تو کسی عجلت پسندی میں گرفتار ہوجائیں گے اور کسی راہ یسیر یا راہ قصیر short cut کے ذریعے منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اپنے آپ کو بھی برباد کرلیں گے۔قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی ط۔ جو اللہ نے بتلایا ہے وہی سیدھا راستہ ہے۔وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآءَ ‘ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَ ‘ کَ مِنَ الْعِلْمِلا اگر بفرض محال آپ ﷺ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی کہ چلو کچھ لو کچھ دو کا معاملہ کرلو ‘ کچھ ان کی بات مانوکچھ اپنی بات منوا لو ‘ تو یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہوگا۔ مکہ میں قریش کی طرف سے اس طرح کی پیشکش کی جاتی تھی کہ کچھ اپنی بات منوا لیجیے ‘ کچھ ہماری مان لیجیے ‘ compromise کرلیجیے ‘ اور اب مدینہ میں یہود کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ چناچہ اس پر متنبہ کیا جا رہا ہے۔ ّ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ معاذ اللہ ! حق کی تلوار بالکل عریاں ہے۔ اللہ کا عدل ہر فرد کے لیے الگ نہیں ہے ‘ یہ فرد سے فرد تک بدلتا نہیں ہے۔ ایسے ہی ہر قوم اور ہر امت کے لیے قانون تبدیل نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک قوم سے کوئی ایک معاملہ ہو اور دوسری قوم سے کوئی دوسرا معاملہ۔ اللہ کے اصول اور قوانین غیر مبدل ہیں۔ اس ضمن میں اس کی ایک سنت ہے جس کے بارے میں فرمایا : فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا فاطر پس تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ‘ اور تم اللہ کے طریقے کو ہرگز ٹلتا ہوا نہیں پاؤ گے۔
آیت 121 اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تلاَوَتِہٖ ط۔ اس پر میں نے اپنے کتابچے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق میں بحث کی ہے کہ تلاوت کا اصل حق کیا ہے۔ ایک بات جان لیجیے کہ تلاوت کا لفظ ‘ جو قرآن نے اپنے لیے اختیار کیا ہے ‘ بڑا جامع لفظ ہے۔ تَلَا یَتْلُوْ کا معنی پڑھنا بھی ہے اور تَلَا یَتْلُوْ کسی کے پیچھے پیچھے چلنے to follow کو بھی کہتے ہیں۔ سورة الشمس کی پہلی دو آیات ملاحظہ کیجیے : وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰٹہَا قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آتا ہے۔ جب آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو آپ اس کے متن text کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ چناچہ بعض لوگ جو زیادہ ماہر نہیں ہوتے ‘ کتاب پڑھتے ہوئے اپنی انگلی ساتھ ساتھ چلاتے ہیں تاکہ نگاہ ادھر سے ادھر نہ ہوجائے ‘ ایک سطر سے دوسری سطر پر نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کی تلاوت کا اصل حق یہ ہوگا کہ آپ اس کتاب کو follow کریں ‘ اسے اپنا امام بنائیں ‘ اس کے پیچھے چلیں ‘ اس کا اتباعّ کریں ‘ اس کی پیروی کریں ‘ جس کی ہم دعا کرتے ہیں : وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً اور اسے میرے لیے امام اور روشنی اور ہدایت اور رحمت بنا دے ! اللہ تعالیٰ اس قرآن کو ہمارا امام اسی وقت بنائے گا جب ہم فیصلہ کرلیں کہ ہم اس کتاب کے پیچھے چلیں گے۔اُولٰٓءِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ط۔ یعنی جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کریں اور اس کی پیروی بھی کریں۔ اور جو نہ تو تلاوت کا حق ادا کریں اور نہ کتاب کی پیروی کریں ‘ لیکن وہ دعویٰ کریں کہ ہمارا ایمان ہے اس کتاب پر تو یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : مَا آمَنَ بالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ 14 جس شخص نے قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کرلیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں ہے۔وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ اب یہود کے ساتھ اس سلسلۂ کلام کا اختتام ہو رہا ہے جس کا آغاز چھٹے رکوع سے ہوا تھا۔ اس سلسلۂ کلام کے آغاز میں جو دو آیات آئی تھیں انہیں میں نے بریکٹ سے تعبیر کیا تھا۔ وہی دو آیات یہاں دوبارہ آرہی ہیں اور اس طرح گویا بریکٹ بند ہو رہی ہے۔
فرمایا :آیت 122 یٰبَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ یہ آیت بعینہٖ ان الفاظ میں چھٹے رکوع کے آغاز میں آچکی ہے۔ آیت 47 دوسری آیت بھی جوں کی توں آرہی ہے ‘ صرف الفاظ کی ترتیب تھوڑی سی بدلی ہے۔ عبارت کے شروع اور آخر والی بریکٹس ایک دوسرے کا عکس ہوتی ہیں۔ ایک کی گولائی دائیں طرف ہوتی ہے تو دوسری کی بائیں طرف۔ اسی طرح یہاں دوسری آیت کی ترتیب درمیان سے تھوڑی سی بدل دی گئی ہے۔
فرمایا :آیت 123 وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وہاں الفاظ تھے : وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی ‘۔ ‘ وَّلاَ تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اسے کوئی سفارش ہی فائدہ دے سکے گی یہاں عدل پہلے اور شفاعت بعد میں ہے ‘ وہاں شفاعت پہلے ہے اور عدل بعد میں۔ بس یہی ایک تبدیلی ‘ ہے۔ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ یہ ٹکڑا بھی جوں کا توں وہی ہے جس پر چھٹے رکوع کی دوسری آیت ختم ہوئی تھی۔
سورة البقرۃ کے ابتدائی اٹھارہ رکوعوں میں روئے سخن مجموعی طور پر سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی جانب ہے۔ ابتدائی چار رکوع اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل ہیں ‘ لیکن ان میں بھی یہود کی طرف روئے سخن کے اشارے موجود ہیں۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے پندرہویں رکوع کی ابتدائی دو آیات تک ‘ ان دس رکوعوں میں ساری گفتگو صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل ہی سے ہے ‘ اِلّا یہ کہ ایک جگہ اہل ایمان سے خطاب کیا گیا اور کچھ مشرکین مکہ کا بھی تعریض کے اسلوب میں تذکرہ ہوگیا۔اس کے بعد اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دو شاخیں ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ‘ جو بڑے تھے ‘ جبکہ دوسری بیوی حضرت سارہ سے اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام تھے ‘ جن کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس ‘ وادئ غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا ‘ جن سے ایک نسل بنی اسماعیل چلی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تو ملی ‘ لیکن اس کے بعد تقریباً تین ہزار سال کا فصل ہے کہ اس شاخ میں کوئی نبوت نہیں آئی۔ نبوت کا سلسلہ دوسری شاخ میں چلا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سب نبی تھے۔ پھر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہ السلام تک چودہ سو برس مسلسل ایسے ہیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ایک تیسری شاخ بنی قطورہ بھی تھی۔ یہ آپ علیہ السلام کی تیسری اہلیہ قطورہ سے تھی۔ ان ہی میں سے بنی مدین یا بنی مدیان تھے ‘ جن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت ہوئی تھی۔ اس طرح حضرت شعیب علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد بنی اسماعیل میں نبوت کا سلسلہ منقطع رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً تین ہزار سال بعد محمد عربی ﷺ کی بعثت ہوئی۔ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد امامت الناس سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل سے موجودہ امت مسلمہ اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو منتقل ہوگئی۔ اس انتقال امامت کے وقت بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اور بنی اسماعیل کے مابین قدر مشترک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے لیے بات کا سمجھنا آسان ہوجائے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے جدامجد بھی ابراہیم علیہ السلام ہی تھے اور یہ دوسری نسل بھی ابراہیم علیہ السلام ہی کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اب اسے اہل توحید کا مرکز بنایا جا رہا ہے ‘ چناچہ پندرہویں رکوع سے اٹھارہویں رکوع تک یہ ساری گفتگو جو ہو رہی ہے اس کا اصل مضمون تحویل قبلہ ہے۔آیت 124 وَاِذِ ابْتَلآی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط عید الاضحی اور فلسفۂ قربانی کے عنوان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیتّ پر میرا ایک کتابچہ ہے جو میری ایک تقریر اور ایک تحریر پر مشتمل ہے۔ تحریر کا عنوان ہے : حج اور عید الاضحی اور ان کی اصل روح۔ اپنی یہ تحریر مجھے بہت پسند ہے۔ اس میں میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات اور آزمائشوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ علیہ السلام کے طویل سفر حیات کا خلاصہ اور لب لباب ہی امتحان و آزمائش ہے ‘ جس کے لیے قرآن کی اصطلاح ابتلاء ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ان کی پوری داستان ابتلا کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ‘ اور فَاَتَمَّہُنَّ کا لفظ ان تمام امتحانات کا نتیجہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ان سب میں پورا اترے ‘ ان سب میں پاس ہوگئے ‘ ہر امتحان میں نمایاں حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَامًا ط قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط یعنی میری نسل کے بارے میں بھی یہ وعدہ ہے یا نہیں ؟قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ یعنی تمہاری نسل میں سے جو صاحب ایمان ہوں گے ‘ نیک ہوں گے ‘ سیدھے راستے پر چلیں گے ‘ ان سے متعلق ہمارا یہ وعدہ ہے۔ لیکن یہ عہد نسلیت کی بنیاد پر نہیں ہے کہ جو بھی تمہاری نسل سے ہو وہ اس کا مصداق بن جائے۔
آیت 125 وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ط۔ دورِجدید کے بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ مقام ابراہیم علیہ السلام سے مراد کوئی خاص پتھر نہیں ہے ‘ بلکہ اصل میں وہ پوری جگہ ہی مقام ابراہیم ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام آباد ہوئے تھے۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہمارے سلف سے چلی آرہی ہے اور اس کے بارے میں پختہ روایات ہیں کہ جس طرح حجر اسود جنت سے آیا تھا ایسے ہی یہ بھی ایک پتھر تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جنت سے لایا گیا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران آپ علیہ السلام اس پر کھڑے ہوتے تھے اور جیسے جیسے تعمیر اوپر جا رہی تھی اس کے لیے یہ پتھر خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس پتھر پر آپ علیہ السلام کے قدموں کا نشان ہے۔ یہی پتھر مقام ابراہیم ہے جو اب بھی محفوظ ہے۔ بیت اللہ کا طواف مکمل کر کے اس کے قریب دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ وَعَہِدْنَآ اِلآی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اس سے دونوں طرح کی تطہیر مراد ہے۔ ظاہری صفائی بھی ہو ‘ گندگی نہ ہو ‘ تاکہ زائرین آئیں تو ان کے دلوں میں کدورت پیدا نہ ہو ‘ انہیں کو فت نہ ہو۔ اور تطہیر باطنی کا بھی اہتمام ہو کہ وہاں توحید کا چرچا ہو ‘ کسی طرح کا کوئی کفر و شرک در نہ آنے پائے۔
آیت 126 وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَہْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود ہی احتیاط برتی اور اپنی ساری اولاد کے لیے یہ دعا نہیں کی ‘ بلکہ صرف ان کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ پہلی دعا میں وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا : لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ لیکن یہاں معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلاً جو لوگ ایمان سے محروم ہوں گے انہیں میں امامت میں شامل نہیں کروں گا ‘ لیکن بہرحال دنیوی زندگی کا مال و متاع تو میں ان کو بھی دوں گا۔ ثُمَّ اَضْطَرُّہٗ اِلٰی عَذَاب النَّارِ ط وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ