آسمانوں اور زمینوں کے درمیان جو چیزیں ہیں ان میں سے اسے کسی کو بیٹا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ لہٰذا تمام لوگ اس کی مخلوق ہے اور ایک درجے میں ہے ، اور ایک ہی حیثیت رکھتی ہے۔
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (117) ” وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا فیصلہ کرتا ہے اس کے لئے بس صرف یہ حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔ “
اللہ کا یہ ارادہ جس طرح اس ہونے والی مخلوق کے ساتھ متعلق ہوجاتا ہے ، اس کی تفصیل کی کیفیت انسانی ادراک اور فہم سے بالا ہے ۔ کیونکر یہ انسانی ادراک کے حیطہ قدرت ہی سے وراء ہے ۔ لہٰذا انسانی ادراک کی قوتوں کو ایسی ناقابل تصور کیفیات کے ادراک میں صرف کردینا ایک عبث کام ہوگا۔ اور بلا دلیل وبرہان اس وادی پرپیچ میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہوگا۔
آیت 117 بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وہ بغیر کسی شے کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ابداع اور خلق میں فرق نوٹ کیجیے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رح نے حجۃ اللہ البالغہ کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال بنیادی طور پر تین ہیں : ابداع ‘ خلق اور تدبیر۔ ابداع سے مراد ہے عدم محض سے کسی چیز کو وجود میں لانا ‘ جسے انگریزی میں creation ex nihilo سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ خلق ایک چیز سے دوسری چیز کا بنانا ہے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے گارے سے انسان بنایا ‘ آگ سے ّ جنات بنائے اور نور سے فرشتے بنائے ‘ یہ تخلیق ہے۔ تو بدیع وہ ذات ہے جس نے کسی مادۂ تخلیق کے بغیر ایک نئی کائنات پیدا فرما دی۔ ہمارے ہاں بدعت وہ شے کہلاتی ہے جو دین میں نہیں تھی اور خواہ مخواہ لا کر شامل کردی گئی۔ جس بات کی جڑ بنیاد دین میں نہیں ہے وہ بدعت ہے۔