سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 18 (آیات 113 سے 119 تک)

وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ لَيْسَتِ ٱلنَّصَٰرَىٰ عَلَىٰ شَىْءٍ وَقَالَتِ ٱلنَّصَٰرَىٰ لَيْسَتِ ٱلْيَهُودُ عَلَىٰ شَىْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ ٱلْكِتَٰبَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَٱللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ فِيمَا كَانُوا۟ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا ٱسْمُهُۥ وَسَعَىٰ فِى خَرَابِهَآ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَآ إِلَّا خَآئِفِينَ ۚ لَهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا خِزْىٌ وَلَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ وَلِلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا۟ فَثَمَّ وَجْهُ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ وَقَالُوا۟ ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَٰنَهُۥ ۖ بَل لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُۥ قَٰنِتُونَ بَدِيعُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ وَقَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا ٱللَّهُ أَوْ تَأْتِينَآ ءَايَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَٰبَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَٰبِ ٱلْجَحِيمِ
18

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہودی کہتے ہیں: عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں عیسائی کہتے ہیں: یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں، جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں، ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqalati alyahoodu laysati alnnasara AAala shayin waqalati alnnasara laysati alyahoodu AAala shayin wahum yatloona alkitaba kathalika qala allatheena la yaAAlamoona mithla qawlihim faAllahu yahkumu baynahum yawma alqiyamati feema kanoo feehi yakhtalifoona

یہود ونصاریٰ دونوں لمبے چوڑے دعوے کرتے رہتے تھے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ تو کچھ نہیں ۔ نیز مشرکین تو ان سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے تھے اور کہتے تھے کہ ان دونوں گروہوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (113)

” یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کچھ نہیں ۔ حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ایسے لوگوں کے پاس بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ۔ یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کرے گا۔ “

جن لوگوں کے پاس کتاب کا علم نہیں یعنی انپڑھ عرب جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی ۔ یہ لوگ جب بھی دیکھتے تھے کہ یہود ونصاریٰ جس تفرق اور اختلافات کا شکار ہیں ایک دوسرے کو جس طرح گالیاں دے رہے ہیں اور جس طرح الزام تراشیاں کررہے ہیں یا جن خرافات اور بےحقیقت باتوں پر وہ ایمان لائے ہوئے ہیں ۔ وہ اہل شرک اور عربوں کے مشرکانہ خیالات ، فرشتوں کے اولاد الٰہی ہونے کے تصورات سے کسی بھی طرح اونچے عقائد یا نظریات نہیں ۔ اس لئے وہ بھی ان عقائد کو حقیر سمجھتے ہوئے یہود ونصاریٰ کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ان کے ارکان کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جنت کی ملکیت کے بارے میں یہود ونصاریٰ کے ان دعوؤں کے بعد قرآن کریم ان لوگوں کی باہم الزام تراشیاں نقل کرکے ان کے فیصلے کو اللہ پر چھوڑدیتا ہے اور کہتا ہے فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ” پس اللہ ہی قیامت کے دن ان کے مختلف فیہ مسائل کا فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ وہی عادل جج ہے ۔ اور آخر کار تمام امور اسی کے سامنے جانے ہیں ۔ “ جو لوگ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہی جنتی ہیں اور اہل ہدایت ہیں لیکن وہ کسی منطق کے قائل نہیں ہوتے ، نہ ان کے دعاوی کسی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ ہی پر چھوڑ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں سے جان چھڑانے کی بس یہی صورت ہے ۔

یہودی ، مسلمانوں کے دلوں میں پیغمبر ﷺ کے اوامر اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مشاعی کرتے تھے ، خصوصاً تحویل قبلہ کے معاملے میں ، ان کا پروپیگنڈی تو اپنی انتہاء کو پہنچ گیا تھا۔ اب روئے سخن ان کی ان مذموم مساعی کی تردید کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی یہ جدوجہد درحقیقت مساجد اللہ کی تخریب ہے اور ان کا مقصد مساجد اللہ میں اللہ کے ذکر وفکر سے لوگوں کو منع کرنا ہے۔

اردو ترجمہ

اوراس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی، تو ڈرتے ہوئے جائیں ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman athlamu mimman manaAAa masajida Allahi an yuthkara feeha ismuhu wasaAAa fee kharabiha olaika ma kana lahum an yadkhulooha illa khaifeena lahum fee alddunya khizyun walahum fee alakhirati AAathabun AAatheemun

اقرب الی الذہن یہ ہے کہ ان دوآیات کا تعلق مسئلہ تحویل قبلہ سے ہے ۔ کیونکہ اس مرحلے پر یہودی اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو نئے قبلہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھنے سے باز رکھیں ، حالانکہ کعبہ وہ پہلا عبادت خانہ تھا جو عوام کے لئے بنایا گیا اور وہی اسبق قبلہ تھا۔ اگرچہ اس آیت کے اسباب ونزول کے سلسلے میں اس کے علاوہ بھی متعدد روایات ہیں۔

بہرحال آیت کی عمومیت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ یہ ایک عام حکم ہے اور اس میں ہر کسی کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مساجد میں اس کے ذکر دفکر اور عبادت سے روکیں۔ یا ان مساجد کی تخریب کے درپے ہوں ۔ یہاں ایسے لوگوں کا حکم اور وہ جزا بھی بتادی جاتی ہے جس کے مستحق وہ تمام لوگ ہیں جو ایسے کام کرتے ہیں ۔ “ اور وہ جزا یہ ہے أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلا خَائِفِينَ ” ایسے لوگ تو اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔ “

یعنی وہ ہمیشہ دھکیلے جانے ، بھگائے جانے اور امن و سکون سے محروم ہونے کے مستحق ہیں الا یہ کہ وہ اس خوف اور بےچینی سے پناہ گاہ کی تلاش میں ڈرتے ڈرتے مسجدوں میں جاگھسیں ۔ اور مسجد کے احترام کا دامن تھام لیں ۔ (یہی صورت حال فتح مکہ کے موقع پر پیش آئی ) جب رسول اللہ ﷺ کے منادی نے پکارا کہ ” جو شخص مسجد حرام میں پناہ لے گا اسے پناہ مل جائے گی۔ “ چناچہ قریش کے تمام سرکش افراد بھی مسجد میں جاگھ سے حالانکہ یہی وہ لوگ تھے جو ایک عرصہ تک رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے بھی روک رہے تھے ۔ ) ایسے لوگوں کا انجام بتاتے ہوئے قرآن کریم مزید وضاحت کرتا ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور آخرت میں تو ان کے لئے عذاب عظیم تیار کیا گیا ہے ۔ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ” ان کے لئے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے ۔ “

بعض مفسرین نے آیت مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلا خَائِفِينَکی تفسیر یہ کی ہے کہ ایسے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ آداب مسجد کا لحاظ کرتے ہوئے مساجد میں ڈرتے ڈرتے اور خضوع اور خشوع کے ساتھ داخل ہوں ، کیونکہ اللہ کی مساجد کا احترام اور اللہ ذوالجلال کی ہیبت اور دبدبے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے گھر میں بصد احترام قدم رکھاجائے ۔ بہرحال یہ بھی ایک تفسیر ہے اور آیت اس کی بھی متحمل ہے۔

اردو ترجمہ

مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillahi almashriqu waalmaghribu faaynama tuwalloo fathamma wajhu Allahi inna Allaha wasiAAun AAaleemun

لیکن ان آیات میں سے دوسری یعنی وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُچونکہ تحویل قبلہ کے موقع پر نازل ہوئی اس لئے ہم نے پہلی آیت ومن اظلم کو بھی تحویل قبلہ پر محمول کیا ہے۔

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ” مشرق اور مگر ب سب اللہ کے ہیں ۔ جس طرف بھی تم رخ کروگے اسی طرح اللہ کا رخ ہے ۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔ “

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس پروپیگنڈے کے ردّمیں نازل ہوئی ہے جو وہ تحویل قبلہ کے خلاف کر رہے تھے کہ اگر قبلہ یہ ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ مسلمانوں نے جو نمازیں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے ادا کیں وہ سب باطل تھیں ۔ سب ضائع گئیں اور اللہ کے ہاں ان کا کوئی حساب نہ ہوگا۔ آیت میں یہودیوں کے اس خیال باطل کی تردید کی جاتی ہے کہ جس طرف بھی رخ کیا جائے وہی قبلہ ہے ۔ ایک عبادت گذار جس طرف بھی رخ کرے ، اللہ کا رخ اسی طرف ہے ۔ رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک معین سمت کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا جو حکم دیا ہے وہ محض امتثال امر ہے اور عبادت و اطاعت ہے۔ یہ حکم اس لئے نہیں دیا گیا کہ نعوذباللہ کہیں اس طرف اللہ کا رخ ہے اور دوسری طرف نہیں ہے۔ رہا اللہ تو وہ اپنے بندوں پر کسی معاملے میں ضیق اور تنگی نہیں کرتا ، نہ ان کے ثواب میں کمی کرتا ہے ، کیونکہ وہ ان کے دلوں کے بھید جانتا ہے اور ان کے میلانات اور رجحانات کو بھی جانتا ہے جو ایک خاص سمت کی طرف رخ کرنے کے لئے لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۔ اللہ کے ہاں بڑی وسعت ہے ۔ وہ نیتوں کا مالک ہے إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ” اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔ “

اس کے بعد قرآن کریم اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ان لوگوں کے تصور الٰہ میں ہی فتور آگیا ہے اور یہ لوگ اساس دین یعنی عقیدہ ٔ توحید ہی سے منحرف ہوگئے ہیں ۔ جو تمام رسالتوں اور نبوتوں کا بنیادی اور صحیح تصور تھا۔ اور ان کے تصور الٰہ کے ڈانڈے ، اللہ کی ذات وصفات کے بارے میں دوسری جاہلی تصورات سے جاملے ہیں ۔

چناچہ قرآن کریم یہاں اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مشرکین عرب اور مشرکین اہل کتاب کے تصور الٰہ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے ۔ اس دونوں کے دل باہم ملے ہوئے ہیں ۔ اور اس موقع پر دونوں فرقوں کے سامنے اسلام کی صحیح ایمانی عقیدے کی وضاحت کردی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo itakhatha Allahu waladan subhanahu bal lahu ma fee alssamawati waalardi kullun lahu qanitoona

یہ قول کہ ” اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔ “ یہ صرف عیسائیوں کا ہی عقیدہ نہیں جو وہ حضرت مسیح کے بارے میں رکھتے تھے بلکہ خود یہودی بھی حضرت عزیر کی ابنیت کے قائل تھے ۔ اور یہی عقیدہ مشرکین مکہ اللہ کے فرشتوں کے بارے میں رکھتے تھے ۔ قرآن کریم نے یہاں ان فرقوں کے عقیدے کی تفصیلات بیان نہیں کیں۔ کیونکہ یہاں اجمالی بحث مطلوب تھی ۔ یہاں اجمالاً ان تین فرقوں کی طرف اشارہ مطلوب تھا جو اس وقت جزیرہ عرب میں تحریک اسلامی کا راستہ روکے کھڑے تھے ۔ تعجب ہے کہ آج بھی عالم اسلام میں اسلام کی راہ یہی تین فرقے روکے کھڑے ہیں ۔ یہودی بین الاقوامی صہیونیت کے روپ میں ، عیسائی بین الاقوامی صلیبیت کی شکل میں اور عرب عالمی کمیونزم کی شکل میں ہیں ۔ یہ آخری یعنی کمیونزم اس وقت کے ” عربی شرک “ سے زیادہ شدید کفر ہے ۔ اس مشترکہ خصوصیت کے بیان سے یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ دعویٰ خود بخود رد ہوجاتا ہے کہ صرف وہی اہل ہدایت ہیں کیونکہ ہدایت کے اصل عقیدے میں وہ مشرکین کے ہم مشرب ہیں۔

ان کے تصور الٰہ کے دوسرے سقیم وفاسد پہلو کے بیان سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ان کے مذکورہ بالاسقیم تصور سے اپنی پاکی اور براءت کا اعلان کرتا ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوقات کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟

سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (116) بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

” اللہ پاک ہے ان باتوں سے اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں ، سب کے سب ان کے مطیع فرمان ہیں ، وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے ، اس کے لئے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ اور وہ ” ہوجاتی ہے ۔ “

اس آیت میں ، اسلامی نقطہ نظر سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خالد تجریدی تصور بیان کیا گیا ہے ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟ نیز اللہ کی ذات سے اس کا ئنات کا صدور کیونکر ہوا ؟ ان تمام امور کے بارے میں جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ ان کے بارے میں تمام دوسرے تصورات کے نسبت اعلیٰ وارفع ہے ۔ یہ کائنات اللہ کی ذات والاصفات سے کیونکر صادر ہوئی ؟ بس اللہ نے ارادہ کیا اور وہ وجود میں آگئی ” کُن “ کہنے کی دیر تھی کہ ” فَیَکُونُ “ (وہ ہوگئی) ۔ یعنی کسی ہونے والی چیز کی طرف ارادہ الٰہی کی توجہ ہی امر کے لئے کافی ہے کہ وہ فی الفور وجود میں آجائے ۔ اسی صورت اور شکل میں جو اس کے لئے مقرر اور متعین ہے ۔ اس عمل میں کسی واسطے اور کسی مادی قوت کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ اب سوال یہ ہے کہ ارادہ الٰہی کسی مخلوق کے ساتھ کیونکر وابستہ ہوجاتا ہے ؟ اور اس کے نتیجے میں مخلوق کس طرح وجود میں آجاتی ہے ؟ تو اس کی حقیقت سے ہم واقف نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ یہ ایک ایسا راز ہے جو انسانی ادراک کے سربستہ ہے ۔ اس لئے کہ انسان کی ادراکی قوت ابھی تک اس راز کی متحمل نہیں ہے۔ ازروئے خلقت انسان کی ادراکی قوت کو اس راز کے معلوم کرنے کا اس لئے متحمل نہیں بنایا گیا کہ انسان کی تخلیق ، جس مقصد کے لئے ہوئی ہے ، اس کی ادائیگی کے سلسلے میں اسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ تخلیق انسان کا کیا مقصد ہے ؟ زمین میں فریضہ خلافت کی ادائیگی اور زمین کے اندر تعمیر و ترقی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے قوانین قدرت کے اتنے ہی راز بتائے ہیں جن کی اسے ضرورت تھی اور جن کے بغیر وہ اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرسکتا تھا۔ اور جن کے ذریعے انسان کے لئے خزائن الارض سے انتفاع ممکن ہوا۔ دوسری طرف اسے ایسے رازوں سے بیخبر رکھا گیا جن کا مقصد تخلیق انسانیت یعنی خلافت کبریٰ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ اس سلسلے میں دوسرے فلسفے اس بھٹکے کہ انہیں کہیں بھی روشنی کی کرن نظر نہ آئی ۔ وہ بےسود ان اسرا و رموز کے حل کے پیچھے پڑے رہے ۔ انہوں نے ایسے مفروضے قائم کئے جو محض انسانی ادراک کی پیداوار تھے ۔ حالانکہ انسانی ادراک اپنی خلقت ہی کے اعتبار سے اس قابل نہیں کہ وہ ان فوق الطبیعاتی مفروضات پر غور کرسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ادراک کو سرے سے وہ ذرائع ہی نہیں دئیے جن کے ذریعے وہ ان بھیدوں تک پہنچ سکے ۔ چناچہ اگر غور کیا جائے تو تمام فلسفیانہ افکار میں سے اعلیٰ ترین افکار بھی ایسے مضحکہ انگیز ہیں کہ انہیں دیکھ کر ایک عام انسان بھی حیران رہ جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ ایک فلسفی اور ذہین شخص ان نتائج تک کیونکر پہنچا ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ ان فلسفوں کے پیش کرنے والوں نے انسانی ادراک کو اس کی فطری حدود سے آگے بڑھایا اور اسے ان فوق الطبیعاتی مسائل میں استعمال کیا جن میں اس کی کوئی مجال نہ تھی ۔ اس لئے وہ کسی قابل اطمینان نتیجے تک نہ پہنچ سکے ۔ بلکہ ان کے نتائج کی فکر اس شخص کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتے جو اسلامی نظریہ حیات پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کررہا ہو ۔ اسلام نے اپنے معتقدین کو بغیر واضح حجت کے ان اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے محفوظ کردیا ہے۔ اس لئے وہ بنیادی طور پر غلط طریق فکر کی راہ سے مابعد الطبیعاتی مسائل کے حل کی ناکام کوشش ہی نہیں کرتے ۔ مابعد ادوار میں مسلمانوں میں سے جن متفلسفوں نے ، یونانی فلسفے سے متاثر ہوکر فلسفیانہ مفروضات کے مطابق سوچنا شروع کیا ، وہ بےحد الجھن اور غلط مبحث کا شکار ہوئے ۔ جیسا کہ ان سے پہلے ان کے اساتذہ یونانی فلسفی شکار ہوئے تھے ۔ ان مسلم فلسفیوں نے اسلامی نظام فکر میں وہ مسائل داخل کردئیے جو اس کے مزاج ہی کے خلاف تھے ۔ اور انہیں اسلامی نظریہ حیات کی حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا ۔ غرض جب بھی انسان نے اپنی عقل وفکر کو اپنی حدود سے آگے بڑھایا اور اپنے مزاج اور خلقت کے خلاف استعمال کیا اس کا انجام یہی رہا ۔ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ ” اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں ۔ سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں ۔ “

اردو ترجمہ

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ "ہو جا" اور وہ ہو جاتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

BadeeAAu alssamawati waalardi waitha qada amran fainnama yaqoolu lahu kun fayakoonu

آسمانوں اور زمینوں کے درمیان جو چیزیں ہیں ان میں سے اسے کسی کو بیٹا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ لہٰذا تمام لوگ اس کی مخلوق ہے اور ایک درجے میں ہے ، اور ایک ہی حیثیت رکھتی ہے۔

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (117) ” وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا فیصلہ کرتا ہے اس کے لئے بس صرف یہ حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔ “

اللہ کا یہ ارادہ جس طرح اس ہونے والی مخلوق کے ساتھ متعلق ہوجاتا ہے ، اس کی تفصیل کی کیفیت انسانی ادراک اور فہم سے بالا ہے ۔ کیونکر یہ انسانی ادراک کے حیطہ قدرت ہی سے وراء ہے ۔ لہٰذا انسانی ادراک کی قوتوں کو ایسی ناقابل تصور کیفیات کے ادراک میں صرف کردینا ایک عبث کام ہوگا۔ اور بلا دلیل وبرہان اس وادی پرپیچ میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہوگا۔

اردو ترجمہ

نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ایسی ہی باتیں اِن سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے اِن سب (اگلے پچھلے گمراہوں) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں یقین لانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena la yaAAlamoona lawla yukallimuna Allahu aw tateena ayatun kathalika qala allatheena min qablihim mithla qawlihim tashabahat quloobuhum qad bayyanna alayati liqawmin yooqinoona

یہاں آکر اہل کتاب کے قول ابنیت پر تبصرہ ہوجاتا ہے ۔ ان کے عقائد باطلہ کی تصحیح کے بعد ، اب مشرکین کے ان اقوال کو لیا جاتا ہے جو مقام الوہیت کے خلاف ہیں اور جو اہل کتاب کے عقائد واقوال سے ملتے جلتے ہیں ۔

وَقَالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ

” نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پس کیوں نہیں آتی ؟ ایسی ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے ۔ “

” جو لوگ نہیں جانتے “ ان سے مراد ان پڑھ لوگ ہیں جو کتاب کے علم سے بےبہرہ ہیں اور وہ بالعموم مشرک تھے ۔ ان کے پاس کتاب الٰہی کا کوئی علم نہ تھا ۔ ان لوگوں نے بارہا نبی ﷺ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ انہیں اللہ تعالیٰ سے ہمکلام کرائیں ۔ یا ان کے سامنے کوئی معجزہ پیش کریں ۔ یہاں ان لوگوں کے اس نامعقول مطالبے کا تذکرہ اس لئے ہوا تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ ان سے پہلے کی اقوام یہود ونصاریٰ نے بھی اپنے انبیاء سے ایسے ہی مطا بےکئے تھے ۔ قوم موسیٰ (علیہ السلام) نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کھلا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ نیز انہوں نے مادی خوارق عادات اور معجزات کے مطالبے میں بھی بےحد غلو کیا تھا۔ مقصود یہ ہے کہ یہ مشرکین اور یہودی ایک ہی مزاج اور ایک ہی طرز فکر کے مالک ہیں ، اور یہ ایک ہی قسم کی کجروی میں مبتلا ہیں تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ” ان سب کی ذہنیتیں ایک ہی جیسی ہیں ۔ “ لہٰذا یہودیوں کو مشرکین پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ۔ یہ سب طرز فکر ، ہٹ دھرمی اور کجروی میں بالکل ہم مشرب ہیں قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ” یقین لانے والوں کے لئے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کرچکے ہیں ۔ “

جن کے دل میں ذوق ایمان ہے ، وہ جب آیات الٰہی کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے اپنے ایمان کا مصداق ان آیات میں نظر آتا ہے ۔ اور ان آیات میں اس کے ضمیر کے اطمینان کا سامان ہوتا ہے۔ غرض یہ آیات اور نشانیاں کسی کے اندر ایمان نہیں پیدا کرسکتیں بلکہ یہ ایمان ہے جس کی روشنی میں اللہ کی آیات اور نشانیوں کو سمجھا جاسکتا ہے ، اور اطمینان حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اور اس طرح انسان کا دل و دماغ پیہم ہدایت حاصل کرسکتے ہیں ۔

ان کے اقوال کے اختتام ، ان کے افکار باطلہ کی تردید ، اور ان کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے پس پردہ کارفرما مقاصد کی پردہ دری کے بعد اب روئے سخن حضرت نبی کریم ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فرائض بیان فرماتے ہیں ، آپ کے لئے مقاصد متعین کردئیے جاتے ہیں اور آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہود ونصاریٰ اور آپ کے درمیان جو معرکہ بپا ہے ، اس کی نوعیت کیا ہے ؟ آپ اور ان لوگوں کے درمیان کتناگہرا اختلاف ہے اور یہ کہ ایک بھاری قیمت ادا کرکے ہی دور کیا جاسکتا ہے جبکہ آپ نہ تو وہ قیمت رکھتے ہیں اور نہ اسے ادا کرسکتے ہیں ۔ اور اگر (نعوذ باللہ ) ان لوگوں سے اتحاد کرنے کے لئے آپ یہ بھاری قیمت ادا کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو غضب الٰہی کا مورد ٹھہرائیں گے ۔

اردو ترجمہ

(اس سے بڑھ کر نشانی کیا ہوگی کہ) ہم نے تم کو علم حق کے ساتھ خوش خبری دینے والا ور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں، ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna arsalnaka bialhaqqi basheeran wanatheeran wala tusalu Aaan ashabi aljaheemi

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ ” ہم نے تم کو علم حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ “

ان کلمات میں اس قدر زور ہے کہ وہ گمراہی پھیلانے والوں کے گمراہ کن شبہات کو ختم کردیتے ہیں ۔ سازشیوں کی سازشوں کی جڑ کاٹ دیتے ہیں اور منافقین کی تلبیس اور تلقین کو ختم کردیتے ہیں ، نیز ان کلمات کا صوتی زیروبم بھی حزم ویقین کا مظہر ہے۔ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ” خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ “ یعنی پیغام حق پہنچانا اور تبلیغ کرنا آپ کا بنیادی فریضہ ہے ، آپ اطاعت کرنے والوں کو خوشخبری دیں گے اور نافرمانوں کو ڈرائیں گے ۔ اس پر آپ کا فریضہ ادا ہوجائے گا ۔ وَلا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (119) ” جو جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں ان کی طرف سے تم ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہو۔ “ یہ لوگ ایسے ہیں جو اپنی مصیبت اور اس کے نتائج کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوں گے۔

18