اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 113 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْءٍ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ‘ کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے۔ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْءٍ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ‘ یہ بےبنیاد لوگ ہیں ‘ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وَّہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط عہد نامۂ قدیم Old Testament یہودیوں اور عیسائیوں میں مشترک ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے اور امریکہ میں جدید عیسائیت کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت جو ابھر رہی ہے وہ عیسائیت کو یہودیت کے رنگ میں رنگ رہی ہے۔ رومن کیتھولک مذہب نے تو بائبل سے اپنارشتہ توڑ لیا تھا اور سارا اختیار پوپ کے ہاتھ میں آگیا تھا ‘ لیکن پروٹسٹنٹس Protestants نے پھر بائبل کو قبول کیا۔ اب اس کی منطقی انتہا یہ ہے کہ عہۂ فامہ قدیم پر بھی ان کی توجہ ہو رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اسے بھی ہم اپنی کتاب مانتے ہیں اور اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ امریکہ میں ہم نے ایک سیمینار منعقد کیا تھا ‘ جس میں ایک یہودی عالم نے کہا تھا کہ اس وقت اسرائیل کو سب سے بڑی نصرت و حمایت امریکہ کے ان عیسائیوں سے مل رہی ہے جو Evengelists کہلاتے ہیں اور وہاں پر ایک بڑا فرقہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا طرز عمل بیان ہوا ہے۔ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ج یہاں اشارہ ہے مشرکین مکہ کی طرف۔فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اب دیکھئے ‘ اس سلسلۂ کلام کی بقیہ آیات میں بھی اگرچہ خطاب تو بنی اسرائیل ہی سے ہے ‘ لیکن اب یہاں پر اہل مکہ سے کچھ تعریض شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ آئے گا ‘ پھر تحویل قبلہ کا ذکر آئے گا۔ بیت اللہ چونکہ اس وقت مشرکین مکہ کے قبضے میں تھا ‘ لہٰذا اس حوالے سے کچھ متعلقہ مضامین آ رہے ہیں اور تحویل قبلہ کی تمہید باندھی جا رہی ہے۔ تحویل قبلہ دراصل اس بات کی علامت تھی کہ اب وہ سابقہ امت مسلمہ معزول کی جا رہی ہے اور اس مقام پر ایک نئی امت ‘ امت محمد ﷺ کی تقرریّ عمل میں لائی جا رہی ہے۔ اسی حوالے سے کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ج کے الفاظ میں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ کیا گیا۔
آیت 114 وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں حاضری سے محروم کردیا تھا اور ان کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔ 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رض کے ہمراہ عمرے کے ارادے سے مکہ کا سفر فرمایا ‘ لیکن مشرکین نے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس موقع پر صلح حدیبیہ ہوئی اور آپ ﷺ ‘ کو عمرہ کیے بغیرواپس آنا پڑا۔ پھر اگلے برس 7 ہجری میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رض کے ہمراہ عمرہ ادا کیا۔ تو یہ سات برسٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان پر بہت شاق گزرے ہیں۔ یہاں مشرکین مکہ کے اس ظلم کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اہل ایمان کو مسجد حرام سے روک رکھا ہے۔ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا ط خراب اور تخریب کا مادۂ اصلی ایک ہی ہے۔ تخریب دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ظاہری تخریب کہ مسجد کو گرا دینا ‘ اور ایک باطنی اور معنوی تخریب کہ اللہ کے گھر کو توحید کی بجائے شرک کا اڈہ بنا دینا۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کو بت کدہ بنا دیا تھا : دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا !خانہ کعبہ میں 360 بت رکھ دیے گئے تھے ‘ جسے ابراہیم علیہ السلام نے توحید خالص کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مساجد کے ساتھ لفظ خراب ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ یہ بڑی دلدوز حدیث ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے ذہن نشین کرلیں۔حضرت علی رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یُوْشِکُ اَنْ یَاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ اندیشہ ہے کہ لوگوں پر یعنی میری امت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام الاَّ اسْمُہٗ اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآن الاَّ رَسْمُہٗ اور قرآن میں سے اس کے رسم الخط الفاظ اور حروف کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی ضمانت دی ہے کہ قرآن حکیم کے الفاظ و حروف من وعن محفوظ رہیں گے۔ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوجائیں گی۔ یہاں بھی لفظ خراب نوٹ کیجیے۔ گویا معنوی اعتبار سے یہ ویران ہوجائیں گی۔ عُلَمَاوؤھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے کے بدترین انسان ہوں گے۔ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ 13 فتنہ ان ہی کے اندر سے برآمد ہوگا اور انہی میں گھس جائے گا۔ یعنی ان کا کام ہی فتنہ انگیزی ‘ مخالفت اور جنگ وجدال ہوگا۔ اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے رہنا اور مسلمانوں کے اندر اختلافات کو ہوا دینا ہی ان کا کام رہ جائے گا۔آج جن کو ہم علماء کہتے ہیں ان کی عظیم اکثریت اس کیفیت سے دوچار ہوچکی ہے۔ جب مذہب اور دین پیشہ بن جائے تو اس میں کوئی خیر باقی نہیں رہتا۔ دین اور مذہب پیشہ نہیں تھا ‘ لیکن اسے پیشہ بنا لیا گیا۔ اسلام میں کوئی پیشوائیت نہیں ‘ کوئی پاپائیت نہیں ‘ کوئی برہمنیت نہیں۔ اسلام تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہر شخص کتاب اللہ پڑھے ‘ ہر شخص عربی سیکھے اور کتاب اللہ کو سمجھے۔ ہر شخص کو عبادات کے قابل ہونا چاہیے۔ ہر شخص اپنی بچی کا نکاح خود پڑھائے ‘ اپنے والد کا جنازہ خود پڑھائے۔ ہم نے خود اسے پیشہ بنا دیا ہے اور عبادات کے معاملے میں ایک خاص طبقے کے محتاج ہوگئے ہیں۔ مرزا غالبؔ نے کہا تھا : ع پیشے میں عیب نہیں ‘ رکھیے نہ فرہاد کو نام !ایک چیز جب پیشہ بن جاتی ہے تو اس میں پیشہ ورانہ چشمکیں اور رقابتیں در آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات واضح رہے کہ دنیا کبھی علماءِ حق سے خالی نہیں ہوگی۔ چناچہ یہاں علماءِ حق بھی ہیں اور علماءِ سو بھی ہیں ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا حال وہی ہوچکا ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے ‘ ورنہ امت کا یوں بیڑہ غرق نہ ہوتا۔اُولٰٓءِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْہَآ اِلاَّ خَآءِفِیْنَ ط۔ ان لوگوں کو لائق نہیں ہے کہ اللہ کی مسجدوں میں داخل ہوں ‘ یہ اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔ اگلی آیت میں تحویل قبلہ کے لیے تمہید باندھی جا رہی ہے۔ قبلہ کی تبدیلی بڑا حساس معاملہ تھا۔ جن لوگوں کو یروشلم اور بیت المقدس کے ساتھ دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی عقیدت جاگزیں تھی ‘ جبکہ مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کے ساتھ جن کو دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی محبت و عقیدت تھی۔ تو اس حوالے سے قبلہ کی تبدیلی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہجرت کے بعد قبلہ دو دفعہ بدلا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ مدینے میں آکر رسول اللہ ﷺ نے سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور پھر بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم آیا۔ اس طرح اہل ایمان کے کئی امتحان ہوگئے ‘ ان کا ذکر آگے آجائے گا۔ لیکن یہاں اس کی تمہید بیان ہو رہی ہے۔ فرمایا :
آیت 115 وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق یعنی اگر ہم مغرب کی طرف رخ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ مغرب میں ہے معاذ اللہ۔ اللہ تو جہت اور مقام سے ماورا ہے ‘ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے۔ یہ تو یکسانیت پیدا کرنے کے لیے اور اجتماعی رنگ دینے کے لیے ایک چیز کو قبلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ تو ایک علامت ہے۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے : َ ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں !قبلہ ہمارا مسجود تو نہیں ہے ! فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ وہ بہت وسعت والا ہے ‘ وہ کسی بھی سمت میں محدود نہیں ہے ‘ اور ہر شے کا جاننے والا ہے۔تحویل قبلہ کی تمہید کے طور پر ایک آیت کہہ کر اب پھر اصل سلسلۂ کلام جوڑا جا رہا ہے :
آیت 116 وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًالا سُبْحٰنَہٗ ط ظاہر بات ہے یہاں پھر اہل مکہ ہی کی طرف اشارہ ہو رہا ہے جن کا یہ قول تھا کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد اختیار کی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ نصاریٰ کہتے تھے کہ مسیح علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ‘ اور یہودیوں کا بھی ایک گروہ ایسا تھا جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتا تھا۔بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط سب مخلوق اور مملوک ہیں ‘ خالق اور مالک صرف وہ ہے۔کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ ۔ بڑے سے بڑا رسول ہو یا بڑے سے بڑا ولی یا بڑے سے بڑا فرشتہ یا بڑے بڑے اجرام سماویہ ‘ سب اسی کے حکم کے پابند ہیں۔
آیت 117 بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وہ بغیر کسی شے کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ابداع اور خلق میں فرق نوٹ کیجیے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رح نے حجۃ اللہ البالغہ کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال بنیادی طور پر تین ہیں : ابداع ‘ خلق اور تدبیر۔ ابداع سے مراد ہے عدم محض سے کسی چیز کو وجود میں لانا ‘ جسے انگریزی میں creation ex nihilo سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ خلق ایک چیز سے دوسری چیز کا بنانا ہے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے گارے سے انسان بنایا ‘ آگ سے ّ جنات بنائے اور نور سے فرشتے بنائے ‘ یہ تخلیق ہے۔ تو بدیع وہ ذات ہے جس نے کسی مادۂ تخلیق کے بغیر ایک نئی کائنات پیدا فرما دی۔ ہمارے ہاں بدعت وہ شے کہلاتی ہے جو دین میں نہیں تھی اور خواہ مخواہ لا کر شامل کردی گئی۔ جس بات کی جڑ بنیاد دین میں نہیں ہے وہ بدعت ہے۔
آیت 118 وَقَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ یہاں پر مشرکین مکہ کی طرف روئے سخن ہے۔لَوْلاَ یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَۃٌ ط مشرکین مکہ کا رسول اللہ ﷺ سے بڑی شدتّ کے ساتھ یہ مطالبہ تھا کہ آپ کوئی ایسے معجزات ہی دکھا دیں جیسے آپ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے دکھائے تھے یا موسیٰ علیہ السلام نے دکھائے تھے۔ اگر آپ ہمارے یہ مطالبے پورے کردیں تو ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں گے۔ یہ مضمون تفصیل کے ساتھ سورة الانعام میں اور پھر سورة بنی اسرائیل میں آئے گا۔ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ ط تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ ط قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
آیت 119 اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا لا آپ ﷺ ‘ کی بنیادی حیثیت یہ ہے کہ آپ ﷺ اہل حق کو جنت اور اس کی تمام تر نعمتوں کی بشارت دیں ‘ اور جو غلط راستے پر چل پڑیں ‘ کفر کریں ‘ منافقت میں مبتلا ہوں ‘ ملحد ہوں اور بدعملی کریں ان کو آپ ﷺ ‘ خبردار کردیں کہ ان کے لیے جہنم تیار کردی گئی ہے۔ آپ ﷺ کا کام دعوت ‘ ابلاغ ‘ تبلیغ اور نصیحت ہے۔ وَّلاَ تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ۔ جو لوگ اپنے طرز عمل کی بنا پر جہنم کے مستحق قرار پا گئے ہیں ان کے بارے میں آپ ﷺ ذمہّ دار نہیں ہیں۔ آپ ﷺ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ کیوں جہنم میں پہنچ گئے ؟ آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے یہ جہنمی کیوں ہوگئے ؟ نہیں ‘ یہ آپ ﷺ ‘ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ کون جنت میں جانا چاہتا ہے اور کون جہنم میں ‘ یہ آدمی کا اپنا فیصلہ ہے۔ آپ ﷺ کا کام حق کو واضح کردینا ہے ‘ اس کی وضاحت میں کمی نہ رہ جائے ‘ حق واضح ہوجائے ‘ کوئی اشتباہ باقی نہ رہے ‘ بس یہ ذمہ داری آپ ﷺ کی ہے ‘ اس سے زیادہ نہیں۔ انسان اگر اپنی اصل مسؤلیت سے زیادہ ذمہ داری اپنے سر پر ڈال لے تو خواہ مخواہ مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کی بہت سی جماعتیں اسی طرح کی غلطیوں کی وجہ سے غلط راستے پر پڑگئیں اور پوری کی پوری تحریکیں برباد ہوگئیں۔ رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ علماء یہود ایمان لے آئیں اور جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ ان کے لیے آپ ﷺ نے اللہ کے حضور دعائیں کی ہوں گی۔ جیسے مکی دور میں آپ ﷺ دعائیں مانگتے تھے کہ اے اللہ ! عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو تو میری جھولی میں ڈال دے اور اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت عطا فرما !