سورۃ البقرہ: آیت 11 - وإذا قيل لهم لا تفسدوا... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

اردو ترجمہ

جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha qeela lahum la tufsidoo fee alardi qaloo innama nahnu muslihoona

آیت 11 کی تفسیر

گویا یہ لوگ جھوٹ اور فریب پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ مومنین کو بیوقوف سمجھتے ہوئے الٹا یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم تو مصلح ہیں وہ اس نصیحت کا کہ ” زمین میں فساد نہ کرو۔ “ یہ سادہ جواب نہیں دیتے کہ ” بھائی ہم کب فساد برپاکر رہے ہیں ؟ بلکہ وہ اکڑ کر یہ ادعا کرتے ہیں کہ ” مصلح تو ہیں ہی ہم۔ “

ہر دور اور ہر زمانے میں لوگوں کی یہ قسم دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ عملاً فساد کی بدترین شکلیں برپاکررہی ہوتی ہیں اور اس کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہم تو بس اصلاح معاشرہ چاہتے ہیں جب معاشرہ میں بلند اقدار تباہ ہوتی ہیں تو ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ اخلاص اور پاکیزگی نفس سے محروم ہوتے ہیں اور جب اخلاص جاتا رہے اور نفس انسانی میں فساد پیدا ہوجائے تو تمام اعلیٰ قدریں اور حسن وقبح کے پیمانے از خود ختم ہوجاتے ہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں خلوص اور ایمان نہ رہے ۔ وہ کبھی بھی فساد فکر وعمل کا شعور نہیں پاسکتے اور ان کے دل و دماغ میں خیر وشر اور اصلاح و فساد کا جو پیمانہ ہوتا ہے ، وہ ان کی خواہشات نفسانی کی طرف ، جھکتا رہتا ہے اور ربانی نظام حیات کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔ اسی لئے ان کے اس دعوے کا یہ سخت لیکن حقیقت پسندانہ جواب دیا جاتا ہے۔

آیت 11 وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ لا اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم نے محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مان لیا تو اب ان کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو ‘ ان ﷺ کے پیچھے چلو۔ ان ﷺ کا حکم ہے تو جنگ کے لیے نکلو۔ ان ﷺ کی طرف سے تقاضا آتا ہے تو مال پیش کرو۔ اور اگر تم اس سے کتراتے ہو تو پھر جماعتی زندگی کے اندر فتنہ و فساد پھیلا رہے ہو۔قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ہم تو صلح کرانے والے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ لڑنا بھڑنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ‘ ٹکراؤ اور تصادم کوئی اچھے کام تھوڑے ہی ہیں۔ بس لوگوں کو ٹھنڈے ٹھنڈے دعوت دیتے رہو ‘ جو چاہے قبول کرلے اور جو چاہے ردّ کر دے۔ یہ خواہ مخواہ دشمن سے ٹکرانا اور جنگ کرنا کس لیے ؟ اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے قربانیاں دینے ‘ مصیبتیں جھیلنے اور مشقتیں برداشت کرنے کے مطالبے کا ہے کے لیے ؟

سینہ زور چور حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن مسعود اور نبی ﷺ کے بعض اور صحابہ ؓ سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں۔ حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے۔ مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی حضور ﷺ کے زمانے میں تھا ہی نہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا، اسے کرتے تھے۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے۔ قرن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت (وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭاِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ) 8۔ الانفال :73) یعنی کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دے اور جگہ فرمایا اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر کھلی حجت ہوجائے یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے۔ پھر فرمایا منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لئے کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔ چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے، اس لئے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہوجاتے اور ظاہر باطن یکساں کرلیتے تب تو دنیا کے امن وامان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پالیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کل ہیں ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے " ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔ " لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں۔

آیت 11 - سورۃ البقرہ: (وإذا قيل لهم لا تفسدوا في الأرض قالوا إنما نحن مصلحون...) - اردو