سورۃ البقرہ: آیت 101 - ولما جاءهم رسول من عند... - اردو

آیت 101 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَلَمَّا جَآءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ كِتَٰبَ ٱللَّهِ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walamma jaahum rasoolun min AAindi Allahi musaddiqun lima maAAahum nabatha fareequn mina allatheena ootoo alkitaba kitaba Allahi waraa thuhoorihim kaannahum la yaAAlamoona

آیت 101 کی تفسیر

یہ ہے صفت ایک شریف ، راستباز اور اصول پرست جماعت کی ۔ اس سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ بدکردار یہودیوں کے اخلاق اور راستباز مسلمانوں کے اخلاق کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے ۔

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لا يَعْلَمُونَ (101)

” اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق وتائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا کہ وہ گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ “

یہ وعدہ خلافی کی ایک مثال ہے جس کا ارتکاب ان میں سے ایک فریق نے کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے جو عہد لیا تھا اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ آئندہ جو بھی رسول بھیجے جائیں گے تم ان پر ایمان لاؤگے ۔ ان کا احترام کروگے اور ان کی مدد کروگے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان کے ذریعے ان کے پاس اپنی کتاب (قرآن) کو بھیجا تو ان اہل کتاب میں سے ایک فریق نے اسے پس پشت ڈال دیا ۔ اس طرح انہوں نے ایک تو ایسی کتاب الٰہی کا انکار کیا جو خود ان کے پاس تھی اور جس کے اندر حضور کے بارے میں پیشن گوئیاں موجود تھیں ۔ اور انہوں نے ان پیشن گوئیوں کو پس پشت ڈالا اور دوسرے رسول اللہ پر جو نئی کتاب اتری اسے بھی پس پشت ڈال دیا۔

اس آیت میں اہل کتاب پر ایک لطیف طنز بھی مقصود ہے۔ یعنی کتاب اللہ کو مشرکین رد کردیتے تو ان سے یہ کوئی امر مستعبد نہ تھا لیکن ان بدبختوں نے اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی سے رد کردیا ۔ وہ رسالت اور رسولوں سے اچھی طرح واقف تھے ۔ ہمیشہ ہدایت کے سرچشموں سے وہ وابستہ رہے ۔ ہمیشہ روشنی ان کی نظروں میں رہی لیکن صاحب ہدایت اور صاحب بصیرت ہوتے ہوئے انہوں نے کیا کیا ؟ کتاب الٰہی کو پشت ڈال دیا یعنی انہوں نے کتاب کا انکار کیا اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ۔ انہوں نے کتاب اللہ کو اپنی فکر اور اپنی زندگی سے خارج کردیا۔ یہاں قرآن کریم نے ان کے انکار اور بےعملی کے ذہنی مفہوم کو ایک خالص حسی انداز میں پیش فرمایا ہے۔ ذہنی مفہوم اب ایک معنویت کے دائرے سے نکل کر محسوسات کے دائرے میں آجاتا ہے ۔ ان کے اس عمل کو ایک محسوس جسمانی حرکت سے تعبیر کیا گیا اور اس کی ایسی قبیح اور بدشکل تصویر کھینچی جاتی ہے کہ اس سے انکار جحود ٹپکے پڑتے ہیں ۔ اس تصور میں وہ نہایت ہی غلیظ القلب اور احمق نظر آتے ہیں ۔ گستاخی اور گندگی اور ذلت کا مجسمہ نظر آتے ہیں ۔ اس تصویر کشی سے انسانی تخیل ایک شدید حرکت کو دیکھتا ہے گویا کچھ ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور کتاب الٰہی کو پش پشت ڈال دیتے ہیں ۔

ایسی کتاب کی تکذیب کے بعد خود اس وحی کی تصدیق کررہی تھی جو ان کے پاس موجود تھی ، پھر کیا ہوا ؟ غالبًا انہوں نے اس ناقابل شکست سچائی کو قبول کرلیا ہوگا یا اس کے برعکس انہوں نے خود اس ہدایت ہی کا دامن تھام لیا ہوگا جس کی تصدیق یہ قرآن کریم بھی کررہا تھا۔ وہ خود بھی اس پر ایمان لائے ہوئے تھے۔

ہرگز نہیں ! نہ صرف یہ کہ انہوں نے ان میں سے کوئی ایک معقول روش اختیار کی بلکہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈالا اور ایسی ناقابل فہم موہوم اعجوبوں اور دقیانوسی باتوں کے پیچھے پڑگئے ۔ جن کی کوئی حقیقت نہ تھی نہ وہ باتیں کسی یقینی اساس پر مبنی تھیں ۔

آیت 101 وَلَمَّا جَآءَ ‘ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ق کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوْرِہِمْ کَاَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ ۔ علماء یہود نے نبی آخر الزمان ﷺ کی آمد کی پیشین گوئیاں چھپانے کی خاطر خود تورات کو پس پشت ڈال دیا اور بالکل انجانے سے ہو کر رہ گئے۔ ان کے عوام پوچھتے ہوں گے کہ کیا یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر تم کیا کرتے تھے ؟ لیکن یہ جواب میں کہتے کہ یقین سے نہیں کہہ سکتے ‘ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو ! انہوں نے ایسا رویہ اپنا لیا جیسے انہیں کچھ علم نہیں ہے۔اب ایک اور حقیقت نوٹ کیجیے۔ جب کسی مسلمان امت میں دین کی اصل حقیقت اور اصل تعلیمات سے بعد پیدا ہوتا ہے تو لوگوں کا رجحان جادو ‘ ٹونے ‘ ٹوٹکے ‘ تعویذ اور عملیات وغیرہ کی طرف ہوجاتا ہے۔ اللہ کی کتاب تو ہدایت کا سرچشمہ بن کر اتری تھی ‘ لیکن یہ اس کو اپنی دنیوی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں۔ چناچہ دشمن کو زیر کرنے اور محبوب کو قدموں میں گرانے کے لیے عملیات قرآنی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ دھندے ہمارے ہاں بھی خوب چل رہے ہیں اور شاید سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار یہی ہے ‘ جس میں نہ تو کوئی محنت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سرمایہ کاری کی۔ بنی اسرائیل کا بھی یہی حال تھا کہ وہ دین کی اصل حقیقت کو چھوڑ کر جادو کے پیچھے چل پڑے تھے۔ فرمایا :

جادو اور شعر کبھی شیاطین کا نام لے کر شیطانی کام سے بھی لوگ کرتے ہیں کبھی دواؤں وغیرہ کے ذریعہ سے بھی جادو کیا جاتا ہے حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق کہ بعض بیان جادو ہیں دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ بطور تعریف کے آپ نے فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بطور مذمت کے یہ ارشاد ہوا ہو کہ وہ اپنی غلط بات اس طرح بیان کرتا ہے کہ سچ معلوم ہوتی ہے جیسے ایک اور حدیث میں ہے کہ کبھی میرے پاس تم مقدمہ لے کر آتے ہو تو ایک اپنی چرب زبانی سے اپنے غلط دعویٰ کو صحیح ثابت کردیتا ہے وزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب " الاشراف علی مذاہب الاشراف " میں سحر کے باپ میں کہا ہے کہ اجماع ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن ابوحنیفہ اس کے قائل نہیں جادو کے سیکھنے والے اور اسے استعمال میں لانے والے کو امام ابوحنیفہ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تو کافر بتاتے ہیں امام ابوحنیفہ کے بعض شاگردوں کا قول ہے کہ اگر جادو کو بچاؤ کے لئے سیکھے تو کافر نہیں ہوتا ہاں جو اس کا اعتقاد رکھے اور نفع دینے والا سمجھے۔ وہ کافر ہے۔ اور اسی طرح جو یہ خیال کرتا ہے کہ شیاطین یہ کام کرتے ہیں اور اتنی قدرت رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں جادوگر سے دریافت کیا جائے اگر وہ بابل والوں کا سا عقیدہ رکھتا ہو اور سات سیارہ ستاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا جانتا ہو تو کافر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو بھی اگر جادو کو جائز جانتا ہو تو بھی کافر ہے امام مالک اور امام احمد کا قول یہ بھی ہے کہ جادوگر نے جب جادو کیا اور جادو کو استعمال میں لایا وہیں اسے قتل کردیا جائے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس کا قتل بوجہ حد کے ہے مگر امام شافعی کا بیان ہے کہ بوجہ قصاص کے ہے امام مالک امام ابو حنفیہ اور ایک مشہور قول میں امام احمد کا فرمان ہے کہ جادوگر سے توبہ بھی نہ کرائی جائے اس کی توبہ سے اس پر سے حد نہیں ہٹے گی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہوگی۔ امام احمد کا ہی صحیح قول ہے۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ اہل کتاب کا جادوگر بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک قتل کردیا جائے گا لیکن تینوں اور اماموں کا مذہب اس کے برخلاف ہے لبید ین اعصم یہودی نے حضور ﷺ پر جادو کیا تھا اور آپ نے اس کے قتل کرنے کو نہیں فرمایا اگر کوئی مسلمان عورت جادوگرنی ہو تو اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ قید کردی جائے اور تینوں کہتے ہیں اسے بھی مرد کی طرح قتل کردیا جائے واللہ اعلم حضرت زہری کا قول ہے کہ مسلمان جادوگر قتل کردیا جائے اور مشرک قتل نہ کیا جائے۔ امام مالک فرماتے ہیں اگر ذمی کے جادو سے کوئی مرجائے تو ذمی کو بھی مار ڈالنا چاہئے یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ پہلے تو اسے کہا جائے کہ توبہ کر اگر وہ کرلے اور اسلام قبول کرے تو خیر ورنہ قتل کردیا ائے اور یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ اگرچہ اسلام قبول کرلے تاہم قتل کردیا جائے اس جادوگر کو جس کے جادو میں شرکیہ الفاظ ہوں اسے چاروں امام کافر کہتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے فلاتکفر امام مالک فرماتے ہیں جب اس پر غلبہ پا لیا جائے پھر وہ توبہ کرے تو توبہ قبول نہیں ہوگی جس طرح زندیق کی توبہ قبول نہیں ہوگی ہاں اس سے پہلے اگر توبہ کرلے تو قبول ہوگی اگر اس کے جادو سے کوئی مرگیا پھر تو بہر صورت مارا جائے گا امام شافعی فرماتے ہیں اگر وہ کہے کہ میں نے اس پر جادو مار ڈالنے کے لئے نہیں کیا تو قتل کی خطا کی دیت (جرمانہ) لے لیا جائے۔ جادوگر سے اس کے جادو کو اتروانے کی حضرت سعید بن مسیب نے اجازت دی ہے جیسے صحیح بخاری شریف میں ہے عامر شعبی بھی اس میں کوئی حرج نہیں بتلاتے لیکن خواجہ حسن بصری ؒ اسے مکروہ بتاتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہا آپ کیوں جادو کو افشاء نہیں کرتے ؟ تو آپ نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اور میں لوگوں پر برائی افشاء کرنے سے ڈرتا ہوں۔ حضرت وہب فرماتے ہیں بیری کے سات پتے لے کر سل بٹے پر کوٹ لئے جائیں اور پانی ملا لیا جائے پھر آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کردیا جائے اور جس پر جادو کیا گیا ہے اسے تین گھونٹ پلا دیا جائے اور باقی پانی سے غسل کردیا جائے انشاء اللہ جادو کا اثر جاتا رہے گا یہ عمل خصوصیت سے اس شخص کے لئے بہت ہی اچھا ہے جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے سب سے اعلیٰ چیز آیت (قل اعوذ برب الناس) اور آیت (قل اعوذب برب الفلق) کی سورتیں ہیں حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔

آیت 101 - سورۃ البقرہ: (ولما جاءهم رسول من عند الله مصدق لما معهم نبذ فريق من الذين أوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم كأنهم...) - اردو