سورۃ البلاد: آیت 17 - ثم كان من الذين آمنوا... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورۃ البلاد

ثُمَّ كَانَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلْمَرْحَمَةِ

اردو ترجمہ

پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma kana mina allatheena amanoo watawasaw bialssabri watawasaw bialmarhamati

آیت 17 کی تفسیر

ثم کان ............................ بالمرحمة (17:90) ؟ ؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کی “۔ لفظ تم یہاں ” پھر “ کے معنی میں نہیں ہے ، کہ پہلے یہ دوکام ہیں اور بعد میں اسلام ہے ، بلکہ معنی یہ ہے کہ یہ دوجزوی کام بھی ضروری ہیں لیکن ان سے پہلے ایمان لانا ضروری ہے ، اور یہ ضروری اور عام اصول ہے۔ اور اعلیٰ مقام و مرتبہ ہے ، اگر ایمان نہیں ہے تو پھر غلاموں کو آزاد کرنا ، اور لوگوں کو کھانا کھلانا مفید ہی نہیں ہے۔ ہر اچھے عمل سے قبل ایمان لانا ضروری ہے۔ اللہ کے ہاں کسی بھی عمل صالح میں وزن صرف ایمان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ایمان ہی اعمال کو ایک منہاج مسلسل منہاج کی لڑی میں پرودیتا ہے۔ ایمان کی وجہ سے عمل صالح مسلسل اور دائمی نوعیت اختیار کرلیتا ہے اور ایمان کے بغیر اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو وہ محض ایک عارضی جوش ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے مزاجوں کے ساتھ بدل جاتا ہے ، یا کسی مصلحت کی وجہ سے کوئی نیکی کرتا ہے یا تعریف سننے کے لئے۔

اب معنی یوں ہوا کہ مشکل گھاٹی یہ ہے کہ کسی غلام کو آزاد کردے ، یا کسی یتیم ومسکین کو فاقے کے دن کھانا کھلائے لیکن سب سے اول یہ کہ وہ اہل ایمان میں سے ہو اور ایک دوسرے کو صبر اور رحم کرنے کی نصیحت کرنے والوں میں سے ہو۔” ثم “ کا لفظ گویا یہاں ” پھر “ کے معنی میں نہیں بلکہ ” سب سے بڑی بات یہ کہ “ کا مفہوم دیتا ہے۔

صبر کی وصیت اس لئے ضروری ہے کہ ایمان کے تقاضوں میں سے بالعموم اہم تقاضا صبر ہے۔ اور دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنے کے لئے بالخصوص صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر ایک دوسرے کو صبر کی وصیت بھی کرنا یہ صبر سے بھی ایک اونچا درجہ ہے۔ یعنی اسلامی جماعت ایسے درجے پر ہوتی ہے کہ اس کے افراد اور کارکن باہم ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایمان کے تقاضے پورے کرنے میں ایک دوسرے کے لے ممدومعاون ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کے احساسات ایک دوسرے کے ساتھ ہم رنگ ہوتے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ قدم ملا کر چلتے ہیں ، اور یہ سمجھتے ہیں کہ زمین کے اوپر ایمانی نظام کے قیام کا فریضہ صبر اور مصابرت ہی سے ادا ہوسکتا ہے۔ اس لئے وہ اس کا گراں کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات پر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے ثابت قدمی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہیں ، ایک دوسرے کو قوت دیتے ہیں۔ یہ صبر اور تواصی بالصبر انفرادی صبر سے آگے ایک بلند درجہ ہے۔ اگرچہ یہ صبر بھی انفرادی صبر ہی پر قائم ہوتا ہے لیکن تواصی بالصبر سے اشارہ اس طرف سے ہی کہ مومنین اجتماعی صبر ہی کریں۔ اور یہ کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمت توڑنے کا باعث نہ بنیں بلکہ ہمت بڑھانے کا باعث ہوں۔ ہزیمت کا باعث نہ بنیں بلکہ اقتحام اور مشکلات کو انگیز کرنے کا باعث بنیں۔ جزع فزع کا باعث بنیں بلکہ ایک دوسرے کے اطمینان کا باعث بنیں۔

اسی طرح خلق خدا پر رحم کرنا ایک بات ہے اور ایک دوسرے کو لوگوں پر رحم کرنے کی تلقین کرنا ایک دوسرا فعل ہے۔ جو رحم کی تلقین کرنے پر ایک زیادہ بات ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ صفت جماعت مسلمہ کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی وصیت کریں اور اس فعل پر ایک دوسرے کو اکسائیں اور اسے ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ سمجھیں ، کہ افراد جماعت کا یہ شعار ہو اور نکتہ تعاون ہو۔

صبر اور تواصی صبر ، رحم او تواصی رحم کے اندر سے یہ ہدایت نکلتی ہے کہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے جس کے قیام کے لئے جماعت ضروری ہے ، کیونکہ یہ ایک جماعت ایک سوسائٹی کا دین ہے اور اس کے قیام سے ایک امت وجود میں آتی ہے ، لیکن یہ ایسا اجتماعی دین نہیں ہے کہ اس میں انفرادی ذمہ داری ہو ، یہ گویا انفرادی ذمہ داری کی بنا پر اجتماعی دین ہے۔ انفرادی ذمہ داری اس میں بہت واضح ہے۔

آیت 17{ ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ”پھر وہ شامل ہو ان لوگوں میں جو ایمان لائے“ یہاں پر لفظ ثُمَّ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ یعنی پہلے انسان اس مشکل گھاٹی کو عبور کرے ‘ اپنے دل کی زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چلائے ‘ اس کے ذریعے سے دل کی زمین سے حب مال کا جھاڑ جھنکاڑ صاف کرے ‘ اور پھر ثُمَّ اس میں ایمان کا بیج ڈالے۔ اگر وہ اس ترتیب اور اس انداز سے محنت کرے گا تو تبھی ایمان کا پودا اس کے دل کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلائے گا اور برگ و بار لائے گا۔ { وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ۔ } ”اور جنہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی اور باہم ایک دوسرے کو ہمدردی کی نصیحت کی۔“ یہ مضمون سورة العصر میں بایں الفاظ آیا ہے : { اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ } ”سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے ‘ اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی“۔ الفاظ اور مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں آیات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ البتہ دونوں جگہ مذکور اصطلاحات کی ترتیب مختلف ہے۔ سورة العصر کی اس آیت میں ایمان کے بعد عمل صالح کا بیان ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں عمل صالح غرباء و مساکین اور یتیموں کے حقوق کی ادائیگی کے بعد ایمان کا ذکر ہے۔ سورة العصر میں تواصی بالحق کے بعد تواصی بالصبر کا تذکرہ ہے ‘ جبکہ یہاں پر پہلے تواصی بالصبر اور بعد میں تواصی بالمرحمہ کا ذکر آیا ہے۔ اس پہلو سے دونوں آیات کے تقابلی مطالعہ سے بہت سے حقائق و رموز کی نشاندہی ہوتی ہے۔

آیت 17 - سورۃ البلاد: (ثم كان من الذين آمنوا وتواصوا بالصبر وتواصوا بالمرحمة...) - اردو