سورہ اعراف: آیت 80 - ولوطا إذ قال لقومه أتأتون... - اردو

آیت 80 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦٓ أَتَأْتُونَ ٱلْفَٰحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ

اردو ترجمہ

اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا "کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو، کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walootan ith qala liqawmihi atatoona alfahishata ma sabaqakum biha min ahadin mina alAAalameena

آیت 80 کی تفسیر

آیت ” نمبر 80 تا 84۔

قصہ لوط میں انسانی فطرت کے ایک ایسے بگاڑ کا ذکر ہے جسکی مخصوص نوعیت ہے ۔ سابقہ قصص میں تو اقوام کی ہلاکت نہایت ہی اساسی نظریہ حیات یعنی عقیدہ توحید اور وحدت حاکمیت الہ کے مسئلے پر ہوتی تھی ۔ لیکن فطرت کا یہ بگاڑ بھی نہایت ہی اساسی مسئلہ تھا اور یہ عقیدہ توحید اور مسئلہ حاکمیت سے متعلق تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ربوبیت اور عبودیت کے اقرار کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ قرآن وسنت کی مکمل اطاعت کی جائے ۔ سنت الہیہ یہ ہے کہ اللہ نے مرد اور عورت کو علیحدہ اصناف میں پیدا کیا اور مرد اور عورت کے اتصال کو ایسا ذریعہ بنایا جس کے نتیجے مین وہ ایک دوسرے کے لئے ذریعہ تکمیل ثابت ہوئے اور اس طرح نسل انسانی کے اجرا وامتداد کا سامان فرمایا یہی وجہ ہے کہ اللہ نے دونوں اصناف کے وضائف مقرر کرکے انہیں ایک دوسرے کے لئے مناسب جسمانی اور نفسیاتی اہلیت دی اور باہم ملاپ سے نسل انسانی کی بقا کا انتظام فرمایا ۔ پھر اس ملاپ کے اندر دونوں کے لئے گہری لذت ودیعت کی اور اسے ایک فطری لذت قرار یدا تاکہ وہ دلکشی اور کشش کے ساتھ باہم ملیں اور بقائے نسل انسانی کی ذمہ داریاں قبول کریں اور اس راہ میں آنے والی تمام مشکلات کو بھی برداشت کریں ۔ حمل ‘ وضع حمل اور بچوں کی پرورش اور رضاعت ‘ نفقہ اولاد واہلیہ اور تربیت اولاد کی ذمہ داریاں اور کفالت اور اس کے بعد پورے خاندان کے افراد کی باہم ذمہ داریاں ۔ باوجود اس کے کہ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں انسانی بچوں کی نشوونما اور تربیت کا علم نہایت ہی طویل اور صبر آزما ہوتا ہے ۔

یہ فریضہ چونکہ نہایت ہی اساسی اور بنیادی فریضہ ہے اور اس کے سوا نسل انسانی کی بقا ممکن نہیں ۔ اس لئے اس فریضے کے اندر انحراف کو بھی ایک اساسی جرم قرار دیا گیا جس طرح عقیدہ توحید کے اندر ذرا بھر انحراف ناقابل برداشت ہے ۔ اس لئے نظریہ حیات اور عقیدہ توحید کے اندر انحراف اور ہم جنسی پرستی کے انحراف کو ایک درجے کا جرم قرار دیا گیا۔

قوم لوط کے قصے میں انحراف واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ یہ فطرت سے انحراف ہے اور حضرت لوط (علیہ السلام) ان سے کہتے ہیں کہ یہ ایک نئی اخلاقی بےراہ روی انہوں نے شروع کی ہے اور ان سے پہلے کسی قوم میں یہ اخلاقی فساد نہ تھا ۔

آیت ” وَلُوطاً إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُم بِہَا مِنْ أَحَدٍ مِّن الْعَالَمِیْنَ (80) إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّن دُونِ النِّسَاء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ (81)

” اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ‘ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ” کیا تم ایسے بےحیا ہوگئے کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔ “

حضرت لوط (علیہ السلام) ان پر حد سے گزرنے کا جو الزام لگاتے ہیں اور اس پر ان کی سرزنش کرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطرت سلیمہ کا جو نظام انسانوں کے لئے وضع کیا ہے اس سے آگے گزر جانا اسراف ہے ۔ پھر اللہ نے انہیں توالد وتناسل کے لئے جو قوتیں دی ہوئی ہیں ان کا صحیح مصرف یہ ہے کہ ان کو یہاں زندگی کی نشوونما کیلئے صرف کیا جائے جبکہ وہ ان قوتوں کو بنجر زمین میں ضائع کر رہے ہیں اور محض عارضی لذت اور شہوت رانی کے لئے کام میں لاتے ہیں ‘ حالانکہ شہوت اور لذت کا حصول بھی طبعی راہ سے ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی سنت الہیہ کے خلاف لذت کوشی کی سعی کرتا ہے تو اسے بےراہ روی ‘ اور خلاف فطرت عمل تصور کیا جائے گا ۔ مزید یہ کہ یہ عمل خلاف اخلاق بھی ہوگا ‘ اس لئے اسلامی اخلاق بھی فطری اخلاق ہوتے ہیں اور ان کے اندر کوئی فساد اور انحراف نہیں ہوتا ۔

عورت کی نفسیاتی اور عضویاتی ساخت ایسی ہوتی ہے جس سے مرد کو حقیقی لذت حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے بھی مقصد صرف حصول لذت نہیں ہوتا بلکہ اس ملاپ کے نتیجے میں رحمت اور نعمت بھی حاصل ہوتی ہے ‘ اس طرح کہ اس ملاپ کے نتیجے میں سنت الہیہ کے مطابق سلسلہ حیات کی بقاء کا انتظام ہورہا ہے ۔ رہا یہ کہ مرد اور مرد کے درمیان جو عضویاتی یکسانیت ہوتی ہے تو اس سے کوئی صحت مند لذت حاصل نہیں ہوتی بلکہ انسان کو اس میں گندگی کا احساس ہوتا ہے اس لئے فطرت سلیمہ اس ملاپ کو قبول نہیں کرتی ۔

اس سلسلے میں انسان کے اعتقادات اور تصورات کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے ۔ آج کے دور میں یورپ میں جو جاہلیت مروج ہے ‘ وہ اس جنسی بےراہ روی کو بڑی بےحیائی کے ساتھ پھیلاتی ہے اور یہ بےراہ روی محض نظریاتی بےراہ روی کے نتیجے میں ہے ۔

ہمارے دور میں یہودی تمام غیر یہودی اقوام کو اخلاقی اعتبار سے برباد کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے نشرواشاعت کے ادارے رات اور دن کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ نظریاتی اور اخلاقی طور پر غیر یہودی اقوام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ دعوی کرتے رہے کہ یہ جنسی انتشار اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ عورت پردہ کرتی ہے ۔ لیکن واقعات اس کے برعکس بتاتے ہیں ‘ اس لئے کہ یورپ وامری کہ کے اندر کسی مرد اور عورت کے ملاپ کے لئے کوئی ضابطہ یا کوئی قید نہیں ہے ‘ بعینہ اسی طرح جس طرح بہائم بوقت ضرورت ملتے ہیں ۔ لیکن ان کھلے معاشروں میں خلاف وضع فطرت فعل بھی دوسرے معاشروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے بلکہ ہم جنسی پرستی صرف مردوں کے اندر ہی نہیں عورتوں کے درمیان بھی یہ فعل رائج ہے ۔ اگر کسی کو شبہ ہے تو وہ مسٹر کنزی کی کتابیں پڑھیں ۔ ” مردوں کے درمیان جنسی تعلقات “ اور ” عورتوں کے درمیان جنسی تعلقات “۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود یہ جھوٹے ذرائع ابلاغ اپنی اس جھوٹی بات کو دہراتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ فعل بد عورتوں کے پردے کی وجہ سے کسی سوسائٹی میں پھیلتا ہے ۔ یہ پروپیگنڈہ وہ ان مقاصد کے لئے کرتے ہیں جن کا اظہار انہوں نے اکابرین یہود کے پروٹوکول میں کیا ہے ۔ اب ذرا دوبارہ قرآنی قصے کی طرف آئیے اور سنئے کہ وہ اپنی نبی کو کیا جواب دیتے ہیں۔

آیت 80 وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اگرچہ حضرت لوط علیہ السلام اس قوم میں سے نہیں تھے ‘ لیکن ان کی طرف مبعوث ہونے اور وہاں جا کر آباد ہوجانے کی وجہ سے ان لوگوں کو آپ علیہ السلام کی قوم قرار دیا گیا ہے۔اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ یعنی اجتماعی طور پر پوری قوم کا ایک شرمناک فعل کو اس انداز سے اپنالینا کہ اسے اپنا شعار بنا لینا ‘ کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنا اور اس میں شرمانے کی بجائے فخر کرنا ‘ اس سب کچھ کی مثال تاریخ انسانی کے اندر کوئی اور نہیں ملتی۔

لوط ؑ کی بدنصیب قوم فرمان ہے کہ حضرت لوط ؑ کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا تو ان کے واقعہ کو بھی یاد کر، حضرت لوط ؑ ہاران بن آزر کے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے آپ ہی کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا تھا اور آپ ہی کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی بنا کر سدوم نامی بستی کی طرف بھیجا آپ نے انہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اللہ کی توحید اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا نیکیوں کے کرنے برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا۔ جن میں ایک برائی اغلام بازی تھی جو ان سے پہلے دنیا سے مفقود تھی۔ اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے۔ عمرو بن دینار یہی فرماتے ہیں۔ جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی تو میں تو اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کرلے اسی لئے حضرت لوط ؑ نے ان حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا۔ عورتوں کو جو اس کام کیلئے تھیں چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ رہے ہو ؟ اس سے بڑھ کر اسراف اور جہالت اور کیا ہوگی ؟ چناچہ اور آیت میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ ہیں میری بچیاں یعنی تمہاری قوم کی عورتیں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی چاہت نہیں۔ ہم تو تمہارے ان مہمان لڑکوں کے خواہاں ہیں مفسرین فرماتے ہیں جس طرح مرد مردوں میں مشغول تھے عورتیں عورتوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔

آیت 80 - سورہ اعراف: (ولوطا إذ قال لقومه أتأتون الفاحشة ما سبقكم بها من أحد من العالمين...) - اردو