سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 160 (آیات 74 سے 81 تک)

وَٱذْكُرُوٓا۟ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ ٱلْجِبَالَ بُيُوتًا ۖ فَٱذْكُرُوٓا۟ ءَالَآءَ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ قَالَ ٱلْمَلَأُ ٱلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُوا۟ مِن قَوْمِهِۦ لِلَّذِينَ ٱسْتُضْعِفُوا۟ لِمَنْ ءَامَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِۦ ۚ قَالُوٓا۟ إِنَّا بِمَآ أُرْسِلَ بِهِۦ مُؤْمِنُونَ قَالَ ٱلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُوٓا۟ إِنَّا بِٱلَّذِىٓ ءَامَنتُم بِهِۦ كَٰفِرُونَ فَعَقَرُوا۟ ٱلنَّاقَةَ وَعَتَوْا۟ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوا۟ يَٰصَٰلِحُ ٱئْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ فَأَخَذَتْهُمُ ٱلرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا۟ فِى دَارِهِمْ جَٰثِمِينَ فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَٰقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّى وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُحِبُّونَ ٱلنَّٰصِحِينَ وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦٓ أَتَأْتُونَ ٱلْفَٰحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ ٱلرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ ٱلنِّسَآءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ
160

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waothkuroo ith jaAAalakum khulafaa min baAAdi AAadin wabawwaakum fee alardi tattakhithoona min suhooliha qusooran watanhitoona aljibala buyootan faothkuroo alaa Allahi wala taAAthaw fee alardi mufsideena

آیت ” وَاذْکُرُواْ إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاء مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَکُمْ فِیْ الأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُہُولِہَا قُصُوراً وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتاً فَاذْکُرُواْ آلاء اللّہِ وَلاَ تَعْثَوْا فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (74)

” یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین یہ منزلت بخشی کہ آج تم ان کے ہموار میدانوں میں عالیشان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو ۔ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ “

یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ قوم ثمود کا مسکن کہاں تھا ؟ لیکن دوسری سورة میں ہے کہ یہ الحجر میں رہتے تھے ‘ جو حجاز اور شام کے درمیان کا علاقہ ہے حضرت صالح (علیہ السلام) ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ذرا دیکھو کہ اللہ نے تم پر کس قدر انعام کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمین پر نہایت ہی ترقی یافتہ اور سیاسی اعتبار سے ایک قوت تھے ۔ ان کے جغرافیہ کی طرف جو اشارہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پہاڑ بھی تھے اور ہموار علاقے بھی تھے ۔ وہ ہموار علاقوں میں عالیشان محل بناتے تھے اور پہاڑوں کو بھی تراش کر مکانات بناتے تھے ۔ گویا اس مختصر آیت میں ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) یہ بھی بتاتے تھے ۔ گویا اس مختصر آیت میں ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) یہ بھی بتاتے ہیں کہ عاد کے بعد قوم ثمود کو عروج حاصل ہوا ۔ اگرچہ یہ لوگ قوم کی سر زمین میں نہ رہتے تھے ۔ ہاں یہ حقیقت واضح ہے کہ وہ عاد کی تہذیب کے بعد نمودار ہونے والی تہذیب کے حامل تھے اور حجر سے باہر بھی دور دراز علاقوں تک ان کی مملکت پھیلی ہوئی تھی ۔ اس طرح وہ خلیفۃ اللہ فی الارض کے منصب پر فائز تھے اس لئے حضرت صالح ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ تمہارا کام فساد فی الارض نہیں ہے اور تمہیں اپنی شان و شوکت پر غرور نہیں کرنا چاہئے ۔ تمہیں چاہیے کہ ذرا پچھلی اقوام کے انجام کو نگاہ میں رکھو ۔

یہاں سیاق قصہ میں ایک دوسرا خلا بھی ہے جس کا ذکر نہیں ہوا ‘ یہ کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت کو بعض لوگوں نے قبول کرلیا اور مطیع فرمان لوگ تھے اور بعض لوگوں نے تکبر کرکے اسے رد کردیا ۔ کسی علاقے کے بااثر لوگ ہمیشہ دعوت اسلامی کو سب سے آخر میں قبول کرتے ہیں کیونکہ اس دعوت کا منشا یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی بڑائیاں اور خدائیاں چھوڑ کر صرف الہہ واحد کو بڑا اور بادشاہ تسلیم کرلیں جو رب العالمین ہے ۔ اس سے قبل یہ بڑے لوگ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جن ضعفاء نے اپنی گردنوں سے طاغوت کی غلامی کا جوا اتار پھینکا ہے اور اللہ کے سوا تمام غلامیوں سے آزاد ہوگئے ہیں ان پر تشدد کریں ۔۔۔۔۔۔۔ چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے بڑے اور بااثر لوگ ان ضعفاء پر تشدد کرتے ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے نئے قسم قسم کا فتنہ و فساد پیدا کرتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

اُس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کمزور طبقہ کے اُن لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے کہا "کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالحؑ اپنے رب کا پیغمبر ہے؟" انہوں نے جواب دیا "بے شک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اُسے ہم مانتے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala almalao allatheena istakbaroo min qawmihi lillatheena istudAAifoo liman amana minhum ataAAlamoona anna salihan mursalun min rabbihi qaloo inna bima orsila bihi muminoona

آیت ” قَالَ الْمَلأُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُواْ مِن قَوْمِہِ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُواْ لِمَنْ آمَنَ مِنْہُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحاً مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّہِ قَالُواْ إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِہِ مُؤْمِنُونَ (75)

” اس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے ، کمزور طبقہ کے ان لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے ‘ کہا ” کیا واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کا پیغمبر ہے ؟ “

بااثر لوگوں کی طرف سے یہ سوال تہدید اور ڈرانے کے لئے کیا گیا تھا ۔ ان لوگوں نے اس بات کو بہت ہی برا سمجھا کہ یہ غریب لوگ بھی صالح کے جنبہ دار بن گئے ہیں اور یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی تصدیق کر رہے ہیں ؟ ۔

لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ضعیف لوگ جب ایمان لے آتے ہیں تو وہ ضعیف نہیں رہتے ۔ ایمان ان کے دلوں کو قوت اور جرات سے بھر دیتا ہے ۔ ان کے دلوں کے اندر اطمینان اور یقین پیدا ہوجاتا ہے ‘ انہیں اپنے نظریات پر اعتماد ہوتا ہے ‘ لہذا اب دنیاوالوں کی تہدید و تخویف اور ڈراوے دھمکاوے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ نہ مذاق اور استہزاء کان ان پر اثر ہوتا ہے ۔ اب وہم مستکبرین کو خاطر میں نہیں لاتے اور ایمان کا اعلان کردیتے ہیں ۔ اور جواب میں یہ مستکبرین بھی تہدید آمیز لہجے میں یہ بتا دیتے ہیں کہ اچھا ہم تو اس دعوت کا صاف صاف انکار کر رہے ہیں ۔

آیت ” قَالُواْ إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِہِ مُؤْمِنُونَ (75) قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِیَ آمَنتُمْ بِہِ کَافِرُونَ (76)

” انہوں نے جواب دیا ” بیشک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں ۔ “ ان بڑائی کے مدعیوں نے کہا ” جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔ “

حالانکہ صالح (علیہ السلام) واضح دلائل لے کر آئے تھے ‘ ان دلائل ومعجزات کے بعد پھر شک کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔ حقیقت یہ تھی کہ یہ اکابرین قوم اس لئے انکار نہ کر رہے تھے کہ انکے سامنے دلائل ومعجزات کی کوئی کمی تھی بلکہ وہ اس لئے منکر تھے کہ وہ ایک ایسے نظام مملکت کو تسلیم نہ کرنا چاہتے تھے جس میں صرف رب العالمین کی اطاعت ہوتی ہو ۔ مسئلہ حاکمیت اور اقتدار اعلی کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دل میں حاکمیت واقتدار کی ایک اعلی اور گہری خواہش پائی جاتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے شیطان انسان پر حملہ آور ہوتا ہے ۔

چناچہ انہوں نے قولی انکار کے بعد کافرانہ کاروائی کی اور اللہ کی اس ناقہ پر دست درازی کی جو درحقیقت نبی وقت کی تائید کیلئے بطور معجزہ لائی گئی تھی اور جس کے بارے میں نبی وقت نے قبل از وقت ان کو متنبہ کردیا تھا کہ وہ اس رپ دست درازی سے باز رہیں ورنہ وہ ایک دردناک عذاب سے دو چار ہوں گے ۔

اردو ترجمہ

اُن برائی کے مدعیوں نے کہا جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala allatheena istakbaroo inna biallathee amantum bihi kafiroona

اردو ترجمہ

پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمرد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے، اور صالحؑ سے کہہ دیا کہ لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaAAaqaroo alnnaqata waAAataw AAan amri rabbihim waqaloo ya salihu itina bima taAAiduna in kunta mina almursaleena

آیت ” فَعَقَرُواْ النَّاقَۃَ وَعَتَوْاْ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِمْ وَقَالُواْ یَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن کُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (77)

” پھر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمرد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کیخلاف ورزی کر گزرے اور صالح سے کہہ دیا کہ ” لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے ۔ “

معصیت اور نافرمانی کے بعد یہاں ان کی خود سری بھی عیاں ہے ۔ یہاں ان کی معصیت اور خود سری کے لئے لفظ ” عتو “ استعمال ہوا ہے تاکہ انکی نفسیاتی حالت کی تصویر بھی اچھی طرح سامنے آجائے جس کی وجہ سے وہ عذاب کے نزول کا مطالبہ کرتے ہیں اور پیغمبر کو حقیر جانتے ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے اب ان کے خاتمے کا اعلان کردیا جاتا ہے ۔

اردو ترجمہ

آخر کا ر ایک دہلا دینے والی آفت نے اُنہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faakhathathumu alrrajfatu faasbahoo fee darihim jathimeena

آیت ” فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْنَ (78)

” آخر کار ایک دہلا دینے والی آفت نے انہیں آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے ۔ “

چناچہ دہلا دینے والی مصیبت آگئی اور اس کے نتیجے میں ان کو اوندھا اس لئے گرایا گیا تاکہ انکی اکڑ اور سرکشی کے لئے مناسب سزا ان کو دے دی جائے کیونکہ کڑک اور جھنجوڑنے کے نتیجے میں وہ خوفزدہ ہوئے اور بےحس و حرکت اوندھے منہ گرے ۔ انکی یہ حالت ان کی سرکشی اور اکڑ کے لئے مناسب سزا تھی ۔ الفاظ کی نفسیاتی تصویر کشی قابل دید ہے ۔

اب ان کو اسی طرح اوندھے پڑے چھوڑ کر بات کا رخ حضرت صالح (علیہ السلام) کی طرف مڑ گیا ‘ جس کی انہوں نے تکذیب کی تھی اور چیلنج دیا تھا ۔ آپ کا تبصرہ یہ رہا ۔

اردو ترجمہ

اور صالحؑ یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ "اے میری قوم، میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatawalla AAanhum waqala ya qawmi laqad ablaghtukum risalata rabbee wanasahtu lakum walakin la tuhibboona alnnasiheena

آیت ” فَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِیْنَ (79)

” اور صالح یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ” اے میری قوم ‘ میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیرخواہی کی مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں ۔ “

یہ شہادت دے دی گئی کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے پیغام پوری طرح پہنچا دیا تھا اور سرکشی اور نافرمانی کرکے انہوں نے خود اپنے آپ کو ان انجام کا مستحق بنایا تھا ۔ یہاں مکذبین کی تاریخ کا ایک دوسرا صفحہ لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ اور کسی ڈرانے والے کی توہین وتکذیب کرنے والے برے انجام کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔

اب تاریخ کی گاڑی آگے بڑھتی ہے اور ہم عہد ابراہیم (علیہ السلام) میں پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں حضرت ابراہیم کا قصہ بیان نہیں کیا جاتا کیونکہ یہاں ان سرکش نافرمانوں کا ذکر مطلوب ہے جنہیں ہلاک کردیا گیا ۔ یہ اس آیت اور موضوع کی تفصیل ہے جسے آغاز سورت میں لایا گیا تھا ۔

آیت ” وکم من قریۃ اھلکنھا “۔ ”’ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا “۔ یہ قصص گویا اس موضوع کی تفصیلات کے طور پر آ رہے ہیں جبکہ قوم ابراہیم کو ہلاک نہ کیا گیا چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے ان کی ہلاکت کے لئے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اور ان کی بت پرستی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔ اس لئے یہاں قصہ لوط کو لایا جاتا ہے ۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور آپ کے معاصر تھے ۔ اس قصے میں ڈراوا ہے ‘ اور لوگوں کی طرف سے تکذیب ہے اور انجام میں قوم کی ہلاکت ہے اور یہ اس سلسلہ قصص اور موضوع سے مناسبت رکھتا ہے ۔

اردو ترجمہ

اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا "کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو، کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walootan ith qala liqawmihi atatoona alfahishata ma sabaqakum biha min ahadin mina alAAalameena

آیت ” نمبر 80 تا 84۔

قصہ لوط میں انسانی فطرت کے ایک ایسے بگاڑ کا ذکر ہے جسکی مخصوص نوعیت ہے ۔ سابقہ قصص میں تو اقوام کی ہلاکت نہایت ہی اساسی نظریہ حیات یعنی عقیدہ توحید اور وحدت حاکمیت الہ کے مسئلے پر ہوتی تھی ۔ لیکن فطرت کا یہ بگاڑ بھی نہایت ہی اساسی مسئلہ تھا اور یہ عقیدہ توحید اور مسئلہ حاکمیت سے متعلق تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ربوبیت اور عبودیت کے اقرار کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ قرآن وسنت کی مکمل اطاعت کی جائے ۔ سنت الہیہ یہ ہے کہ اللہ نے مرد اور عورت کو علیحدہ اصناف میں پیدا کیا اور مرد اور عورت کے اتصال کو ایسا ذریعہ بنایا جس کے نتیجے مین وہ ایک دوسرے کے لئے ذریعہ تکمیل ثابت ہوئے اور اس طرح نسل انسانی کے اجرا وامتداد کا سامان فرمایا یہی وجہ ہے کہ اللہ نے دونوں اصناف کے وضائف مقرر کرکے انہیں ایک دوسرے کے لئے مناسب جسمانی اور نفسیاتی اہلیت دی اور باہم ملاپ سے نسل انسانی کی بقا کا انتظام فرمایا ۔ پھر اس ملاپ کے اندر دونوں کے لئے گہری لذت ودیعت کی اور اسے ایک فطری لذت قرار یدا تاکہ وہ دلکشی اور کشش کے ساتھ باہم ملیں اور بقائے نسل انسانی کی ذمہ داریاں قبول کریں اور اس راہ میں آنے والی تمام مشکلات کو بھی برداشت کریں ۔ حمل ‘ وضع حمل اور بچوں کی پرورش اور رضاعت ‘ نفقہ اولاد واہلیہ اور تربیت اولاد کی ذمہ داریاں اور کفالت اور اس کے بعد پورے خاندان کے افراد کی باہم ذمہ داریاں ۔ باوجود اس کے کہ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں انسانی بچوں کی نشوونما اور تربیت کا علم نہایت ہی طویل اور صبر آزما ہوتا ہے ۔

یہ فریضہ چونکہ نہایت ہی اساسی اور بنیادی فریضہ ہے اور اس کے سوا نسل انسانی کی بقا ممکن نہیں ۔ اس لئے اس فریضے کے اندر انحراف کو بھی ایک اساسی جرم قرار دیا گیا جس طرح عقیدہ توحید کے اندر ذرا بھر انحراف ناقابل برداشت ہے ۔ اس لئے نظریہ حیات اور عقیدہ توحید کے اندر انحراف اور ہم جنسی پرستی کے انحراف کو ایک درجے کا جرم قرار دیا گیا۔

قوم لوط کے قصے میں انحراف واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ یہ فطرت سے انحراف ہے اور حضرت لوط (علیہ السلام) ان سے کہتے ہیں کہ یہ ایک نئی اخلاقی بےراہ روی انہوں نے شروع کی ہے اور ان سے پہلے کسی قوم میں یہ اخلاقی فساد نہ تھا ۔

آیت ” وَلُوطاً إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُم بِہَا مِنْ أَحَدٍ مِّن الْعَالَمِیْنَ (80) إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّن دُونِ النِّسَاء بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ (81)

” اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ‘ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ” کیا تم ایسے بےحیا ہوگئے کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔ “

حضرت لوط (علیہ السلام) ان پر حد سے گزرنے کا جو الزام لگاتے ہیں اور اس پر ان کی سرزنش کرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطرت سلیمہ کا جو نظام انسانوں کے لئے وضع کیا ہے اس سے آگے گزر جانا اسراف ہے ۔ پھر اللہ نے انہیں توالد وتناسل کے لئے جو قوتیں دی ہوئی ہیں ان کا صحیح مصرف یہ ہے کہ ان کو یہاں زندگی کی نشوونما کیلئے صرف کیا جائے جبکہ وہ ان قوتوں کو بنجر زمین میں ضائع کر رہے ہیں اور محض عارضی لذت اور شہوت رانی کے لئے کام میں لاتے ہیں ‘ حالانکہ شہوت اور لذت کا حصول بھی طبعی راہ سے ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی سنت الہیہ کے خلاف لذت کوشی کی سعی کرتا ہے تو اسے بےراہ روی ‘ اور خلاف فطرت عمل تصور کیا جائے گا ۔ مزید یہ کہ یہ عمل خلاف اخلاق بھی ہوگا ‘ اس لئے اسلامی اخلاق بھی فطری اخلاق ہوتے ہیں اور ان کے اندر کوئی فساد اور انحراف نہیں ہوتا ۔

عورت کی نفسیاتی اور عضویاتی ساخت ایسی ہوتی ہے جس سے مرد کو حقیقی لذت حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے بھی مقصد صرف حصول لذت نہیں ہوتا بلکہ اس ملاپ کے نتیجے میں رحمت اور نعمت بھی حاصل ہوتی ہے ‘ اس طرح کہ اس ملاپ کے نتیجے میں سنت الہیہ کے مطابق سلسلہ حیات کی بقاء کا انتظام ہورہا ہے ۔ رہا یہ کہ مرد اور مرد کے درمیان جو عضویاتی یکسانیت ہوتی ہے تو اس سے کوئی صحت مند لذت حاصل نہیں ہوتی بلکہ انسان کو اس میں گندگی کا احساس ہوتا ہے اس لئے فطرت سلیمہ اس ملاپ کو قبول نہیں کرتی ۔

اس سلسلے میں انسان کے اعتقادات اور تصورات کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے ۔ آج کے دور میں یورپ میں جو جاہلیت مروج ہے ‘ وہ اس جنسی بےراہ روی کو بڑی بےحیائی کے ساتھ پھیلاتی ہے اور یہ بےراہ روی محض نظریاتی بےراہ روی کے نتیجے میں ہے ۔

ہمارے دور میں یہودی تمام غیر یہودی اقوام کو اخلاقی اعتبار سے برباد کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے نشرواشاعت کے ادارے رات اور دن کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ نظریاتی اور اخلاقی طور پر غیر یہودی اقوام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ دعوی کرتے رہے کہ یہ جنسی انتشار اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ عورت پردہ کرتی ہے ۔ لیکن واقعات اس کے برعکس بتاتے ہیں ‘ اس لئے کہ یورپ وامری کہ کے اندر کسی مرد اور عورت کے ملاپ کے لئے کوئی ضابطہ یا کوئی قید نہیں ہے ‘ بعینہ اسی طرح جس طرح بہائم بوقت ضرورت ملتے ہیں ۔ لیکن ان کھلے معاشروں میں خلاف وضع فطرت فعل بھی دوسرے معاشروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے بلکہ ہم جنسی پرستی صرف مردوں کے اندر ہی نہیں عورتوں کے درمیان بھی یہ فعل رائج ہے ۔ اگر کسی کو شبہ ہے تو وہ مسٹر کنزی کی کتابیں پڑھیں ۔ ” مردوں کے درمیان جنسی تعلقات “ اور ” عورتوں کے درمیان جنسی تعلقات “۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود یہ جھوٹے ذرائع ابلاغ اپنی اس جھوٹی بات کو دہراتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ فعل بد عورتوں کے پردے کی وجہ سے کسی سوسائٹی میں پھیلتا ہے ۔ یہ پروپیگنڈہ وہ ان مقاصد کے لئے کرتے ہیں جن کا اظہار انہوں نے اکابرین یہود کے پروٹوکول میں کیا ہے ۔ اب ذرا دوبارہ قرآنی قصے کی طرف آئیے اور سنئے کہ وہ اپنی نبی کو کیا جواب دیتے ہیں۔

اردو ترجمہ

تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innakum latatoona alrrijala shahwatan min dooni alnnisai bal antum qawmun musrifoona
160