سورہ اعراف: آیت 79 - فتولى عنهم وقال يا قوم... - اردو

آیت 79 کی تفسیر, سورہ اعراف

فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَٰقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّى وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُحِبُّونَ ٱلنَّٰصِحِينَ

اردو ترجمہ

اور صالحؑ یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ "اے میری قوم، میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatawalla AAanhum waqala ya qawmi laqad ablaghtukum risalata rabbee wanasahtu lakum walakin la tuhibboona alnnasiheena

آیت 79 کی تفسیر

آیت ” فَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِیْنَ (79)

” اور صالح یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ” اے میری قوم ‘ میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیرخواہی کی مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں ۔ “

یہ شہادت دے دی گئی کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے پیغام پوری طرح پہنچا دیا تھا اور سرکشی اور نافرمانی کرکے انہوں نے خود اپنے آپ کو ان انجام کا مستحق بنایا تھا ۔ یہاں مکذبین کی تاریخ کا ایک دوسرا صفحہ لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ اور کسی ڈرانے والے کی توہین وتکذیب کرنے والے برے انجام کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔

اب تاریخ کی گاڑی آگے بڑھتی ہے اور ہم عہد ابراہیم (علیہ السلام) میں پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں حضرت ابراہیم کا قصہ بیان نہیں کیا جاتا کیونکہ یہاں ان سرکش نافرمانوں کا ذکر مطلوب ہے جنہیں ہلاک کردیا گیا ۔ یہ اس آیت اور موضوع کی تفصیل ہے جسے آغاز سورت میں لایا گیا تھا ۔

آیت ” وکم من قریۃ اھلکنھا “۔ ”’ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا “۔ یہ قصص گویا اس موضوع کی تفصیلات کے طور پر آ رہے ہیں جبکہ قوم ابراہیم کو ہلاک نہ کیا گیا چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے ان کی ہلاکت کے لئے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اور ان کی بت پرستی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔ اس لئے یہاں قصہ لوط کو لایا جاتا ہے ۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور آپ کے معاصر تھے ۔ اس قصے میں ڈراوا ہے ‘ اور لوگوں کی طرف سے تکذیب ہے اور انجام میں قوم کی ہلاکت ہے اور یہ اس سلسلہ قصص اور موضوع سے مناسبت رکھتا ہے ۔

آیت 79 فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنْ لاَّ تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ ۔ اس کے بعد حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر آ رہا ہے۔ آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ آپ علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے اور سامی النسل تھے۔ آپ علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو رسالت سے سرفراز فرماکر سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ دونوں شہر بحیرۂ مردار Dead Sea کے کنارے اس زمانے کے دو بڑے اہم تجارتی مراکز تھے۔ اس زمانے میں جو تجارتی قافلے ایران اور عراق کے راستے مشرق سے مغرب کی طرف جاتے تھے وہ فلسطین اور مصر کو جاتے ہوئے سدوم اور عامورہ کے شہروں سے ہو کر گزرتے تھے۔ اس اہم تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے ان شہروں میں بڑی خوشحالی تھی۔ مگر ان لوگوں میں مردوں کے آپس میں جنسی اختلاط کی خباثت پیدا ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا۔حضرت لوط علیہ السلام اس قوم میں سے نہیں تھے۔ سورة العنکبوت آیت 26 میں ہمیں آپ علیہ السلام کی ہجرت کا ذکر ملتا ہے۔ آپ علیہ السلام ان شہروں کی طرف مبعوث ہو کر عراق سے آئے تھے۔ یہاں پر یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح علیہ السلام کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے ‘ جبکہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر تھے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کے زمانے کے تین رسولوں کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑ کر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر شروع کردیا گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک خاص اسلوب سے انباء الرّسل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ یعنی ان رسولوں کا تذکرہ جو اللہ کی عدالت بن کر قوموں کی طرف آئے اور ان کے انکار کے بعد وہ قومیں تباہ کردی گئیں۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ضمن میں اس نوعیت کی کوئی تفصیل صراحت کے ساتھ قرآن میں نہیں ملتی اس لیے آپ علیہ السلام کا ذکر قصص النبیین کے ذیل میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا تذکرہ سورة الاعراف کے بجائے سورة الانعام میں کیا گیا ہے اور وہاں یہ تذکرہ قصص النبیین ہی کے انداز میں ہوا ہے ‘ جبکہ سورة الاعراف میں تمام انباء الرّسل کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔ انباء الرسل اور قصص النبیین کی تقسیم کے اندر یہ ایک منطقی ربط ہے۔

صالح ؑ ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح ؑ فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی چناچہ حضرت محمد ﷺ بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابو جہل، اے عتبہ، اے شیبہ، اے فلاں، اے فلاں، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے ؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہوگئے ؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسروں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو۔ یہی حضرت صالح ؑ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کردی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم ﷺ وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر ؓ سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے ؟ آپ نے جواب دیا وادی عسفان فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہما السلام) ابھی ابھی گذرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ صحاح ستہ میں نہیں۔

آیت 79 - سورہ اعراف: (فتولى عنهم وقال يا قوم لقد أبلغتكم رسالة ربي ونصحت لكم ولكن لا تحبون الناصحين...) - اردو