آیت ” فَعَقَرُواْ النَّاقَۃَ وَعَتَوْاْ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِمْ وَقَالُواْ یَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن کُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (77)
” پھر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمرد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کیخلاف ورزی کر گزرے اور صالح سے کہہ دیا کہ ” لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے ۔ “
معصیت اور نافرمانی کے بعد یہاں ان کی خود سری بھی عیاں ہے ۔ یہاں ان کی معصیت اور خود سری کے لئے لفظ ” عتو “ استعمال ہوا ہے تاکہ انکی نفسیاتی حالت کی تصویر بھی اچھی طرح سامنے آجائے جس کی وجہ سے وہ عذاب کے نزول کا مطالبہ کرتے ہیں اور پیغمبر کو حقیر جانتے ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے اب ان کے خاتمے کا اعلان کردیا جاتا ہے ۔
آیت 77 فَعَقَرُوا النَّاقَۃَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ یہ اونٹنی ان کی فرمائش پر چٹان سے برآمد ہوئی تھی ‘ مگر پھر یہ ان کے لیے بہت بڑی آزمائش بن گئی تھی۔ وہ ان کی فصلوں میں جہاں چاہتی پھرتی اور جو چاہتی کھاتی۔ اس کی خوراک غیر معمولی حدتک زیادہ تھی۔ پانی پینے کے لیے بھی اس کی باری مقرر تھی۔ ایک دن ان کے تمام ڈھور ڈنگر پانی پیتے تھے ‘ جبکہ دوسرے دن وہ اکیلی تمام پانی پی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ سب کچھ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا اور بالآخر ان سرداروں نے ایک سازش کے ذریعے اسے ہلاک کروا دیا۔وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ اءْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ حضرت صالح علیہ السلام سے انہوں نے چیلنج کے انداز میں کہا کہ ہم نے تمہاری اونٹنی کو تو مار ڈالا ہے ‘ اب اگر واقعی تم اللہ کے رسول ہو تو لے آؤ ہمارے اوپر وہ عذاب جس کا تم ہر وقت ہمیں ڈراوا دیتے رہتے ہو۔