سورہ اعراف: آیت 65 - ۞ وإلى عاد أخاهم هودا... - اردو

آیت 65 کی تفسیر, سورہ اعراف

۞ وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ

اردو ترجمہ

اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا اس نے کہا "اے برادران قو م، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waila AAadin akhahum hoodan qala ya qawmi oAAbudoo Allaha ma lakum min ilahin ghayruhu afala tattaqoona

آیت 65 کی تفسیر

آیت ” نمبر 65 تا 74۔

یہ وہی رسالت اور وہی پیغام بری ہے وہی معاملہ اور وہی انجام ہے۔ وہی سنت الہیہ ہے جو جاری وساری ہے اور وہی قانون الہی ہے جس کے مطابق یہ کائنات قائم ہے ۔ ایک ہی قانون ہے اور ایک ہی ضابطہ ہے ۔

قوم عاد حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہے ‘ یا ان لوگوں کی اولاد میں سے ہے جو آپ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کی تعداد تیرہ ‘ ظاہر ہے کہ یہ سب لوگ دین نوح (علیہ السلام) کے پیرو تھے اور نوح (علیہ السلام) کا دین ‘ دین اسلام تھا ۔ یہ صرف اللہ وحدہ کو پکارتے تھے اور وہ اللہ کے سوا اپنے لئے کسی اور کو الہ نہ بناتے تھے ‘ ان کا عقیدہ یہی تھا کہ اللہ ہی رب العالمین ہے ‘ اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں یہی تعلیم دی تھی ۔

آیت ” وَلَکِنِّیْ رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ (67)

” میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں “۔

لیکن جب طویل زمانہ گزر گیا اور یہ لوگ زمین کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے تو شیطان نے انہیں اچھی طرح گمراہ کردیا اور انہیں اپنی خواہشات اور شہوات کے مطیع بنا دیا اور انسان کی سب سے بڑی خواہش ملکیت اور سازو سامان کی خواہش ہوتی ہے ۔ اور یہ مال و دولت اور سازو سامان وہ شریعت کے قانون کے علی الرغم جمع کرتے ہیں ‘ تو اس وجہ سے حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد نے اس دعوت کو بہت ہی نابسندیدہ سمجھا کہ وہ اب صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت کریں ۔

آیت ” وَإِلَی عَادٍ أَخَاہُمْ ہُوداً قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَـہٍ غَیْْرُہُ أَفَلاَ تَتَّقُونَ (65)

” اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا ۔ اس نے کہا ” اے برادران قوم ‘ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز کرو گے ۔ “

اور یہ وہی بات ہے جو اس سے قبل حضرت نوح نے کہی تھی ‘ اور جس پر قوم نوح نے انکی تکذیب کی تھی اور اس کے نتیجے میں ان پر جو عذاب آیا وہ معلوم ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا خلیفہ بنایا تاھ ۔ یہاں قرآن کریم نے قوم عاد کے مسکن کی نشاندہی نہیں فرمائی لیکن دوسری سورتوں میں یہ تصریح آئی ہے کہ یہ احقاف میں تھے ۔ یہ یمامہ اور حضر موت کے درمیان بڑے بڑے ٹیلے ہیں ۔ غرض یہ لوگ اسی راہ پر چل نکلے جس پر اس سے قبل قوم نوح چل رہی تھی ۔ چناچہ انہوں نے نہ تو نصیحت پر کان دھرا اور نہ ہی واقعات نوح سے عبرت پکڑی ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) اپنے خطاب میں مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں ہے ؟ یہ ان کے رویے پر نکیر ہے ‘ اور انہیں اس خوفناک انجام بد سے ڈرایا جارہا ہے ۔

غرض اس قوم کے سرداروں کو یہ بات بہت ہی ناگوار گزری کہ ان میں سے ایک عام آدمی اٹھ کر انہیں ڈرائے اور یہ ہے اور ہمارے مقام ومنصب کا صحیح خیال نہیں رکھ رہا ہے ۔ چناچہ انہوں نے اپنے نبی کی طرف یہ باتیں منسوب کیں کہ وہ احمق اور جھوٹے ہیں اور اس قسم کے الزام لگانے میں انہوں نے ذرا بھر شرم محسوس نہ کی ۔

قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو وہی پیغام دیا جو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دیا تھا۔

ہود ؑ اور ان کا رویہ !فرماتا ہے کہ جیسے قوم نوح کی طرف حضرت نوح کو ہم نے بھیجا تھا قوم عاد کی طرف حضرت ہود ؑ کو ہم نے نبی بنا کر بھیجا یہ لوگ عاد بن ارم بن عوص بن سام بن نوح کی اولاد تھے۔ یہ عاد اولیٰ ہیں۔ یہ جنگل میں ستونوں میں رہتے تھے۔ فرمان ہے آیت (الم تر کف فعل ربک بعاد ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد) یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد ارم کے ساتھ تیرے رب نے کیا کیا ؟ جو بلند قامت تھے دوسرے شہروں میں جن کی مانند لوگ پیدا ہی نہیں کئے گئے۔ یہ لوگ بڑے قوی طاقتور اور لانبے چوڑے قد کے تھے جیسے فرمان ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے زیادہ قوی کون ہے ؟ کیا انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا یقینا ان سے زیادہ طاقت والا ہے۔ وہ ہماری آیتوں سے انکار کر بیٹھے ان کے شہر یمن میں احقاف تھے، یہ ریتلے پہاڑ تھے۔ حضرت علی نے حضرت موت کے ایک شخص سے کہا کہ تو نے ایک سرخ ٹیلہ دیکھا ہوگا جس میں سرخ رنگ کی راکھ جیسی مٹی ہے اس کے آس پاس پیلو اور بیری کے درخت بکثرت ہیں وہ ٹیلہ فلاں جگہ حضرموت میں ہے اس نے کہا امیر المومنین آپ تو اس طرح کے نشان بتا رہے ہیں گویا آپ نے بچشم خود دیکھا ہے آپ نے فرمایا نہیں دیکھا تو نہیں لیکن ہاں مجھ تک حدیث پہنچی ہے کہ وہیں حضرت ہود ؑ کی قبر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستیاں یمن میں تھیں اسی لئے ان کے پیغمبر وہیں مدفون ہیں آپ ان سب میں شریف قبیلے کے تھے اس لئے کہ انبیاء ہمیشہ حسب نسب کے اعتبار سے عالی خاندان میں ہی ہوتے رہے ہیں لیکن آپ کی قوم جس طرح جسمانی طور سے سخت اور زوردار تھی اسی طرح دلوں کے اعتبار سے بھی بہت سخت تھی جب اپنے نبی کی زبانی اللہ کی عبادت اور تقویٰ کی نصیحت سنی تو لوگوں کو بھاری اکثریت اور ان کے سردار اور بڑے بول اٹھے کہ تو تو پاگل ہوگیا ہے ہمیں اپنے بتوں کی ان خوبصورت تصویروں کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی دعوت کیوں دی ؟ حضرت ہود نے انہیں جواب دیا کہ مجھ میں تو بیوقوفی کی بفضلہ کوئی بات نہیں۔ میں تو تمہیں کلام اللہ پہنچا رہا ہوں تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور امانت داری سے حق رسالت ادا کر رہا ہوں۔ یہی وہ صفتیں ہیں جو تمام رسولوں میں یکساں ہوتی ہیں یعنی پیغام حق پہنچانا، لوگوں کی بھلائی چاہنا اور امانتداری کا نمونہ بننا۔ تم میری رسالت پر تعجب نہ کرو بلکہ اللہ کا شکر بجا لاؤ کہ اس نے تم میں سے ایک فرد کو اپنا پیغمبر بنایا کہ وہ تمہیں عذاب الٰہی سے ڈراوے۔ تمہیں رب کے اس احسان کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اس نے تمہیں ہلاک ہونے والوں کے بقایا میں سے بنایا۔ تمہیں باقی رکھا اتنا ہی نہیں بلکہ تمہیں قوی ہیکل، مضبوط اور طاقتور کردیا۔ یہی نعمت حضرت طالوت پر تھی کہ انہیں جسمانی اور علمی کشادگی دی گئی تھی۔ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ نجات حاصل کرسکو۔

آیت 65 - سورہ اعراف: (۞ وإلى عاد أخاهم هودا ۗ قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من إله غيره ۚ أفلا تتقون...) - اردو