سورہ اعراف: آیت 206 - إن الذين عند ربك لا... - اردو

آیت 206 کی تفسیر, سورہ اعراف

إِنَّ ٱلَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَيُسَبِّحُونَهُۥ وَلَهُۥ يَسْجُدُونَ ۩

اردو ترجمہ

جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena AAinda rabbika la yastakbiroona AAan AAibadatihi wayusabbihoonahu walahu yasjudoona

آیت 206 کی تفسیر

اب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے سامنے ملائکہ مقربین کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وہ جن پر شیطان کی اکساہٹ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ان کے اندر تخلیقی اعتبار سے کوئی کمی نہیں ہوتی نہ ان کے اندر شہوات ہوتی ہیں اور نہ میلانات ہوتے ہیں۔ وہ رات دن ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی بندگی میں نہ کوئی تقصیر کرتے ہیں اور نہ غرور کرتے ہیں حالانکہ اللہ کی بندگی اور تسبیح کرنے کے معاملے میں انسان ان سے زیادہ محتاج ہے۔ انسان کی راہ میں زیادہ مشکلات ہیں اور اس پر شیطان کی اکساہٹ کا اثر بھی جلد ہوتا ہے۔ انسان تباہ کن غفلت کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے۔ انسان کی سعی بھی محدود ہے ، اگر ذکر الہی کا توشہ نہ ہو تو اس کے لیے منزل تک پہنچنا ہی دشوار ہے۔

۔۔۔

عبادت اور ذکر الہی دین اسلام کے اساسی طریقوں میں شامل ہیں۔ یہ محض علم و معرفت کا طریق کار نہیں ہیں نہ لاہوتی جدلیات سے ان کا تعلق ہے بلکہ ان کا تعلق سلوک و عمل اور عملی حرکت کے ساتھ ہے۔ اور اس کے ذریعے انسان کی عملی دنیا کو بدلنا مطلوب ہوتا ہے۔ انسان کی عملی زندگی کی جڑیں لوگوں کے نفس کے اندر ہوتی ہیں ، عمل کی اساس کے خزانے انسان کے اندر ہوتے ہیں ، لوگوں کو عملاً جاہلیت سے نکالنا اور اسلامی منہاج میں داخل کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے نہایت ہی مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس راہ کی مشکلات پر صبر ایوبی کی ضرورت ہے جبکہ داعی کی طاقت محدود ہوتی ہے۔ اس لیے داعی کے لیے اس محدود قوت کے ساتھ اضافی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قوت محض علم و معرفت اور دلیل وبرہان سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اس کا سرچشمہ عبادت ، تعلق باللہ اور اللہ کی نصرت میں ہوتا ہے۔ یہی وہ توشہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ اور یہی سرچشمہ نصرت ہے جو اس طویل اور خطرناک راہ میں درکار ہوتا ہے۔

اس سورت کا آغاز ان الفاظ سے ہوا۔ کتاب انزل الیک " یہ کتاب ہے جو تمہاری جانب نازل کی گئی ہے۔ پس اے نبی تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے منکرین کو ڈراؤ اور ایمان لانے والوں کو نصیحت ہو "

پوری سورة میں قافلہ اہل حق کی کہانیاں بیان ہوئی اور اس قافلے کی قیادت رسل کرام اپنے اپنے اوقات میں کرتے رہے۔ راستے پر شیطان رجیم ان کی راہ بار بار روکتا رہا۔ جنوں اور انسانوں کے شیاطین ان کو اذیت دیتے رہے ، اس دنیا کے جبار وقہار ان پر مظالم ڈھاتے رہے اور طاغوتی نظاموں کے ہر کارے ان کے آڑے آتے رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوکر ان کو غلام بنا رہے تھے۔

بیشک یہی ہے اس راستے کا توشہ اور یہی ہے اس راستے کے معزز مسافروں کا سازوسامان۔

آیت 206 اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یعنی ملأ اعلیٰ جو ملائکہ مقربین پر مشتمل ہے ‘ جس کا نقشہ امیر خسرو رح ؔ نے اپنے اس خوبصورت شعر میں اس طرح بیان کیا ہے :خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ محمد ﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم !یعنی لامکاں کی وہ محفل جس کا میر محفل خود اللہ تعالیٰ ہے اور جہاں شرکائے محفل ملائکہ مقربین ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ روح محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس محفل میں گویا چراغ اور شمع کی حیثیت حاصل ہے۔ امیر خسرو کہتے ہیں کہ رات مجھے بھی اس محفل میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم۔ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔

آیت 206 - سورہ اعراف: (إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته ويسبحونه وله يسجدون ۩...) - اردو