سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 176 (آیات 196 سے 206 تک)

إِنَّ وَلِۦِّىَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْكِتَٰبَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى ٱلصَّٰلِحِينَ وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى ٱلْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا۟ ۖ وَتَرَىٰهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ خُذِ ٱلْعَفْوَ وَأْمُرْ بِٱلْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْجَٰهِلِينَ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّيْطَٰنِ نَزْغٌ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِ ۚ إِنَّهُۥ سَمِيعٌ عَلِيمٌ إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ إِذَا مَسَّهُمْ طَٰٓئِفٌ مِّنَ ٱلشَّيْطَٰنِ تَذَكَّرُوا۟ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ وَإِخْوَٰنُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِى ٱلْغَىِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِـَٔايَةٍ قَالُوا۟ لَوْلَا ٱجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّبِّى ۚ هَٰذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ ٱلْقُرْءَانُ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥ وَأَنصِتُوا۟ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ وَٱذْكُر رَّبَّكَ فِى نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ ٱلْجَهْرِ مِنَ ٱلْقَوْلِ بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْءَاصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْغَٰفِلِينَ إِنَّ ٱلَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَيُسَبِّحُونَهُۥ وَلَهُۥ يَسْجُدُونَ ۩
176

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna waliyyiya Allahu allathee nazzala alkitaba wahuwa yatawalla alssaliheena

اردو ترجمہ

بخلاف اِس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena tadAAoona min doonihi la yastateeAAoona nasrakum wala anfusahum yansuroona

اردو ترجمہ

بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain tadAAoohum ila alhuda la yasmaAAoo watarahum yanthuroona ilayka wahum la yubsiroona

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khuthi alAAafwa wamur bialAAurfi waaAArid AAani aljahileena

اچھے اعمال کی نشاندہی ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کردیا کرو۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگذر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول، تجسس نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرائیل سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگذر کر۔ جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ نے فرمایا جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ، جو تجھ سے روکے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر۔ اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے۔ عرف سے مراد نیک ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب ؓ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بوڑھے۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المومنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المومنین نے اجازت دے دی۔ یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگذر کی عادت رکھ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر۔ امیر المومنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی۔ امیرالمومنین ؓ کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ ؒ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منع ہیں۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے ؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کرلی۔ عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آگیا پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیرلیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے۔ مطلب یہ ہے ظلم برداشت کرلیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کجھ نہ کہنا۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ ﷺ تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے۔ شعر (خذا لعفو وامربالعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین یعنی درگزر کیا کر، بھلی بات بتادیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے، نادانوں سے ہٹ جا یا کر، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کرلے اور ان کے سر نہ ہوجا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے۔ دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کرلے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے آیت (اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96؀) 23۔ المؤمنون :96) بہترین طریق سے دفع کردو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے لیکن یہ انہی سے ہوسکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں۔ اس کے بعد شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگذر اور سلوک و احسان سے ہوجاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں۔ یہ تینوں حکم جو سورة اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورة مومنون میں بھی ہیں اور سورة حم السجدہ میں بھی۔ شیطان تو حضرت آدم ؑ کے وقت سے دشمن انسان ہے۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہوجائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہوجائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہوجاؤ گے۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی اعوذ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضور نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے۔ وہ کلمہ (" اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ") ہے کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہوگیا ہوں ؟ نزع کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے۔ فرمان قرآن ہے کہ میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے۔ عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے۔ (بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ)یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جا ہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ باقی حدیثیں جو اعوذ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں۔

اردو ترجمہ

اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waimma yanzaghannaka mina alshshaytani nazghun faistaAAith biAllahi innahu sameeAAun AAaleemun

اردو ترجمہ

حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena ittaqaw itha massahum taifun mina alshshaytani tathakkaroo faitha hum mubsiroona

جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ شیطان اس سے ڈرتا ہے طائف کی دوسری قرأت طیف ہے۔ یہ دونوں مشہور قرأتیں ہیں دونوں کے معنی ایک ہیں بعض نے لفظی تعریف بھی کی ہے۔ فرمان ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جنہیں اللہ کا ڈر ہے جو نیکیوں کے عامل اور برائیوں سے رکنے والے ہیں انہیں جب کبھی غصہ آجائے، شیطان ان پر اپنا کوئی داؤ چلانا چاہے، ان کے دل میں کسی گناہ کی رغبت ڈالے، ان سے کوئی گناہ کرانا چاہے تو یہ اللہ کے عذاب سے بچنے میں جو ثواب ہے اسے بھی یاد کرلیتے ہیں رب کے وعدے وعید کی یاد کرتے ہیں اور فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں، توبہ کرلیتے ہیں، اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطانی شر سے پناہ مانگنے لگتے ہیں اور اسی وقت اللہ کی جناب میں رجوع کرتے ہیں اور استقامت کے ساتھ صحت پر جم جاتے ہیں۔ ابن مردویہ میں ہے کہ ایک عورت رسول ﷺ کے پاس آئی جسے مرگی کا دوارہ پڑا کرتا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ میرے لئے آپ دعا کیجئے آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اللہ تمہیں شفا بخشے اور اگر چاہو تو صبر کرو اور اللہ تم سے حساب نہ لے گا۔ اس نے کہا حضور میں صبر کرتی ہوں کہ میرا حساب معاف ہوجائے۔ سنن میں بھی یہ حدیث ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ میں گر پڑتی ہوں اور بیہوشی کی حالت میں میرا کپڑا کھل جاتا ہے جس سے بےپردگی ہوتی ہے اللہ سے میری شفا کی دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا تم ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کرلو یا تو میں دعا کروں اور تمہیں شفا ہوجائے یا تم صبر کرو اور تمہیں جنت ملے اس نے کہا میں صبر کرتی ہوں کہ مجھے جنت ملے۔ لیکن اتنی دعا تو ضرور کیجئے کہ میں بےپردہ نہ ہوجایا کروں۔ آپ نے دعا کی چناچہ ان کا کپڑا کیسی ہی وہ تلملاتیں اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا تھا۔ حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ اپنی تاریخ میں عمر و بن جامع کے حالات میں نقل کرتے ہیں کہ ایک نوجوان عابد مسجد میں رہا کرتا تھا اور اللہ کی عبادت کا بہت مشتاق تھا ایک عورت نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کئے یہاں تک کہ اسے بہکا لیا قریب تھا کہ وہ اس کے ساتھ کوٹھڑی میں چلا جائے جو اسے یہ آیت (اذامسھم الخ) ، یاد آئی اور غش کھا کر گرپڑا بہت دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا اس نے پھر اس آیت کو یاد کیا اور اس قدر اللہ کا خوف اس کے دل میں سمایا کہ اس کی جان نکل گئی حضرت عمر فاروق ؓ نے اس کے والد سے ہمدردی اور غم خواری کی۔ چونکہ انہیں رات ہی کو دفن کردیا گیا تھا آپ ان کی قبر پر گئے آپ کے ساتھ بہت سے آدمی تھے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور اسے آواز دے کر فرمایا اے نوجوان ! آیت (وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46ۚ) 55۔ الرحمن :46) جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے اس کیلئے دو دو جنتیں ہیں۔ اسی وقت قبر کے اندر سے آواز آئی کہ مجھے میرے رب عزوجل نے وہ دونوں دو دو مرتبے عطا فرما دیئے۔ یہ تو تھا حال اللہ والوں اور پرہیزگاروں کا کہ وہ شیطانی جھٹکوں سے بچ جاتے ہیں اس کے فن فریب سے چھوٹ جاتے ہیں اب ان کا حال بیان ہو رہا ہے جو خود شیطان کے بھائی بنے ہوئے ہیں۔ جیسے فضول خرچ لوگوں کو قرآن نے شیطان کے بھائی قرار دیا ہے ایسے لوگ اس کی باتین سنتے ہیں، مانتے ہیں اور ان پر ہی عمل کرتے ہیں۔ شیاطین ان کے سامنے برائیاں اچھے رنگ میں پیش کرتے ہیں، ان پر وہ آسان ہوجاتی ہیں اور یہ پوری مشغولیت کے ساتھ ان میں پھنس جاتے ہیں۔ دن بدن اپنی بدکاری میں بڑھتے جاتے ہیں، جہالت اور نادانی کی حد کردیتے ہیں۔ نہ شیطان ان کے بہکانے میں کوتاہی برتتے ہیں نہ یہ برائیاں کرنے میں کمی کرتے۔ یہ ان کے دلوں میں وسو سے ڈالتے رہتے ہیں اور وہ ان وسوسوں میں پھنستے رہتے ہیں یہ انہیں بھڑکاتے رہتے ہیں اور گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں وہ برے عمل کئے جاتے ہیں اور برائیوں پر مداومت اور لذت کے ساتھ جمے رہتے ہیں۔

اردو ترجمہ

رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waikhwanuhum yamuddoonahum fee alghayyi thumma la yuqsiroona

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جب تم اِن لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟ ان سے کہو "میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے قبول کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha lam tatihim biayatin qaloo lawla ijtabaytaha qul innama attabiAAu ma yooha ilayya min rabbee hatha basairu min rabbikum wahudan warahmatun liqawmin yuminoona

سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے۔ یہ لوگ کوئی معجزہ مانگتے اور آپ اسے پیش نہ کرتے تو کہتے کہ نبی ہوتا تو ایسا کرلیتا، بنا لیتا، اللہ سے مانگ لیتا، اپنے آپ گھڑ لیتا، آسمان سے گھسیٹ لاتا۔ الغرض معجزہ طلب کرتے اور وہ طلب بھی سرکشی اور عناد کے ساتھ ہوتی۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت (اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ) 26۔ الشعراء :4) اگر ہم چاہتے تو کوئی نشان ان پر آسمان سے اتارتے جس سے ان کی گردنین جھک جاتیں۔ وہ لوگ حضور سے کہتے رہتے تھے کہ جو ہم مانگتے ہیں وہ معجزہ اپنے رب سے طلب کر کے ہمیں ضرور دکھا دیجئے۔ تو حکم دیا کہ ان سے فرما دیجئے کہ میں تو اللہ کی باتیں ماننے والا اور ان پر عمل کرنے والا وحی الٰہی کا تابع ہوں۔ میں اس کی جناب میں کوئی گستاخی نہیں کرسکتا، آگے نہیں بڑھ سکتا، جو حکم دے صرف اسے بجا لاتا ہوں۔ اگر کوئی معجزہ وہ عطا فرمائے دکھا دوں۔ جو وہ ظاہر نہ فرمائے میں اسے لا نہیں سکتا میرے بس میں کچھ نہیں میں اس سے معجزہ طلب نہیں کیا کرتا مجھ میں اتنی جرات نہیں ہاں اگر اس کی اجازت پالیتا ہوں تو اس سے دعا کرتا ہوں وہ حکمتوں والا اور علم والا ہے۔ میرے پاس تو میرے رب کا سب سے بڑا معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو سب سے زیادہ واضح دلیل سب سے زیادہ سچی حجت اور سب سے زیادہ روشن برہان ہے جو حکمت ہدایت اور رحمت سے پر ہے اگر دل میں ایمان ہے تو اس اچھے سچے عمدہ اور اعلیٰ معجزے کے بعد دوسرے معجزے کی طلب باقی ہی نہیں رہتی۔

اردو ترجمہ

جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha quria alquranu faistamiAAoo lahu waansitoo laAAallakum turhamoona

سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھے آیت (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ 26؀) 41۔ فصلت :26) ، اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور غل مچا دو۔ اس کی اور زیادہ تاکید ہوجاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو۔ جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے ہے کہ امام اقتدا کے کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم خاموش رہو۔ اس طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے۔ امام مسلم بن حجاج ؒ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ (یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کیلئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کے لئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں حدیث (من صلی خلف الا مام فلیقرا بفا تحۃ الکتاب) یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ سورة فاتحہ ضرور پڑھ لے۔ پس سورة فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے، واللہ اعلم۔ مترجم) اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کرلیا کرتے تھے تب یہ آیت اتری اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپ سے میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری۔ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ (واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں، نہ بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی۔ امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے حدیث (انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورة) یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورة الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے واللہ اعلم۔ مترجم حضرت زہری ؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ ﷺ قرآن سے کچھ پڑھتے یہ بھی اسے پڑھتا پس یہ آیت اتری۔ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا ؟ ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ ﷺ۔ آپ نے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے ؟ راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول ﷺ سے یہ سنا۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور ابو حاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں (مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند احمد وغیرہ میں ہے جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا حدیث (لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا) یعنی ایسا نہ کیا کرو صرف سورة فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا اسی سے صحابہ رک گئے۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ بلکہ ساتھ ہی فرمادیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں واللہ اعلم۔ مترجم) زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے۔ ہاں البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے خواہ جہری نماز ہو خواہ سری۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورة فاتحہ پڑھنا واجب ہے نہ کچھ اور۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ قول پہلے کا ہے جیسے کہ امام مالک کا مذہب، ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گذر چکا۔ لیکن اس کے بعد کا آپ کا یہ فرمان ہے کہ مقتدی صرف سورة فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے۔ صحابہ تابعین اور ان کے بعد والے گروہ کا یہی فرمان ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے اس لئے کہ حدیث میں ہے امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے۔ اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ یہی حدیث موطاء امام مالک میں موقوفا مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے یعنی یہ قول حضرت جابر ؓ کا ہونا زیادہ صحیح ہے نہ کہ فرمان رسول اللہ ﷺ کا (لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود حضرت جابر ؓ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ حدیث (کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الا مام فی الرکعتین الالیین بفاتحتہ الکتاب و سورة وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب) یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دور کعتوں میں صرف سورة فاتحہ پڑھا کرتے تھے پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے اس سے مراد الحمد کے علاوہ قرأت ہے۔ واللہ اعلم، مترجم) یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی خاص مسئلے پر حضرت امام ابو عبداللہ بخاری ؒ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ مقتدیوں پر سورة فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے واللہ اعلم۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے۔ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ و عظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو ؟ انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہوگئے۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہوگئے۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نماز کے سوا جب کوئی پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بھی بہت سے بزرگوں کا فرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے۔ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے۔ حضرت عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ حسن فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت، سعید بن جبیر فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے۔ ابن جریر کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو۔ مجاہد نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لئے کہا (حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے۔ مترجم) حضرت حسن فرماتے ہیں جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ ﷺ ہے کہ جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لئے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waothkur rabbaka fee nafsika tadarruAAan wakheefatan wadoona aljahri mina alqawli bialghuduwwi waalasali wala takun mina alghafileena

اللہ کی یاد بکثرت کرو مگر خاموشی سے اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کی بکثرت یاد کر۔ یہاں بھی یہ فرمایا اور جگہ بھی ہے آیت (فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب) یعنی اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے۔ یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے غدو کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو اصال جمع ہے اصیل کی۔ جیسے کہ ایمان جمع ہے یمین کی۔ حکم دیا کہ رغبت، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے۔ صحابہ نے جب حضور سے سوال کیا کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کرلیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟ تو اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت اتاری (واذا سألک عبادی عنی الخ) ، جب میرے بندے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں۔ دعا کرنے والے کی دعا کو جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے قبول فرمالیا کرتا ہوں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ لوگوں نے ایک سفر میں باآواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر ترس کھاؤ تم کسی بہرے کو یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکارتے ہو وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے، ہوسکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت (ولا تجھر بصلاتک الخ) ، سے ہے۔ مشرکین قرآن سن کر قرآن کو جبرائل کو، رسول اللہ ﷺ کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند نہ بہت آہستہ۔ یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا۔ امام ابن جریر اور ان سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فرمایا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو۔ لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور یہ کہ مراد اس سے یا تو نماز میں ہے یا نماز اور خطبے میں اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے۔ خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی۔ پس مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہوجائیں۔ (ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں بھی یہی ہے دونوں آیتوں کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے واللہ اعلم) اسی لئے فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ رات دن اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں بالکل تھکتے نہیں۔ پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ ان کا ذکر اس لئے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے، اسی لئے ہمارے لئے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے۔ اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ واجب ہے پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے۔ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کو سجدے کی آیتوں میں سے گنا۔ الحمد اللہ سورة اعراف کی تفسیر ختم ہوئی۔

اردو ترجمہ

جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena AAinda rabbika la yastakbiroona AAan AAibadatihi wayusabbihoonahu walahu yasjudoona
176