اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 199 خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ جیسا کہ مکی سورتوں کے آخر میں اکثر حضور ﷺ سے خطاب اور التفات ہوتا ہے یہاں بھی وہی انداز ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں سے بہت زیادہ بحث مباحثہ میں نہ پڑیں ‘ ان کے رویے سے درگزر کریں اور اپنی دعوت جاری رکھیں۔وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ ۔ یہ جاہل لوگ آپ ﷺ سے الجھنا چاہیں تو آپ ﷺ ان سے کنارہ کشی کرلیں۔ جیسا کہ سورة الفرقان میں فرمایا : وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ اور جب جاہل لوگ ان رحمن کے بندوں سے الجھنا چاہتے ہیں تو وہ ان کو سلام کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ سورة القصص میں بھی اہل ایمان کا یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے : سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے۔ آیت زیرنظر میں ایک داعی کے لیے تین بڑی بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔ عفو درگزر سے کام لینا ‘ نیکی اور بھلائی کی بات کا حکم دیتے رہنا ‘ اور جاہل یعنی جذباتی اور مشتعل مزاج لوگوں سے اعراض کرنا۔
آیت 200 وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِطاِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ نزع اور نزغ ملتے جلتے حروف والے دو مادے ہیں ‘ ان میں صرف ع اور غ کا فرق ہے۔ نزع کھینچنے کے معنی دیتا ہے جبکہ نزغ کے معنی ہیں کچوکا لگانا ‘ اکسانا ‘ وسوسہ اندازی کرنا۔ یعنی اگر بر بنائے طبع بشری کبھی جذبات میں اشتعال اور غصہ آہی جائے تو فوراً بھانپ لیں کہ یہ شیطان کی جانب سے ایک چوک ہے ‘ چناچہ فوراً اللہ کی پناہ مانگیں۔ جیسا کہ غزوۂ احد میں حضور ﷺ کو غصہ آگیا تھا اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ نکل گئے تھے : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ 1 یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا ! یہ آیت آگے چل کرسورۂ حٰم السجدۃ میں ایک لفظ ہُوَ کے اضافے کے ساتھ دوبارہ آئے گی : اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ کہ یقیناً وہی ہے سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا۔
آیت 201 اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓءِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا یعنی جن کے دلوں میں اللہ کا تقویٰ جاگزیں ہوتا ہے وہ ہر گھڑی اپنے فکر و عمل کا احتساب کرتے رہتے ہیں اور اگر کبھی عارضی طور پر غفلت یا شیطانی وسوسوں سے کوئی منفی اثرات دل و دماغ میں ظاہر ہوں تو وہ فوراً سنبھل کر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جیسے خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اِنَّہٗ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ وَاِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِی الْیَوْمِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ 1 میرے دل پر بھی کبھی کبھی حجاب سا آجاتا ہے اور میں روزانہ سو سو مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ ہمارے دل پر حجاب اور شے ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک پر حجاب بالکل اور شے ہے۔ یہ حجاب بھی اس حضوری کے درجے میں ہوگا جو ہماری لاکھوں حضوریوں سے بڑھ کر ہے۔ یہاں صرف بات کی وضاحت کے لیے اس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ جس حجاب کا ذکر حضور ﷺ نے فرمایا ہے ہم نہ تو اس کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی اور نہ ہی اس کی مشابہت ہماری کسی بھی قسم کی قلبی کیفیات کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ ہم نہ تو حضور ﷺ کے تعلق مع اللہ کی کیفیت کا تصور کرسکتے ہیں اور نہ ہی مذکورہ حجاب کی کیفیت کا۔ بس اس تعلق مع اللہ کی شدت intensity میں کبھی ذرا سی بھی کمی آگئی تو حضور ﷺ نے اسے حجاب سے تعبیر فرمایا۔فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ جب وہ چوکنے ہوجاتے ہیں تو ان کی وقتی غفلت دور ہوجاتی ہے ‘ عارضی منفی اثرات کا بوجھ ختم ہوجاتا ہے اور حقائق پھر سے واضح نظر آنے لگتے ہیں۔
آیت 202 وَاِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُوْنَ ۔ شیطان کا جو دوست بنے گا پھر اس پر شیطان کا حکم تو چلے گا۔ شیاطین اپنے بھائی بندوں کو گمراہی میں گھسیٹتے ہوئے دور تک لے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یعنی گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر رہتے ہیں۔ جیسے بلعم بن باعوراء کو شیطان نے اپناشکار بنایا تھا اور اسے گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر دم لیا ‘ لیکن جو اللہ کے مخلص اور متقی بندے ہیں ان پر شیطان کا اختیار نہیں چلتا۔ ان کی کیفیت وہ ہوتی ہے جو اس سے پچھلی آیت میں بیان ہوئی ہے ‘ یعنی جو نہی منفی اثرات کا سایہ ان کو اپنی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہ یکدم چونک کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
آخر میں ان دونوں سورتوں کے مضامین کے عمود کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ دو سورتیں نازل ہوئیں اس وقت کفار مکہ کی طرف سے یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ کیا جارہا تھا کہ کوئی نشانی لاؤ ‘ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ جس طرح کے حسی معجزات حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملے تھے ‘ اسی نوعیت کے معجزات اہل مکہ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے ان کی طرف سے مطالبات آتے رہے ‘ ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ اب اس سلسلے میں آخری بات ہو رہی ہے۔ آیت 203 وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلاَ اجْتَبَیْتَہَا ط کفار مکہ کا کہنا تھا کہ جب آپ ﷺ کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں تو آپ کے لیے معجزہ دکھانا کون سا مشکل کام ہے ؟ آپ ہمارے اطمینان کے لیے کوئی معجزہ چھانٹ کرلے آئیں ! اس سلسلے میں تفسیر کبیر میں امام رازی رح نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا ‘ جو اگرچہ ایمان تو نہیں لایا تھا مگر اکثر آپ ﷺ کے ساتھ رہتا اور آپ ﷺ سے تعاون بھی کرتا تھا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے امید تھی کہ ایک دن وہ ایمان بھی لے آئے گا۔ ایک دفعہ کسی محفل میں سرداران قریش نے معجزات کے بارے میں آپ ﷺ سے بہت بحث و تکرار کی کہ آپ نبی ہیں تو ابھی معجزہ دکھائیں ‘ یہ نہیں تو وہ دکھا دیں ‘ ایسے نہیں تو ویسے کر کے دکھا دیں ! اس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں بھی آئے گی مگر آپ ﷺ نے ان کی ہر بات پر یہی فرمایا کہ معجزہ دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دکھا دے گا۔ اس پر انہوں نے گویا اپنے زعم میں میدان مار لیا اور آپ ﷺ پر آخری حجت قائم کردی۔ اس کے بعدجب حضور ﷺ وہاں سے اٹھے تو وہاں شور مچ گیا۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کس کس انداز میں باتیں نہیں کی ہوں گی اور اس کے عوام پر کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے اس پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ آج تو گویا آپ کی قوم نے آپ پر حجت قائم کردی ہے ‘ اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع اس ماحول میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا اور اس طرح کی صورت حال میں آپ ﷺ کس قدر دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا کچھ نقشہ سورة الانعام آیت 35 میں اس طرح کھینچا گیا ہے : وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ پر بہت شاق گزر رہا ہے ان کا اعراض تو اگر آپ میں طاقت ہے تو زمین میں کوئی سرنگ بنا لیجیے یا آسمان پر سیڑھی لگا لیجیے اور ان کے لیے کہیں سے کوئی نشانی لے آیئے ! ہم تو نہیں دکھائیں گے ! ۔ یہ پس منظر ہے ان حالات کا جس میں فرمایا جا رہا ہے کہ معجزات کے مطالبات میں آپ ﷺ ان کو بتائیں کہ معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ‘ مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ج ہٰذَا بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ میں آپ لوگوں کے سامنے جو پیش کر رہا ہوں ‘ یہ وہی کچھ ہے جو اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے اور میں خود بھی اسی کی پیروی کر رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں۔
آیت 204 وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ سَمِعَ ‘ یَسْمَعُ کے معنی ہیں سننا ‘ جبکہ اِسْتِمَاع کے معنی ہیں پوری توجہ کے ساتھ سننا ‘ کان لگا کر سننا۔ جو حضرات جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے قائل ہیں وہ اسی آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ‘ کیونکہ اس آیت کی رو سے تلاوت قرآن کو پوری طرح ارتکاز توجہ کے ساتھ سننا فرض ہے اور ساتھ ہی خاموش رہنے کا حکم بھی ہے۔ جبکہ نماز کے دوران خود تلاوت کرنے کی صورت میں سننے کی طرف توجہ نہیں رہے گی اور خاموش رہنے کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوگا۔
آیت 205 وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً اس عاجزی کی انتہا اور عبدیت کاملہ کا مظہر تو وہ دعائے ماثور ہے جو میں نے نقل کی ہے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق نامی اپنے کتابچے کے آخر میں۔ ان دونوں آیات قرآن کی عظمت اور دعا میں عاجزی کے حوالے سے اس دعا کے مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں اتارنے کی کوشش کریں :اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں ! وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ تیرے ایک ناچیز غلام اور ادنیٰ کنیز کا بیٹا ہوں ! وَفِیْ قَبْضَتِکَ ‘ نَا صِیَتِیْ بِیَدِکَ اور مجھ پر تیرا ہی کامل اختیار ہے ‘ میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ ہے۔ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ ‘ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ نافذ ہے میرے بارے میں تیرا ہر حکم ‘ اور عدل ہے میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ۔ اَسْءَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ ‘ سَمَّیْتَ بہٖ نَفْسَکَ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تیرے ہر اس اسم کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی ذات مقدس کو موسوم فرمایا اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ یا اپنی کسی کتاب میں نازل فرمایا اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدً ا مِنْ خَلْقِکَ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تلقین فرمایا اَوِاسْتَأثَرْتَِ بہٖ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ یا اسے اپنے مخصوص خزانہ غیب ہی میں محفوظ رکھا اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَ نُوْرَ صَدْرِیْ وَجِلَا ءَ حُزْنِیْ وَ ذَھَابَ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ 1 کہ تو بنا دے قرآن مجید کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے رنج و حزن کی جلا اور میرے تفکرات اور غموں کے ازالے کا سبب ! آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ! ایسا ہی ہو اے تمام جہانوں کے پروردگار ! وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ البتہ جب آدمی دعا مانگے تو اس طرح مانگے کہ خود سن سکے تاکہ اس کی سماعت بھی اس سے استفادہ کرے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو قراءت ایسے کرے کہ خود سن سکے ‘ اگرچہ سری نماز ہی کیوں نہ ہو۔بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ اور اس طرح آپ اپنے رب کا ذکر کرتے رہیں صبح کے وقت بھی اور شام کے اوقات میں بھی جیسے سورة الانعام کی پہلی آیت کی تشریح کے ضمن میں ذکر آیا تھا کہ لفظ نور قرآن میں ہمیشہ واحد آتا ہے جبکہ ظُلُمات ہمیشہ جمع ہی آتا ہے ‘ اسی طرح لفظ غُدُوّ صبح بھی ہمیشہ واحد اور آصال شام ہمیشہ جمع ہی آتا ہے۔ یہ اَصِیل کی جمع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ صبح کی نماز تو ایک ہی ہے یعنی فجر ‘ جبکہ سورج ذرا مغرب کی طرف ڈھلناشروع ہوتا ہے تو پے در پے نمازیں ہیں ‘ جو رات تک پڑھی جاتی رہتی ہیں یعنی ظہر ‘ عصر ‘ مغرب اور عشاء۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 78 اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔
آیت 206 اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یعنی ملأ اعلیٰ جو ملائکہ مقربین پر مشتمل ہے ‘ جس کا نقشہ امیر خسرو رح ؔ نے اپنے اس خوبصورت شعر میں اس طرح بیان کیا ہے :خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ محمد ﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم !یعنی لامکاں کی وہ محفل جس کا میر محفل خود اللہ تعالیٰ ہے اور جہاں شرکائے محفل ملائکہ مقربین ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ روح محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس محفل میں گویا چراغ اور شمع کی حیثیت حاصل ہے۔ امیر خسرو کہتے ہیں کہ رات مجھے بھی اس محفل میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم۔ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔