سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 176 (آیات 196 سے 206 تک)

إِنَّ وَلِۦِّىَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْكِتَٰبَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى ٱلصَّٰلِحِينَ وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى ٱلْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا۟ ۖ وَتَرَىٰهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ خُذِ ٱلْعَفْوَ وَأْمُرْ بِٱلْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْجَٰهِلِينَ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّيْطَٰنِ نَزْغٌ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِ ۚ إِنَّهُۥ سَمِيعٌ عَلِيمٌ إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ إِذَا مَسَّهُمْ طَٰٓئِفٌ مِّنَ ٱلشَّيْطَٰنِ تَذَكَّرُوا۟ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ وَإِخْوَٰنُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِى ٱلْغَىِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِـَٔايَةٍ قَالُوا۟ لَوْلَا ٱجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّبِّى ۚ هَٰذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ ٱلْقُرْءَانُ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥ وَأَنصِتُوا۟ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ وَٱذْكُر رَّبَّكَ فِى نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ ٱلْجَهْرِ مِنَ ٱلْقَوْلِ بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْءَاصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْغَٰفِلِينَ إِنَّ ٱلَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَيُسَبِّحُونَهُۥ وَلَهُۥ يَسْجُدُونَ ۩
176

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna waliyyiya Allahu allathee nazzala alkitaba wahuwa yatawalla alssaliheena

اردو ترجمہ

بخلاف اِس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena tadAAoona min doonihi la yastateeAAoona nasrakum wala anfusahum yansuroona

اردو ترجمہ

بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain tadAAoohum ila alhuda la yasmaAAoo watarahum yanthuroona ilayka wahum la yubsiroona

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khuthi alAAafwa wamur bialAAurfi waaAArid AAani aljahileena

آیت 199 خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ جیسا کہ مکی سورتوں کے آخر میں اکثر حضور ﷺ سے خطاب اور التفات ہوتا ہے یہاں بھی وہی انداز ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں سے بہت زیادہ بحث مباحثہ میں نہ پڑیں ‘ ان کے رویے سے درگزر کریں اور اپنی دعوت جاری رکھیں۔وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ ۔ یہ جاہل لوگ آپ ﷺ سے الجھنا چاہیں تو آپ ﷺ ان سے کنارہ کشی کرلیں۔ جیسا کہ سورة الفرقان میں فرمایا : وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ اور جب جاہل لوگ ان رحمن کے بندوں سے الجھنا چاہتے ہیں تو وہ ان کو سلام کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ سورة القصص میں بھی اہل ایمان کا یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے : سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے۔ آیت زیرنظر میں ایک داعی کے لیے تین بڑی بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔ عفو درگزر سے کام لینا ‘ نیکی اور بھلائی کی بات کا حکم دیتے رہنا ‘ اور جاہل یعنی جذباتی اور مشتعل مزاج لوگوں سے اعراض کرنا۔

اردو ترجمہ

اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waimma yanzaghannaka mina alshshaytani nazghun faistaAAith biAllahi innahu sameeAAun AAaleemun

آیت 200 وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِطاِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ نزع اور نزغ ملتے جلتے حروف والے دو مادے ہیں ‘ ان میں صرف ع اور غ کا فرق ہے۔ نزع کھینچنے کے معنی دیتا ہے جبکہ نزغ کے معنی ہیں کچوکا لگانا ‘ اکسانا ‘ وسوسہ اندازی کرنا۔ یعنی اگر بر بنائے طبع بشری کبھی جذبات میں اشتعال اور غصہ آہی جائے تو فوراً بھانپ لیں کہ یہ شیطان کی جانب سے ایک چوک ہے ‘ چناچہ فوراً اللہ کی پناہ مانگیں۔ جیسا کہ غزوۂ احد میں حضور ﷺ کو غصہ آگیا تھا اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ نکل گئے تھے : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ 1 یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا ! یہ آیت آگے چل کرسورۂ حٰم السجدۃ میں ایک لفظ ہُوَ کے اضافے کے ساتھ دوبارہ آئے گی : اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ کہ یقیناً وہی ہے سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا۔

اردو ترجمہ

حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena ittaqaw itha massahum taifun mina alshshaytani tathakkaroo faitha hum mubsiroona

آیت 201 اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓءِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا یعنی جن کے دلوں میں اللہ کا تقویٰ جاگزیں ہوتا ہے وہ ہر گھڑی اپنے فکر و عمل کا احتساب کرتے رہتے ہیں اور اگر کبھی عارضی طور پر غفلت یا شیطانی وسوسوں سے کوئی منفی اثرات دل و دماغ میں ظاہر ہوں تو وہ فوراً سنبھل کر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جیسے خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اِنَّہٗ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ وَاِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِی الْیَوْمِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ 1 میرے دل پر بھی کبھی کبھی حجاب سا آجاتا ہے اور میں روزانہ سو سو مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ ہمارے دل پر حجاب اور شے ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک پر حجاب بالکل اور شے ہے۔ یہ حجاب بھی اس حضوری کے درجے میں ہوگا جو ہماری لاکھوں حضوریوں سے بڑھ کر ہے۔ یہاں صرف بات کی وضاحت کے لیے اس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ جس حجاب کا ذکر حضور ﷺ نے فرمایا ہے ہم نہ تو اس کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی اور نہ ہی اس کی مشابہت ہماری کسی بھی قسم کی قلبی کیفیات کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ ہم نہ تو حضور ﷺ کے تعلق مع اللہ کی کیفیت کا تصور کرسکتے ہیں اور نہ ہی مذکورہ حجاب کی کیفیت کا۔ بس اس تعلق مع اللہ کی شدت intensity میں کبھی ذرا سی بھی کمی آگئی تو حضور ﷺ نے اسے حجاب سے تعبیر فرمایا۔فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ جب وہ چوکنے ہوجاتے ہیں تو ان کی وقتی غفلت دور ہوجاتی ہے ‘ عارضی منفی اثرات کا بوجھ ختم ہوجاتا ہے اور حقائق پھر سے واضح نظر آنے لگتے ہیں۔

اردو ترجمہ

رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waikhwanuhum yamuddoonahum fee alghayyi thumma la yuqsiroona

آیت 202 وَاِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُوْنَ ۔ شیطان کا جو دوست بنے گا پھر اس پر شیطان کا حکم تو چلے گا۔ شیاطین اپنے بھائی بندوں کو گمراہی میں گھسیٹتے ہوئے دور تک لے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یعنی گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر رہتے ہیں۔ جیسے بلعم بن باعوراء کو شیطان نے اپناشکار بنایا تھا اور اسے گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر دم لیا ‘ لیکن جو اللہ کے مخلص اور متقی بندے ہیں ان پر شیطان کا اختیار نہیں چلتا۔ ان کی کیفیت وہ ہوتی ہے جو اس سے پچھلی آیت میں بیان ہوئی ہے ‘ یعنی جو نہی منفی اثرات کا سایہ ان کو اپنی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہ یکدم چونک کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جب تم اِن لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟ ان سے کہو "میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے قبول کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha lam tatihim biayatin qaloo lawla ijtabaytaha qul innama attabiAAu ma yooha ilayya min rabbee hatha basairu min rabbikum wahudan warahmatun liqawmin yuminoona

آخر میں ان دونوں سورتوں کے مضامین کے عمود کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ دو سورتیں نازل ہوئیں اس وقت کفار مکہ کی طرف سے یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ کیا جارہا تھا کہ کوئی نشانی لاؤ ‘ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ جس طرح کے حسی معجزات حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملے تھے ‘ اسی نوعیت کے معجزات اہل مکہ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے ان کی طرف سے مطالبات آتے رہے ‘ ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ اب اس سلسلے میں آخری بات ہو رہی ہے۔ آیت 203 وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلاَ اجْتَبَیْتَہَا ط کفار مکہ کا کہنا تھا کہ جب آپ ﷺ کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں تو آپ کے لیے معجزہ دکھانا کون سا مشکل کام ہے ؟ آپ ہمارے اطمینان کے لیے کوئی معجزہ چھانٹ کرلے آئیں ! اس سلسلے میں تفسیر کبیر میں امام رازی رح نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا ‘ جو اگرچہ ایمان تو نہیں لایا تھا مگر اکثر آپ ﷺ کے ساتھ رہتا اور آپ ﷺ سے تعاون بھی کرتا تھا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے امید تھی کہ ایک دن وہ ایمان بھی لے آئے گا۔ ایک دفعہ کسی محفل میں سرداران قریش نے معجزات کے بارے میں آپ ﷺ سے بہت بحث و تکرار کی کہ آپ نبی ہیں تو ابھی معجزہ دکھائیں ‘ یہ نہیں تو وہ دکھا دیں ‘ ایسے نہیں تو ویسے کر کے دکھا دیں ! اس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں بھی آئے گی مگر آپ ﷺ نے ان کی ہر بات پر یہی فرمایا کہ معجزہ دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دکھا دے گا۔ اس پر انہوں نے گویا اپنے زعم میں میدان مار لیا اور آپ ﷺ پر آخری حجت قائم کردی۔ اس کے بعدجب حضور ﷺ وہاں سے اٹھے تو وہاں شور مچ گیا۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کس کس انداز میں باتیں نہیں کی ہوں گی اور اس کے عوام پر کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے اس پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ آج تو گویا آپ کی قوم نے آپ پر حجت قائم کردی ہے ‘ اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع اس ماحول میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا اور اس طرح کی صورت حال میں آپ ﷺ کس قدر دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا کچھ نقشہ سورة الانعام آیت 35 میں اس طرح کھینچا گیا ہے : وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ پر بہت شاق گزر رہا ہے ان کا اعراض تو اگر آپ میں طاقت ہے تو زمین میں کوئی سرنگ بنا لیجیے یا آسمان پر سیڑھی لگا لیجیے اور ان کے لیے کہیں سے کوئی نشانی لے آیئے ! ہم تو نہیں دکھائیں گے ! ۔ یہ پس منظر ہے ان حالات کا جس میں فرمایا جا رہا ہے کہ معجزات کے مطالبات میں آپ ﷺ ان کو بتائیں کہ معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ‘ مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ج ہٰذَا بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ میں آپ لوگوں کے سامنے جو پیش کر رہا ہوں ‘ یہ وہی کچھ ہے جو اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے اور میں خود بھی اسی کی پیروی کر رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں۔

اردو ترجمہ

جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha quria alquranu faistamiAAoo lahu waansitoo laAAallakum turhamoona

آیت 204 وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ سَمِعَ ‘ یَسْمَعُ کے معنی ہیں سننا ‘ جبکہ اِسْتِمَاع کے معنی ہیں پوری توجہ کے ساتھ سننا ‘ کان لگا کر سننا۔ جو حضرات جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے قائل ہیں وہ اسی آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ‘ کیونکہ اس آیت کی رو سے تلاوت قرآن کو پوری طرح ارتکاز توجہ کے ساتھ سننا فرض ہے اور ساتھ ہی خاموش رہنے کا حکم بھی ہے۔ جبکہ نماز کے دوران خود تلاوت کرنے کی صورت میں سننے کی طرف توجہ نہیں رہے گی اور خاموش رہنے کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوگا۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waothkur rabbaka fee nafsika tadarruAAan wakheefatan wadoona aljahri mina alqawli bialghuduwwi waalasali wala takun mina alghafileena

آیت 205 وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً اس عاجزی کی انتہا اور عبدیت کاملہ کا مظہر تو وہ دعائے ماثور ہے جو میں نے نقل کی ہے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق نامی اپنے کتابچے کے آخر میں۔ ان دونوں آیات قرآن کی عظمت اور دعا میں عاجزی کے حوالے سے اس دعا کے مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں اتارنے کی کوشش کریں :اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں ! وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ تیرے ایک ناچیز غلام اور ادنیٰ کنیز کا بیٹا ہوں ! وَفِیْ قَبْضَتِکَ ‘ نَا صِیَتِیْ بِیَدِکَ اور مجھ پر تیرا ہی کامل اختیار ہے ‘ میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ ہے۔ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ ‘ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ نافذ ہے میرے بارے میں تیرا ہر حکم ‘ اور عدل ہے میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ۔ اَسْءَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ ‘ سَمَّیْتَ بہٖ نَفْسَکَ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تیرے ہر اس اسم کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی ذات مقدس کو موسوم فرمایا اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ یا اپنی کسی کتاب میں نازل فرمایا اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدً ا مِنْ خَلْقِکَ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تلقین فرمایا اَوِاسْتَأثَرْتَِ بہٖ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ یا اسے اپنے مخصوص خزانہ غیب ہی میں محفوظ رکھا اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَ نُوْرَ صَدْرِیْ وَجِلَا ءَ حُزْنِیْ وَ ذَھَابَ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ 1 کہ تو بنا دے قرآن مجید کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے رنج و حزن کی جلا اور میرے تفکرات اور غموں کے ازالے کا سبب ! آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ! ایسا ہی ہو اے تمام جہانوں کے پروردگار ! وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ البتہ جب آدمی دعا مانگے تو اس طرح مانگے کہ خود سن سکے تاکہ اس کی سماعت بھی اس سے استفادہ کرے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو قراءت ایسے کرے کہ خود سن سکے ‘ اگرچہ سری نماز ہی کیوں نہ ہو۔بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ اور اس طرح آپ اپنے رب کا ذکر کرتے رہیں صبح کے وقت بھی اور شام کے اوقات میں بھی جیسے سورة الانعام کی پہلی آیت کی تشریح کے ضمن میں ذکر آیا تھا کہ لفظ نور قرآن میں ہمیشہ واحد آتا ہے جبکہ ظُلُمات ہمیشہ جمع ہی آتا ہے ‘ اسی طرح لفظ غُدُوّ صبح بھی ہمیشہ واحد اور آصال شام ہمیشہ جمع ہی آتا ہے۔ یہ اَصِیل کی جمع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ صبح کی نماز تو ایک ہی ہے یعنی فجر ‘ جبکہ سورج ذرا مغرب کی طرف ڈھلناشروع ہوتا ہے تو پے در پے نمازیں ہیں ‘ جو رات تک پڑھی جاتی رہتی ہیں یعنی ظہر ‘ عصر ‘ مغرب اور عشاء۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 78 اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔

اردو ترجمہ

جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena AAinda rabbika la yastakbiroona AAan AAibadatihi wayusabbihoonahu walahu yasjudoona

آیت 206 اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یعنی ملأ اعلیٰ جو ملائکہ مقربین پر مشتمل ہے ‘ جس کا نقشہ امیر خسرو رح ؔ نے اپنے اس خوبصورت شعر میں اس طرح بیان کیا ہے :خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ محمد ﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم !یعنی لامکاں کی وہ محفل جس کا میر محفل خود اللہ تعالیٰ ہے اور جہاں شرکائے محفل ملائکہ مقربین ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ روح محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس محفل میں گویا چراغ اور شمع کی حیثیت حاصل ہے۔ امیر خسرو کہتے ہیں کہ رات مجھے بھی اس محفل میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم۔ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔

176