سورہ اعراف: آیت 204 - وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له... - اردو

آیت 204 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَإِذَا قُرِئَ ٱلْقُرْءَانُ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥ وَأَنصِتُوا۟ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

اردو ترجمہ

جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha quria alquranu faistamiAAoo lahu waansitoo laAAallakum turhamoona

آیت 204 کی تفسیر

اس آیت پر یہ سورة ختم ہوجاتی ہے اور سورة کا آغاز اس طرح ہوا تھا کہ اسی کتاب والا صفات کی طرف اشارہ تھا۔ کتاب انزل الیک فلا یکن فی صدرک حرف منہ لتنذر بہ و ذکری للمومنین۔ یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ، پس اے نبی ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ، اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے سے ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو نصیحت ہو "۔

۔۔

جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو اس وقت خاموش رہنے کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ قرآن مجید ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے کہ امام جہراً قراءت کرتا ہے تو مقتدی پر فرض ہے کہ وہ خاموش رہے۔ جب وہ جہری نماز میں امام کو سن رہا ہو تو اس کے لیے پڑھنا منع ہے۔ لا ینازع الامام القرآن ، امام کے ساتھ قرآن میں تنازعہ نہ ہو۔ یہ روایت امام احمد اور اہل سنن نے نقل کی ہے۔ اور امام ترمذی نے اسے حدیث حسن کہا ہے اور ابو حاتم الرازی نے اسے حدیث صحیح کہا ہے۔ انہوں نے زہری ، ابو اکشمہ لیثی کے واسطہ سے ابوہریرہ سے نقل کیا کہ حضور جب ایک جہری نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کرکے سوال کیا کہ ابھی میرے پیچھے تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ؟ ایک شخص نے کہا " ہاں " رسول خدا میں نے پڑھا۔ حضور نے فرمایا " میں کہتا ہوں کہ مجھے کیا ہوا کہ میں قرآن کے ساتھ تنازعہ کر رہا ہوں " اس کے بعد لوگ حضور کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت کرنے سے باز آگئے۔ کیونکہ انہوں نے حضور کی یہ ہدایت سن لی۔ اسی طرح ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں ابوداود ابن ابو الہند ، بشیر ابن جابر کی روایت سے حضرت ابن مسعود کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے سنا کہ بعض لوگ امام کے ساتھ پڑھتے ہیں ، تو جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : " کیا اب وقت نہیں آگیا کہ تم سمجھو ، کیا وقت نہیں آگیا کہ تم عقل سے کام لو ، اللہ کا حکم مانو ، اللہ فرماتے ہیں۔ " جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو "۔

بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں در اصل مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مشرکین کی طرح رویہ نہ اختیار کریں کہ حضور ﷺ جب نماز میں قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو مشرکین آکر سنتے۔ اس لیے ان میں سے بعض لوگوں نے دوسروں سے کہا تم لوگ قرآن نہ سنو بلکہ جب تلاوت ہو رہی ہو تو اس میں خلل ڈالو شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ۔ لا تسمعوا لہذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون۔ " اس قرآن کی طرف کان نہ دھرو ، بلکہ اس میں شور مچاؤ شاید کہ تم غلبہ پا لو " اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ " واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا " جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔ امام قرطبی کہتے ہیں کہ نماز کے بارے میں ہوئی۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ، ابن مسعود ، جابر ، زہری ، عبیداللہ ابن عمیر ، عطاء اور سعید بن مسیب سے اس سلسلے میں روایات نقل کی ہیں۔

علامہ ابن جریر نے اس کی بھی شان نزول نقل کی ہے۔ اس نے ابوکریب ، ابوبکر بن عیاش عاصم ، مسیب ابن رافع کے سلسلے کے ذریعے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے۔ ہم میں سے بعض لوگ ایک دوسرے کو نماز میں سلام کرتے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی واذا قرئ القران فاستعموا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔ جب قرآن مجید پڑھا جا رہا ہو ، غور سے سنو اور خاموش ہوجاؤ۔ شاید کہ تم پر حم کیا جائے۔

اس کی تفسیر میں امام قرطبی کہتے ہیں کہ محمد ابن کعب قرظی نے یہ کیا ہے کہ جب حضور قرآن مجید پڑھتے تھے تو لوگ اسے دہراتے تھے جب آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تو لوگ بھی اسی طرح کہتے۔ پوری فاتحہ اور سورت کی تلاوت میں لوگ ایسا ہی کرتے۔ ایک عرصہ تک یہی معمول رہا۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ جب قران تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ جہراً نہ پڑھا جائے جس طرح کہ وہ لوگ رسول اللہ کی اطاعت میں پڑھتے تھے۔

یہ تو تھی امام قرطبی کی رائے۔ اس آیت کے بارے میں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ جب نماز ہو رہی ہوتی تھی تو ایک شخص آتا اور نمازیوں سے پوچھتا تم نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں اور کتنی باقی ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ ایسی ہی روایت مجاہد سے منقول ہے کہ مسلمان نماز میں حسب ضرورت بات کرلیا کرتے تھے ، اس لیے یہ آیت اتری لعلکم ترحمون۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکم صرف اس تلاوت پر موقوف ہے ، جو نماز میں ہوتی ہے تو ان کا استدلال ابن جریر کی روایت سے ہے۔ انہوں نے حمید ابن مسعدہ ، بشر ابن جریری ، طلحہ ابن عبیداللہ بن عمیر سے روایت کی ہے۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن عمیر اور عطا بن ابی رباح کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مباحثہ کر رہے تھے اور قاری قراءت کے ساتھ تلاوت کر رہا تھا۔ کیا تم کان نہیں دھرتے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے ، اس کے مستحق نہیں بنتے یعنی لعلکم ترحمون کے۔ اس پر انہوں نے میری طرف دیکھا اور پھر اپنی بات میں مشغول ہوگئے۔ کہتے ہیں ، میں نے دوبارہ اپنی بات کا اعادہ کیا ، انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر اپنی بات میں مشغول ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے تیسرے باری اپنی بات کا اعادہ کیا ، انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر اپنی بات میں مشغول ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے تیسری بار اپنی بات کا اعادہ کیا تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا " یہ تو نماز کے بارے میں ہے " وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ " علامہ ابن کثیر اس روایت کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ سفیان ثوری ابوہاشم اسماعیل ابن کثیر نے ، انہوں نے مجاہد سے یہی روایت کی ہے کہ آیت وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ ۔ نماز کے بارے میں ہے۔ کئی لوگوں نے مجاہد سے یہی روایت نقل کی ہے۔ عبدالرزاق نے ثوری سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر نماز کے علاوہ قراءت ہو رہی ہو اور کوئی بات کر رہا ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بعض علماء کہتے ہیں کہ جس طرح نماز میں یہ حکم ہے اسی طرح خطبہ جمعہ اور عیدین میں بھی یہی حکم ہے۔ یہ سعید ابن ابوجیر ، مجاہد عطاء ، عمرو ابن دینار ، یزید ابن اسلم ، قاسم ابن مخیرہ ، سلمہ ابن بسار ، شہر بن حوشب اور عبداللہ ابن مبارک بھی اسی طرف گئے ہیں لیکن قرطبی کہتے ہیں " یہ مذہب ضعیف ہے۔ اس لیے کہ خطبات میں قرآن مجید کا حصہ کم ہوتا ہے۔ اور خاموشی سب میں واجب ہے۔ علامہ ابن عربی اور نقاش نے کہا ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور مکہ میں نہ کوئی خطبہ تھا اور نہ جمعہ واجب تھا۔

امام قرطبی کہتے ہیں کہ اہل تفسیر کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن کو کان لگا کر سننا اور خاموش رہنا جس طرح فرض نماز میں ہے ، اسی طرح غیر فرض میں بھی ہے۔ لغوی مفہوم کے اعتبار سے ہر معاملے میں قرآن کو سننا اور خاموش رہنا فرض ہے ، الا یہ کہ کوئی مخصوص دلیل ہو۔

اسباب نزول کے بارے میں اس سے قبل جو روایات دی گئی ہیں۔ ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو یہ بتاتی ہو کہ یہ آیت صرف نماز کے ساتھ مخصوص ہے یا فرض اور غیر فرض نماز میں فرق ہے۔ کیونکہ حکم تو آیت کے الفاظ کی عمومیت پر ہوتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آیت کس خصوصی موقعہ پر نازل ہوئی۔ اقرب بات یہ ہے کہ یہ آیت عام تصور ہو ، اور اس کے لیے کس نص کو مخصوص نہ سمجھا جائے ، قرآن کی عظمت اور احترام کے قرین قیاس اور قرین مرتبہ یہ ہے کہ جہاں بھی تلاوت قرآن ہو ، خاموشی اختیار کی جائے اور چونکہ اللہ کا کلام ہے ، اس لیے اللہ کا ادب بھی اسی میں ہے۔ جب خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قرآن مجید پڑھا جا رہا ہوں تو خاموشی اختیار کرو اور سنو اور اسی میں تمہارے لیے رحمت کی امید ہے۔ لہذا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ اس عمل کو نماز کے ساتھ مخصوص کردیا جائے بلکہ جہاں بھی قرآن پڑھا جائے وہاں اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے۔ نفس انسان کو ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور یہ ادب اور احترام اسبات کا ضامن ہے کہ انسان پر دنیا و آخرت میں رحم ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم سے اعراض اور روگردانی کرکے لوگ عظیم خسارے میں جا پڑے ہیں۔ بعض اوقات انسان ایک آیت کو غور سے سنتا ہے اور اس کے نتیجے میں عجیب و غریب تاثرات اس کے دل و دماغ پر نقژ ہوجاتے ہیں اور اس پر عمل و ادراک کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ انسان کو اطمینان قلبی ، خوشی اور روحانی کیفیات نصیب ہوتی ہیں اور اس کی سوچ اور عمل میں بڑی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ تاثرات اور یہ خصوصیت صرف اس شخص کی سمجھ میں آسکتی ہیں ، جس نے انہیں کبھی چکھا ہو۔

قرآن کریم کا مسلسل مطالعہ ، اس پر غور و فکر اور تدبر ، صرف ترنم کے ساتھ قراءت ہی نہیں ، بلکہ یہ انسان کے قلب و نظر پر گہرا غور و فکر اور تدبر پیدا کردیتا ہے۔ اور انسان کو نہایت ہی دور رس قوت مدرکہ عطا ہوجاتی اور اس پر نہایت ہی یقینی علوم کا القا ہوتے ہیں۔ ان سان کے اندر زندگی کی حرارت اور اقدامی قوت پیدا ہوجاتی ہے ، وہ پر عزم ، مثبت سوچ اور مصمم ارادے کا مالک بن جاتا ہے۔ یہ علوم انسان کو تدبر قرآن کے علاوہ کسی اور مشق یا اور ذریعہ علم سے حاصل نہیں ہوتے۔

قرآنی تصورات کے بیچ میں سے انسان اس کائنات کے حقائق معلوم کرلیتا ہے۔ انسان زندگی کے بارے میں نئے نئے حقائق کا ادراک و انکشاف ہوتا ہے۔ انسان کو انسانی زندگی کے حقائق ، انسانی ضروریات ، انسان کے مزاج اور اس کی فطرت و طبیعت کا نہایت ہی واضح گہرا اور دقیق و عمیق شعور حاصل ہوجاتا ہے اور یہ شعور خالص قرآنی عبادات اور احکام کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اس کائنات اور انسانی زندگی کے ساتھ وہ انسان جس نے قرآن کا مطالعہ کیا ہو نہایت ہی مختلف روح کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور اب انسان کا طرق عمل اس کائنات اور انسان کے ساتھ وہ نہیں ہوتا جو اس انسان کا ہوتا ہے جس کی تربیت محض انسانی علم و معرفت کی فضا میں ہوئی ہو۔

یہ فضا اللہ کی رحمت کی امیدواری کی فضا ہے اور یہ نماز اور غیر نماز میں برابر ہے۔ لہذا اللہ کی رحمت کی فضا کو ہم نماز کے ساتھ کسی وجہ سے بھی مخصوص نہیں کرسکتے اور وہی رائے درست ہے جو قرطبی نے نقل کی ہے۔

آیت 204 وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ سَمِعَ ‘ یَسْمَعُ کے معنی ہیں سننا ‘ جبکہ اِسْتِمَاع کے معنی ہیں پوری توجہ کے ساتھ سننا ‘ کان لگا کر سننا۔ جو حضرات جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے قائل ہیں وہ اسی آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ‘ کیونکہ اس آیت کی رو سے تلاوت قرآن کو پوری طرح ارتکاز توجہ کے ساتھ سننا فرض ہے اور ساتھ ہی خاموش رہنے کا حکم بھی ہے۔ جبکہ نماز کے دوران خود تلاوت کرنے کی صورت میں سننے کی طرف توجہ نہیں رہے گی اور خاموش رہنے کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوگا۔

سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھے آیت (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ 26؀) 41۔ فصلت :26) ، اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور غل مچا دو۔ اس کی اور زیادہ تاکید ہوجاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو۔ جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے ہے کہ امام اقتدا کے کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم خاموش رہو۔ اس طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے۔ امام مسلم بن حجاج ؒ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ (یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کیلئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کے لئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں حدیث (من صلی خلف الا مام فلیقرا بفا تحۃ الکتاب) یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ سورة فاتحہ ضرور پڑھ لے۔ پس سورة فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے، واللہ اعلم۔ مترجم) اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کرلیا کرتے تھے تب یہ آیت اتری اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپ سے میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری۔ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ (واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں، نہ بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی۔ امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے حدیث (انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورة) یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورة الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے واللہ اعلم۔ مترجم حضرت زہری ؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ ﷺ قرآن سے کچھ پڑھتے یہ بھی اسے پڑھتا پس یہ آیت اتری۔ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا ؟ ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ ﷺ۔ آپ نے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے ؟ راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول ﷺ سے یہ سنا۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور ابو حاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں (مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند احمد وغیرہ میں ہے جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا حدیث (لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا) یعنی ایسا نہ کیا کرو صرف سورة فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا اسی سے صحابہ رک گئے۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ بلکہ ساتھ ہی فرمادیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں واللہ اعلم۔ مترجم) زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے۔ ہاں البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے خواہ جہری نماز ہو خواہ سری۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورة فاتحہ پڑھنا واجب ہے نہ کچھ اور۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ قول پہلے کا ہے جیسے کہ امام مالک کا مذہب، ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گذر چکا۔ لیکن اس کے بعد کا آپ کا یہ فرمان ہے کہ مقتدی صرف سورة فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے۔ صحابہ تابعین اور ان کے بعد والے گروہ کا یہی فرمان ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے اس لئے کہ حدیث میں ہے امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے۔ اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ یہی حدیث موطاء امام مالک میں موقوفا مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے یعنی یہ قول حضرت جابر ؓ کا ہونا زیادہ صحیح ہے نہ کہ فرمان رسول اللہ ﷺ کا (لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود حضرت جابر ؓ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ حدیث (کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الا مام فی الرکعتین الالیین بفاتحتہ الکتاب و سورة وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب) یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دور کعتوں میں صرف سورة فاتحہ پڑھا کرتے تھے پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے اس سے مراد الحمد کے علاوہ قرأت ہے۔ واللہ اعلم، مترجم) یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی خاص مسئلے پر حضرت امام ابو عبداللہ بخاری ؒ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ مقتدیوں پر سورة فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے واللہ اعلم۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے۔ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ و عظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو ؟ انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہوگئے۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہوگئے۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نماز کے سوا جب کوئی پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بھی بہت سے بزرگوں کا فرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے۔ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے۔ حضرت عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ حسن فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت، سعید بن جبیر فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے۔ ابن جریر کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو۔ مجاہد نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لئے کہا (حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے۔ مترجم) حضرت حسن فرماتے ہیں جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ ﷺ ہے کہ جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لئے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا۔

آیت 204 - سورہ اعراف: (وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون...) - اردو