سورہ اعراف: آیت 203 - وإذا لم تأتهم بآية قالوا... - اردو

آیت 203 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِـَٔايَةٍ قَالُوا۟ لَوْلَا ٱجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّبِّى ۚ هَٰذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جب تم اِن لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟ ان سے کہو "میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے قبول کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha lam tatihim biayatin qaloo lawla ijtabaytaha qul innama attabiAAu ma yooha ilayya min rabbee hatha basairu min rabbikum wahudan warahmatun liqawmin yuminoona

آیت 203 کی تفسیر

مشرکین مکہ حضور ﷺ سے معجزات کا مطالبہ ہر وقت کرتے رہتے تھے۔ یہاں ان کے بعض اقوال کو نقل کرکے دکھایا جاتا ہے کہ وہ کس قدر جاہل تھے اور رسالت کی حقیقت سے کس قدر بیخبر تھے۔

وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا۔ اے نبی جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانیوں کیوں نہ انتخاب کرلی۔ یعنی تم نے اصرار رب العالمین کے سامنے کیوں نہ کیا کہ مجھے یہ نشانی اور معجزہ دیا جائے یا یہ مطلب تھا کہ تم نے از خود معجزے کا صدور کیوں نہ کیا۔ کیا تم نبی نہیں ہو ؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ رسالت کی ماہیت اور رسول کے فرائض منصبی سے واقف ہی نہ تھے۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ رب العالمین کے دربار میں حضور ﷺ کس قدر با ادب تھے اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ ملتا آپ اسے لے لیتے اور اگر کچھ نہ ملتا تو آپ از ٰخود مطالبہ نہ کرتے نہ کوئی تجویز دیتے۔ نہ آپ میں اس قدر طاقت تھی کہ کسی معجزے کا صدور وہ اپنی طرف ہی سے کرلیتے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے سامنے یہ اعلان کردیا جائے۔

قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ۔ ان سے کہو میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ میں نہ تو رب العالمین کے سامنے کوئی تجویز دیتا ہوں ، نہ اپنی طرف سے کوئی معجزہ ایجاد کرتا ہوں۔ میرے بس میں وہی کچھ ہے جو اچھے لوگوں کی جو تصویر پیش کی تھی وہ لوگوں کی نظروں کے سامنے تھی۔ حیقی رسالت اور رسول کے اصل منصب کی ماہیت کے ادراک کے لیے ان کے پاس کوئی علم نہ تھا۔

چناچہ حضور کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان لوگوں کے سامنے وہ علمی حقائق پیش کریں جو ان کے لیے چشمہ بصیرت ہوں اور جن کو قرآن میں نازل کیا گیا ہے اور وہ ان سے جاہل ہیں۔ ان حقائق پر غور کرنے کے بجائے وہ معجزات طلب کرتے ہیں حالانکہ وہ قرآن پڑھ کر ان حقائق کو پا سکتے ہیں۔

هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ بیشک قرآن بصیرت کی روشنی ہے ، اور رحمت الہی ہے لیکن ان لوگوں کے لیے جو اسے تسلیم کرلیں اور ایمان لائیں اور اس مال غنیمت کو لوٹ لیں کیونکہ یہ تو ہے ہی عامۃ الناس کی بھلائی کے لیے۔

وہ عرب جو جاہلیت میں ڈوبے ہوئے تھے وہ اس قرآن سے روگردانی کرکے اس کے بجائے نبی ﷺ سے خارق عادت معجزات طلب کرتے تھے جس طرح اس وقت لوگ نبیوں سے معجزات طلب کرتے تھے جب انسانیت دور طفولیت میں تھی اور اس وقت لوگ اپنے اپنے علاقوں میں محدود تھے اور عالمی سطح پر لوگوں کے درمیان علم و حکمت کا تبادلہ نہ ہوا تھا۔ اس وقت کی رسالتیں بھی علاقوں اور مختصر زمانوں کے لیے ہوا کرتی تھیں اور ان کا خطاب بھی ان ہی لوگوں تک محدود تھا جو اس وقت موجود تھے۔ بعد کے آنے والوں پر ان رسالتوں کا اطلاق نہ ہوتا تھا جنہوں نے ان معجزات کو نہ دیکھا تھا۔ وہ معجزات صرف ان لوگوں ہی کے لیے مفید تھے ، بعد میں آنے والوں کے لیے مفید نہ تھے ، جنہوں نے ان کو نہ دیکھا تھا اور شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔

قرآن کریم اس قدر معجزہ ہے کہ کوئی مادی معجزہ اس کے مقابلے میں معجزہ نہیں ہے۔ جس دور کو لیا جائے اور جس پہلو سے لیا جائے قرآن مجید حران کن ہے۔ یہ کسی وقت یا کسی دور کے لوگوں کے لیے ہی معجز نہیں ہے بلکہ تاقیامت معجزہ ہے۔ لفظاً و معناً معجز ہے۔

ذرا اس کا لفظی اور اس تعبیری پہلو ملاحظہ کیجیے۔ جاہلیت کے دور میں عربوں کے اندر جو فصاحت و بلاغت پائی جاتی تھی وہ ان کے اعتبار سے بالکل واضح معجزہ تھا وہ جس طرز ادا کے عادی تھے اور جس طرح وہ اپنے بازاروں اور تہواروں میں اس پر باہم فخر کیا کرتے تھے۔ ذرا دیکھیے کہ اس پہلو سے جس طرح وہ اس وقت معجز رہا تھا ، آج بھی ہے اور کوئی انسان آج تک ان بلندیوں کو نہیں چھو سکا حالانکہ قرآن نے ان کو اس وقت بھی چیلنج دیا تھا اور آج بھی دے رہا ہے۔ انسانوں میں سے جو لوگ تعبیرات کلامی سے واقف ہیں اور جن کو ادراک ہے کہ انسان کس قدر فصاحت و بلاغت تک پہنچ سکتا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اپنی طرز ادا کے اعتبار سے قرآن معجز ہے اور معجز رہے گا۔ اور یہ ماہرین اسلوب چاہے قرآن مجید پر ایمان لائے ہوں۔ چاہے نہ لائے ہوں وہ اس کے اعجاز کو مانتے ہیں کیونکہ یہ چیلنج جن اصولوں پر قائم ہے ان کے سامنے مومن اور کافر دونوں برابر ہیں۔ کبرائے قریش قرآن کریم کے ان چیلنجوں کو رات دن پڑھتے تھے ، لیکن ان کے پاس ان کے جواب کی کوئی سبیل نہ تھی حالانکہ وہ قرآن کریم کے منکر تھے اور اسے بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ آج بھی ہر جاہل قرآن کریم کے ان چیلنجوں کو پاتا ہے مگر اس کے پاس جواب کی کوئی سبیل نہیں ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

اس لفظی اور اسلوبی اعجاز کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے فطرت انسانی پر معجزانہ اثرات ہیں۔ بشرطیکہ انسانی فطرت اور اس کتاب کے درمیان رکاوٹیں ایک لمحے کے لیے بھی دور ہوجائیں۔ وہ لوگ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں اور جن کے دلوں پر تہ بہ تہ جاہلیت کی گرد پڑی ہوئی ہو ، ان کے دل بھی بعض اوقات گرد جھاڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور جب وہ قرآن کو سنتے ہیں تو ان کے دل بھی تلملا اٹھتے ہیں اور ان کے دل قرآن کریم کے مسحور کن اثرات میں گھر جاتے ہیں۔

بہت سے لوگ بات کرتے ہیں اور بعض لوگوں کے کلام میں اصول و مذاہب اور مختلف افکار اور رجحانات ہوتے ہیں لیکن انسانی فطرت پر قرآن مجید کا جو اثر ہوتا ہے وہ ایک منفرد اثر ہوتا ہے۔ انسانی دلوں پر اس کی تلاوت کے مخصوص اثرات پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والوں کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ قریش اپنے دیر دست متبعین کو یہ مشورہ دیتے اور در اصل وہ خود اپنے آپ کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے۔ ' لاتسمعوا لہذا القران والغوا فیہ لعلکم تغلبون " اس قرآن کی طرف کان نہ دھرو ، بلکہ اس میں شور مچاؤ شاید کہ تم غلبہ پا لو۔

وہ قرآن کریم کے اثرات خود اپنے نفوس کے اندر محسوس کرتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان اثرات کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ آج ہمارے دور جدید کے کبراء بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی توجہ قرآن کریم سے ہٹائیں لیکن قرآن کریم آج بھی غالب اور موثر ہے اور انسانی کلام کے اندر اگر قرآن کریم کی ایک یا دو آیات کو رکھ دیا جائے تو وہ واضح طور پر منفرد نظر آتی ہیں۔ ان کا اثر دوسرے کلام سے علیحدہ ہوتا ہے۔ انسانی احساس پر ان کا اثر گہرائیوں تک ہوتا ہے اور اس سے انسانی کلام بالکل جدا اور علیحدہ نظر آتا ہے۔ حالانکہ انسانی کلام بڑے تکلف اور نقش و نگار سے مزین کیا گیا ہوتا ہے۔

اب ذرا اس کتاب کے موضوع اور مواد پر غور کریں۔ قرآن کے مواد اور موضوعات پر کلام کے لیے ظلال القرآن کے مختصر صفحات میں کلام کی گنجائش نہیں ہے۔ کیوں کہ موضوع اور مفہوم کے اعتبار سے تو وہ بحر ناپید اکنار ہے۔ اس قدر مختصر صفحات میں کہاں کہا جاسکتا ہے۔

بہرحال انسان اور انسانی شخصیت کے ہر پہلو کو قرآن نے موضوع بحث بنایا ہے۔ انسانی شخصیت کو قرآن نے ہر جہت سے لیا ہے۔ ایک ہی رو میں انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے۔ انسانی شخصیت کے ہر دروازے سے یہ کتاب اندر داخل ہوتی ہے۔ انسانی تفکرات میں سے ہر فکر اور انسانی جذبات میں سے ہر جذبے کو موضوع بنایا گیا ہے۔

قرآن کریم جب ذات انسان کے مسائل پر بحث کرتا ہے تو اس کا منہاج بحث بڑا انوکھا ہوتا ہے۔ انسان کا دل و دماغ اور اس کی فطرت جس بات کو محسوس کرتی ہے ، قرآن اسے لیتا ہے ، اس کی واضح شکل سمانے لاتا ہے اور اس موضوع پر انسان کی فطری ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ دیتا ہے۔ انسان کی پوشیدہ قوتوں کو یہ کتاب جگاتی ہے اور ان کو صحت مند راستے پر ڈالتی ہے۔

پھر قرآن کا منہاج ایسا حکیمانہ ہے کہ وہ انسانی فطرت کو لے کر قدم بقدم ، مرحلہ وار ، نہایت ہی تدریج کے ساتھ ، نرمی اور سہولت کے ساتھ بلندی پر چڑھاتا جاتا ہے۔ انسان اس راستے پر نہایت ہی جوش اور پرجوش طریقے سے اگے بڑھتا ہے ، اسے اپنی راہ بالکل واضح اور صاف نظر آتی ہے اور وہ یوں ترقی کرتا ہے جس طرح ایک انسان بلندی پر ایک سیڑھی عبور کرکے چڑھتا ہے اور بلندیوں کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے ار اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اور اس راہ پر بڑھتے ہوئے وہ علم و نظر ، جوش و خروش ، استقامت اور یقین ، اعتماد اور امید اور آرام اور اطمینان کے ساتھ ، اس کائنات کے پورے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ، خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، آگے بڑھتا جاتا ہے۔

قرآن کا عجیب منہاج و انداز یہ ہے کہ وہ فطرت انسانی کو ایک ایسے مقام سے بیدار کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی شخص یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ یہ کس قدر بیدار اور حساس مقام ہے۔ یا یہ کہ اس زاویہ سے فطرت انسانی زیادہ قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی فطرت اپنے اسی پہلو سے بیدار ہوتی ہے اور پرجوش انداز میں قرآنی ہدایات پر لبیک کہتی ہے ، اس لیے کہ جس ذات نے یہ قرآن نازل کیا ہے۔ وہی تو اس فطرت کی خالق ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ اس قدر رکھتا ہے جو قربت انسان کی شہ رگ نہیں رکھتی۔

یہ منہاج یا یہ مواد جسے قرآن کریم اس اسلوب و منہاج میں پیش کرتا ہے ، اس کے اس قدر وسیع پہلو ہیں جن پر قول و کلام حاوی نہیں ہوسکت۔ اسی لیے کہا گیا ہے : قل لوکان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مدد۔ کہو کہ اگر اللہ کے کلمات کے لیے سمندروں کو سیاہی بنا دیا جائے تو یہ سمندر ختم ہوجائیں اور اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں ، اگرچہ ہم ان جیسے مزید سمندر ہی سے سیاہی بنائیں۔ اور دوسری آیت میں کہا گیا ہے : ولو ان ما فی الارض من شجرۃ اقلام ۔ اور سمندر سے سیاہی بنانے میں مزید سات سمندر استعمال کیے جائیں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں۔

راقم الحروف ، اللہ کے فضل و کرم سے 15 سال تک قرآن کریم کا نہایت ہی گہرا مطالعہ کرتا رہا ہے۔ اس عرصے میں وہ اس کتاب کے موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر نگاہ دوڑاتا رہا ہے۔ انسان کے حاصل کردہ علوم کے مختلف میدانوں میں جہاں انسانی ذہن کی رسائی ہوئی ہے اور جہاں انسانی اذہان ابھی تک نہیں پہنچ سک کے۔ میں نے ان علوم کے بارے میں ان چیزوں کو مطالعہ بھی کیا جو انسانوں ان موضوعات کے بعض پہلوؤں کے بارے میں بطور انسانی کاوش پیس کی ہیں ، لیکن میں نے اس حقیقت کو پایا ہے کہ قرآن کریم کا فیض بہت ہی عام وسیع اور کھلا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی علم ایک چھوٹا سا بحیرہ ہے ، بلکہ ایک چھوٹا سا کنوا یا سوراخ ہے بلکہ وہ ایک ایسا تالاب ہے جو مسلسل ٹھہراؤ کی وجہ سے بدبودار ہوگیا ہے۔

میں نے اس کائنات پر قرآن کی روشنی میں ایک کلی نگاہ ڈالی۔ اس کائنات کے مزاج ، اس کی ماہیت ، اس کی پیدائش و تخلیق اور اس کی ترقی اور اس کی پشت پر راز ہائے نہفتہ کو خوب پڑھا۔ اس کائنات کی خفیہ اور پشویشدہ صفات اور خصوصاً اس کی زندہ مخلوق پر غور کیا ، خصوصاً وہ تحریں بھی مطالعہ کیں جو اس کائنات کے بارے میں انسان نے اپنے علم و تجربے سے تحریر کیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے کتاب خصائص التصور الاسلامی وغیرہ)

پھر انسان کے وجود ، اس کی نفسیات ، اس کی اصلیت ، اس کی نشوونما ، اس کی پوشیدہ صلاحیتوں ، اس کی سرگرمیوں کے دائروں ، اس کے وجود کی ساخت ، اس کے تاثرات ، اس کے میلانات اور دوسرے حالات اور راز جن کے بارے میں انسانوں نے بھی کچھ معلومات فراہم کی ہیں ، مثلاً علوم الحساب اور حیاتیات کے مختلف موضوع ، انسانی عقائد و ادیان اور اس کے اجتماعی فلسلفے ، ان موضوعات کا بھی میں نے بغور مطالعہ کیا۔ (دیکھئے الاسلام و مشکلات الحضار وغیرہ)

پھر انسان کے وجود ، اس کی نفسیات ، اس کی اصلیت ، اس کی نشوونما ، اس کی پوشیدہ صلاحیتوں ، اس کی سرگرمیوں کے دائروں ، اس کے وجود کی ساخت ، اس کے تاثرات ، اس کے میلانات اور دوسرے حالات اور راز جن کے بارے میں انسانوں نے بھی کچھ معلومات فراہم کی ہیں ، مثلاً علوم الحساب اور حیاتیات کے مختلف موضوع ، انسانی عقائد و ادیان اور اس کے اجتماعی فلسفے ، ان موضوعات کا بھی میں نے بغور مطالعہ کیا۔ (دیکھیے الاسلام و مشکلات الحضار وغیرہ)

پھر میں نے انسانی نظام ہائے حیات کا بھی مطالعہ کیا۔ ان نظاموں میں انسان کی سرگرمیوں کا بھی مطالعہ کیا ، اس میں انسانوں کے باہم روابط اور اختلافات کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ انسانی روابط کی تجدید و اصلاح کی اسکیموں پر بھی غور کیا۔ اور ان کے بارے میں ان موضوعات پر مطالعہ کیا جن کے بارے میں بہت سے مکاتیب فکر میں اور جن پر انسانوں نے کام کیا ہے مثلاً سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی مسائل (تفصیلات کے لیے دیکیے میری کتاب نحو مجتمع اسلامی)

ان تمام شعبوں میں اور ان تمام موضوعات پر انسانی علوم و فنون کے مطالعے کے بعد جب میں نے قرآن مجید کو غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ ان موضوعات کے بارے میں بڑی کثرت سے آیات موجود ہیں جن میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں اور جو علم کا خزانہ قرآن میں ہے وہ نہایت ہی حقیقی ، ٹھوس اور وسیع ہے۔

ان موضوعات پر سالہا سال تک غور کرتے ہوئے میں نے کبھی بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ قرآن سے باہر ، کسی حوالہ سے مدد لی جائے۔ ہاں رسول اللہ ﷺ کے احوال و احادیث کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے کیونکہ وہ کلام بھی آثار کلام الہی میں سے ہے۔ قرآن و سنت کے سوا ان موضوعات پر انسانوں نے جو کہا ہے وہ نہایت ہی کمزور اور ناقص ہے۔ اگر صحیح بھی ہو تب بھی تشفی بخش نہیں ہے۔ راقم الحروف نے ہر انسانی تحریر کے مقابلے میں قرآن کو مفصل اور تشفی بخش پایا۔

میں جو بات کہہ رہا ہوں ، ایک طویل عرصہ تک قرآن پر غور و فکر کرنے اور انسانی مسائل کے حل میں قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کرنے کی ضرورت کے تحت عملاً قرآن کے سائے میں رہنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔ میں قرآن کی خوبیاں بیان کرکے قرآن کے بارے میں آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کر رہا نہ تمام انسان قرآن کی تعریفیں کرکے اس کے کمال میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کا ایک نہایت ہی منفرد گروہ اور نسل گراں قدر ہے ، یعنی صحابہ کرام ، ان کی تربیت ، ان کے علم اور ان کی راہنمائی کا سرچشمہ یہی کتاب تھی۔ اسی کتاب نے ان کو بنایا تھا۔ اس کے بعد انسانوں میں کوئی گراہ اس معیار کا تیار نہیں ہوسکا ، نہ اس سے قبل انسانی تاریخ میں صحابہ کی ٹکر کا کوئی گروہ ہمارے علم میں ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انسانی تاریخ میں ایک گہرا اور وسیع انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس عظیم انقلاب اور اس عظیم واقعہ کا انسانوں نے فی الحقیقت گہرا مطالعہ نہیں کیا۔

انسانی تاریخ میں گروہ صحابہ کے ذریعے جو انقلاب برپا کیا گیا اور جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہے ، در حقیقت وہ اسی کتاب یعنی قرآن کے سرچشمے سے پھوٹا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر محمد ﷺ تک تمام رسولوں کے ہاتھوں جن معجزات کا صدور ہوا ، یہ معجزہ یعنی انسانیت کے انقلاب عظیم کا معجزہ ان تمام معجزات سے برتر اور ان پر بھاری ہے ، کیونکہ یہ ایک حقیقی ، قابل ملاحظہ اور زیر مشاہدہ معجزہ ہے۔ غرض گروہ صحابہ انسانی تاریخ کا ایک منفرد معجزہ تھے۔

اسلامی معاشرے کی پہلی ترکیب اس منفرد گروہ سے تھی ، اس کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک اسلامی معاشرہ زندہ و تابندہ رہا اور اس میں اسلامی شریعت کے قوانین نافذ رہے۔ یہ معاشرہ اسلامی اقدار ، اسلامی حسن و قبح کے پیمانوں اور اسلامی ہدایات اور اشارات کا پابند رہا۔ یہ ہزار سالہ اسلامی معاشرہ بھی درحقیقت ایک دوسرا تاریخی معجزہ تھا خصوصاً جبکہ کوئی تاریخی مبصر اس اسلامی معاشرے اور دوسرے انسانی معاشروں کے درمیان تاریخی موازنہ کرے۔ یہ دوسرے جاہلی معاشرے مادی ترقی میں تو اسلامی معاشرے سے برتری کا دعوی کرسکتے ہیں لیکن انسانی تہذیب و تمدن میں وہ برتری کا دعوی نہیں کرسکتے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگ آج جدید جاہلیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی نفسیاتی ضروریات ، اپنی اجتماعی ضروریات اور اپنی زندگی کی بہبود قرآن کے بجائے کسی اور سرچشمے سے اخذ کرتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح جس طرح عرب جاہلیت کے پیروکار قرآن کریم کے علاوہ خوارق و معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ عرب کے سادہ جاہلوں کو تو قرآن مجید کا یہ عظیم معجزہ اس لیے نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہایت ہی گہری جاہلیت اور جہالت میں مبتلا تھے اور ان کے ذاتی مفادات بھی قرآنی تعلیمات سے متضاد تھے۔ لہذا وہ قرآنی عجائبات کو پانے سے محروم رہے۔

رہی جدید جاہلیت تو وہ جہالت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تعلیمی معیار کے غرور کی وجہ سے قرآنی عجائبات کے دیکھنے سے محروم ہے ، حالانکہ علم کے یہ دروازے ، ان پر اللہ ہی نے کھولے ہیں لیکن انہوں نے علم کو مادی دنیا کے اندر محدود کردیا ، نیز انسانی ضروریات کے تحت آج دنیا کو جو ضروریات لاحق ہیں ان ضروریات کے حصول کے لیے انسانی زندگی بہت زیادہ منظم ہوچکی ہے اور تنظیم و تشکیل کے زاویہ سے جدید جاہلیت کے پرستار نہایت ہی غرور میں مبتلا ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ زیادہ تجربات کی وجہ سے دور جدید کی زندگی نہایت ہی منظم اور پختہ ہوچکی ہے اور مختل ضروریات کی وجہ سے پیچیدہ بھی ہوچکی ہے۔ اور اس جدید زندگی کے دلدادہ لوگ غرور میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ نیز چودہ سو سال سے یہودی اور صیہونی لابی اسلام دشمنی میں مبتلا ہے اور اس نے ان چودہ سو سالوں میں اسلام اور قرآن کے خلاف اپنی سازشوں کو لمحہ بھر کے لیے بھی موقوف نہیں کیا۔ یہودیوں کی پالیسی یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اس کتاب سے غافل کردیں۔ وہ اس کتاب سے ہدایات نہ لیں ، کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنے طویل تجربات کے ذریعے یہ بات معلوم ہچکی ہے کہ مسلمان جب تک قرآنی ہدایات کی پیروی کرتے رہیں گے یہ لوگ ان پر قابو نہیں پا سکتے۔ لیکن اس بات کے لیے ایک شرط ہے کہ مسلمان کتاب اللہ کو اس طرح پکڑیں جس طرح دور اول کی لاثانی جماعت ، جماعت صحابہ نے اسے پختہ طریقے سے پکڑا تھا۔ یہ نہ ہو کہ وہ اس کی آیات کو تو اچھی طرح گاتے ہوں اور خوش الحانی سے پڑتے ہوں لیکن ان کی عملی زندگی سو فیصد اس کی تعلیمات کے برعکس ہو۔ یہ یہودیوں کی نہایت ہی خبیث اور مذموم سازش ہے یہ مسلسل مسلمانوں کے خلاف بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ اس سازش ہی کا آخری نتیجہ وہ حالات ہیں جن میں وہ اقوام مبتلا ہیں جو اپنے نام مسلمانوں جیسے رکھتی ہیں ، حالانکہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں شریعت الہیہ کو نافذ نہ کردیں۔ غرض اسی سازش کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر جگہ اس دین کے آثار کو مٹایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مواقع فراہم نہیں ہوتے کہ وہ اپنی زندگیوں کو قرآن کی ہدایات کے مطابق منظرم کریں اور اپنے تمام اختلافات و نزاعات میں بھی قرآن کو اس طرح حکم بنائیں جس طرح قرون اول کے مسلمان قرآن کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تھے اور اپنے لیے قوانین و اصول قرآن کی روشنی میں بناتے تھے۔

آج حالت یہ ہے کہ اہل قرآن نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ ماسوائے حسن قراءت ، ترتیل کے اس کا مطالعہ نہیں کرتے ، اوہام اور تعویذوں کے سوا اس کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ حالت گہری اور مذموم صیہونی اور صلیبی سازش کی وجہ سے ہے ، مسلمانوں کی جہالت اور غرور علم کی وجہ سے ہے اور مسلمانوں کے فکر و نظر کے عمومی فساد کی وجہ سے ہے۔

دور قدیمہ میں جاہلیت کے پرستار لوگوں کو اس سے اسی طرح غافل کرتے تھے کہ وہ اسے سننے اور اس پر غور کرنے کے بجائے خوارق عادت واقعات کے صدور کا مطالبہ کرتے تھے۔ دور جدید کے جاہل اس قرآن سے مسلمانوں کو دور رکھتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں اپنے بنائے ہوئے قرآن دیتے ہیں اور ابلاغ اور میڈیا کے جدید وسائل کے ذریعے وہ اپنے بنائے ہوئے نظریات کو لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرتے ہیں اس قرآن کے بارے علیم وخبیر کا فیصلہ یہ ہے۔ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور حمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔

اور قرآن کا مقام چونکہ یہی ہے ، اس لیے خود ہدایت دی جاتی ہے کہ تمہارا قرآن کے ساتھ رویہ یہ ہونا چاہیے۔

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ جب قران تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے

آخر میں ان دونوں سورتوں کے مضامین کے عمود کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ دو سورتیں نازل ہوئیں اس وقت کفار مکہ کی طرف سے یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ کیا جارہا تھا کہ کوئی نشانی لاؤ ‘ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ جس طرح کے حسی معجزات حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملے تھے ‘ اسی نوعیت کے معجزات اہل مکہ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے ان کی طرف سے مطالبات آتے رہے ‘ ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ اب اس سلسلے میں آخری بات ہو رہی ہے۔ آیت 203 وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلاَ اجْتَبَیْتَہَا ط کفار مکہ کا کہنا تھا کہ جب آپ ﷺ کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں تو آپ کے لیے معجزہ دکھانا کون سا مشکل کام ہے ؟ آپ ہمارے اطمینان کے لیے کوئی معجزہ چھانٹ کرلے آئیں ! اس سلسلے میں تفسیر کبیر میں امام رازی رح نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا ‘ جو اگرچہ ایمان تو نہیں لایا تھا مگر اکثر آپ ﷺ کے ساتھ رہتا اور آپ ﷺ سے تعاون بھی کرتا تھا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے امید تھی کہ ایک دن وہ ایمان بھی لے آئے گا۔ ایک دفعہ کسی محفل میں سرداران قریش نے معجزات کے بارے میں آپ ﷺ سے بہت بحث و تکرار کی کہ آپ نبی ہیں تو ابھی معجزہ دکھائیں ‘ یہ نہیں تو وہ دکھا دیں ‘ ایسے نہیں تو ویسے کر کے دکھا دیں ! اس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں بھی آئے گی مگر آپ ﷺ نے ان کی ہر بات پر یہی فرمایا کہ معجزہ دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دکھا دے گا۔ اس پر انہوں نے گویا اپنے زعم میں میدان مار لیا اور آپ ﷺ پر آخری حجت قائم کردی۔ اس کے بعدجب حضور ﷺ وہاں سے اٹھے تو وہاں شور مچ گیا۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کس کس انداز میں باتیں نہیں کی ہوں گی اور اس کے عوام پر کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے اس پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ آج تو گویا آپ کی قوم نے آپ پر حجت قائم کردی ہے ‘ اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع اس ماحول میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا اور اس طرح کی صورت حال میں آپ ﷺ کس قدر دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا کچھ نقشہ سورة الانعام آیت 35 میں اس طرح کھینچا گیا ہے : وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ پر بہت شاق گزر رہا ہے ان کا اعراض تو اگر آپ میں طاقت ہے تو زمین میں کوئی سرنگ بنا لیجیے یا آسمان پر سیڑھی لگا لیجیے اور ان کے لیے کہیں سے کوئی نشانی لے آیئے ! ہم تو نہیں دکھائیں گے ! ۔ یہ پس منظر ہے ان حالات کا جس میں فرمایا جا رہا ہے کہ معجزات کے مطالبات میں آپ ﷺ ان کو بتائیں کہ معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ‘ مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ج ہٰذَا بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ میں آپ لوگوں کے سامنے جو پیش کر رہا ہوں ‘ یہ وہی کچھ ہے جو اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے اور میں خود بھی اسی کی پیروی کر رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں۔

سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے۔ یہ لوگ کوئی معجزہ مانگتے اور آپ اسے پیش نہ کرتے تو کہتے کہ نبی ہوتا تو ایسا کرلیتا، بنا لیتا، اللہ سے مانگ لیتا، اپنے آپ گھڑ لیتا، آسمان سے گھسیٹ لاتا۔ الغرض معجزہ طلب کرتے اور وہ طلب بھی سرکشی اور عناد کے ساتھ ہوتی۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت (اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ) 26۔ الشعراء :4) اگر ہم چاہتے تو کوئی نشان ان پر آسمان سے اتارتے جس سے ان کی گردنین جھک جاتیں۔ وہ لوگ حضور سے کہتے رہتے تھے کہ جو ہم مانگتے ہیں وہ معجزہ اپنے رب سے طلب کر کے ہمیں ضرور دکھا دیجئے۔ تو حکم دیا کہ ان سے فرما دیجئے کہ میں تو اللہ کی باتیں ماننے والا اور ان پر عمل کرنے والا وحی الٰہی کا تابع ہوں۔ میں اس کی جناب میں کوئی گستاخی نہیں کرسکتا، آگے نہیں بڑھ سکتا، جو حکم دے صرف اسے بجا لاتا ہوں۔ اگر کوئی معجزہ وہ عطا فرمائے دکھا دوں۔ جو وہ ظاہر نہ فرمائے میں اسے لا نہیں سکتا میرے بس میں کچھ نہیں میں اس سے معجزہ طلب نہیں کیا کرتا مجھ میں اتنی جرات نہیں ہاں اگر اس کی اجازت پالیتا ہوں تو اس سے دعا کرتا ہوں وہ حکمتوں والا اور علم والا ہے۔ میرے پاس تو میرے رب کا سب سے بڑا معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو سب سے زیادہ واضح دلیل سب سے زیادہ سچی حجت اور سب سے زیادہ روشن برہان ہے جو حکمت ہدایت اور رحمت سے پر ہے اگر دل میں ایمان ہے تو اس اچھے سچے عمدہ اور اعلیٰ معجزے کے بعد دوسرے معجزے کی طلب باقی ہی نہیں رہتی۔

آیت 203 - سورہ اعراف: (وإذا لم تأتهم بآية قالوا لولا اجتبيتها ۚ قل إنما أتبع ما يوحى إلي من ربي ۚ هذا بصائر من...) - اردو