سورہ اعراف: آیت 199 - خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض... - اردو

آیت 199 کی تفسیر, سورہ اعراف

خُذِ ٱلْعَفْوَ وَأْمُرْ بِٱلْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْجَٰهِلِينَ

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khuthi alAAafwa wamur bialAAurfi waaAArid AAani aljahileena

آیت 199 کی تفسیر

درس نمبر 82 ایک نظر میں

اس سورة کے آخر میں یہ ربانی ہدایت ہیں ، اللہ کی جانب سے خاص اپنے دوستوں کو یہ نصیحت کی جا رہی ہے۔ ان میں حضور اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں سے خطاب ہے۔ اس وقت یہ لوگ ابھی مکہ ہی میں تھے۔ یہ ہدایات انہیں اس ہمہ گیر جاہلیت کے مقابلے کے لیے دی جا رہی ہیں جو مکہ اور اس کے ارد گرد پوری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ یہ ہدایات اس ہمہ گیر جاہلیت کے مقابلے کے لیے خاص طور پر جاری ہوئی ہیں اور گمراہ انسانیت کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کو بحیثیت قائد دعوت یہ حکم دیا جاتا ہے کہ لوگوں کے لیے نہایت ہی یسر اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں اور ایسی باتوں کا حکم دیں جنہیں سلیم فطرت انسانی افعال خیر سمجھتی ہو۔ تمہارے احکام و ہدایات میں تعقید اور تشدید نہ ہو ، اور جہاں جاہلیت اصلاح پذیر نہ ہو وہاں اس کے ساتھ الجھنے کے بجائے اس سے پہلو تہی کیا جائے ، لوگوں سے مجادلہ نہ کیا جاے ، ان کی فضول محفلوں میں شریک نہ ہوں اور اگر اہل جاہلیت آپ کو غصہ دلائیں اور حدود پار کریں اور ضد وعناد کا مظاہرہ کریں اور شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے نتیجے میں آپ کو طیش آجائے تو آپ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کریں اور تعوذ کے ذریعے اطمینان حاصل کرکے صبر کریں۔

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭاِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۔

اے نبی ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو ، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔

اس کے بعد حضور ﷺ کو ان جاہلوں کے مزاج سے متعارف کرایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ کس قوت کی وسوسہ اندازی ہے جو ان لوگوں کو سرکشی اور گمراہی پر ابھار رہی ہے اور حضور ﷺ سے وہ جو سلوک کر رہے ہیں اس کا ایک حصہ بھی یہاں بتایا جاتا ہے کہ وہ آپ سے خوارق عادت امور طلب کرتے ہیں چناچہ حضور کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان کے اس سلوک اور مطالبوں کا یہ جواب دیا جائے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ رسالت کی حقیقت کیا ہے ؟

رسول کا مقام کیا ہے ؟ تاکہ رسالت اور رسول کے مقام و ماہیت کے بارے میں ان کے تصورات کی اصلاح کردی جائے۔ اور یہ بتایا جائے کہ رسول اور رب العالمین کے تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟

وَاِخْوَانُهُمْ يَمُدُّوْنَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُوْنَ ۔ وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۭقُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ۚ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔

رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند ، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

اے نبی ! جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی ؟ ان سے کہو " میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔

بذریعہ وحی قرآن کے نزول کی طرف آیت سابقہ میں اشارہ کیا گیا تھا۔ اس مناسبت سے یہاں مسلمانوں کو وہ آداب سکھائے جاتے ہی جو تلاوت قرآن کے وقت ملحوظ رکھے جائیں گے۔ اللہ کے ذکر کے آداب اور یاد الہی پر دوام اور اسے عادت بنا لینے کی ہدایت اور کسی بھی وقت یاد الہی سے غافل نہ ہونے کی ہدایت ، بعینہ اسی طرح ہے جس طرح ملائکہ ہر وقت اللہ کی یاد کرتے رہتے ہیں ، تسبیح کرتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں لہذا انسانوں کے لیے یہ ضروری اور بہتر ہے کہ وہ غفلت نہ کریں اور تسبیح و تہلیل اور رکوع و سجود میں مشغول رہیں۔

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَيُسَبِّحُوْنَهٗ وَلَهٗ يَسْجُدُوْنَ

جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جاے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔

اے نبی اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو ، دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آخر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں۔

درس نمبر 82: تشریح آیات 199 تا 206:۔

تفسیر آیت 99: خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔

اے نبی ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو ، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو

مطلب یہ ہے کہ ممکن حد تک لوگوں کے ساتھ نرمی کرو۔ معاشرت ، باہم میل جول میں لوگوں سے اخلاق عالیہ کا بدرجہ کمال توقع نہ کرو۔ اور ایسے اخلاق بھی ان پر مسلط نہ کرو جو ان پر شاق گزریں اور ان کے لیے ان کا مظاہرہ ممکن نہ ہو۔ ان کے اندر جو غلطیاں پائی جاتی ہوں۔ ان میں جو کمزوریاں اور جو نقائص پائے جاتے ہوں ان کے بارے میں عفو و درگذر سے کام لو۔ لیکن یہ عفو و درگذر کی پالیسی ذاتی اور شخصی معاملات کے اندر ہے۔ شرعی فرائض و واجبات میں عفو و درگذر کی پالیسی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اسلامی عقائد میں سے کوئی عقیدہ ایسا نہیں ہے جس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہو۔ اور اسلامی شریعت میں کوئی قانون ایسا نہیں ہے جس سے چھوٹ دی جاسکتی ہو۔ ہاں لوگ لین دین کے معاملات می ایک دوسرے کے ساتھ میل و جول اور معاشرت میں نرمی اور تسامح کرسکتے ہیں۔ باہم معاشرت میں نرمی سے لوگوں کی زندگی بہت ہی اچھے اسلوب میں گزر سکتی ہے ، خصوصاً بڑے لوگوں کی جانب سے چھوٹ لوگوں کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا ، انسانی کمزوریوں سے درگزر کرنا اور ان پر رحم کرنا اور ان کے ساتھ دریا دلی کا رویہ اختیار کرنا ، ان کے فرائض میں شامل ہے اور ان کے شایان شان تصور ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ایک عظیم شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ معلم ، مر بھی ور مصلح بھی ہیں۔ اس لیے ان اوصاف حمیدہ کی رعایت کرنا ان کے شایان شان ہی نہیں ان کے فرائض میں سے ہے۔ حضور ﷺ اپنے ذاتی معاملات کبھی بھی کسی شخص پر طیش پر نہیں آئے ، لیکن اگر معاملہ دین کا ہوتا تو آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا۔

یہی حکم ان تمام افراد کے لیے ہے جو دعوت دین کا کام کرتے ہیں ، ان کے لیے بھی وہی حکم ہے جو حضور ﷺ کے لیے ۔ اس لیے انسانی نفوس کو راہ ہدایت پر لانے کے لیے ان کے ساتھ وسعت قلبی کا سلوک ہونا چاہئے۔ ان کے ساتھ اچھا رویہ خوش اخلاقی اور نرمی کا برتاؤ ہونا چاہیے مگر شرط یہ ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں کی جاسکتی ، نہ اللہ کے دین میں افراط وتفریط سے کام لیا جاسکتا۔

وامر بالعرف۔ " معروف کی تلقین کر "۔ معروف سے مراد وہ کام ہے جو اچھا ہو ، جس کی بھلائی میں کوئی شبہ نہ ہو ، اور اس میں کسی کا اختلاف اور جھگڑا نہ ہو اور جس میں تمام سلیم الفطرت اور درست فکر و نظر رکھنے والے لوگوں کا اختلاف نہ ہو۔ جب نفس انسانی ان معروف امور کا عادی بن جائے تو پھر اس کی قیادت اور راہنمائی آسان ہوجاتی ہے اور وہ بغیر کسی مشقت کے اچھے کاموں کی طرف آگے بڑھتا ہے۔ حققت یہ ہے کہ جب آغاز ہی میں نفس انسانی کو مشقت ، مشکلات اور شدت اور سختی سے دوچار کردیا جائے تو اس اچانک سخت صورت حالات سے نفس انسانی بدک جاتا ہے اور اس کی اصلاح کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔ نفس انسانی کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ آغاز کار میں اسے آسان کام دئیے جائیں جو معروف اور مشہور ہوں تاکہ وہ خود مشکل کاموں کی طرف بڑھنے کا حوصلہ کرے اور بڑی سہولت سے وہ کام کر گزرے۔

و اعرض عن الجاھلین۔ " اور جاہلوں سے نہ الجھو "۔ جہالت رشد و ہدایت کے مقابلے میں ہے ، جہالت علم کے بالمقابل بھی ہے ، گمراہی اور بےعلمی گویا ہمسائے ہیں۔ اعراض کس طرح کریں ، یعنی جاہلوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ نیز جو باتیں وہ کرتے اور جو برے اعمال وہ کرتے ہیں ان کو اہمیت نہ دیں اور اگر ایسے حالات سامنے آجائیں تو شریفانہ انداز اختیار کرکے گزر جائیں۔ ان کے ساتھ بحث و تکرار نہ کریں جس کا نتیجہ ماسوائے کشیدگی کے اور کچھ نہیں ہوتا اور جس میں محض وقت اور قوت ضائع ہوتی ہے۔ بعض اوقات سکون اور اعراض کی وجہ سے ان کا نفسیاتی علاج بھی ہوجاتا ہے۔ یوں ان کے سرکش نفوس کی اصلاح ہوجاتی ہے اور یہ اصلاح بدکلامی اور بحث و مناظرے کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں عناد اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ الجھاؤ کے نتیجے میں مخاطبین کی اصلاح ہوگی یا نہ ہوگی یہ بات مشکوک ہے البتہ الجھنے والا داعی بہرحال ان لوگوں سے دور ہوجاتا ہے جن میں اصلاح احوال اور قبولیت حق کا مادہ ہوتا ہے۔ اور جب داعی لغو اور بدکلام لوگوں سے اعراض کردے۔ تو وہ پروقارنظر آتا ہے اور لوگ دیکھتے ہیں کہ داعی کے مخالف لوگ جہالت میں مبتلا ہیں ، احمقانہ کام کرتے ہیں تو اس وجہ سے وہ عوام الناس کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔

ہر صاحب دعوت کو چاہئے کہ وہ اللہ کی ان ہدایات پر اچھی طرح غور و فکر کرے کیونکہ رب العالمین انسانی نفسیات کی داخلیات سے بھی اچھی طرح واقف ہے اسی لیے اس نے یہ ہدایات دی ہیں۔

آیت 199 خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ جیسا کہ مکی سورتوں کے آخر میں اکثر حضور ﷺ سے خطاب اور التفات ہوتا ہے یہاں بھی وہی انداز ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں سے بہت زیادہ بحث مباحثہ میں نہ پڑیں ‘ ان کے رویے سے درگزر کریں اور اپنی دعوت جاری رکھیں۔وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ ۔ یہ جاہل لوگ آپ ﷺ سے الجھنا چاہیں تو آپ ﷺ ان سے کنارہ کشی کرلیں۔ جیسا کہ سورة الفرقان میں فرمایا : وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ اور جب جاہل لوگ ان رحمن کے بندوں سے الجھنا چاہتے ہیں تو وہ ان کو سلام کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ سورة القصص میں بھی اہل ایمان کا یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے : سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے۔ آیت زیرنظر میں ایک داعی کے لیے تین بڑی بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔ عفو درگزر سے کام لینا ‘ نیکی اور بھلائی کی بات کا حکم دیتے رہنا ‘ اور جاہل یعنی جذباتی اور مشتعل مزاج لوگوں سے اعراض کرنا۔

اچھے اعمال کی نشاندہی ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کردیا کرو۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگذر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول، تجسس نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرائیل سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگذر کر۔ جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ نے فرمایا جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ، جو تجھ سے روکے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر۔ اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے۔ عرف سے مراد نیک ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب ؓ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بوڑھے۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المومنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المومنین نے اجازت دے دی۔ یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگذر کی عادت رکھ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر۔ امیر المومنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی۔ امیرالمومنین ؓ کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ ؒ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منع ہیں۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے ؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کرلی۔ عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آگیا پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیرلیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے۔ مطلب یہ ہے ظلم برداشت کرلیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کجھ نہ کہنا۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ ﷺ تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے۔ شعر (خذا لعفو وامربالعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین یعنی درگزر کیا کر، بھلی بات بتادیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے، نادانوں سے ہٹ جا یا کر، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کرلے اور ان کے سر نہ ہوجا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے۔ دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کرلے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے آیت (اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96؀) 23۔ المؤمنون :96) بہترین طریق سے دفع کردو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے لیکن یہ انہی سے ہوسکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں۔ اس کے بعد شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگذر اور سلوک و احسان سے ہوجاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں۔ یہ تینوں حکم جو سورة اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورة مومنون میں بھی ہیں اور سورة حم السجدہ میں بھی۔ شیطان تو حضرت آدم ؑ کے وقت سے دشمن انسان ہے۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہوجائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہوجائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہوجاؤ گے۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی اعوذ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضور نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے۔ وہ کلمہ (" اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ") ہے کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہوگیا ہوں ؟ نزع کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے۔ فرمان قرآن ہے کہ میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے۔ عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے۔ (بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ)یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جا ہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ باقی حدیثیں جو اعوذ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں۔

آیت 199 - سورہ اعراف: (خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين...) - اردو