سورہ اعراف: آیت 163 - واسألهم عن القرية التي كانت... - اردو

آیت 163 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَسْـَٔلْهُمْ عَنِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ ٱلْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِى ٱلسَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ

اردو ترجمہ

اور ذرا اِن سے اُ س بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر اُن کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waisalhum AAani alqaryati allatee kanat hadirata albahri ith yaAAdoona fee alssabti ith tateehim heetanuhum yawma sabtihim shurraAAan wayawma la yasbitoona la tateehim kathalika nabloohum bima kanoo yafsuqoona

آیت 163 کی تفسیر

اب پھر بنی اسرائیل معصیت اور سرکشی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس بار وہ کھلے بندے احکام الٰہی کی خلاف ورزی نہیں کر رہے بلکہ تاویل سے کام لے رہے اور احکام سے گلو خلاصی کر رہے ہیں۔ جب ان کو آزمایا جاتا ہے تو صبر نہیں کرتے کیونکہ ابتلاء اور مشکلات پر وہ لوگ صبر کرتے ہیں جن کی طبیعت سنجیدہ ہو اور جو ذاتی خواہشات اور ہر قسم کی لالچ کے مقابلے میں ضبط رکھتے ہوں۔

۔۔

یہاں قرآن نے بنی اسرائیل کے احوال ماضی کے بیان کو چھوڑ کر ، اب ان بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرنا شروع کیا ہے جو سابقہ بنی اسرائیل کی اولاد تھے اور حضور کے دور میں موجود تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں بھی تھے۔ یہ آیات آیت واذ نتقنا الجبل فوقہم تک مدنی آیات ہیں۔ یہ مدینہ میں یہودیون کے ساتھ مکالمے کے طور پر نازل ہوئیں اور انہیں مضمون کے اعتبار سے اس مکی سورت میں رکھ دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا مضمون مکمل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ان سے اس واقعہ کے بارے میں دریافت کریں جو ان کے ہاں بہت ہی مشہور و معروف ہے اور ان کی تاریخ میں درج ہے۔ قرآن کریم اگلے اور پچھلے بنی اسرائیل کو ایک ہی امت سمجھتا ہے۔ ان کو وہ جرائم بھی یاد دلاتا ہے جو مختلف ادوار میں ان سے سرزد ہوئے اور اس کے بدلے میں اللہ نے انہیں بندر بنا دیا اور ان پر مسخ جیسا عذاب نازل ہوا۔ ان پر ذلت اور اللہ کا غضب مسلط ہوگئے۔ ہاں ان سب عذابوں سے وہ لوگ بہرحال محفوظ رہے ہوں گے جنہوں نے نبی آخر الزمان کی مطابقت اختیار کی اور اس کی وجہ سے ان کے کاندھوں سے بوجھ اتر گئے اور جو بیڑیاں انہیں لگی ہوئی تھیں ، وہ کھل گئیں۔

سمندر کے کنارے والی بستی کون سی تھی۔ قرآن نے اس کا نام نہیں لیا کیونکہ نام لینے کی ضرورت ہی نہ تھی اور گاؤں کا نام مخاطبین کے ذہنوں میں تھا۔ اس واقعہ کے کردار بنی اسرائیل کے سرکردہ لوگ تھے اور یہ کسی ساحلی شہر میں آباد تھے۔ بنی اسرائیل نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہفتے میں ان کے لیے ایک چھٹی کا دن مقرر کیا جائے جو آرام اور عبادت کا دن ہو۔ اور اس میں ان کے لیے معاشی سرگرمیاں منع ہوں۔ ہفتے کا دن ان کے لیے ایسا دن مقرر کیا گیا۔ اب اللہ نے اس دن کے بارے میں انہیں آزمائش میں ڈال کر یہ سمجھانا چاہا کہ وہ زندگی کی دلکشیوں اور لالچوں سے کس طرح چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اور بنی اسرائیل کے لیے یہ ضروری بھی تھا اس لیے کہ وہ ایک طویل عرصے تک غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے تھے اور غلاموں کے ضمیر بدل جاتے ہیں اور ان کے اندر اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ذلت اور غلامی سے بدنی نجات کے بعد یہ ضروری ہے کہ انسان ذہناً اور اخلاقاً بھی غلامی سے نجات پا جائے تاکہ وہ صحیح اور صالح زندگی بسر کرسکے۔ خصوصاً وہ لوگ جو داعی کے مقام پر فائز ہوں۔ ان کے لیے تو ایسی اخلاقی تربیت فرض عین ہے۔ پھر خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کے ذمے خلافت فی الارض کی ذمہ داری بھی ہے اور وہ مناصب حکمرانی پر فائز ہوں۔ ارادے کی پختگی اور نفس پر ضطب کے معاملے میں پہلی آزمائش آدم و حوا کی ہوئی اور ان سے لغزش ہوگئی اور انہوں نے شیطان کے ورغلانے کی وجہ سے شجرۂ خلد کو چکھ لیا اور یہ لالچ کیا کہ ان کی حکمرانی دائمی ہوجائے اور ان کے بعد بھی ہر وہ جماعت جسے اللہ نے منصب خلافت فی الارض عطا کیا اسے آزمایا گیا۔ مختلف اقوام کو مختلف انداز اور مختلف حالات میں ضرور آزمایا گیا۔

لیکن اس آزمائش میں بنی اسرائیل پورے نہ اترے۔ اس لیے کہ وہ اس سے قبل بار بار وعدہ خلافی کرچکے تھے اور بار بار انہوں نے سرکشی اختیار کی تھی۔ آزمائش یوں ہوئی کہ ہفتے کے روز مچھلیاں ساحل کے قریب آجاتیں۔ ان کا شکار سہل ہوجاتا ، لیکن وہ یہ مچھلیاں اس لیے نہ پکڑ سکتے تھے کہ ہفتے کو شکار کرنا حرام تھا۔ اور اس حرمت میں خود ان کی خواہش شامل تھی۔ جب ہفتہ نہ ہوتا اور وہ شکار کے لیے نکلتے تو مچھلیاں قریب نہ ہوتیں جیسا کہ ہفتے کو وہ دیکھا کرتے تھے۔ یہ وہ بات تھی جسے حضور اکرم کے ذریعے اللہ انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ذرا یاد کریں کہ انہوں نے اس حرمت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ۔ اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سب کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔

سوال یہ ہے کہ مچھلیوں کا یہ واقعہ کیسے پیش آگیا ، تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ خارق عادت اور ایک غیر معمولی واقعہ تھا کہ مچھلیاں ساحل کے قریب بڑی تعداد میں دوڑتی پھرتیں اور اگر کوئی پکڑتا تو بسہولت پکڑ سکتا۔ آج کل بعض لوگ خود اللہ کے جاری کیے ہوئے قوانین کونیہ کو قوانین طبعیہ کا نام دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی تو یہ ان کا مجرد دعویٰ ہے۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق بات ایسی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ نے خود اس کائنات کو بنایا ہے اور اس کے اندر جو طبعی قوانین جاری کیے ہیں وہ اس نے یہاں ودیعت کیے ہیں۔ یہ اللہ کی مشیت ہے۔ اللہ کی یہ مشیت خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پابند نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف نہ جاسکتی ہو۔ ان قوانین کے بعد بھی مشیت الہیہ آزاد ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے حقیقی علم دیا ہے وہ اس نکتے سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر اللہ کی حکمت اور مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ انسانوں کی بھلائی اس میں ہے کہ یہ قوانین فطرت درست طور پر کام کرتے رہیں تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اللہ کی مشیت ان قوانین کے ہاتھ میں قید ہوگئی۔ جس وقت بھی اللہ کی مشیت یہ چاہے کہ کوئی واقعہ ان قوانین کے خلاف وقوع پذیر ہوجائے تو ایسا ہوسکتا ہے۔ خصوصاً ان قوانین کے مطابق جو جزئی واقعہ بھی ہوتا ہے۔ (اگر کوئی پتا بھی گرتا ہے) تو وہ اللہ کے نظام تقدیر کے مطابق واقع ہوتا ہے۔ یوں نہیں ہے کہ یہ اسباب و مسببات اب مشیت الہیہ سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں نظام قوانین طبعی بھی مشیت کا پابند ہے لہذا جو جزئی واقعہ قوانین طبعیہ کے مطابق ہوتا ہے یا خلاف یہ اللہ کے علم و قدر کے مطابق ہوتا ہے۔ لہذا مطابق عادت واقعہ اور خارق عادت واقعہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اس نظام کائنات میں خود کاری نہیں ہے جیسا کہ بعض سطح میں لوگوں کو نظر آتا ہے۔ بعض فلاسفہ نے اب اس بات کو سمجھنا شروع کردیا ہے۔ (دیکھئے فی ظلال القرآن ج 7، ص 520، 522)

بہرحال بنی اسرائیل کی ایک ساحلی آبادی پر یہ واقعہ پیش آیا۔ چناچہ اس آزمائش میں بعض لوگ گر جاتے ہیں۔ ان کے عزائم شکست کھا جاتے ہیں۔ وہ اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے اپنے پختہ عہد کو بھول جاتے ہیں ، یہ حیلہ سازی شروع کردیتے ہیں اور حیلے بہانے یہودیوں کا پرانا طریقہ ہے۔ جب دلوں میں کجی آجائے اور خدا خوفی ختم ہوجائے تو انسان حیلے بہانے ہی تلاش کرتا ہے۔ پھر لوگ نصوص کی عبادات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور مقصد اور معانی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی قانون کی حفاظت اس کے دفعات و عبارات کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ قانون اور ضابطے کی پابندی دلوں کے ساتھ ہوتی ہے اور دل تب قانون کی پابندی کرتے جب ان کے اندر تقوی اور خشیت ہو۔ ایک متقی اور خدا سے ڈرنے والا دل ہی قانون کی حفاظت کرسکتا ہے۔ اور جب کوئی قوم دل و جان سے کسی قانون کی حفاظت کرنا چاہے تو اس کے بارے میں لوگ حیلے بہانے نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر کسی قانون کی حفاظت صرف حکومتی ذرائع سے مغلوب ہو ، محض خوف سزا سے پابندی کرائی جائے تو اس طرح کبھی نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی حکومت ہر فرد پر ایک نگراں مقرر کردے۔ اور وہ نگراں تنہائی اور مجمع دونوں میں پوری پوری نگرانی کرسکتا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ وہ تمام قانونی اسکیمیں فیل ہوجاتی ہیں جن کی قوت نافذہ لوگوں کا دلی تقویٰ اور دلی میلان نہ ہو اور اسی طرح وہ تمام نظامہائے زندگی ناکام رہتے ہیں جو بعض انسانوں نے دوسرے انسانوں کے لیے بنائے ہیں اور جس میں قوت نافذہ خوف خدا پر مبنی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام ادارے ناکام ہوجاتے ہیں جن کے ذمے قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔ پھر ان اداروں پر نگران ادارے بھی ناکام ہوجاتے ہیں (کرپشن میں ترقی ہوتی ہے اور انٹی کرپشن ادارہ کرپٹ ہوتا ہے) اور ان کا کام اول سے آخر تک سطحی ہوجاتا ہے۔

چناچہ اس گاؤں کے باسیوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کے سلسلے میں حیلہ سازیاں شروع کردیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو گھیرنے کے لیے بند باندھ دیتے اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو یہ لوگ جلدی سے آکر مچھلیاں پکڑ لیتے۔ اب دل کو تسلی یوں دیتے کہ انہوں نے ہفتے کے دن بہرحال مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مچھلیاں بہرحال بندوں کے اندر پانی میں ہوتیں۔ اور ان میں سے اچھے لوگوں کا ایک گروہ سامنے آیا۔ اس نے ان لوگوں پر تنقید کی جو یہ حیلہ سازی کرتے تھے ، یہ لوگ انہیں تلقین کرتے تھے ، خدا سے ڈروا اور ایسا نہ کرو ، اور ایک تیسرا گروہ ایسے نیک لوگوں کا بھی سامنے آگیا جو کہتا کہ یہ تنقید کرنے والے لوگ بےفائدہ کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ جس کام میں پڑگئے ہیں ان کے لیے نصیحت و تنقید سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اللہ نے ان کو سزا دینا اور ہلاک کرنا لکھ دیا ہے۔

آیت 163 وََسْءَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ 7 اب یہ اصحاب سبت کا واقعہ آ رہا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بستی اس مقام پر واقع تھی جہاں آج کل ایلات کی بندر گاہ ہے۔ 1966 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے اسی بندرگاہ کا گھیراؤ کیا تھا ‘ جس کے خلاف اسرائیل نے شدید ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے مصر ‘ شام اور اردن پر حملہ کر کے ان کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ مصر سے جزیرہ نمائے سینا ‘ شام سے جولان کی پہاڑیاں اور اردن سے پورا مغربی کنارہ ‘ جو فلسطین کا زرخیز ترین علاقہ ہے ‘ ہتھیا لیا تھا۔ بہر حال ایلات کی اس بندرگاہ کے علاقے میں مچھیروں کی وہ بستی آباد تھی جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا شُرَّع کے معنی ہیں سیدھے اٹھائے ہوئے نیزے۔ یہاں یہ لفظ مچھلیوں کے لیے آیا ہے تو اس سے منہ اٹھائے ہوئے مچھلیاں مراد ہیں۔ کسی جگہ مچھلیوں کی بہتات ہو اور وہ بےخوف ہو کر بہت زیادہ تعداد میں پانی کی سطح پر ابھرتی ہیں ‘ چھلانگیں لگاتیں ہیں۔ اس طرح کے منظر کو یہاں شُرَّعًاسے تشبیہہ دی گئی ہے۔ یعنی مچھلیوں کی اس بےخوف اچھل کود کا منظر ایسے تھا جیسے کہ نیزے چل رہے ہوں۔ دراصل تمام حیوانات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس سے نواز رکھا ہے۔ ان مچھلیوں کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ ہفتے کے دن خاص طور پر ہمیں کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ اس لیے اس دن وہ بےخوف ہو کر ہجوم کی صورت میں اٹھکیلیاں کرتی تھیں ‘ جبکہ وہ لوگ جن کا پیشہ ہی مچھلیاں پکڑنا تھا وہ ان مچھلیوں کو بےبسی سے دیکھتے تھے ‘ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ‘ کیونکہ یہود کی شریعت کے مطابق ہفتے کے دن ان کے لیے کاروبار دنیوی کی ممانعت تھی۔وَّیَوْمَ لاَ یَسْبِتُوْنَلا لاَ تَاْتِیْہِمْ ج ہفتے کے باقی چھ دن مچھلیاں ساحل سے دور گہرے پانی میں رہتی تھیں ‘ جہاں سے وہ انہیں پکڑ نہیں سکتے تھے ‘ کیونکہ اس زمانے میں ابھی ایسے جہاز اور آلات وغیرہ ایجاد نہیں ہوئے تھے کہ وہ لوگ گہرے پانی میں جا کر مچھلی کا شکار کرسکتے۔کَذٰلِکَ ج نَبْلُوْہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۔ آئے دن کی نا فرمانیوں کی وجہ سے ان کو اس آزمائش میں ڈالا گیا کہ شریعت کے حکم پر قائم رہتے ہوئے فاقے برداشت کرتے ہیں یا پھر نافرمانی کرتے ہوئے شریعت کے ساتھ تمسخر کی صورت نکال لیتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اس قانون میں چور دروازہ نکال لیا۔ وہ ہفتے کے روز ساحل پر جا کر گڑھے کھودتے اور نالیوں کے ذریعے سے انہیں سمندر سے ملادیتے۔ اب وہ سمندر کا پانی ان گڑھوں میں لے کر آتے تو پانی کے ساتھ مچھلیاں گڑھوں میں آ جاتیں اور پھر وہ ان کی واپسی کا راستہ بند کردیتے۔ اگلے روز اتوار کو جا کر ان مچھلیوں کو آسانی سے پکڑ لیتے اور کہتے کہ ہم ہفتے کے روز تو مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس طرح شریعت کے حکم کے ساتھ انہوں نے یہ مذاق کیا کہ اس حکم کی اصل روح کو مسنح کردیا۔ حکم کی اصل روح تو یہ تھی کہ چھ دن دنیا کے کام کرو اور ساتواں دن اللہ کی عبادت کے لیے وقف رکھو ‘ جبکہ انہوں نے یہ دن بھی گڑھے کھودنے ‘ پانی کھولنے اور بند کرنے میں صرف کرنا شروع کردیا۔ اب اس آبادی کے لوگ اس معاملے میں تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ تو براہ راست اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھا۔ جب کہ دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل تھے جو اس گناہ میں ملوث تو نہیں تھے مگر گناہ کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ اس معاملے میں یہ لوگ خاموش اور غیر جانبدار رہے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو گناہ سے بچے بھی رہے اور پہلے گروہ کے لوگوں کو ان حرکتوں سے منع کرکے باقاعدہ نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ اب اگلی آیت میں دوسرے اور تیسرے گروہ کے افراد کے درمیان مکالمہ نقل ہوا ہے۔ غیر جانبدار رہنے والے لوگ نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ اللہ کے نافرمان لوگ تو تباہی سے دو چار ہونے والے ہیں ‘ انہیں سمجھانے اور نصیحتیں کرنے کا کیا فائدہ ؟

تصدیق رسالت سے گریزاں یھودی علماء پہلے آیت (وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ 65ۚ) 2۔ البقرة :65) گذر چکی ہے اسی واقعہ کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان کے پہلے باپ دادوں کی بابت سوال کیجئے جنہوں نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی تھی پس ان کی سرکشی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے ہماری اچانک پکڑ ان پر مسلط ہوئی۔ اس واقعہ کو یاد دلا کہ یہ بھی میری ناگہانی سزا سے ڈر کر اپنی اس ملعون صفت کو بدل دیں اور آپ کے جو اوصاف ان کی کتابوں میں ہیں انہیں نہ چھپائیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح ان پر بھی ہمارے عذاب ان کی بیخبر ی میں برس پڑیں۔ ان لوگوں کی یہ بستی بحر قلزم کے کنارے واقع تھی جس کا نام آئلہ تھا۔ مدین اور طور کے درمیان یہ شہر تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بستی کا نام مدین تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام متنا تھا۔ یہ مدین اور عینوں کے درمیان تھا۔ انہیں حکم ملا کہ یہ ہفتہ کے دن کی حرمت کریں اور اس دن شکار نہ کھیلیں، مچھلی نہ پکڑیں۔ ادھر مچھلیوں کی بحکم الٰہی یہ حالت ہوئی کہ ہفتے والے دن تو چڑھی چلی آتیں کھلم کھلا ہاتھ لگتیں تیرتی پھرتیں سب طرف سے سمٹ کر آ جاتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا ایک مچھلی بھی نظر نہ آتی بلکہ تلاش پر بھی ہاتھ نہ لگتی۔ یہ ہماری آزمائش تھی کہ مچھلیاں ہیں تو شکار منع اور شکار جائز ہے تو مچھلیاں ندارد۔ چونکہ یہ لوگ فاسق اور بےحکم تھے اس لئے ہم نے بھی ان کو اس طرح آزمایا آخر ان لوگوں نے حیلہ جوئی شروع کی ایسے اسباب جمع کرنے شروع کئے جو باطن میں اس حرام کام کا ذریعہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لئے اللہ کے حرام کو حلال نہ کرلینا۔ اس حدیث کو امام ابن بطو لائے ہیں اور اس کی سند نہایت عمدہ ہے اس کے راوی احمد ہیں۔ محمد بن مسلم کا ذکر امام خطیب ؒ نے اپنی تاریخ میں کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے باقی اور سب راوی بہت مشہور ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ایسی بہت سی سندوں کو امام ترمذی ؒ نے صحیح کہا ہے۔

آیت 163 - سورہ اعراف: (واسألهم عن القرية التي كانت حاضرة البحر إذ يعدون في السبت إذ تأتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعا ويوم لا يسبتون...) - اردو