سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 171 (آیات 160 سے 163 تک)

وَقَطَّعْنَٰهُمُ ٱثْنَتَىْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ إِذِ ٱسْتَسْقَىٰهُ قَوْمُهُۥٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَ ۖ فَٱنۢبَجَسَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْغَمَٰمَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا۟ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقْنَٰكُمْ ۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ ٱسْكُنُوا۟ هَٰذِهِ ٱلْقَرْيَةَ وَكُلُوا۟ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا۟ حِطَّةٌ وَٱدْخُلُوا۟ ٱلْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيٓـَٰٔتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ ٱلْمُحْسِنِينَ فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ ٱلَّذِى قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُوا۟ يَظْلِمُونَ وَسْـَٔلْهُمْ عَنِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ ٱلْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِى ٱلسَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ
171

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی اور جب موسیٰؑ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی ہم نے اُن پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اتارا کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaqattaAAnahumu ithnatay AAashrata asbatan omaman waawhayna ila moosa ithi istasqahu qawmuhu ani idrib biAAasaka alhajara fainbajasat minhu ithnata AAashrata AAaynan qad AAalima kullu onasin mashrabahum wathallalna AAalayhimu alghamama waanzalna AAalayhimu almanna waalssalwa kuloo min tayyibati ma razaqnakum wama thalamoona walakin kanoo anfusahum yathlimoona

یہ اللہ کی خاص مہربانی تھی جس کا سایہ حضرت موسیٰ پر قائم و دائم رہا۔ انہوں نے بچھڑے کی عبادت کرکے کفر کیا اور اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرکے غلطی معاف کروائی۔ انہوں نے اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا اور زلزلے کی وجہ سے ان کی جان نکل گئی۔ اور حضرت موسیٰ کی آہ وزاری کے بعد دوبارہ ان کو زندگی ملی۔ اسی طرح ان کو 12 گروہوں میں ان کی شاخوں کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا۔ ان کے 12 گروہ تھے اور ہر گروہ حضرت یعقوب کے پوتوں میں سے کسی ایک کی شاخ تھا۔ ان لوگوں نے قبائل کی طرح اپنے سلسلہ انساب کو اچھی طرح محفوظ کر رکھا تھا۔

وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا۔ اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کرکے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی۔

معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ان بارہ فرقوں میں محض انتظامی اعتبار سے پانی کی تقسیم کے لیے بانٹا گیا تاکہ وہ ایک دوسرے کے حقوق پر دست درازی نہ کریں۔

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰي مُوْسٰٓي اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۭقَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُم۔ اور جب موسیٰ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ چناچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کرلی۔

ان پر بادلوں کا سایہ اس لیے کیا گیا کہ صحرا کے اندر بےپناہ تپش تھی۔ من ایک قسم کا بری شہد ہے اور سلوی ایک چربہ پرندہ ہوتا ہے۔ اس طرح پانی فراہم کرنے کے بعد ان کے لیے زندگی کی تمام ضروریات فراہم ہوگئیں۔

وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭكُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭوَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ۔ ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ان پر من وسلوی اتارا۔ " کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں " مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے اوپر ظلم کرتے رہے "

یہاں ان کو حکم دیا گیا کہ تمام طیبات کو کھاؤ، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک ان پر ، ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے بعض طیبات کو حرام نہ کیا گیا تھا۔

ان کے ساتھ یہ تمام مراعات بالکل واضح ہیں لیکن یہ لوگ بہرحال بدفطرت تھے اور ہر وقت معصیت اور نافرمانی کے لیے تیار رہتے تھے۔ اور اس آیت کے آخری حصے وما ظلمونا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام انعامات و اکرامات ، ان کے لیے معجزانہ انداز میں چشمے نکالنے اور حضرت موسیٰ کے عصا مارنے کے نتیجے میں 21 چشمے ابل پڑنے ، اور تپتے ہوئے صحرا میں ان پر بادلوں کے سائے اور پھر صحرا میں اس قدر قابل فخر غذا فراہم کرنے کے باوجود انہوں نے " آپ اپنے اوپر ظلم کیا " یعنی وہ کفر و ظلم کرکے خود اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے اور خود اپنے آپ کو سزا و عذاب کا مستحق ٹھہرا رہے تھے۔

عنقریب سیاق کلام میں ان کے ظلم کے کچھ نمونے آئیں گے۔ مثلا اللہ کے احکام کی نافرمانی کرنا ، ان سے پہلو تہی کرنا ، یہ سب کام وہ اپنے خلاف کرتے تھے ، اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے ، اللہ تو غنی بادشاہ ہے۔ اگر تمام مخلوقات اس کی نافرمانی کرے تو اس کی بادشاہت میں کچھ کمی نہیں آتی۔ اور اگر تمام مخلوقات مطیع فرمان ہوجائے تو اللہ کی بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ معصیتوں کا ارتکاب کرکے در اصل وہ اپنا ہی گھاٹا کرتے ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ اِس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے حسب منشا روزی حاصل کرو اور حطۃ حطۃ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qeela lahumu oskunoo hathihi alqaryata wakuloo minha haythu shitum waqooloo hittatun waodkhuloo albaba sujjadan naghfir lakum khateeatikum sanazeedu almuhsineena

اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ بنی اسرائیل اللہ کے انعامات و اکرامات کے جواب میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اور ان کے کج رو قدم کس طرح کی روش اختیار کرتے ہیں۔

۔۔۔

انہوں نے بچھڑے کی عبادت کی اور اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ انہوں نے اللہ کو دیکھنا چاہا اور زلزلے سے جان ہی چلی گئی۔ پھر اللہ نے انہیں معاف کرکے دوبارہ زندہ کیا۔ اللہ نے ان پر بہت بڑے انعامات کیے۔ لیکن دیکھیے ان کی کج رو طبیعت صراط مستقیم کی راہ پر جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بغیر جواز کے انہوں نے نافرمانی شروع کردی۔ بات کو بدلنے کی جسارت کی۔ انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اس شہر میں داخل ہوجاؤ، یہ شہر تمہارا ہے ، یہ کون سا شہر تھا ، اس کا یہاں نام نہیں لیا گیا ، کیونکہ سیاق کلام میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ شرط صرف یہ عائد کی گئی کہ اس شہر میں داخل ہوتے وقت ایک مخصوص دعا مخصوص کلمات کی صورت میں پڑھتے جاؤ، اور اس شہر میں داخل ہوتے وقت سجدہ ریز ہوتے جاؤ اور تمہیں جو فتح و نصرت عطا ہوئی اس پر شکر ادا کرو ، بعینہ اسی طرح جس طرح حضور اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تھے اور آپ اپنی سواری کے اوپر سجدہ ریز تھے۔ ان لوگوں سے اللہ وعدہ کر رہے تھے کہ اگر تم اس حالت میں اس شہر میں داخل ہوگے تو اللہ تمہاری تمام غلطیاں معاف کردے گا اور اگر تم م میں سے کوئی مزید نیکی کا راستہ اختیار کرے گا تو اللہ مزید بارش کرے گا اپنے انعامات کی۔ لیکن ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ ان میں بعض نے گستاخانہ انداز میں دعا کے الفاظ ہی بدل دئیے اور بعض نے داخلے کے لیے مقرر شکل بدل دی۔ انہوں نے یہ نافرمانی کیوں کی ؟ الفاظ بدلنے یا سجدہ ریز نہ ہونے سے انہیں کیا فائدہ مل رہا تھا ؟ محض سرکشی اور کج مزاجی کی تسکین !

اردو ترجمہ

مگر جو لوگ اُن میں سے ظالم تھے اُنہوں نے اُس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی بدل ڈالا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabaddala allatheena thalamoo minhum qawlan ghayra allathee qeela lahum faarsalna AAalayhim rijzan mina alssamai bima kanoo yathlimoona

فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ الَّذِيْ قِيْلَ لَهُمْ ۔ مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی ، بدل ڈالا۔

لہذا اب ان پر عالم بالا کی طرف سے عذاب آتا ہے ، وہ اللہ جو ان پر من وسلوی اتار رہا تھا ، اور ان پر اس کے بھیجے ہوئے بادل سایہ فگن تھے ، اب ان پر عذاب نازل فرما رہا ہے۔

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ ۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔

اس طرح ان میں جنہوں نے ظلم کیا یعنی کفر کیا انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ، کیونکہ وہ عذاب الٰہی کے مستحق ٹھہرے۔ اس بار قرآن مجید نے اس عذاب کی تصریح نہیں کی جو انہیں دیا گیا۔ کیونکہ عذاب کے تعین کے بغیر ہی اس قصے کی غرض وغایت پوری ہوجاتی ہے۔ قصے سے اصل غرض وغایت یہ بتانا ہے کہ اللہ کی معصیت کرنے والے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں اور اللہ کا ڈراوا حقیقت بن جاتا ہے اور کوئی نافرمان اللہ کے انصاف سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔

اردو ترجمہ

اور ذرا اِن سے اُ س بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر اُن کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waisalhum AAani alqaryati allatee kanat hadirata albahri ith yaAAdoona fee alssabti ith tateehim heetanuhum yawma sabtihim shurraAAan wayawma la yasbitoona la tateehim kathalika nabloohum bima kanoo yafsuqoona

اب پھر بنی اسرائیل معصیت اور سرکشی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس بار وہ کھلے بندے احکام الٰہی کی خلاف ورزی نہیں کر رہے بلکہ تاویل سے کام لے رہے اور احکام سے گلو خلاصی کر رہے ہیں۔ جب ان کو آزمایا جاتا ہے تو صبر نہیں کرتے کیونکہ ابتلاء اور مشکلات پر وہ لوگ صبر کرتے ہیں جن کی طبیعت سنجیدہ ہو اور جو ذاتی خواہشات اور ہر قسم کی لالچ کے مقابلے میں ضبط رکھتے ہوں۔

۔۔

یہاں قرآن نے بنی اسرائیل کے احوال ماضی کے بیان کو چھوڑ کر ، اب ان بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرنا شروع کیا ہے جو سابقہ بنی اسرائیل کی اولاد تھے اور حضور کے دور میں موجود تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں بھی تھے۔ یہ آیات آیت واذ نتقنا الجبل فوقہم تک مدنی آیات ہیں۔ یہ مدینہ میں یہودیون کے ساتھ مکالمے کے طور پر نازل ہوئیں اور انہیں مضمون کے اعتبار سے اس مکی سورت میں رکھ دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا مضمون مکمل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ان سے اس واقعہ کے بارے میں دریافت کریں جو ان کے ہاں بہت ہی مشہور و معروف ہے اور ان کی تاریخ میں درج ہے۔ قرآن کریم اگلے اور پچھلے بنی اسرائیل کو ایک ہی امت سمجھتا ہے۔ ان کو وہ جرائم بھی یاد دلاتا ہے جو مختلف ادوار میں ان سے سرزد ہوئے اور اس کے بدلے میں اللہ نے انہیں بندر بنا دیا اور ان پر مسخ جیسا عذاب نازل ہوا۔ ان پر ذلت اور اللہ کا غضب مسلط ہوگئے۔ ہاں ان سب عذابوں سے وہ لوگ بہرحال محفوظ رہے ہوں گے جنہوں نے نبی آخر الزمان کی مطابقت اختیار کی اور اس کی وجہ سے ان کے کاندھوں سے بوجھ اتر گئے اور جو بیڑیاں انہیں لگی ہوئی تھیں ، وہ کھل گئیں۔

سمندر کے کنارے والی بستی کون سی تھی۔ قرآن نے اس کا نام نہیں لیا کیونکہ نام لینے کی ضرورت ہی نہ تھی اور گاؤں کا نام مخاطبین کے ذہنوں میں تھا۔ اس واقعہ کے کردار بنی اسرائیل کے سرکردہ لوگ تھے اور یہ کسی ساحلی شہر میں آباد تھے۔ بنی اسرائیل نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہفتے میں ان کے لیے ایک چھٹی کا دن مقرر کیا جائے جو آرام اور عبادت کا دن ہو۔ اور اس میں ان کے لیے معاشی سرگرمیاں منع ہوں۔ ہفتے کا دن ان کے لیے ایسا دن مقرر کیا گیا۔ اب اللہ نے اس دن کے بارے میں انہیں آزمائش میں ڈال کر یہ سمجھانا چاہا کہ وہ زندگی کی دلکشیوں اور لالچوں سے کس طرح چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اور بنی اسرائیل کے لیے یہ ضروری بھی تھا اس لیے کہ وہ ایک طویل عرصے تک غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے تھے اور غلاموں کے ضمیر بدل جاتے ہیں اور ان کے اندر اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ذلت اور غلامی سے بدنی نجات کے بعد یہ ضروری ہے کہ انسان ذہناً اور اخلاقاً بھی غلامی سے نجات پا جائے تاکہ وہ صحیح اور صالح زندگی بسر کرسکے۔ خصوصاً وہ لوگ جو داعی کے مقام پر فائز ہوں۔ ان کے لیے تو ایسی اخلاقی تربیت فرض عین ہے۔ پھر خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کے ذمے خلافت فی الارض کی ذمہ داری بھی ہے اور وہ مناصب حکمرانی پر فائز ہوں۔ ارادے کی پختگی اور نفس پر ضطب کے معاملے میں پہلی آزمائش آدم و حوا کی ہوئی اور ان سے لغزش ہوگئی اور انہوں نے شیطان کے ورغلانے کی وجہ سے شجرۂ خلد کو چکھ لیا اور یہ لالچ کیا کہ ان کی حکمرانی دائمی ہوجائے اور ان کے بعد بھی ہر وہ جماعت جسے اللہ نے منصب خلافت فی الارض عطا کیا اسے آزمایا گیا۔ مختلف اقوام کو مختلف انداز اور مختلف حالات میں ضرور آزمایا گیا۔

لیکن اس آزمائش میں بنی اسرائیل پورے نہ اترے۔ اس لیے کہ وہ اس سے قبل بار بار وعدہ خلافی کرچکے تھے اور بار بار انہوں نے سرکشی اختیار کی تھی۔ آزمائش یوں ہوئی کہ ہفتے کے روز مچھلیاں ساحل کے قریب آجاتیں۔ ان کا شکار سہل ہوجاتا ، لیکن وہ یہ مچھلیاں اس لیے نہ پکڑ سکتے تھے کہ ہفتے کو شکار کرنا حرام تھا۔ اور اس حرمت میں خود ان کی خواہش شامل تھی۔ جب ہفتہ نہ ہوتا اور وہ شکار کے لیے نکلتے تو مچھلیاں قریب نہ ہوتیں جیسا کہ ہفتے کو وہ دیکھا کرتے تھے۔ یہ وہ بات تھی جسے حضور اکرم کے ذریعے اللہ انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ذرا یاد کریں کہ انہوں نے اس حرمت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ۔ اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سب کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔

سوال یہ ہے کہ مچھلیوں کا یہ واقعہ کیسے پیش آگیا ، تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ خارق عادت اور ایک غیر معمولی واقعہ تھا کہ مچھلیاں ساحل کے قریب بڑی تعداد میں دوڑتی پھرتیں اور اگر کوئی پکڑتا تو بسہولت پکڑ سکتا۔ آج کل بعض لوگ خود اللہ کے جاری کیے ہوئے قوانین کونیہ کو قوانین طبعیہ کا نام دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی تو یہ ان کا مجرد دعویٰ ہے۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق بات ایسی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ نے خود اس کائنات کو بنایا ہے اور اس کے اندر جو طبعی قوانین جاری کیے ہیں وہ اس نے یہاں ودیعت کیے ہیں۔ یہ اللہ کی مشیت ہے۔ اللہ کی یہ مشیت خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پابند نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف نہ جاسکتی ہو۔ ان قوانین کے بعد بھی مشیت الہیہ آزاد ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے حقیقی علم دیا ہے وہ اس نکتے سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر اللہ کی حکمت اور مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ انسانوں کی بھلائی اس میں ہے کہ یہ قوانین فطرت درست طور پر کام کرتے رہیں تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اللہ کی مشیت ان قوانین کے ہاتھ میں قید ہوگئی۔ جس وقت بھی اللہ کی مشیت یہ چاہے کہ کوئی واقعہ ان قوانین کے خلاف وقوع پذیر ہوجائے تو ایسا ہوسکتا ہے۔ خصوصاً ان قوانین کے مطابق جو جزئی واقعہ بھی ہوتا ہے۔ (اگر کوئی پتا بھی گرتا ہے) تو وہ اللہ کے نظام تقدیر کے مطابق واقع ہوتا ہے۔ یوں نہیں ہے کہ یہ اسباب و مسببات اب مشیت الہیہ سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں نظام قوانین طبعی بھی مشیت کا پابند ہے لہذا جو جزئی واقعہ قوانین طبعیہ کے مطابق ہوتا ہے یا خلاف یہ اللہ کے علم و قدر کے مطابق ہوتا ہے۔ لہذا مطابق عادت واقعہ اور خارق عادت واقعہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اس نظام کائنات میں خود کاری نہیں ہے جیسا کہ بعض سطح میں لوگوں کو نظر آتا ہے۔ بعض فلاسفہ نے اب اس بات کو سمجھنا شروع کردیا ہے۔ (دیکھئے فی ظلال القرآن ج 7، ص 520، 522)

بہرحال بنی اسرائیل کی ایک ساحلی آبادی پر یہ واقعہ پیش آیا۔ چناچہ اس آزمائش میں بعض لوگ گر جاتے ہیں۔ ان کے عزائم شکست کھا جاتے ہیں۔ وہ اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے اپنے پختہ عہد کو بھول جاتے ہیں ، یہ حیلہ سازی شروع کردیتے ہیں اور حیلے بہانے یہودیوں کا پرانا طریقہ ہے۔ جب دلوں میں کجی آجائے اور خدا خوفی ختم ہوجائے تو انسان حیلے بہانے ہی تلاش کرتا ہے۔ پھر لوگ نصوص کی عبادات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور مقصد اور معانی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی قانون کی حفاظت اس کے دفعات و عبارات کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ قانون اور ضابطے کی پابندی دلوں کے ساتھ ہوتی ہے اور دل تب قانون کی پابندی کرتے جب ان کے اندر تقوی اور خشیت ہو۔ ایک متقی اور خدا سے ڈرنے والا دل ہی قانون کی حفاظت کرسکتا ہے۔ اور جب کوئی قوم دل و جان سے کسی قانون کی حفاظت کرنا چاہے تو اس کے بارے میں لوگ حیلے بہانے نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر کسی قانون کی حفاظت صرف حکومتی ذرائع سے مغلوب ہو ، محض خوف سزا سے پابندی کرائی جائے تو اس طرح کبھی نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی حکومت ہر فرد پر ایک نگراں مقرر کردے۔ اور وہ نگراں تنہائی اور مجمع دونوں میں پوری پوری نگرانی کرسکتا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ وہ تمام قانونی اسکیمیں فیل ہوجاتی ہیں جن کی قوت نافذہ لوگوں کا دلی تقویٰ اور دلی میلان نہ ہو اور اسی طرح وہ تمام نظامہائے زندگی ناکام رہتے ہیں جو بعض انسانوں نے دوسرے انسانوں کے لیے بنائے ہیں اور جس میں قوت نافذہ خوف خدا پر مبنی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام ادارے ناکام ہوجاتے ہیں جن کے ذمے قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔ پھر ان اداروں پر نگران ادارے بھی ناکام ہوجاتے ہیں (کرپشن میں ترقی ہوتی ہے اور انٹی کرپشن ادارہ کرپٹ ہوتا ہے) اور ان کا کام اول سے آخر تک سطحی ہوجاتا ہے۔

چناچہ اس گاؤں کے باسیوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کے سلسلے میں حیلہ سازیاں شروع کردیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو گھیرنے کے لیے بند باندھ دیتے اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو یہ لوگ جلدی سے آکر مچھلیاں پکڑ لیتے۔ اب دل کو تسلی یوں دیتے کہ انہوں نے ہفتے کے دن بہرحال مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مچھلیاں بہرحال بندوں کے اندر پانی میں ہوتیں۔ اور ان میں سے اچھے لوگوں کا ایک گروہ سامنے آیا۔ اس نے ان لوگوں پر تنقید کی جو یہ حیلہ سازی کرتے تھے ، یہ لوگ انہیں تلقین کرتے تھے ، خدا سے ڈروا اور ایسا نہ کرو ، اور ایک تیسرا گروہ ایسے نیک لوگوں کا بھی سامنے آگیا جو کہتا کہ یہ تنقید کرنے والے لوگ بےفائدہ کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ جس کام میں پڑگئے ہیں ان کے لیے نصیحت و تنقید سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اللہ نے ان کو سزا دینا اور ہلاک کرنا لکھ دیا ہے۔

171