سورہ اعراف: آیت 138 - وجاوزنا ببني إسرائيل البحر فأتوا... - اردو

آیت 138 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَجَٰوَزْنَا بِبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱلْبَحْرَ فَأَتَوْا۟ عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰٓ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا۟ يَٰمُوسَى ٱجْعَل لَّنَآ إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ ءَالِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ

اردو ترجمہ

بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر اُن کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی کہنے لگے، "اے موسیٰؑ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں" موسیٰؑ نے کہا "تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajawazna bibanee israeela albahra faataw AAala qawmin yaAAkufoona AAala asnamin lahum qaloo ya moosa ijAAal lana ilahan kama lahum alihatun qala innakum qawmun tajhaloona

آیت 138 کی تفسیر

درس نمبر 80 ایک نظر میں

اس سبق میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کی ایک دوسری کڑی چلتی ہے۔ اب آپ کا معاملہ اپنی قوم بنی اسرائیل سے ہے۔ یہ لوگ اب دشمن سے نجات پا چکے ہیں۔ اللہ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اور وہ تمام ترقی اور تعمیر جسے وہ سب کچھ سمجھتے تھے ، تباہ و برباد کردی گئی ہے۔ آج حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کے طاغوتی نظام سے واسطہ نہیں پڑا ہوا ، طاغوت کے ساتھ جو معرکہ تھا وہ تو سر ہوچکا ہے۔ آج آپ کو ایک نئے محاذ میں لڑنا ہے۔ انسانی شخصیت کے اندر جو جاہلیت رچی بسی ہوتی ہے۔ آج اس کے ساتھ معرکہ درپیش ہے۔ آج حضرت موسیٰ اس ذلت اور پستی سے برسر پیکار ہیں جو بنی اسرائیل کی شخصیت میں ، دور غلامی کے اندر تہ بہ تہ بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کے مزاج میں کجی آگئی ہے ، ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوگئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ سخت بزدل نظر آتے ہیں۔ زندگی اور بلند تر زندگی کی راہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان کے انگیز کرنے میں وہ نہایت ہی کمزور ہیں۔ اور وہ شخصی میلانات کے بندے ہوگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ذلت ، غلامی اور مظلومیت انسان کی شخصیت کو تباہ کردیتی ہیں۔ طویل عرصے تک خائف زندگی گزارنا۔ ، خفیہ سرگرمیاں ، کج فطرتی اور تشدد اور عذاب سے بچنے کے لیے مخفی رہنا۔ اور رات کے اندھیرے میں کام کرنا ہر وقت تشدد اور مصیبت میں ابتلاء کا ڈر ایک ایسا ماحول ہوتا ہے جس سے انسان کی فطرت میں سخت بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔

بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک سخت ترین تشدد کا شکار رہے تھے۔ طویل عرصے تک ان پر خوف ، ڈر ، بت پرستی اور فرعونیت کا سایہ رہا۔ فرعون کی ان بچیوں کو زندہ رکھتا اور لڑکوں کو ذبح کردیتا۔ یہ سنگ دلانہ تشدد کبھی موقوف بھی ہوتا لیکن ذلت غلامی اور توہین آمیز زندگی تو مستقلاً ان کی قسمت میں تھی۔

ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوگیا تھا۔ ان کا مزاج غیر معتدل ہوگیا تھا۔ فطرت میں کجی داخل ہوگئی تھی۔ خیالات بگڑ گئے تھے۔ ان کی نفسیات میں ذلت ، بزدلی ، کینہ پروری ، نفرت رچی بسی تھی۔ جب بھی کوئی انسانی طبقہ اس قسم کے مظالم کا شکار ہو تو ان میں اسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔

حضرت عمر ؓ کو اللہ تعالیٰ نے ربانی بصیرت عطا کی تھی۔ آپ انسانوں کی نفسیات سے اچھی طرح باخبر تھے۔ انہوں نے اپنے تمام حکام سے کہہ رکھا تھا اور یہ وصیت کردی تھی " آپ لوگوں کے چہرے پر مار مار کر سزا مت دو ، اس طرح تم لوگوں کو ذلیل کردوگے " ان کو علم تھا کہ چہرے پر مار کی وجہ سے لوگ ذلیل ہوجاتے ہیں اور اسلام کی تو یہ بنیادی پالیسی ہے کہ رعیت کو ذلیل و خوار نہیں کرنا ہے ۔ کیونکہ اسلامی مملکت میں لوگ باعزت تصور ہوتے ہیں۔ اسلام کی پالیسی اور خواہش یہ ہے کہ لوگ باعزت ہوں۔ اور حکام کو اس بات سے منع کیا گیا کہ وہ لوگوں کو مار مار کر ذلیل کریں۔ اسلام نے یہ کہا کہ لوگ حکام کے غلام نہیں ہوتے۔ وہ اللہ کے غلام اور معزز لوگ ہوتے ہیں۔ وہ تمام غیر اللہ سے محترم ہیں۔

فرعونیت کے طاغوتی نظام میں فرعونیوں نے بنی اسرائیل کو مار مار کر ذلیل کردیا تھا۔ بلکہ ان پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کے مقابلے میں یہ مار بالکل معمولی بات نظر آتی تھی۔ بنی اسرائیل کے بعد تمام مصری قوم کو بعد میں آنے والے حکمرانوں نے مار مار کر ذلیل کیا ، فرعونی طاغوت کے بعد رومی طاغوت نے مصریوں کو اسی طرح مار مار کر ذلیل کیا۔ ان مصائب سے مصری قوم کو صرف اسلام نے نجات دی۔ جب اسلام آیا تو اس نے مصری قوم کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نجات دی۔ عمرو ابن العاص حاکم مصر اور فاتح مصر کے بیٹے نے جب ایک قبطی کو صرف ایک کوڑا مارے جانے پر بہت ہی غصہ آیا اور وہ بھی فاتح مصر اور گورنر کے بیٹے کی طرف سے۔ اس نے اونٹنی پر سوار ہوکر ایک ماہ تک سفر کیا اور یہ شکایت حضرت عمر ابن خطاب تک پہنچائی۔ صرف ایک کوڑا مارنے کی شکایت۔ حالانکہ فتح مصر سے پہلے رومیوں کی جانب سے مارے جانے والے کئی کوڑوں پر وہ صبر کرتا تھا۔ یہ تھا اسلامی انقلاب کا معجزہ۔ جس نے قبطیوں کے اندر بھی انقلاب پیدا کردیا۔ اگرچہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ اسلام نے انسانیت کو ذلت و خواری کی جمی ہوئی تہوں کے نیچے سے نکالا اور آزادی دی۔ لوگ اس طرح اٹھے کہ ان کا جسم و روح آزاد ہوگیا اور انہوں نے اپنے آپ سے ذلت کے غبار کو ایک دم جھاڑ دیا۔ کسی غیر اسلامی نظام نے انسانیت کو اس قدر آزادی نہیں دی تھی۔

اب حضرت موسیٰ کا واسطہ اس مہم سے تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کی شخصیت سے صدیوں کی غلامی وجہ سے اور طاغوتی نظام کے تحت ذلت کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوریوں کو دور کرنا تھا۔ بنی اسرائیل مصر سے نکل چکے تھے اور انہوں نے سمندر کو عبور کرلیا تھا۔ قرآن کریم کے بیان کردہ قصص میں ان لوگوں کی شخصیات صاف صاف نظر آتی ہیں۔ یہ غلامی کے گرد و غبار سے اٹی ہوئی ہیں۔

دوسری جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آثار جاہلیت سے مقابلہ ہے۔ حضرت موسیٰ کا مقابلہ اب ان لوگوں کی کٹ حجتی ، اخلاقی بےراہ روی ، فکر و نظر کی جہالت سے ہے جو ان کی شخصیت میں ، اس طویل عرصہ اسیری میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھیں۔

اس سلسلے میں ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے حضرت موسیٰ کس قدر ان تھک مصائب برداشت کررہے ہیں۔ ان کو ایسے لوگوں سے واسطہ ہے جن کی فطرت صدیوں تک زمین بوس رہی ہے۔ ان کی حالت یہ تھی جس طرح غلاظت کا کیڑا غلاظت سے نکلنا پسند نہیں کرتا اور ذلت اور غلاظت کو اپنے لیے معمولی سمجھتا ہے۔

موسیٰ (علیہ السلام) کی جدوجہد میں ہر صاحب دعوت کے لیے ایک سبق ہے۔ خصوصاً ایسے صاحب دعوت کے لیے جسے ایسے لوگوں سے واسطہ ہو ، جو صدیوں تک ذلت اور غلامی میں رہے ہوں اور جنہوں نے ایسے طاغوتی نظام میں زندگی بسر کی جو ظالم بھی ہو اور متشدد بھی۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ لوگ یہ بھی جانتے ہوں کہ داعی جس طرف بلا رہا ہے وہ راہ نجات ہے۔ بلکہ وہی راہ نجات ہے لیکن ایک طویل عرصہ عالم ہونے اور مومن ہونے کی وجہ سے ان کے لیے یہ دعوت ایک عادی دعوت بن گئی ہو اور ان کا دین ایک بےروح روسمی دین بن گیا ہو۔

ایسے حالات میں ایک داعی کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ دگنا ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے داعی کے لیے صبر کی بھی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے داعی کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی کج فہمی ، ان کی بد اخلاقی ، ان کے مزاج کی سہل انگاری اور ان کے اقدام کی سست رفتاری پر صبر کرے۔ ہر مرحلے پر ایسے لوگوں میں شکست اور دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ جانے کی خواہشات پر نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ صبر کرے۔

قصہ بنی اسرائیل کو امت مسلمہ کے لیے قرآن کریم میں اسی لیے ثبت کردیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کے لیے اس میں بڑی عبرتیں ہیں اور اسی حکمت کے تحت اسے بار بار مختلف پہلوؤں سے لایا گیا ہے۔ تاکہ امت مسلمہ اس تجربے سے فائدہ اٹھائے اور حضور اکرم ﷺ کے بعد آنے والے تمام داعیوں کے لیے بھی اس قصے میں بڑی مقدار میں زاد راہ موجود ہے۔

درس نمبر 80 تشریح آیات۔ 138 ۔ تا۔ 171

۔۔۔

اس قصے کا یہ ساتواں منظر ہے۔ اس میں بنی اسرائیل اس وقت نظر آتے ہیں جب وہ نجات پا کر بحر قلزم سے اس پار چلے گئے ہیں۔ اب ہمیں فرعونی مناظر کے برعکس اس میں بنی اسرائیل کی سرکش ، معصیت کیش اور نہایت ہی کج مزاج شخصیت کا سامنا ہے۔ اور یہ اخلاقی کمزوریاں ان کے مزاج میں تہ بہ تہ صدیوں کی تاریخ کے دوران جمی ہوئی ہیں۔ اس پر کوئی طویل عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ نے انہیں فرعون سے نجات دی تھی جس نے انہیں خوب ذلیل کرکے رکھا ہوا تھا۔ فرعون کی قوم بھی اس کام میں شریک تھی اور یہ نجات انہیں حضرت موسیٰ کی وجہ سے ملی تھی ، حضرت موسیٰ نے یہ تحریک اللہ رب العالمین کے نام سے چلائی تھی۔ رب العالمین نے ان کے دشمن کو ہلاک کیا اور ان کی نجات کے لیے سمندر کے ٹکڑے کیے اور انہیں اس ذلت آموز زندگی سے نجات دی۔ وہ تو مصر کی بت پرستی اور سرزمین ظلم سے ابھی رہا ہوکر آئے تھے۔ لیکن سمندر کو پار کرتے ہی جب وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے ہیں جس کا ایک بت ہے اور وہ اس کی پوجا کرتی ہے اور ہر شخص اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں مشغول ہے تو وہ جھٹ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان کے لیے بھی ایسا ہی بت تجویز کردیں تاکہ وہ بھی اسی طرح پوجا پاٹ شروع کردیں حالانکہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش خالص نظریہ توحید پر مبنی تھی اور اسی نظریہ کے تحت فرعون کی ہلاکت ہوئی تھی اور ان کو نجات ملی تھی۔

(وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ ) ۔ بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا ، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے " اے موسیٰ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جسیے ان لوگوں کے معبود ہیں۔

متعدی بیماریاں جس طرح جسم کو آ لیتی ہیں اسی طرح روحانی بیماریاں بھی متعدی ہوتی ہیں ، لیکن متعدی بیماریاں تب ہی پھیلتی ہیں جب لوگوں کے اندر ان کے پھیلاؤ کے لیے جراثیم موجود ہوں اور قرآن کریم نے جس طرح بنی اسرائیل کے مزاج کا نہایت ہی سچا ، گہرا اور ہمہ جہت نقشہ کھینچا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ خلاقی اعتبار سے نہایت ہی بودے ، ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست تھے ، وہ گمراہی کو اسی طرح قبول کرتے تھے جس طرح پٹرول کو آگ لگتی ہے۔ وہ اٹھتے ہی گر جاتے تھے ، چند قدم ہی راہ مستقیم پر چلتے تھے کہ اچانک ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیتے تھے ، اس لیے کہ ان کے کلیجے میں گمراہی کے جراثیم داخل ہوچکے تھے۔ وہ سچائی سے دور تھے۔ ان کا احساس مر چکا تھا ، اور ان کا شعور بجھ چکا تھا۔ اچانک جب وہ ایک بت پرست قوم کو بت پرستی میں مشغول دیکھتے ہیں تو وہ حضرت موسیٰ کی بیس یا تئیس سالہ جدوجہد اور اپنی غلامی کی صدیاں بھول جاتے ہیں اور مطالبہ کردیتے ہیں کہ ان کے لیے بھی بت تجویز کیے جائیں۔ سابقہ معجزات کو تو چھوڑ دیں ایک طرف ، ابھی ابھی تو وہ سمندر پھٹا اور بڑے بڑے تودوں سے گزر کر آئے ہیں۔ جس میں ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا دشمن ہلاک کیا گیا۔ فرعون اور اس کا ظالم عملہ سب بت پرست تھے اور وہ بنی اسرائیل کے خلاف فرعون کو اسی بت پرستی کے نام پر ابھارتے تھے۔ وہ اہل فرعون کی یہ باتیں بھول گئے جو وہ کہتے تھے۔ " ا تذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الارض و یذرک و الھتک " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ رہا ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں اور وہ تمہیں اور تمہارے الہوں کو چھوڑ دیں " یہ سب کچھ بھول بھلا کر وہ اپنے نبی اور رسول سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح تمہارے کہنے پر وسرے تمہارے کہنے پر دوسرے معجزات سرزد ہوئے اب اپنے رب سے ہمارے لیے بتوں کی منظوری بھی لے لے تاکہ ہم بھی بت پرستی شروع کردیں۔ اگر یہ لوگ خود ہی بت پرستی شروع کردیتے تو پھر بھی کوئی بات تھی مگر انہیں اس قدر حیا نہ آئی نبی اور رب العالمین سے بت پرستی کی اجازت چاہی لیکن یہ بنی اسرائیل ہیں ، ان سے سب کچھ متوقع ہے۔

اس مطالبے پر حضرت موسیٰ کو بہت غصہ آتا ہے ، جس طرح رب العالمین کے کسی رسول کو اپنے رب کے بارے میں آنا چاہئے۔ اس لیے کہ کوئی بھی رسول عقیدہ توحید کے بارے میں سخت غیرت مند ہوتا ہے اور اس کے لیے شرک ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ چناچہ آپ ان کو ایسا جواب دیتے ہیں جو ان کے لیے مناسب ہے۔ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ۔ " موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو "۔ یہاں ان کی جہالت کو مخصوص نہیں کیا گیا۔ لہذا مفہوم یہ ہوا کہ تم غایت درجے کے جاہل ہو ، اگر یہ علم کے مقابلے میں استعمال ہو تو مراد بےعلمی ہوتی ہے اور اگر یہ غلط عقل کے مقابلے میں آئے تو مراد حماقت ہوتی ہے یعنی تم غایت درجہ کے احمق اور غایت درجے کے کورے اور علم ہو۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عقیدہ توحید سے جو لوگ منحرف ہوتے ہیں وہ جاہل بھی ہوتے ہیں اور احمق بھی ہوتے ہیں اور یہ کہ علم اور سائنس اور عقلمندی انسان کو عقیدہ توحید پر پہنچاتی ہے۔ علم اور عقل کبھی بھی عقیدہ توحید کے سوا کسی اور عقیدہ تک نہیں پہنچ سکتے۔

علم اور عقل تو اس پوری کائنات کا مشاہدہ کرکے یہ شہادت پاتے ہیں کہ اس کا ایک خالق اور مدبر ہے ، یہ خالق اور مدبر ہے بھی وحدہ لاشریک۔ اس لیے کہ اس پوری کائنات کے ضوابط و قوانین اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا مدبر ایک ہے۔ اور جس قدر اس کائنات میں غور و فکر کیا جاتا ہے اور اس کے اندر جستجو کی جاتی ہے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ضوابط و آثار کی یک رنگی دلیل ہے وحدت خالق کی۔ اس سے اعراض اور صرف نظر وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پرلے درجے کے جاہل ہوں یا احمق ہوں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو عالم اور سائنس دان کہتے ہیں۔

آیت 138 وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ بنی اسرائیل خلیج سویز کو عبور کر کے جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوئے تھے۔فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّہُمْ ج۔ بتوں کا اعتکاف کرنے سے مراد بتوں کے سامنے پوری توجہ اور یکسوئی سے بیٹھنا ہے جو بت پرستوں کا طریقہ ہے۔ بت پرستی کے اس فلسفے پر ڈاکٹر رادھا کرشنن 1888 ء تا 1975 ء نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی تصنیفات کے ذریعے ہندوستان کے فلسفے کو زندہ کیا۔ یہ برٹرینڈرسل 1872 ء تا 1970 ء کے ہم عصر تھے اور یہ دونوں اپنے زمانے میں چوٹی کے فلسفی تھے۔ برٹرینڈ رسل ملحد تھا جبکہ ڈاکٹر رادھا کرشنن مذہبی تھا۔ اتفاق سے ان دونوں نے کم و بیش 90 سال کی عمر پائی۔ بت پرستی کے بارے میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جو کسی دیوی یا دیوتا کے نام کے بت بناتے ہیں تو ہم ان بتوں کو اپنے نفع یا نقصان کا مالک نہیں سمجھتے ‘ بلکہ ہمارا اصل مقصد ایک مجسم چیز کے ذریعے سے توجہ مرکوز کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ تصوراتی انداز میں ان دیوتاؤں کے بارے میں مراقبہ کرنا اور پوری توجہ کے ساتھ ان کی طرف دھیان کرنا بہت مشکل ہے ‘ جبکہ مجسمہ یا تصویر سامنے رکھ کر توجہ مرکوز کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی انسانی کمزوری کو علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ میں اس طرح بیان کیا ہے ؂خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر !بہر حال بنی اسرائیل نے اس بت پرست قوم کو اپنے بتوں کی عبادت میں مشغول پایا تو ان کا جی بھی للچانے لگا اور انہیں ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی۔قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰہًا کَمَا لَہُمْ اٰلِہَۃٌ ط۔ اس قوم کی حالت دیکھ کر بنی اسرائیل کا بھی جی چاہا کہ ہمارے لیے بھی کوئی اس طرح کا معبود ہو جس کو سامنے رکھ کر ہم اس کی پوجا کریں۔ چناچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اپنی اسی خواہش کا اظہار کر ہی دیا۔ جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سخت ڈانٹ پلائی :قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ تم کتنی بڑی نادانی اور جہالت کی بات کر رہے ہو !

شوق بت پرستی اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں کے ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہی حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ " ہمارے لئے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں۔ یہ کافر لوگ کنعانی تھے ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے یہ گائے کی شکل بنائے ہوئے اس کی پوجا کر رہے تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اسکے جواب میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض ناواقف ہو۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک و مثیل سے پاک اور بلند تر ہے۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے۔ ابو واقد لیثی ؓ کا بیان ہے کہ جب لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہاں مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لئے بھی مقرر کردیں۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری ذات ہے کہ تم نے قوم موسیٰ جیسی بات کہہ دی کہ ہمارے لئے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو یہ لوگ جس شغل میں ہیں وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں وہ باطل ہے (ابن جریر) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے حضرت ابو واقد لیثی تھے جواب سے پہلے یہ سوال سن کر آنحضرت ﷺ کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ نے فرمایا کہ تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے۔

آیت 138 - سورہ اعراف: (وجاوزنا ببني إسرائيل البحر فأتوا على قوم يعكفون على أصنام لهم ۚ قالوا يا موسى اجعل لنا إلها كما لهم...) - اردو