سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 167 (آیات 138 سے 143 تک)

وَجَٰوَزْنَا بِبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱلْبَحْرَ فَأَتَوْا۟ عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰٓ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا۟ يَٰمُوسَى ٱجْعَل لَّنَآ إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ ءَالِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ إِنَّ هَٰٓؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَٰطِلٌ مَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ قَالَ أَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَٰهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى ٱلْعَٰلَمِينَ وَإِذْ أَنجَيْنَٰكُم مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوٓءَ ٱلْعَذَابِ ۖ يُقَتِّلُونَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَآءَكُمْ ۚ وَفِى ذَٰلِكُم بَلَآءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ۞ وَوَٰعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَٰثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَٰتُ رَبِّهِۦٓ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَٰرُونَ ٱخْلُفْنِى فِى قَوْمِى وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ ٱلْمُفْسِدِينَ وَلَمَّا جَآءَ مُوسَىٰ لِمِيقَٰتِنَا وَكَلَّمَهُۥ رَبُّهُۥ قَالَ رَبِّ أَرِنِىٓ أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَىٰنِى وَلَٰكِنِ ٱنظُرْ إِلَى ٱلْجَبَلِ فَإِنِ ٱسْتَقَرَّ مَكَانَهُۥ فَسَوْفَ تَرَىٰنِى ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُۥ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُۥ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّآ أَفَاقَ قَالَ سُبْحَٰنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُؤْمِنِينَ
167

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر اُن کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی کہنے لگے، "اے موسیٰؑ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں" موسیٰؑ نے کہا "تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajawazna bibanee israeela albahra faataw AAala qawmin yaAAkufoona AAala asnamin lahum qaloo ya moosa ijAAal lana ilahan kama lahum alihatun qala innakum qawmun tajhaloona

درس نمبر 80 ایک نظر میں

اس سبق میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کی ایک دوسری کڑی چلتی ہے۔ اب آپ کا معاملہ اپنی قوم بنی اسرائیل سے ہے۔ یہ لوگ اب دشمن سے نجات پا چکے ہیں۔ اللہ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اور وہ تمام ترقی اور تعمیر جسے وہ سب کچھ سمجھتے تھے ، تباہ و برباد کردی گئی ہے۔ آج حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کے طاغوتی نظام سے واسطہ نہیں پڑا ہوا ، طاغوت کے ساتھ جو معرکہ تھا وہ تو سر ہوچکا ہے۔ آج آپ کو ایک نئے محاذ میں لڑنا ہے۔ انسانی شخصیت کے اندر جو جاہلیت رچی بسی ہوتی ہے۔ آج اس کے ساتھ معرکہ درپیش ہے۔ آج حضرت موسیٰ اس ذلت اور پستی سے برسر پیکار ہیں جو بنی اسرائیل کی شخصیت میں ، دور غلامی کے اندر تہ بہ تہ بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کے مزاج میں کجی آگئی ہے ، ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوگئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ سخت بزدل نظر آتے ہیں۔ زندگی اور بلند تر زندگی کی راہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان کے انگیز کرنے میں وہ نہایت ہی کمزور ہیں۔ اور وہ شخصی میلانات کے بندے ہوگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ذلت ، غلامی اور مظلومیت انسان کی شخصیت کو تباہ کردیتی ہیں۔ طویل عرصے تک خائف زندگی گزارنا۔ ، خفیہ سرگرمیاں ، کج فطرتی اور تشدد اور عذاب سے بچنے کے لیے مخفی رہنا۔ اور رات کے اندھیرے میں کام کرنا ہر وقت تشدد اور مصیبت میں ابتلاء کا ڈر ایک ایسا ماحول ہوتا ہے جس سے انسان کی فطرت میں سخت بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔

بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک سخت ترین تشدد کا شکار رہے تھے۔ طویل عرصے تک ان پر خوف ، ڈر ، بت پرستی اور فرعونیت کا سایہ رہا۔ فرعون کی ان بچیوں کو زندہ رکھتا اور لڑکوں کو ذبح کردیتا۔ یہ سنگ دلانہ تشدد کبھی موقوف بھی ہوتا لیکن ذلت غلامی اور توہین آمیز زندگی تو مستقلاً ان کی قسمت میں تھی۔

ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوگیا تھا۔ ان کا مزاج غیر معتدل ہوگیا تھا۔ فطرت میں کجی داخل ہوگئی تھی۔ خیالات بگڑ گئے تھے۔ ان کی نفسیات میں ذلت ، بزدلی ، کینہ پروری ، نفرت رچی بسی تھی۔ جب بھی کوئی انسانی طبقہ اس قسم کے مظالم کا شکار ہو تو ان میں اسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔

حضرت عمر ؓ کو اللہ تعالیٰ نے ربانی بصیرت عطا کی تھی۔ آپ انسانوں کی نفسیات سے اچھی طرح باخبر تھے۔ انہوں نے اپنے تمام حکام سے کہہ رکھا تھا اور یہ وصیت کردی تھی " آپ لوگوں کے چہرے پر مار مار کر سزا مت دو ، اس طرح تم لوگوں کو ذلیل کردوگے " ان کو علم تھا کہ چہرے پر مار کی وجہ سے لوگ ذلیل ہوجاتے ہیں اور اسلام کی تو یہ بنیادی پالیسی ہے کہ رعیت کو ذلیل و خوار نہیں کرنا ہے ۔ کیونکہ اسلامی مملکت میں لوگ باعزت تصور ہوتے ہیں۔ اسلام کی پالیسی اور خواہش یہ ہے کہ لوگ باعزت ہوں۔ اور حکام کو اس بات سے منع کیا گیا کہ وہ لوگوں کو مار مار کر ذلیل کریں۔ اسلام نے یہ کہا کہ لوگ حکام کے غلام نہیں ہوتے۔ وہ اللہ کے غلام اور معزز لوگ ہوتے ہیں۔ وہ تمام غیر اللہ سے محترم ہیں۔

فرعونیت کے طاغوتی نظام میں فرعونیوں نے بنی اسرائیل کو مار مار کر ذلیل کردیا تھا۔ بلکہ ان پر جو مظالم ڈھائے گئے ان کے مقابلے میں یہ مار بالکل معمولی بات نظر آتی تھی۔ بنی اسرائیل کے بعد تمام مصری قوم کو بعد میں آنے والے حکمرانوں نے مار مار کر ذلیل کیا ، فرعونی طاغوت کے بعد رومی طاغوت نے مصریوں کو اسی طرح مار مار کر ذلیل کیا۔ ان مصائب سے مصری قوم کو صرف اسلام نے نجات دی۔ جب اسلام آیا تو اس نے مصری قوم کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نجات دی۔ عمرو ابن العاص حاکم مصر اور فاتح مصر کے بیٹے نے جب ایک قبطی کو صرف ایک کوڑا مارے جانے پر بہت ہی غصہ آیا اور وہ بھی فاتح مصر اور گورنر کے بیٹے کی طرف سے۔ اس نے اونٹنی پر سوار ہوکر ایک ماہ تک سفر کیا اور یہ شکایت حضرت عمر ابن خطاب تک پہنچائی۔ صرف ایک کوڑا مارنے کی شکایت۔ حالانکہ فتح مصر سے پہلے رومیوں کی جانب سے مارے جانے والے کئی کوڑوں پر وہ صبر کرتا تھا۔ یہ تھا اسلامی انقلاب کا معجزہ۔ جس نے قبطیوں کے اندر بھی انقلاب پیدا کردیا۔ اگرچہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ اسلام نے انسانیت کو ذلت و خواری کی جمی ہوئی تہوں کے نیچے سے نکالا اور آزادی دی۔ لوگ اس طرح اٹھے کہ ان کا جسم و روح آزاد ہوگیا اور انہوں نے اپنے آپ سے ذلت کے غبار کو ایک دم جھاڑ دیا۔ کسی غیر اسلامی نظام نے انسانیت کو اس قدر آزادی نہیں دی تھی۔

اب حضرت موسیٰ کا واسطہ اس مہم سے تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کی شخصیت سے صدیوں کی غلامی وجہ سے اور طاغوتی نظام کے تحت ذلت کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوریوں کو دور کرنا تھا۔ بنی اسرائیل مصر سے نکل چکے تھے اور انہوں نے سمندر کو عبور کرلیا تھا۔ قرآن کریم کے بیان کردہ قصص میں ان لوگوں کی شخصیات صاف صاف نظر آتی ہیں۔ یہ غلامی کے گرد و غبار سے اٹی ہوئی ہیں۔

دوسری جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آثار جاہلیت سے مقابلہ ہے۔ حضرت موسیٰ کا مقابلہ اب ان لوگوں کی کٹ حجتی ، اخلاقی بےراہ روی ، فکر و نظر کی جہالت سے ہے جو ان کی شخصیت میں ، اس طویل عرصہ اسیری میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھیں۔

اس سلسلے میں ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے حضرت موسیٰ کس قدر ان تھک مصائب برداشت کررہے ہیں۔ ان کو ایسے لوگوں سے واسطہ ہے جن کی فطرت صدیوں تک زمین بوس رہی ہے۔ ان کی حالت یہ تھی جس طرح غلاظت کا کیڑا غلاظت سے نکلنا پسند نہیں کرتا اور ذلت اور غلاظت کو اپنے لیے معمولی سمجھتا ہے۔

موسیٰ (علیہ السلام) کی جدوجہد میں ہر صاحب دعوت کے لیے ایک سبق ہے۔ خصوصاً ایسے صاحب دعوت کے لیے جسے ایسے لوگوں سے واسطہ ہو ، جو صدیوں تک ذلت اور غلامی میں رہے ہوں اور جنہوں نے ایسے طاغوتی نظام میں زندگی بسر کی جو ظالم بھی ہو اور متشدد بھی۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ لوگ یہ بھی جانتے ہوں کہ داعی جس طرف بلا رہا ہے وہ راہ نجات ہے۔ بلکہ وہی راہ نجات ہے لیکن ایک طویل عرصہ عالم ہونے اور مومن ہونے کی وجہ سے ان کے لیے یہ دعوت ایک عادی دعوت بن گئی ہو اور ان کا دین ایک بےروح روسمی دین بن گیا ہو۔

ایسے حالات میں ایک داعی کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ دگنا ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے داعی کے لیے صبر کی بھی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے داعی کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی کج فہمی ، ان کی بد اخلاقی ، ان کے مزاج کی سہل انگاری اور ان کے اقدام کی سست رفتاری پر صبر کرے۔ ہر مرحلے پر ایسے لوگوں میں شکست اور دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ جانے کی خواہشات پر نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ صبر کرے۔

قصہ بنی اسرائیل کو امت مسلمہ کے لیے قرآن کریم میں اسی لیے ثبت کردیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کے لیے اس میں بڑی عبرتیں ہیں اور اسی حکمت کے تحت اسے بار بار مختلف پہلوؤں سے لایا گیا ہے۔ تاکہ امت مسلمہ اس تجربے سے فائدہ اٹھائے اور حضور اکرم ﷺ کے بعد آنے والے تمام داعیوں کے لیے بھی اس قصے میں بڑی مقدار میں زاد راہ موجود ہے۔

درس نمبر 80 تشریح آیات۔ 138 ۔ تا۔ 171

۔۔۔

اس قصے کا یہ ساتواں منظر ہے۔ اس میں بنی اسرائیل اس وقت نظر آتے ہیں جب وہ نجات پا کر بحر قلزم سے اس پار چلے گئے ہیں۔ اب ہمیں فرعونی مناظر کے برعکس اس میں بنی اسرائیل کی سرکش ، معصیت کیش اور نہایت ہی کج مزاج شخصیت کا سامنا ہے۔ اور یہ اخلاقی کمزوریاں ان کے مزاج میں تہ بہ تہ صدیوں کی تاریخ کے دوران جمی ہوئی ہیں۔ اس پر کوئی طویل عرصہ نہ گزرا تھا کہ اللہ نے انہیں فرعون سے نجات دی تھی جس نے انہیں خوب ذلیل کرکے رکھا ہوا تھا۔ فرعون کی قوم بھی اس کام میں شریک تھی اور یہ نجات انہیں حضرت موسیٰ کی وجہ سے ملی تھی ، حضرت موسیٰ نے یہ تحریک اللہ رب العالمین کے نام سے چلائی تھی۔ رب العالمین نے ان کے دشمن کو ہلاک کیا اور ان کی نجات کے لیے سمندر کے ٹکڑے کیے اور انہیں اس ذلت آموز زندگی سے نجات دی۔ وہ تو مصر کی بت پرستی اور سرزمین ظلم سے ابھی رہا ہوکر آئے تھے۔ لیکن سمندر کو پار کرتے ہی جب وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے ہیں جس کا ایک بت ہے اور وہ اس کی پوجا کرتی ہے اور ہر شخص اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں مشغول ہے تو وہ جھٹ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان کے لیے بھی ایسا ہی بت تجویز کردیں تاکہ وہ بھی اسی طرح پوجا پاٹ شروع کردیں حالانکہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش خالص نظریہ توحید پر مبنی تھی اور اسی نظریہ کے تحت فرعون کی ہلاکت ہوئی تھی اور ان کو نجات ملی تھی۔

(وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ ) ۔ بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا ، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے " اے موسیٰ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جسیے ان لوگوں کے معبود ہیں۔

متعدی بیماریاں جس طرح جسم کو آ لیتی ہیں اسی طرح روحانی بیماریاں بھی متعدی ہوتی ہیں ، لیکن متعدی بیماریاں تب ہی پھیلتی ہیں جب لوگوں کے اندر ان کے پھیلاؤ کے لیے جراثیم موجود ہوں اور قرآن کریم نے جس طرح بنی اسرائیل کے مزاج کا نہایت ہی سچا ، گہرا اور ہمہ جہت نقشہ کھینچا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ خلاقی اعتبار سے نہایت ہی بودے ، ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست تھے ، وہ گمراہی کو اسی طرح قبول کرتے تھے جس طرح پٹرول کو آگ لگتی ہے۔ وہ اٹھتے ہی گر جاتے تھے ، چند قدم ہی راہ مستقیم پر چلتے تھے کہ اچانک ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیتے تھے ، اس لیے کہ ان کے کلیجے میں گمراہی کے جراثیم داخل ہوچکے تھے۔ وہ سچائی سے دور تھے۔ ان کا احساس مر چکا تھا ، اور ان کا شعور بجھ چکا تھا۔ اچانک جب وہ ایک بت پرست قوم کو بت پرستی میں مشغول دیکھتے ہیں تو وہ حضرت موسیٰ کی بیس یا تئیس سالہ جدوجہد اور اپنی غلامی کی صدیاں بھول جاتے ہیں اور مطالبہ کردیتے ہیں کہ ان کے لیے بھی بت تجویز کیے جائیں۔ سابقہ معجزات کو تو چھوڑ دیں ایک طرف ، ابھی ابھی تو وہ سمندر پھٹا اور بڑے بڑے تودوں سے گزر کر آئے ہیں۔ جس میں ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا دشمن ہلاک کیا گیا۔ فرعون اور اس کا ظالم عملہ سب بت پرست تھے اور وہ بنی اسرائیل کے خلاف فرعون کو اسی بت پرستی کے نام پر ابھارتے تھے۔ وہ اہل فرعون کی یہ باتیں بھول گئے جو وہ کہتے تھے۔ " ا تذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الارض و یذرک و الھتک " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ رہا ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں اور وہ تمہیں اور تمہارے الہوں کو چھوڑ دیں " یہ سب کچھ بھول بھلا کر وہ اپنے نبی اور رسول سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح تمہارے کہنے پر وسرے تمہارے کہنے پر دوسرے معجزات سرزد ہوئے اب اپنے رب سے ہمارے لیے بتوں کی منظوری بھی لے لے تاکہ ہم بھی بت پرستی شروع کردیں۔ اگر یہ لوگ خود ہی بت پرستی شروع کردیتے تو پھر بھی کوئی بات تھی مگر انہیں اس قدر حیا نہ آئی نبی اور رب العالمین سے بت پرستی کی اجازت چاہی لیکن یہ بنی اسرائیل ہیں ، ان سے سب کچھ متوقع ہے۔

اس مطالبے پر حضرت موسیٰ کو بہت غصہ آتا ہے ، جس طرح رب العالمین کے کسی رسول کو اپنے رب کے بارے میں آنا چاہئے۔ اس لیے کہ کوئی بھی رسول عقیدہ توحید کے بارے میں سخت غیرت مند ہوتا ہے اور اس کے لیے شرک ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ چناچہ آپ ان کو ایسا جواب دیتے ہیں جو ان کے لیے مناسب ہے۔ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ۔ " موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو "۔ یہاں ان کی جہالت کو مخصوص نہیں کیا گیا۔ لہذا مفہوم یہ ہوا کہ تم غایت درجے کے جاہل ہو ، اگر یہ علم کے مقابلے میں استعمال ہو تو مراد بےعلمی ہوتی ہے اور اگر یہ غلط عقل کے مقابلے میں آئے تو مراد حماقت ہوتی ہے یعنی تم غایت درجہ کے احمق اور غایت درجے کے کورے اور علم ہو۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عقیدہ توحید سے جو لوگ منحرف ہوتے ہیں وہ جاہل بھی ہوتے ہیں اور احمق بھی ہوتے ہیں اور یہ کہ علم اور سائنس اور عقلمندی انسان کو عقیدہ توحید پر پہنچاتی ہے۔ علم اور عقل کبھی بھی عقیدہ توحید کے سوا کسی اور عقیدہ تک نہیں پہنچ سکتے۔

علم اور عقل تو اس پوری کائنات کا مشاہدہ کرکے یہ شہادت پاتے ہیں کہ اس کا ایک خالق اور مدبر ہے ، یہ خالق اور مدبر ہے بھی وحدہ لاشریک۔ اس لیے کہ اس پوری کائنات کے ضوابط و قوانین اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا مدبر ایک ہے۔ اور جس قدر اس کائنات میں غور و فکر کیا جاتا ہے اور اس کے اندر جستجو کی جاتی ہے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ضوابط و آثار کی یک رنگی دلیل ہے وحدت خالق کی۔ اس سے اعراض اور صرف نظر وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پرلے درجے کے جاہل ہوں یا احمق ہوں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو عالم اور سائنس دان کہتے ہیں۔

اردو ترجمہ

یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna haolai mutabbarun ma hum feehi wabatilun ma kanoo yaAAmaloona

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم کو سمجھاتے ہیں کہ جس بت پرستی میں وہ پڑے ہوئے ہیں وہ نہایت ہی بری چیز ہے اور ان کی جانب سے یہ سراسر غیر معقول مطالبہ ہے ، کیا تم ایسے لوگوں کی پیروی کرتے ہو جو خود ہلاک و برباد ہونے والے ہیں ؟ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے "

یہ شرک و بت پرستی ، یہ بتوں کی پوجا پاٹ ، یہ بت پرستانہ تہذیب و تمدن جس میں کئی رب ہوں اور ان ارباب کے نیچے پھر مسند نشستیں اور مذہبی لیڈر ہوں اور حاکم و محکوم ہوں اور وہ بت پرستی سے اپنے حقوق کا تعین کرتے ہوں۔ یہ تمام خرافات اور توہمات زندگی کے فاسد تصور پر مبنی ہیں اور باطل اور بےاصل ہیں۔ اور ان تصورات اور اعمال نے دنیا سے ختم ہونا ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے ہلاکت ہے۔

اردو ترجمہ

پھر موسیٰؑ نے کہا "کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala aghayra Allahi abgheekum ilahan wahuwa faddalakum AAala alAAalameena

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام میں اپنے نظریہ حیات اور اپنے رب کے بارے میں غیرت کی وجہ سے مزید جوش آجاتا ہے۔ ان کا نغمہ تیز تر ہوجاتا ہے اور وہ برہمی کے ساتھ ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ابھی ابھی سمندر کے کنارے جو کچھ ہوا تم بھول گئے ہو ، تم اپنے مرتبہ ومقام کا خیال بھی نہیں رکھتے۔ (قَالَ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْكُمْ اِلٰهًا وَّهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ) ۔ : " پھر موسیٰ نے کہا " کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں ؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قومیں پر فضیلت بخشی ہے "

اس دور میں تمام اقوام پر بنی اسرائیل کی فضیلت واضح ہے کہ تمام مشرک اقوام میں سے بنی اسرائیل کو منصب رسالت دیا گیا۔ اس سے بڑی فضیلت اور اس سے زیادہ احسان اور کیا ہوسکتا ہے۔ رسالت ایک عظیم فضل اور عظیم احسان ہے۔ نیز اس وقت بنی اسرائیل کو اس منصب کے لیے بھی چنا گیا۔ کہ وہ اس زمین پر مقتدر اعلیٰ ہوں گے۔ خصوصاً ارض مقدس کو ان کے ہاتھوں واگزار کرنے کا فیصلہ بھی ہوا ، کیونکہ اس دور میں ارض مقدس پر غیر قوموں کا قبضہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان اعزازات کے بعد وہ کس منہ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے لیے کوئی الہ تجویز کیا جائے جیسا کہ دوسری قوم نے اپنے لیے الہ تجویز کر رکھے ہیں ، جبکہ ان پر اللہ کا بڑا فضل و کرم تھا۔

اردو ترجمہ

اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith anjaynakum min ali firAAawna yasoomoonakum sooa alAAathabi yuqattiloona abnaakum wayastahyoona nisaakum wafee thalikum balaon min rabbikum AAatheemun

قرآن کا یہ انداز کلام ہے کہ انبیاء کے کلام کے ساتھ متصلاً اللہ کے کلام کو بھی ذکر کردیا جاتا ہے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کی حکایت کے ساتھ متصلاً اللہ کا کلام بھی آجاتا ہے۔

وَاِذْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ۚ يُقَتِّلُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَ يَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ ۭوَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ ۔ اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی ، جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے ، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔

اللہ کے کلام اور اللہ کے نبیوں کے کلام کو یجا کرنے سے در اصل نبیوں کی تکریم مقصود ہے اور یہ در اصل اعزازو تکریم کا یہ نہایت ہی بہترین انداز ہے۔

یہ احسان جو بنی اسرائیل پر کیے گئے اور یہاں جتلائے گئے وہ ان کے دل و دماغ میں موجود تھے۔ اور ان کا مشاہدہ تازہ تھا۔ محض ان احسانات کی یاد دہانی ہی اس بات کے لیے کافی تھی کہ وہ سجدہ شکر بجا لاتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو متوجہ کرتے ہیں کہ یہ عبرت کا مقام ہے اور انسانوں پر مشکلات اور اس کے بعد مشکلات سے نجات سب کچھ انسان کے لیے ایک آزمائش ہے۔ وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ " اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش ہے "۔ اس لیے کہ ان میں سے کوئی واقعہ بھی اتفاقی نہ تھا۔ سب کچھ تقدیر الہی کے مطابق تھا اور آزمائش تھی اور آزمائش سے مقصد عبرت آموزی تھی اور مسلمانوں کو تجربات سے دوچار کرکے کھرے اور کھوٹے کو جدا کرنا مطلوب تھا اور یہ مقصد تھا کہ جب ان کو سزا دی جائے تو ان کے لیے گلے شکوے کا کوئی موقعہ نہ رہے ، اس وقت جب یہ تمام آزمائشیں ان پر کارگر نہ ہوں۔

اب یہ منظر بھی ختم ہوجاتا ہے ، اس سے بڑا دلچسپ دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی موسیٰؑ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ "میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WawaAAadna moosa thalatheena laylatan waatmamnaha biAAashrin fatamma meeqatu rabbihi arbaAAeena laylatan waqala moosa liakheehi haroona okhlufnee fee qawmee waaslih wala tattabiAA sabeela almufsideena

یہ آٹھواں منظر ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ اور آپ کے رب العالمین کے درمیان ملاقات ہونے والی ہے۔ حضرت موسیٰ اس عظیم تقریب کے لیے بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ حضرت ہارون کو وصیت کرکے اپنا قائم مقام بناتے ہیں اور اس کے بعد آپ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھتے ہیں۔

حضرت موسیٰ کی مہم کا پہلا مرحلہ اب مکمل ہوگیا ہے ، اس مرحلے میں بنی اسرائیل کو ذلت اور زبردستی کی زندگی سے نکال دیا گیا ہے۔ اب وہ قوم فرعون کی ایذا رسانیوں اور تشدد کے دائرے سے باہر نکل آتے ہیں۔ ذلت اور غلامی کی شہری زندگی کو ترک کرکے اب وہ صحرا کی آزاد فضاؤں میں گھوم رہے ہیں۔ اور ارض مقدس کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ ارض مقدس کی بازیابی کی عظیم اور اصلی مہم کے اہل ہی نہیں بنے۔ یہ تو نہایت ہی عظیم اور کانٹوں سے پر راہ ہے کہ کوئی کرہ ارض پر اقتدار کے مناصب حاصل کرکے فریضہ خلافت ارضی کا منصب سنبھال لے۔ اس سے قتبل کے منظر میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے دلوں میں بت پرستی اور شرک نے کس طرح گھر کرلیا ہے کہ ایک بت پرست قوم کو دوران سفر دیکھتے ہی اپنے لیے بتوں کا مطالبہ کردیا۔ ان کے اذہان و قلوب سے عقیدہ توحید متزلزل ہوگیا جس کے لیے حضرت موسیٰ کو خاص طور پر رسول بنا کر بھیجا گیا اور اس پر کچھ زیادہ عرصہ بھی نہ گزرا تھا۔ لہذا اس بات کی ضرورت تھی کہ حضرت موسیٰ کو تفصیلی ہدایات دے کر ان کے پاس واپس بھیجا جائے اور آپ نئی ہدایات کے تحت اس قوم کی تنظیم و تربیت کریں تاکہ وہ ارض مقدس کی آزادی کا عظیم فریضہ ادا کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک مقررہ وقت و مقام میں ملاقات کی دعوت دی تاکہ آپ اللہ تعالیٰ سے براہ راست کوئی ہدایات لیں۔ اور اس ملاقات میں خود حضرت موسیٰ کی بھی مزید تربیت مقصود تھی تاکہ آپ بھی آنے والے مشکل حالات اور مشکل مہمات کے لیے تیار ہوجائیں۔ آپ کی تربیت کا کورس تیس دن مقرر ہوا تھا۔ اس میں دس دن کا مزید اضافہ کردیا گیا۔ یوں چالیس دن تک یہ سلسلہ چلا۔ حضرت موسیٰ نے اس عرصے میں ملاقات الٰہی کے لیے ریاض کیا۔ آپ اس دنیا کی دلچسپیوں سے دور ہوگئے۔ اور عالم بالا کی طرف قریب ہوگئے ، لوگوں سے دور اور رب العالمین سے قرب حاصل کیا۔ آپ کی روح صاف ہوگئی اور آپ کا اندرون روشن ہوگیا اور یوں آپ کو براہ راست رب العالمین کی تربیت میں آنے والے فرائض منصب رسالت کے لیے تیار کردیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی روانگی سے قبل اپنے بھائی اور جانشین حضرت ہارون کو ان الفاظ میں وصیت کی۔

وَقَالَ مُوْسٰي لِاَخِيْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ ۔ موسیٰ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ " میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا "

حضرت موسیٰ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت ہارون بھی اللہ کی جانب سے نبی مسل ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو نصیحت کرے بلکہ نصیحت ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر فرض ہے۔ پھر حضرت موسیٰ کو ان بھاری ذمہ داریوں کا اچھی طرح احساس تھا اور آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کو بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ حضرت ہارون نے کشادہ دلی سے نصیحت کو سنا اور قبول کیا۔ انہوں نے اس پر برا نہ منایا ، کیونکہ نصیحت برے لوگوں کو اچھی معلوم نہیں ہوتی ، کیونکہ یہ لوگ بھلائی سے چھٹکارا چاہتنے والے ہوتے ہیں اور ان چھوٹے قد والوں پر بھی نصیحت گراں گزرتی ہے جو اپنے آپ کو بہت ہی بڑی چیز سمجھتے ہیں اور ان کو نصیحت کی جائے تو یہ چھوٹے قد کے لوگ اس میں اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چھوٹے قد والے متکبر وہ ہوتے ہیں کہ تم ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہو کہ ان کی امداد کرو اور وہ تمہارے ہاتھکو جھٹک دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو بڑا دکھا سکیں۔ یہ تیس راتیں اور پھر ان میں دس دن کی مزید وسعت میں کیا حالات پیش آئے ؟ ان کے بارے میں ابن کثیر کہتے ہیں " اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ساتھ تیس راتیں مقرر کی تھیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے اس عرصے میں روزے رکھے اور کچھ نہ کھایا۔ اور جب میعاد پوری ہوگئی تو آپ نے درخت کے چھلکے سے مسواک کی۔ اس پر اللہ نے ان کو حکم دیا کہ آپ چالیس دن پورے کریں "

اردو ترجمہ

جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ "اے رب، مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں" فرمایا "تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا" چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰؑ غش کھا کر گر پڑا جب ہوش آیا تو بولا "پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walamma jaa moosa limeeqatina wakallamahu rabbuhu qala rabbi arinee anthur ilayka qala lan taranee walakini onthur ila aljabali faini istaqarra makanahu fasawfa taranee falamma tajalla rabbuhu liljabali jaAAalahu dakkan wakharra moosa saAAiqan falamma afaqa qala subhanaka tubtu ilayka waana awwalu almumineena

اب تو یہ منظر آپ کے سامنے ہے۔ یہ منظر ایک منفرد منظر ہے اور یہ حضرت موسیٰ کا خاصہ ہے اس میں رب ذوالجلال اور رب العالمین براہ راست اپنے بندے سے مخاطب ہیں۔ اس منظر میں ایک ذرہ ، ایک محدود ذرہ اور ایک فانی وجود ایک ازلی اور ابدی ذات کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر ایک بندہ اپنے خالق سے براہ راست ہدایت اخذ کرتا ہے جبکہ خالق ابدی و ازلی وراء الوراء ہے اور بندہ زمین پر ہے۔ لیکن اس التقاء کی کیفیت کیا تھی ؟ اس کے ادراک سے ہم عاجز ہیں۔ اللہ کے ساتھ ہمکلام ہونے کی کیفیت کیا تھی ، اس کے بارے میں ہم نہیں بتا سکتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کن ذرائع ادراک سے یہاں ہدایات اخذ کرتے تھے ، کلمات کس طرح تے ؟ یہ سب تصورات ہم بندوں اور محدود قوت کے مالک انسان کے لیے ناقابل تصور ہیں۔ اس لیے کہ ہماری قوت مدرکہ محدود ہے۔ ہمارا سرمایہ ادراک محدود ہے۔ ہمارے تجربے واقعاتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر جو لطیف راز اور جو لطیف شعور و دیعت کر رکھا ہے اس کے ذریعے ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہ ہمکلامی واقع ہوئی اور ہمیں اس کا یقین ہے اور شعوری یقین ہے لیکن کیفیت کے بارے میں سوال کرتے ہمیں اپنے یقین کو گدلا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ تعلق ، محدود اور لامحدود کا تعلق ہمارے محدود پیمانہ ادراک میں سما نہیں سکتا۔

ہمیں چاہیے کہ اس منفرد منظر کو ہم اپنے خیال ، اپنے اعصاب اور اپنے وجود میں پوری طرح مستحضر کرلیں۔ اپنی پوری قوتوں ، فہم و ادراک کی پوری قوتوں کو مستحضر کرکے اور اس کا منظر کے تصورات کے قریب جانے کی کوشش کریں۔ اور حضرت موسیٰ جس حقیقت کا ادراک کرتے تھے اور اس کا شعور پاتے تھے ، اس میں ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہوسکیں۔

(وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ ) " جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ " اے رب ! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں "

یہ ایک خوفناک منظر ہے۔ حضرت موسیٰ اللہ کی طرف سے کلمات سن رہے ہیں اور ان کو جس بات کا شوق ہے اور جس طرف وہ کھنچے چلے جا رہے ہیں اور ان کی روح جس سمت میں بلند ہو رہی ہے ایسے حالات میں حضرت موسیٰ بھول جاتے ہیں کہ ان کی بساط کیا ہے اور ان کی روح جس سمت میں بلند ہو رہی ہے ایسے حالات میں حضرت موسیٰ بھول جاتے ہیں کہ ان کی بساط کیا ہے اور یہ کہ اللہ کی جلالت شان کیا ہے ، وہ مطالبہ کردیتے ہیں ، ایک ایسے امر کا جوا اس کرۂ کی بشریت کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ اور اگر اسے ممکن بنا دیا جائے تو کسی انسان کی طاقت ہی میں یہ نہیں ہے۔ یعنی آپ رویت ذات باری کا مطالبہ فرماتے ہیں۔ شوق وامید کے ان حالات میں اور محبت و وصال کے اس ماحول میں وہ عالم شہود میں ذات باری کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن جواب میں دو ٹوک بات آتی ہے۔ قَالَ لَنْ تَرٰىنِيْ ، فرمایا " تو مجھے نہیں دیکھ سکتا "۔ اور اس کے بعد اللہ کی شفقت سامنے آتی ہے۔ اور آپ کو یہ بات پڑھا دی جاتی ہے کہ لَنْ تَرٰىنِيْ کی وجہ کیا ہے یہ کہ آپ کے اندر اس کی طاقت ہی نہیں ہے۔ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْـتَــقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِيْ ۔ " ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا " اس لیے کہ پہاڑ انسان کے مقابلے میں زیادہ جمنے والا ہے۔ پھر وہ متاثر ہونے والا بھی نہیں ہے اور وہ انسان کے مقابلے میں قبولیت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے باوجود جو واقعہ ہوا وہ یہ تھا۔ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ " چناچہ ان کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑا "۔

سوال یہ ہے کہ یہ تجلی کیسی تھی ، ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے کہ اس کی کوئی صفت بیان کرسکیں۔ نہ ہم اس کے ادراک کرسکتے ہیں ، نہ ہم اس تجلی کو دیکھ سکتے ہیں ، ہم اسے صرف اس لطیف روحانی تعلق کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں اور یہ روحانی رویت بھی اس وقت ممکن ہے جب انسان کی روح صاف و شفاف ہوجائے اور پوری طرح اپنے اس اصل اور مصدر کی طرف متوجہ ہوجائے۔ صرف الفاظ اور بےمعنی الفاظ کے ذریعے ہم کسی کیفیت کو قارئین کے اذہان میں منتقل نہیں کرسکتے۔ لہذا ہم کوشش نہیں کرتے کہ ہم اس کو الفاظ کے ذریعے سمجھائیں۔ نیز اس موضوع پر جو روایات وارد ہیں ان کو بھی ہم ایک طرف رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ان روایات میں سے کوئی بھی حضور ﷺ تک مرفوع نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی ہے۔

اس تجلی کے آثار کے بارے میں قرآن یہ کہتا ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور زمین پر ہموار۔ حضرت موسیٰ انسانی ضعف کی وجہ سے بےہوش ہوگئے۔ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ جب ہوش آیا تو بولا " پاک ہے تیری ذات ، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں "

جب انہیں ہوش آیا " انہیں معلوم ہوا کہ انسانی قوت ادراک کی حدود کیا ہیں اور انہیں عملاً معلوم ہوگیا کہ انہوں نے یہ سوال کرکے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے تو اعتراف کیا کہ اے اللہ تیری ذات پاک ہے ، میں توبہ کرتا ہوں ، میں حد سے تجاوز کیا ، میں پہلا مسلمان ہوں اور رسول ہمیشہ پہلا مسلمان ہوا کرتا ہے ، وہ اللہ کی عظمت پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہے ، سب سے پہلے وہ اپنی رسالت اور اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لاتا ہے ، پیغمبروں کو اللہ کا حکم ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے ایمان کا اعلان کریں۔ یہ مضمون قرآن کریم میں کافی مقامات پر آیا ہے۔

167