سورہ اعراف: آیت 113 - وجاء السحرة فرعون قالوا إن... - اردو

آیت 113 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَجَآءَ ٱلسَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوٓا۟ إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ ٱلْغَٰلِبِينَ

اردو ترجمہ

چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے اُنہوں نے "اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaa alssaharatu firAAawna qaloo inna lana laajran in kunna nahnu alghalibeena

آیت 113 کی تفسیر

قرآن کریم اب درمیانی تفصیلات چھوڑ کر ایک دوسرے منظر کو پیش کرتا ہے کہ کس طرح فرعون کے ٹولے نے لوگوں کو جمع کیا اور کن کن کو جمع کیا بلکہ پردہ اٹھتے ہی جادوگر سامنے آجاتے ہیں اور یہ قرآن کریم کا بیان کردہ قصص میں نہایت ہی موثر اور پیارا اسلوب ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ ایک منظر کو لپیٹ کر دوسرا منظر سامنے لایا جاتا ہے۔

وَجَاۗءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ ۔ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ۔ چناچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔ انہوں نے کہا " اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا ؟ " فرعون نے جواب دیا " ہاں ، اور تم مقرب بارگاہ ہوگے "۔

یہ لوگ پیشہ ور جادوگر تھے اور اسی طرح پیشہ ور کاہن تھے اور دونوں کاموں سے ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ دنیا میں ہمیشہ پیشہ ور علمائے دین نے طاغوتی طاقتوں اور ظالم بادشاہوں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھا ہے۔ نیز دنیا میں جب بھی اللہ کی حاکمیت کا نظام معطل ہوا ہے اور اللہ وحدہ کی بندگی ختم ہوئی ہے اس کی جگہ طاغوتی نظام قائم ہوگیا ہے اور جب طاغوتی نظام قائم ہوا ہے تو ایسے حکمرانوں کو پیشہ ور اہل دین کی ضرورت پیش آئی ہے اور ان حکمرانوں نے اہل پیشہ کو ان کے پیشے پر اجر دیا ہے اور انہوں نے دینی اعتبار سے اس طاغوتی نظام کو قبول کیا ہے۔ یوں دونوں کے درمیان باہم معاہدہ رہا ہے اور طاغوتی حکمرانوں نے ان پیشہ ور اہل دین کو پیسہ بھی دیا ہے اور مقرب بھی بنایا ہے۔

فرعون نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کام پر انہیں اجرت بھی دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کے مقربین میں سے بھی ہوں گے۔ یوں فرعون نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ صرف موسیٰ کا بےجگری سے مقابلہ کریں اور سخت جدوجہد کریں۔ لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے کہ وہ چرب زبانی یا چالاکی سے حضرت موسیٰ کو شکست دے دیں گے یہاں تو ان کا واسطہ خدا ، خدا کے رسول ، خدائی معجزات اور خوارق عادت ، حقائق و واقعات سے تھا ، محض شعبدہ بازی اور تخیلاتی جادوگری نہ تھی۔

آیت 113 وَجَآء السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ Iیہاں پر غیر ضروری تفاصیل کو چھوڑ کر رسالت کے مقام و منصب اور دنیا داروں کے مادہ پرستانہ کردار کے فرق کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ اللہ کے رسول موسیٰ علیہ السلام نے ان کے مطالبے کے مطابق انہیں نشانیاں دکھائیں مگر آپ علیہ السلام کو اس سے کوئی مفاد مطلوب نہیں تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرعون اور اہل دربار کو مرعوب کر کے کسی انعام و اکرام کا مطالبہ نہیں کیا۔ جب کہ دوسری طرف جادوگروں کا کردار خالص مادہ پرستانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے آتے ہی جو مطالبہ کیا وہ مالی منفعت سے متعلق تھا۔

جادو گروں نے پہلے ہی فرعون سے قول وقرار لے لیا تاکہ محنت کالی نہ جائے اور اگر ہم جیت جائیں تو خالی ہاتھ نہ رہ جائیں۔ فرعون نے وعدہ کیا کہ منہ مانگا انعام اور ہمیشہ کیلئے خاص درباریوں میں داخلہ دوں گا۔ یہ قول وقرار لے کر میدان میں اتر آئے۔

آیت 113 - سورہ اعراف: (وجاء السحرة فرعون قالوا إن لنا لأجرا إن كنا نحن الغالبين...) - اردو