سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 164 (آیات 105 سے 120 تک)

حَقِيقٌ عَلَىٰٓ أَن لَّآ أَقُولَ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِىَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِـَٔايَةٍ فَأْتِ بِهَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ وَنَزَعَ يَدَهُۥ فَإِذَا هِىَ بَيْضَآءُ لِلنَّٰظِرِينَ قَالَ ٱلْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَٰذَا لَسَٰحِرٌ عَلِيمٌ يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ قَالُوٓا۟ أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِى ٱلْمَدَآئِنِ حَٰشِرِينَ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَٰحِرٍ عَلِيمٍ وَجَآءَ ٱلسَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوٓا۟ إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ ٱلْغَٰلِبِينَ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ ٱلْمُقَرَّبِينَ قَالُوا۟ يَٰمُوسَىٰٓ إِمَّآ أَن تُلْقِىَ وَإِمَّآ أَن نَّكُونَ نَحْنُ ٱلْمُلْقِينَ قَالَ أَلْقُوا۟ ۖ فَلَمَّآ أَلْقَوْا۟ سَحَرُوٓا۟ أَعْيُنَ ٱلنَّاسِ وَٱسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَآءُو بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ۞ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ فَوَقَعَ ٱلْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ فَغُلِبُوا۟ هُنَالِكَ وَٱنقَلَبُوا۟ صَٰغِرِينَ وَأُلْقِىَ ٱلسَّحَرَةُ سَٰجِدِينَ
164

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Haqeequn AAala an la aqoola AAala Allahi illa alhaqqa qad jitukum bibayyinatin min rabbikum faarsil maAAiya banee israeela

حَقِيْقٌ عَلٰٓي اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ۔ " میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں " اس لئے کہ جو رسول حقیقت الوہیت سے خبردار ہے وہ اللہ کے بارے میں سچ کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتا ہے کیونکہ وہ مقام خدائی اور مرتبہ کبریائی سے خبردار ہوتا ہے۔

" میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں " اور یہ ایسی دلیل ہے جو میری بات کی صداقت پر بین دلیل ہے کہ میں رب العالمین کی طرف سے ہوں "۔

اب اس عظیم حقیقت کے عنوان سے اور اللہ کی ربوبیت عامہ اور حاکمیت شاملہ کے نظریہ کے تحت حضرت موسیٰ نے یہ مطالبہ کیا کہ فرعون بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ کے ساتھ واپس اپنے وطن جانے کی اجازت دے دے۔

بنی اسرائیل صرف اللہ کے بندے اور غلام تھے۔ لہذا فرعون کو یہ حق نہ پہنچتا تھا کہ وہ انہیں اپنا بندہ اور غلام بنا لے کیونکہ کوئی بھی انسان دو آقاؤں کا غلام نہیں بن سکتا۔ نہ وہ دو الہوں کا معبود بن سکتا ہے ، جو شخص عبداللہ ہو وہ کسی اور کا عبد نہیں ہوسکتا۔ ایک طرف فرعون بنی اسرائیل کو اپنی خواہشات کا غلام بنا رہا تھا اور دوسری جانب حضرت موسیٰ یہ اعلان کر رہے تھے کہ صرف اللہ ہی رب العالمین ہے صرف ربوبیت الہیہ کے اعلان ہی سے اس بات کی نفی ہوجاتی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو جو غلام بنا رکھا ہے وہ کالعدم ہے۔

یہ اعلان کہ صرف اللہ رب العالمین ہی ہمارا حاکم اور رب ہے ، بذات خود ہی انسان کی آزادی کا چارٹر ہے اور اس اعلان کے ساتھ ہی ایک انسان غیر اللہ کی غلامی ، اطاعت اور قانون سے آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ انسانی غلامی ، اپنی خواہشات کی غلامی ، انسانی رسومات کی غلامی اور انسانی قانون و حرکت کی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے۔

لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی اللہ کی رب العالمینی کا اعلان بھی کرے اور پھر غیر اللہ میں سے کسی کی غلامی کا دم بھی بھرے۔ اس اعلان کے ساتھ کسی غیر اللہ کی حکومت و اقتدار جمع ہوسکتا اور نہ کسی اور کا قانون جمع ہوسکتا ہے۔ جو لوگ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور اس کے بعد وہ اپنے ہاں وہ قوانین جاری کئے ہوئے ہیں جو انہی جیسے انسانوں نے بنائے ہیں یا خود انہوں نے بنائے ہیں اور ان کے ہاں اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت رہی ہے تو یہ لوگ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور وہ ایک لحظہ کے لئے بھی مسلمان نہیں ہوسکتے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان پر حاکمیت غیر اللہ کی ہو اور وہ دین اللہ میں داخل ہوں۔ ان کے ہاں رائج قانون ، قانون شریعت نہ ہو اور وہ مسلمان بھی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات میں وہ اپنے ملوک اور حکام کے دین پر تو ہوتے ہیں لیکن اللہ کے دین پر نہیں ہوتے۔

یہی وہ نظریہ تھا جس کی بنا پر حضرت موسیٰ نے فرعون سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو واپس جانے دے۔ ذرا ان فقرات کو دوبارہ پڑھئے " اے فرعون میں رب العالمین کا رسول ہوں ""۔۔۔ " لہذا میرے ساتھ بنی اسرائیل کو رخصت کیجئے "۔ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ اس اساس پر ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور رسالت کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ لوگوں کو غلامی سے رہا کیا جائے۔ یہ لازم و ملزوم امور ہیں۔

اردو ترجمہ

فرعون نے کہا "اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala in kunta jita biayatin fati biha in kunta mina alssadiqeena

فرعون اور اس کے ٹولے نے بھی اس اعلان کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اللہ کی ربوبیت کے اعلان کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ بات ان کی نظروں سے اوجھل نہ تھی۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس دعوت کے نتیجے میں ان کی حکومت خاتمہ یقینی ہے۔ اس دعوت سے ایک عظیم انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اس کی حکومت کے قانونی جواز کے لیے یہ اعلان ایک چیلنج ہے اور یہ کھلی بغاوت اور مخالفت ہے۔ لیکن انہوں نے سوچا کہ وہ موسیٰ کو جھوٹا ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ رسول رب العالمین ہیں اس لئے انہوں نے فی الفور معجزات کا مطالبہ کردیا۔

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ۔ فرعون نے کہا " اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر "

فرعون نے مطالبہ معجزات کا راستہ اس لئے اختیار کیا کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ حضرت موسیٰ رب العالمین کے رسول نہیں اور جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں تو آپ کی دعوت یہاں ہی ختم ہوجائے گی اور آپ کی ہوا اکھڑ جائے گی اور جن لوگوں کو یقین ہی نہ رہے گا تو پھر جو چاہیں کہتے پھریں۔ وہ ایک بےدلیل دعویٰ کے مدعی ہوں گے اور اس کے لئے کوئی خطرہ نہ ہوں گے۔

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalqa AAasahu faitha hiya thuAAbanun mubeenun

حضرت موسیٰ کا جواب یہ تھا = فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۔ وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا ھِىَ بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ ۔ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدھا تھا۔ اور اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔

حضرت موسیٰ کے ہاتھوں اچانک عظیم معجزات کے صدور سے وہ لوگ ششدر رہ گئے۔ عصا ایک سانپ بن گیا تھا اور اس کی حقیقت یوں بدل گئئی تھی کہ اب اس کے سانپ ہونے میں شک ہی نہ رہا تھا۔

(مُّبِيْنٌ) کے معنی واضح طور پر ، جیتا جاگتا۔ دوسری صورت میں کہا گیا (فاذا ھی حیۃ تسعی) " تو وہ اچانک چلنے پھرنے والا سانپ بن گیا "۔ حضرت موسیٰ سرخ رنگ والے تھے۔ انہوں نے اپنا گندم گوں ہاتھ نکالا تو وہ بلب کی طرح چمکتا ہوا باہر آیا۔ لیکن یہ سفیدی بوجہ بیماری نہ تھی بلکہ معجزانہ سفیدی تھی۔ جب آپ نے ہاتھ دوبارہ اپنے کپڑوں میں چھپایا تو دوبارہ اپنی اصلی حالت میں چلا گیا یعنی گندم گوں رنگ کا ہوگیا۔

یہ تھی حضرت موسیٰ کے دعوائے نبوت پر دلیل۔ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ آپ رب العالمین کے نمائندے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ درعون اور اس کے ٹولے نے ان معجزانہ دلائل کو تسلیم کیا ؟ کیا انہوں نے رب العالمین کی ربوبیت اور اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرلیا ؟ اگر وہ ایسا کرتے تو پھر فرعون کی ربوبیت ، اقتدار اور تاج و تخت کا جواز کیا رہ جاتا اور اس کے ٹولے کے لئے مراکز و مناصب پر مقتدر رہنے کا کیا جواز رہ جاتا جو ان کو فرعون نے عطا کئے تھے اور وہ فرعون کی حکومت کے کل پرزے تھے۔ اگر وہ اللہ کو رب العالمین تسلیم کرتا تو عملاً اس کا اقتدار ختم ہوجاتا۔

اگر اللہ کو رب العالمین تسلیم کیا جائے تو اس کا منطقی تقاضا یہ وہتا ہے کہ پھر ملک کے اندر اللہ کی شریعت اور قانون نافذ ہو ، کیونکہ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق اللہ کے سوا کسی اور کے احکام کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ اس لئے اس نظریہ کے مطابق فرعون کا قانون اور اس کے احکام بےاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ احکام جو شریعت کے خلاف ہوں اور نہ شریعت پر مبنی ہوں۔ اگر لوگوں کے رب اللہ رب العالمین قرار پائیں تو پھر ان کا کوئی اور رب نہیں رہتا جس کے احکام اور قوانین کے وہ مطیع ہوں اور لوگ فرعون کے احکام اور شریعت کی جو اطاعت کرتے ہیں تو اس لئے کرتے ہیں کہ انہوں نے اسے اپنا رب تسلیم کرلیا ہے۔ لوگوں کا رب وہ شخص ہوتا ہے جس کے قوانین کی وہ اطاعت کرتے ہیں اور یہ لوگ اس رب کے دین میں ہوتے ہیں۔

لیکن یہ بات تو اس قدر جلدی سے نہیں مانی جاسکتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ طاغوت ٹھنڈے پیٹوں اپنے اقتدار اعلیٰ سے دست بردار ہوجائے اور اس کا نظام باطل اور کالعدم قرار پاجائے ؟

اردو ترجمہ

اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WanazaAAa yadahu faitha hiya baydao lilnnathireena

اردو ترجمہ

ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ "یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala almalao min qawmi firAAawna inna hatha lasahirun AAaleemun

فرعون اور اس کا ٹولہ اس قدر بیوقوف نہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان اور مطالبے کے نتائج سے با خبر نہ ہو بلکہ وہ واضح طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان کو سمجھ جاتے ہیں اور اس کا اعلان کردیتے ہیں۔ لیکن اس انداز میں کہ لوگوں کی نظریں حضرت موسیٰ کے معجزانہ دلائل سے پھرجائیں۔ چناچہ فرعوان اور اس کے ٹولے نے حضرت موسیٰ پر یہ الزام لگایا کہ وہ ایک عظیم جادوگر ہیں۔ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۔ يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ۚ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ۔ اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ " یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے " تمہیں تمہاری زمین سے بےدخل کرنا چاہتا ہے۔ اب کہو کیا کہتے ہو ؟ "۔

وہ چلا چلا کر کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے جو دعوی کیا ہے وہ کس قدر دور رس نتائج کا حامل ہے اور کس قدر خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہمیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے ، حکومت چھیننا اس کا مطلب ہے۔ وہ ہمارے نظام حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے بلکہ وہ انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔ دور جدید میں اسے یہی کہا جاسکتا ہے۔

یہ زمین اللہ کی ہے ، عوام الناس اللہ کے پیدا کردہ ہیں ، اگر اللہ کی سرزمین پر اللہ کے بندوں پر حکومت بھی اللہ کی قائم ہوجائے تو وہ تمام طاغوتی حکمرانیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں جو اللہ کی شریعت کے برعکس قائم ہوں۔ اور ان لوگوں کا اقتدار خود بخود ختم ہوجاتا ہے جو از خود لوگوں کے خدا بنے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کا اقتدار بھی خود بخود ختم ہوجاتا ہے جنہیں ان طاغوتی حکمرانوں نے صاحب منصب اور اہلکار بنا رکھا ہے۔

اس طرح فرعون اور اس کے ٹولے نے معلوم کرلیا کہ حضرت موسیٰ کی دعوت کس قدر خطرناک ہے۔ اور یہی بات تمام طاغوتی قوتیں ہر دور میں اچھی طرح جان لیتی ہیں۔

ایک عرب نے اپنے فطری فہم و ادراک کی اساس پر یہ کہا کہ حضور ﷺ جو لوگوں کو (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی دعوت دیتے ہیں یہ ایک ایسی دعوت ہے جسے بادشاہ پسند نہیں کرتے۔ اور ایک دوسرے عرب دانشور نے اپنی فطری معاملہ فہمی کی اساس پر یہ کہا اگر تم نے اس دعوت کو جاری رکھا تو عرب و عجم تمہارے ساتھ برسر پیکار ہوجائیں گے۔ یہ دونوں عرب دانشور در اصل عربی زبان کے مفاہم کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ (لا الہ الا اللہ) کا اعلان حکمرانوں کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ کیونکہ وہ عربی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ جانتے کہ ایک دل میں ایک سرزمین پر کلمہ طیبہ کی شہادت اور پھر غیر اللہ کی اور خلاف شریعت حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔ اس وقت کے عرب کلمہ شہادت کو اس طرح نہ سمجھتے تھے جس طرح آج کے نام نہاد مسلمان اسے سمجھتے ہیں۔ آج کے لوگوں کا مفہوم کلمہ شہادت بہت ہی ناقص ، کم درجے کا اور کمزور درجے کا ہے۔

اردو ترجمہ

تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yureedu an yukhrijakum min ardikum famatha tamuroona

اردو ترجمہ

پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo arjih waakhahu waarsil fee almadaini hashireena

اب فرعون اور اس کے ٹولے کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے۔ اس وقت مصر میں کاہن اور جادوگر بڑی تعداد میں تھے۔ خود کاہن جادوگری کا کام بھی کرتے تھے۔ تمام بت پرستانہ مذاہب میں جادو دین کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ چناچہ ان ادیان کے کاہن اور مجاور جادوگری کا کام بھی کرتے تھے۔ آج کل ادیان کے جدید ماہرین اس صورت حالات کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایک دور ایسا بھی رہا ہے کہ جادوگری سے دین کا آغاز ہوا۔ اور زیادہ پکے ملحد یہ یا وہ گوئی کرتے ہیں کہ جس طرح جادو بالکل دین قرار پا گیا ہے اسی طرح ہر ایک دین بھی ختم ہوجائے گا اور جس طرح سائنس نے جادگروی کے دور کو ختم کردیا ہے اسی طرح ایک وقت ایسا آئے گا کہ مذہب بھی ختم ہوجائے گا۔ بہرحال یہ ان کا خطب ہے جس میں وہ سائنس کے عنوان سے مبتلا ہیں۔

فرعون کے مشیروں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ حضرت موسیٰ اور آپ کے بھائی کو وقت دے دیں اور اپنی ریاست کے اطراف و اکناف سے بڑے بڑے جادوگروں کو طلب کریں تاکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جادو گری کا مقابلہ کریں۔ (نعوذ باللہ)

فرعون نے اپنی معروف و مشہور فرعونیت کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے میں سرکشی کا مظاہرہ نہ کیا اور اس کا رویہ بیسویں صدی کے بعد کے فرعونوں سے زیادہ معقول رہا۔ آج کل کے فرعون دعوت اسلامی کا مقابلہ تشدد اور قید و بند اور باطل طریقوں سے کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yatooka bikulli sahirin AAaleemin

اردو ترجمہ

چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے اُنہوں نے "اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaa alssaharatu firAAawna qaloo inna lana laajran in kunna nahnu alghalibeena

قرآن کریم اب درمیانی تفصیلات چھوڑ کر ایک دوسرے منظر کو پیش کرتا ہے کہ کس طرح فرعون کے ٹولے نے لوگوں کو جمع کیا اور کن کن کو جمع کیا بلکہ پردہ اٹھتے ہی جادوگر سامنے آجاتے ہیں اور یہ قرآن کریم کا بیان کردہ قصص میں نہایت ہی موثر اور پیارا اسلوب ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ ایک منظر کو لپیٹ کر دوسرا منظر سامنے لایا جاتا ہے۔

وَجَاۗءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ ۔ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ۔ چناچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔ انہوں نے کہا " اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا ؟ " فرعون نے جواب دیا " ہاں ، اور تم مقرب بارگاہ ہوگے "۔

یہ لوگ پیشہ ور جادوگر تھے اور اسی طرح پیشہ ور کاہن تھے اور دونوں کاموں سے ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ دنیا میں ہمیشہ پیشہ ور علمائے دین نے طاغوتی طاقتوں اور ظالم بادشاہوں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھا ہے۔ نیز دنیا میں جب بھی اللہ کی حاکمیت کا نظام معطل ہوا ہے اور اللہ وحدہ کی بندگی ختم ہوئی ہے اس کی جگہ طاغوتی نظام قائم ہوگیا ہے اور جب طاغوتی نظام قائم ہوا ہے تو ایسے حکمرانوں کو پیشہ ور اہل دین کی ضرورت پیش آئی ہے اور ان حکمرانوں نے اہل پیشہ کو ان کے پیشے پر اجر دیا ہے اور انہوں نے دینی اعتبار سے اس طاغوتی نظام کو قبول کیا ہے۔ یوں دونوں کے درمیان باہم معاہدہ رہا ہے اور طاغوتی حکمرانوں نے ان پیشہ ور اہل دین کو پیسہ بھی دیا ہے اور مقرب بھی بنایا ہے۔

فرعون نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کام پر انہیں اجرت بھی دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کے مقربین میں سے بھی ہوں گے۔ یوں فرعون نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ صرف موسیٰ کا بےجگری سے مقابلہ کریں اور سخت جدوجہد کریں۔ لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے کہ وہ چرب زبانی یا چالاکی سے حضرت موسیٰ کو شکست دے دیں گے یہاں تو ان کا واسطہ خدا ، خدا کے رسول ، خدائی معجزات اور خوارق عادت ، حقائق و واقعات سے تھا ، محض شعبدہ بازی اور تخیلاتی جادوگری نہ تھی۔

اردو ترجمہ

فرعون نے جواب دیا "ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہو گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala naAAam wainnakum lamina almuqarrabeena

اردو ترجمہ

پھر اُنہوں نے موسیٰؑ سے کہا "تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo ya moosa imma an tulqiya waimma an nakoona nahnu almulqeena

جادوگر اجر کے بارے میں مطمئن ہوگئے اور فرعون کی ہمنشینی کی لالچ میں ان کی گردنیں بلند ہوگئیں اور مقابلے کے لئے تیار ہوگئے۔ اب یہ حضرت موسیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور آپ کو چلینج دیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ اس مقام بلند تک جا پہنچتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے مقرر کیا تھا اور جس کے بارے میں انہیں تصور بھی نہ تھا اور وہ اس اجر کے مستحق قرار پائے جس کی انہیں توقع ہی نہ تھی۔

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْن۔ پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ؟ موسیٰ نے جواب دیا۔ تم ہی پھینکو۔

انہوں نے اختیار حضرت موسیٰ کو دے دیا کہ چاہو تو تم اپنا عصا کو پھینکو یا ہم پھینکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت اعتماد سے چیلنج کر رہے تھے۔ ان کو اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا اور اپنی فنکاری پر اعتماد تھا۔ اس کے مقابلے میں حضرت موسیٰ بھی نہایت ہی پر اعتماد تھے اور انہوں نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ تم پھینکو۔ انہوں نے صرف ایک لفظ میں جواب دیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ان کے کرتب کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ حضرت موسیٰ کے نفس کے اندر پورا یقین و اطمینان تھا۔ یہ امور اور یہ معانی قرآن کریم کے طریقہ کلام کے مطابق الفاظ کے استعمال سے ظاہر ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے جواب دیا "تم ہی پھینکو" انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala alqoo falamma alqaw saharoo aAAyuna alnnasi waistarhaboohum wajaoo bisihrin AAatheemin

جس طرح حضرت موسیٰ اچانک صورت حالات سے دو چار ہوے ، سیاق کلام اور انداز بیان ایسا ہے کہ ہر قاری اچانک ایک خوفناک صورت حال سے دو چار ہوجاتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑی لاپرواہی سے جواب دے رہے ہیں لیکن اچانک انہیں بھی ایک نہایت ہی خوفناک اور مرعوب کن صورت حال سے دوچار ہونا پڑا ہے جسے دیکھ کر انسان خائف ہوجاتے ہیں اور کانپ اٹھتے ہیں۔ قَالَ اَلْقُوْا ۚ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ ۔ انہوں نے جو اپنے آلچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوفزدہ کردیا اور بڑٓ ہی زبردست جادو بنا لائے۔

ہمارے لئے یہ بات کافی ہے کہ ان لوگوں کے فن کے بارے میں قرآن کریم نے بھی سحر عظیم کا لفظ استعمال کیا اور اس سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا جادو کس قدر عظیم تھا۔ انہوں نے لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کردیا اور لوگوں کے دلوں کو رعب سے بھر دیا اور ماحول پر خوف کی فضا طاری ہوگئی۔

لفظ استرھب کے استعمال سے ماحول کا ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے یعنی انہوں نے لوگوں کے اندر خائف ہونے کا تاثر پیدا کردیا۔ اس طرح کہ وہ ڈرنے پر مجبور ہوگئے۔ اور سورت طہ میں تو یہ بھی بتایا گیا کہ حضرت موسیٰ بھی دل ہی دل میں خائف ہوگئے تے۔ ان تمام الفاظ سے ان لوگوں کی خوفناک جادوگری کے بارے میں یقین آجاتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے موسیٰؑ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waawhayna ila moosa an alqi AAasaka faitha hiya talqafu ma yafikoona

لیکن اب ایک دوسری سرپرائز سامنے آتی ہے۔ ایک عظیم واقعہ پیش آتا ہے۔ فرعون اور اس کا ٹولہ اور جادوگر سب کے سب ششدر رہ جاتے ہیں۔ تمام لوگ دم بخود رہ جاتے ہیں اور اس عظیم میدان کے بیشمار اور عظیم سکتہ طاری ہوجاتا ہے جنہوں نے جادوگری کے اس عظیم عمل کو دیکھا۔

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَاِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ ۔ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِيْنَ ۔ ہم نے موسیٰ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نکلتا چلا گیا۔ اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہوکر رہ گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے) الٹے ذلیل ہوگے۔

باطل ہمیشہ پھول جاتا ہے اور آنکھوں کو چکا چوند کردیتا ہے ، دلوں کو مرعوب کردیتا ہے اور اکثر لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ باطل غالب ہی رہے گا۔ یہ سیلاب کی طرح بہا کرلے جائے گا۔ اور تمام چیزوں کو نیست و نابود کردے گا لیکن جونہی اس کا واسطہ ایک سنجیدہ ، پر عزم اور مضبوط سچائی سے ہوتا ہے تو اس سے غبارے کی طرح ہوا نکل جاتی ہے اور وہ بلبلے کی طرح بیٹھ جاتا ہے ، خارپشت کی طرح سکڑ جاتا ہے اور محض گھاس کے شعلے کی طرح ہوتا ہے جو ایک منٹ میں بجھ جاتا ہے۔ اب سچائی کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔ اس کی بنیادیں مضبوط ہوجاتی ہیں اور جڑیں گہری ہوجاتی ہیں۔ قرآن کریم نے یہاں جو انداز تعبیر اختیار کیا ہے ، اس میں اس مفہوم کا پرتو موجود ہے۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ حق ایک عظیم اور بھاری وجود کا مالک ہے اور اس کی زد بڑے زور سے پڑتی ہے اور وہ مستقلاً ثابت ہوجاتا ہے اور حق کے سوا تمام دوسرے امور ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں اور باطل کے تار و پود بکھر جاتے ہیں۔ سچائی باطل اور اس کے پیروکاروں پر غالب آجاتی ہے اور نہایت پھلنے پھولنے اور آنکھوں کو چندھیانے کے بعد یہ باطل بڑی تیزی سے سکڑ جاتا ہے۔

فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِيْنَ ۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور فتح مند ہونے کے بجائے الٹا ذلیل ہوئے۔ لیکن ابھی تک یہ سر پر ائز ختم نہیں ہوئی۔

اردو ترجمہ

اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ اُنہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FawaqaAAa alhaqqu wabatala ma kanoo yaAAmaloona

اردو ترجمہ

فرعون اور اس کے ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے) الٹے ذلیل ہو گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faghuliboo hunalika wainqalaboo saghireena

اردو ترجمہ

اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waolqiya alssaharatu sajideena

اس منظر میں ایک کے بعد خلاف توقع دوسرے مناظر آتے ہیں۔ اب ایک عظیم منظر اچانک نظروں کے سامنے ہے۔ وَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ ۔ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۔ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا۔ کہنے لگے ہم نے مان لیا رب العالمین کو۔ اس رب کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں۔

یہ ہے انسانی ضمیر میں سچائی کا رعب اور دبدبہ۔ انسانی شعور اچانک روشن ہوجاتا ہے اور جب کوئی دل قبولیت حق کے لئے تیار ہوجاتا ہے تو اس کے اندر اچانک سچائی کا چراغ روشن ہوجاتا ہے اور وہ یقین سے بھر جاتا ہے۔ یہ جادوگر اپنے فن کی حدود سے اور اس کی ماہیت سے اچھی طرح باخبر تے اور اگر حضرت موسیٰ جادوگر ہوتے تو وہ اور لوگوں کے مقابلے میں انہیں بہت جلد پہچان لیتے۔ حضرت موسیٰ کے ہاتھوں جس معجزے کا ظہور ہوا وہ انسانی قدرت اور جادو کے دائرے سے ورا تھا۔ ایک ماہر فنکار اپنے فن کے بارے میں حقیقت کو بہت جلد تسلیم کرلیتا ہے ، بشرطیکہ حقیقت اس پر منکشف ہوجائے۔ اس لئے کہ صاحب فن حقیقت کے قریب ہوتا ہے ، اور اس کا علم ان لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے جو صرف سطحی معلومات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگر چیلنج اور تحدی کے موقف کو چھوڑ کر تسلیم و رضا کا پیکر بن گئے کیونکہ وہ اپنے دلوں کے اندر یقین پا رہے تھے اور یہ حقیقت ان کے شعور کا حصہ بن گئی تھی۔

لیکن کوئی بھی طاغوتی طاقت اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ انسان کا دل کس طرح نور سے بھر جاتا ہے یا یہ کہ انسان کو ایمان کی یہ شرح صدر کس طرح ہوجاتی ہے اور انسان کے دل میں یقین کی گرمی کس طرح پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ طاغوتی قوتیں چونکہ طویل عرصے تک لوگوں کو غلام بنائے رکھتی ہیں اس لئے انہیں یہ زعم ہوجاتا ہے کہ وہ معاملات کو اپنے ڈھب پر ڈالنے کی قوت رکھتی ہیں اور لوگوں کے دل و دماغ و پھر بدل سکتی ہیں۔ حالانکہ انسان کا دل تو رحمن کی انگلیوں میں ہوتا ہے ، وہ جس طرح چاہے اسے پھیر دے۔ جادوگروں کی جانب سے اعلان شکست اور اعلان ایمان فرعون کے لئے ناقابل تصور اور تعجب خیز تھا۔ کیونکہ ان لوگوں کے دلوں میں تو ایمان کا شائبہ تک نہ تھا اور نہ ان کے ضمیر میں ایمان کا کوئی دخل و عمل اس کے علم میں تھا۔ پھر اس کے لئے یہ اچانک اعلان ایمان اس قدر خطرناک تھا کہ اس سے اس کی حکومت خطرے میں پڑگئی۔ اس کے قدم ڈگمگانے لگے تھے۔ جادوگر صرف جادوگر ہی نہ تھے بلکہ وہ اس وقت کی عبادت گاہوں کے کاہن اور علماء و خطباء تھے ، جب کسی ملک کے تمام مذہبی راہنما ایمان لے آئیں تو پھر حکومت کے لئے اپنی جگہ پر ٹھہرنا ممکن نہیں رہتا۔ خصوصاً ایسے حالات مبارزت میں کہ وہ مقابلے کے لئے میدان میں آئے ہوں۔ ایسے حالات میں کہ جب طاغوتی نظام بذات خود خطرے میں ہو تو اہل طاغوت سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

164