سورہ اعراف: آیت 11 - ولقد خلقناكم ثم صورناكم ثم... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ اعراف

وَلَقَدْ خَلَقْنَٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِءَادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ ٱلسَّٰجِدِينَ

اردو ترجمہ

ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqnakum thumma sawwarnakum thumma qulna lilmalaikati osjudoo liadama fasajadoo illa ibleesa lam yakun mina alssajideena

آیت 11 کی تفسیر

آیت ” نمبر 11 تا 18۔

یہ پہلا منظر ہے اس قصے کا ۔ نہایت ہی دلچسپ ‘ نہایت ہی اہم ۔ ہم اس قصے کے مناظر اس کی تفسیر سے پہلے پیش کریں گے ۔ ان مناظر سے فارغ ہونے کے بعد ہم اس قصے کے اشارات واثرات پیش کریں گے ۔

آیت ” وَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ لَمْ یَکُن مِّنَ السَّاجِدِیْنَ (11)

” بیشک ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتداء کی ‘ پھر تمہاری صورت بنائی ‘ پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ‘ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔

لفظ خلق کبھی تو محض وجود میں لانے کے لئے آتا ہے ۔ اسی طرح تصویر کا مفہوم کبھی یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کو شکل و صورت اور خصائص دینا ۔ اس اعتبار سے خلق وتصویر کی تخلیق کے دو مرحلے نہیں ہوتے بلکہ بیک وقت کسی تخلیق میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ لازمی نہیں ہے کہ ثم کا لفظ ہمیشہ ترتیب زمانی کے لئے استعمال ہو ۔ یہ معنوی ترقی کے مفہوم میں بھی آتا ہے ۔ معنوی اعتبار سے محض وجود کے مقابلے میں مصور ہونا زیادہ ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ محض مادے پر بھی وجود کا اطلاق ہوتا ہے ۔ البتہ تصویر کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں مجرد وجود ہی نہیں بخشا گیا بلکہ ایک ترقی یافتہ مصور اور صاحب خصائص و کمالات وجود دیا گیا ہے ۔ دوسری جگہ آیت ” الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی “۔ جس نے ہر چیز کو اس کا وجود بخشا اور پھر ہدایت دی “۔۔۔۔ ۔۔ اس لئے کہ اللہ نے ہر چیز کو اس کے خصائص اور اس کے مقاصد وفرائض اسی وقت دے دیئے تھے جس وقت انہیں پیدا کیا تھا اور تخلیق کے وقت ہی ہدایت کردی تھی کہ اپنے ان وظائف وفرائض کے لئے کام کرو ‘ اور تخلیق اور ہدایت کے درمیان کوئی زمانی فاصلہ نہ تھا ۔ اگر ہدایت سے مراد رب کی طرف ہدایت لی جائے تب بھی مفہوم میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ تخلیق کرتے ہی اللہ نے انسان کو ہدایت کردی تھی ۔ اسی طرح آدم کو بھی خصائص انسانیت تخلیق کے وقت ہی دے دیئے گئے تھے ۔ اور ثم کا لفظ یہاں ترقی اور مرتبہ کی بڑائی کے معنوں میں ہے ۔ زمانہ ماقبل یا مابعد کے معنی میں نہیں ہے ۔ ہمارے خیال میں یہی مفہوم درست ہے ۔

بہرحال خلق آدم کے بارے میں جس قدر نصوص وارد ہیں اور اس کرہ ارض کے اوپر نسل انسانی کے بارے میں جس قدر آیات آئی ہیں ان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کو اس کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے انسانی خصائص اور فرائض منصبی دے دیئے گئے تھے اور انسانی تاریخ میں جو ترقی نظر آتی ہے وہ صرف ان صلاحتیوں کے ظہور میں ہوئی ہے انسان کے تجربے اور اس کی مہارت میں اضافہ بہرحال ہوتا ہے ۔ یہ ترقی انسان کے وجود اور اس کی ذہنی صلاحیت میں نہیں ہوئی لہذا یہ فلسفہ بالکل غلط ہے جو ڈارون نے گھڑا ہے کہ انسان کی ساخت میں ترقی ہوتی رہی ہے۔

ڈارون کا یہ نظریہ کہ حیوانات کے انواع میں ترقی ہوتی رہی ۔ آثار قدیمہ اور پتھروں کی کھدائی پر مبنی ہے ۔ اور محض ظن وتخمین ہے ۔ طبقات الارض کے لحاظ سے بھی پتھروں اور پہاڑوں کی عمر کا تعین کوئی یقین امر نہیں ہے ۔ یہ محض ظنی اور تخمینی فیصلے ہیں۔ مثلا شعاعوں کے ذریعے ستاروں کی عمر معلوم کرنا ۔ یہ علوم جو محض ظن وتخمین اور مفروضوں پر مبنی ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرے مفروضے بھی ہوسکتے ہیں جو ان سے زیادہ معقول ہو سکتے ہیں ۔

اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ پتھروں اور چٹانوں کی عمر یقینی طور پر متعین ہوگئی ہے تب بھی یہ ممکن ہے کہ قدیم زمانوں سے حیوانات کی مختلف اقسام اپنی موجودہ شکل میں تھیں ۔ ان ادوار میں ان کے لئے حالات ساز گار تھے لیکن بعد میں ان کے لئے حالات ساز گار نہ رہے اور ان کی نوع دنیا سے ختم ہوگئی ۔ لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ان میں سے ایک نوع دوسری نوع کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ ہم دونوں کو مستقل انواع مان سکتے ہیں ۔ ڈارون کی کھدائیاں اور اس کے بعد دریافت ہونے والے انواع اس سے زیادہ کچھ ثابت نہیں کرسکتے ۔ ان چٹانی تصاویر سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی ایک نوع سے زیادہ ترقی یافتہ نوع فلاں وقت میں موجود تھی اور اس بات کی تاویل کی جاسکتی ہے کہ اس وقت اس نوع کے وجود کے لئے حالات سازگار تھے اور بعد میں حالات ناساز گار ہونے کے باعث وہ نوع ختم ہوگئی اور اس کی جگہ دوسری قسم کے حیوانات وجود میں آگئے اور ترقی کر گئے ۔

اس لئے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نوع انسانی روز اول سے ایسی ہی ہے جس طرح کہ آج ہے اور اسے اللہ تعالیٰ زمین پر اس وقت وجود میں لائے جب یہاں کے حالات انسان کے لئے ساز گار بنا دیئے گئے ۔ تمام قرآنی نصوص اسی بات کی تائید کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ انسانی طبیعیاتی ‘ عضویاتی اور عقلی و روحانی اعتبار سے اس قدر منفرد ہے کہ دور جدید کے ڈارونی بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں کہ انسان کسی دوسری نوع کی ترقی پذیر نوع نہیں ہے اور وہ کسی دوسری نوع کے ساتھ عضویاتی مماثلت نہیں رکھتا ۔ حالانکہ ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو سرے سے ذات باری کے قائل ہی نہیں ہیں اور ان کی جانب سے یہ ایک قسم کا اعتراف ہے کہ انسان کا وجود اور اس کی نشوونما بالکل منفرد ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا اعلان فرشتوں کے اجتماع میں کیا اور یہ اجتماع عالم بالا میں منعقد ہوا ۔

آیت ” ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ لَمْ یَکُن مِّنَ السَّاجِدِیْنَ (11)

پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ‘ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔

ملائکہ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مستقل مخلوق ہے اور ان کے اپنے خصائص وفرائض ہیں ۔ ہم ان کے بارے میں اسی قدر جانتے ہیں جس قدر اللہ نے ہمیں بتایا ہے ۔ ظلال القرآن میں ہم اس سے قبل فرشتوں کے بارے میں ایک نوٹ دے آئے ہیں ۔ اسی طرح ابلیس بھی ایک مستقل نوع کی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے ۔ قرآن میں کہا گیا ہے کان من الجن نفسق عن امر ربہ ” یہ جنوں میں سے تھا ‘ اس نے اپنے رب کی حکم عدولی کی “۔ جنات فرشتوں سے الگ ایک مخلوق ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر ہمیں اللہ نے بتایا ہے ۔ ان کے بارے میں بھی ہم نے ایک مجمل حاشیہ اسی پارے میں دے دیا ہے ۔ اس سورة میں آگے جا کر یہ بات آئے گی کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اس لئے وہ ملائکہ سے الگ ایک مخلوق سے وابستہ ہے ۔ ابلیس کو بھی حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا تھا اس لئے کہ یہ زمرہ ملائکہ میں شامل تھا اور اس وقت وہ عالم بالا کی اس محفل میں موجود تھا ‘ جہاں تخلیق آدم کی تقریب ہوئی ۔

رہے فرشتے تو وہ تو ایسی مخلوق ہیں جو اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور انہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے مطیع فرمان ہو کر سجدہ کردیا اور اللہ کے حکم کی تعمیل کردی ۔ کیونکہ وہ کسی معاملے میں نہ تردد کرتے ہیں نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ وہ اللہ کی نافرمانی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ‘ چاہے کوئی سبب اور کوئی جواز ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ان کا مزاج ہے ۔ یہ اطاعت شعاری ان کی خصوصیت ہے اور یہ انکے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت انسان کی ذات کس قدر مکرم ہے اور یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ فرشتے اللہ کے مطیع مطلق ہیں ۔

رہا ابلیس تو اس نے امتثال امرنہ کیا اور نافرمانی کردی۔ یہ بات آگے آرہی ہے کہ کس وجہ سے اس کے دل میں خلجان پیدا ہوا ۔ اس پر کیا خیالات چھاگئے جس کی وجہ سے اس نے نافرمانی کی جرات کی ؟ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اللہ رب العالمین ہے اور خود اس کا بھی خالق ہے ۔ وہ اس کے امور اور خود اس کے وجود کا بھی مالک ہے ‘ اسے ان معاملات میں کوئی شک نہیں تھا ۔

اس منظر میں اللہ کی مخلوقات کے تین نمونے پائے جاتے ہیں ۔ ایک نمونہ وہ ہے جو ہر لحاظ سے مطیع فرمان ہے اور اس کی فطرت میں تعمیل امر ہے ۔ دوسرا نمونہ ہے جو مکمل طور پر نافرمان ہے اور اس کی فطرت میں استکبار اور نافرمانی ہے۔ تیسری مخلوق انسانی مخلوق ہے ۔ اس کی صفات ‘ اس کی کمزوریوں اور کمالات پر بھی عنقریب بات ہوگی ۔ پہلی قسم کی مخلوق خالص الہی مخلوق ہے اور انہوں نے اپنا فرض اس محفل ہی میں پوری طرح ادا کردیا ۔ دوسری دو قسم کی مخلوقات کے بارے میں عنقریب تفصیلات آئیں گی کہ ان کے رجحانات کیا ہیں ؟

آیت 11 وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق نظریۂ ارتقاء Evolution Theory کے حامی اس آیت سے بھی کسی حد تک اپنی نظریاتی غذا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کے بارے میں مختلف نوعیت کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ایک طرف تو انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مثلاً سورة آل عمران آیت 59 میں بتایا گیا ہے کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے بنا کر کُنْ کہا گیا تو وہ ایک زندہ انسان بن گیا فَیَکُوْن۔ یعنی یہ آیت ایک طرح سے انسان کی ایک خاص مخلوق کے طور پر تخلیق کی تائید کرتی ہے۔ جب کہ آیت زیر نظر میں اس ضمن میں تدریجی مراحل کا ذکر ہوا ہے۔ یہاں جمع کے صیغے وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس سلسلہ کی کچھ انواع species پہلے پیدا کی گئی تھیں۔ گویا نسل انسانی پہلے پیدا کی گئی ‘ پھر ان کی شکل و صورت کو finishing touches دیے گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم تو ایک تھا ‘ پھر یہ جمع کے صیغے کیوں استعمال ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کے جواب کے لیے سورة آل عمران کی آیت 33 بھی ایک طرح سے ہمیں دعوت غور و فکر دیتی ہے ‘ جس میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے چنا تھا : اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ گویا یہ آیت بھی کسی حد تک ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بہر حال اس قسم کی رض heories کے بارے میں جیسے جیسے جو جو عملی اشارے دستیاب ہوں ان کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ‘ اور آنے والے وقت کے لیے اپنے options کھلے رکھنے چاہیں۔ ہوسکتا ہے جب وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مزید حقائق اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے انسانی علم میں آئیں تو ان آیات کے مفاہیم زیادہ واضح ہو کر سامنے آجائیں۔

ابلیس، آدم ؑ اور نسل آدم انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدام کا حسد کیا۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو اسی واقعہ کا ذکر آیت (وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28) 15۔ الحجر) میں بھی ہے۔ حضرت آدم کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا اس واقعہ کو سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر ؒ نے بھی پسند فرمایا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ میں پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ حضرت آدام ؑ کے لئے ہی ہوا تھا۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لئے ہوا کہ حضرت آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت (وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ 57) 2۔ البقرة) اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر، لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گذار ہونا چاہئے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی۔ یہاں یہ بات واضح ہے اس کے بالکل برعکس آیت (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْن 12) 23۔ المؤمنون) ہے کہ مراد آدم ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انان ہے نہ کہ معین۔ واللہ اعلم۔

آیت 11 - سورہ اعراف: (ولقد خلقناكم ثم صورناكم ثم قلنا للملائكة اسجدوا لآدم فسجدوا إلا إبليس لم يكن من الساجدين...) - اردو