سورہ عنکبوت: آیت 45 - اتل ما أوحي إليك من... - اردو

آیت 45 کی تفسیر, سورہ عنکبوت

ٱتْلُ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ ۖ إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ تَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ ٱللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Otlu ma oohiya ilayka mina alkitabi waaqimi alssalata inna alssalata tanha AAani alfahshai waalmunkari walathikru Allahi akbaru waAllahu yaAAlamu ma tasnaAAoona

آیت 45 کی تفسیر

اتل ما اوحی ۔۔۔۔۔ یعلم ما تصنعون (29: 45) ” جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے بیشک نماز فحاشی اور منکرات سے روکتی ہے۔ بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کام تم کرتے ہو “۔

ان کے سامنے کتاب پڑھیں کہ یہی ذریعہ دعوت اسلامی ہے ، اور ایک ربانی معجزہ ہے اور اس کتاب کے اندر بیان کردہ سچائی وہی ہے جو اس کائنات کے اندر پوشیدہ سچائی ہے۔ اور نماز قائم کرو ، جب نماز قائم کی جاتی ہے تو یہ فحاشی اور منکرات سے روکتی ہے ، یہ اللہ کے ساتھ ایسا رابطہ ہے کہ جب کوئی یہ رابط قائم کرتا ہے تو پھر وہ فحاشی اور منکرات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ ظاہری اور روحانی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ کوئی گندگی ، ناپاکی اور میل کچیل لگا ہی نہیں کھاتی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” جو شخص ایسی نماز پڑھے جو اسے فحاشی اور منکرات سے نہ روکے تو وہ ایسی نماز سے ماسوائے اس کے کہ اللہ سے دور ہوجائے۔ اور کوئی مفاد نہ پائے گا “۔ (ابن جریر) ۔

اگر کوئی ایسی نماز پڑھتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے نماز ادا کردی لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز قائم کردی۔ اور نماز ادا کرنے میں اور قائم کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر نماز قائم کی جائے تو یہ ذکر اللہ ہوتی ہے اور

ولذکر اللہ اکبر (29: 45) ” اللہ کا ذکر بہت بڑا ہوتا ہے “۔ مطلقاً وہ بڑی چیز ہوتی ہے۔ ہر تصور اور ہر جذبہ سے بڑا

ہوتا ہے۔ ہر عبادت اور ہر عاجزی سے ذکر اللہ بڑا ہوتا ہے۔

واللہ یعلم ما تصنعون (29: 45) ” اور اللہ جانتا ہے جو تم بناتے ہو “۔ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اس پر کسی امر میں التباس نہیں ہوتا۔ تم نے آخر کار اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اور وہ تمہاری تمام مصنوعات کا بدلہ تمہیں دینے والا ہے۔

درس نمبر 182 ایک نظر میں

یہ سورة عنکبوت کا آخری سبق ہے۔ پہلے دو سبق پارہ 20 میں گزر چکے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا اس سورة کا محور آزمائش و ابتلاء ہے۔ جو لوگ بھی کلمہ حق بلند کرتے ہیں ان کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ فتنوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں سے گزار کر اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹے لوگوں کے درمیان فرق واضح فرما دیتے ہیں۔ جو جس قدر گرم و سرد چشیدہ ہوگا اسی قدر وہ درجات بلند کا مالک ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ بھی ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ زمین پر موجود شیطانی قوتیں اہل ایمان کا راستہ روکنے کے لیے چاہے جس قدر زور لگائیں ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اہل ایمان اگر ذرا صبر کریں اور مصابرت سے کام لیں تو اللہ آخر کار بدکاروں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اہل ایمان کو کامیاب کرتا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے اور اسلامی دعوت کے ساتھ اللہ کی سنت کا ہمیشہ یہی معاملہ رہا ہے۔ نوح (علیہ السلام) سے لے کر آج تک یہ سنت اٹل رہی ہے۔ اس میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ سنت اس بڑی سچائی کے ساتھ بھی مربوط ہے جو اس کائنات میں کام کر رہی ہے جس طرح اللہ کی دعوت ایک ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اسی طرح اللہ کی سنت بھی ناقابل تغیر ہے۔

درس سابق کا خاتمہ اس بات پر ہوا تھا کہ اے رسول اور اے اہل ایمان تمہاری طرف جو آیات الٰہی نازل ہو رہی ہیں بس تم ان کی تلاوت کرتے جاؤ، ان کو سمجھو اور مطالعہ کرو اور نماز قائم کرکے ان پر عمل کرو ، اور اس بات کو ذہن میں حاضر رکھو کہ اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ بھی تم کرتے ہو۔

اس سبق میں بھی کتاب اللہ کے بارے میں بات چلتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کتاب اور کتب سابقہ کے درمیان کیا تعلق اور نسبت ہے۔ مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ ظالموں کو چھوڑ کر دوسرے عام اہل کتاب کے ساتھ رویہ اچھا رکھو ، ان کے ساتھ اچھے انداز سے مکالمہ کرو۔ ظالم لوگ وہ ہیں جنہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کردی اور جنہوں نے عقیدہ توحید کو بدل کر شرک کا عقیدہ اپنا لیا اور شرک ہی بہت بڑا ظلم ہے۔ اہل ایمان کی راہ اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ایک ہے۔ اس کی تمام رسالتیں ایک ہیں ، کتب ایک ہیں ، یہ کہ تمام کتابیں اللہ کے نزدیک عظیم سچائی پر مشتمل ہیں اور اہل ایمان ان کی تصدیق کرتے ہیں۔

اس کے بعد بعض ایسے اہل کتاب کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اس آخری کتاب پر ایمان لے آئے ہیں۔ حالانکہ مکہ کے مشرکین جن کے اندر سے نبی آخر الزمان کا انتخاب ہوا ، اس پر ایمان نہیں لاتے۔ وہ اس عظیم اعزاز اور عظیم رحمت کی قدر نہیں کرتے جو اللہ نے ان کو بخشی۔ وہ اس کتاب کے اعجاز اور اس کی تعلیمات کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھیجے ہوئے رسول کو اپنے لیے غنیمت نہیں سمجھتے کہ وہ ان سے ہمکلام بھی ہے اور اللہ کا کلام بھی ان کو سنا رہا ہے جبکہ اس سے قبل مشرکین کے سامنے نہ انہوں نے کوئی کتاب پڑھی اور نہ وہ کوئی قلم کار تھے۔ اگر حضور ﷺ مطالعہ کتب کرتے رہتے اور کتابیں لکھتے رہتے تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ انہوں نے یہ کتاب خود تصنیف کر ڈالی ہو۔ مشرکین مکہ بات بات پر یہ مطالبہ کردیتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو لاؤ عذاب الٰہی جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب بہت ہی قریب ہے ، اور یہ جہنم کی شکل میں تمہیں گھیرے گا۔ یہ قیامت کے دن اوپر سے بھی ہوگا اور پاؤں کے نیچے سے بھی ہوگا۔ ہر طرف سے گھیر لے گا۔

اس کے بعد روئے سخن ان اہل ایمان کی طرف پھرجاتا ہے جو مکہ میں اہل کنز کے تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر مکہ میں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے تو وہ ہجرت کر جائیں تاکہ وہ رب واحد کی بندگی کرسکیں۔ یہ ہدایت ان کو ایک عجیب انداز میں دی جاتی ہے۔ ہجرت کے مشورہ سے ان کے دلوں میں جو پریشانیاں اور خدشات پیدا ہوتے ہیں انہیں دور کردیا جاتا ہے۔ ان تمام رکاوٹوں کو دور کردیا جاتا ہے جو ان کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ چند چنکیوں کے ساتھ ان کی قلبی حالت بدل دی جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قرآن کو نازل کرنے والا وہی خالق ہے جو اس کائنات کو پیدا کرنے والا ہے کیوں کہ انسانی دلوں کی گہرائیوں تک اثر اور ان کے اندر اس قسم کے احساسات وہی ذات پیدا کرسکتی ہے ، جس نے ان دلوں کو پیدا کیا ہے کیونکہ وہی لطیف وخبیر ہے۔

اس کے بعد روئے سخن ان مشرکین کی طرف مڑ جاتا ہے جو نظریاتی انتشار میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ وحدہ ہی خالق کائنات ، خالق ارض و سما ، مسخر شمس و قمر ہے اور وہی ہے جو آسمانوں سے پانی اتارتا ہے جس سے یہ زمین مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجاتی ہے۔ جب وہ بحری سفر میں ہوتے ہیں تو وہ صرف اللہ وحدہ کو پکارتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ اللہ کی کتاب کی حقانیت کا انکار کرتے ہیں ، رسول اللہ کو ناجائز اذیتیں دیتے ہیں۔ اہل ایمان کو فتنوں اور مصیبتوں میں ڈالتے ہیں۔ اہل شرک کو یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ دیکھو تمہارے لیے اس حرم کو جائے امن بنایا گیا ہے جس میں تم چین سے رہتے ہو۔ تمہارے اردگرد تمام قبائل ہر وقت خوف و ہراس میں رہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ مشرکین اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ خود ساختہ الہوں کو شریک کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو دھمکی دی جاتی ہے کہ تم جہنم رسید ہوگے اور وہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔

سورة کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو کامیابی کی راہیں دکھائے گا لیکن ان اہل ایمان کو جو مومنین خالص ہوں ، جنہوں نے رکاوٹوں کو پار کرلیا ہو ، آزمائشوں سے گزر گئے ہوں اور مشکلات راہ پر قابو پالیا ہو۔ اگرچہ اس راہ کی رکاوٹیں بہت ہیں لیکن انہوں نے یہ مشکل کام کرلیا ہو۔

درس نمبر 182 تشریح آیات

45 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 69

اتل ما اوحی الیک ۔۔۔۔۔۔ ونحن لہ مسلمون (45 – 46)

(اے نبی ﷺ تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو ، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں اور ان سے کہو کہ ” ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی ، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کو مسلم (فرمانبردار ) ہیں “۔

وہ دعوت جس کا آغاز حضرت نوح (علیہ السلام) سے ہوا اور جس کا خاتمہ نبی ﷺ پر ہوا۔ یہ ایک ہی دعوت ہے ، ایک ہی الٰہ کی طرف سے ہے اور اس دعوت کا مقصد اور مطلوب بھی ایک ہی ہے۔ یہ کہ گمراہ انسانیت کو واپس لاکر رب العالمین کی راہ پر ڈال دیا جائے ، اللہ کی ہدایت اور منہاج کے مطابق وہ زندگی بسر کرے۔ جو لوگ سابقہ رسولوں کی دعوت پر ایمان لاتے رہے ہیں وہ اہل ایمان کے بھائی ہیں۔ سب ایک ہی امت ہیں ، ایک ہی الٰہ کی بندگی کرتے ہیں۔ انسانیت اپنے ہر دور اور ہر زمان و مکان میں دو گروہوں میں بٹی رہی ہے۔ ایک گروہ مومنین کا ہے جسے حزب اللہ کہا جاتا ہے اور دوسرا گروہ اللہ کے دشمنوں کا ہے اور یہ حزب الشیاطین کے نام سے موسوم ہیں۔ اس سلسلے میں کسی زمان و مکان میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ لہٰذا زمانہ قدیم سے لے کر آج تک مومنین ایک پارٹی ہیں اور اہل کفر ایک پارٹی ہیں۔

یہ ایک عظیم اور بلند حقیقت ہے جس کے اوپر اسلام قائم ہے اور جسے اس آیت میں منضبط کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان میں پائے جانے والے تعلقات اور روابط کو محض خون ، نسب ، قومیت ، وطن ، تجارت اور مفادات سے بلند کرکے انہیں الٰہ واحد کی اساس پر قائم کرتی ہے۔ تمام انسانوں کا ایمان ایک ایسے نظریہ حیات پر ہو جس میں تمام رنگوں اور تمام نسلوں کے لوگ پگھل جائیں۔ تمام قومتیں ختم ہوں خواہ نسلی ہوں یا وطنی ہوں اور جس میں زمان و مکان کی دوریاں غائب ہوں اور تمام انسانوں نے ایک ہی مضبوط رسی کو پکڑ رکھا ہو۔ خالق کائنات اور شارع کائنات کی رسی کو۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کو اہل کتاب کے ساتھ مکالمے اور مجادلے سے منع کیا جاتا ہے ماسوائے اس کے کہ یہ مجادلہ نہایت ہی مستحسن طریقے سے ہو۔ مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے اور سابقہ رسل کی تعلیم اور رسالت کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کو اس تاریخی اسلامی دعوت کی آخری شکل یعنی دین اسلام پر اکتفاء کرنا چاہئے ، جو تمام سابقہ دعوتوں کے مطابق ہے۔ جو تمام سابقہ دعوتوں اور رسالتوں کی تکمیل ہے۔ یہ آخری صورت اس کو اللہ کے علم و حکمت نے دی ہے جو انسانوں کی مصلحت خود انسانوں سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

الا الذین ظلموا منھم (29: 46) ” سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں “۔ جنہوں نے توحید سے انحراف کیا ، جو اسلامی نظریہ حیات کا سنگ اساس ہے ، جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کی اور جنہوں نے اسلام کو بحیثیت منہاج حیات چھوڑ دیا ، کیونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ نہ نرمی ہے اور نہ ایسے لوگوں کے ساتھ مکالمے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی ظالم لوگوں کے ساتھ اسلام نے اس وقت جنگ کی ، جب مدینہ میں اسلامی مملکت قائم ہوگئی۔ بعض لوگوں نے نبی ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ مکہ میں جب اہل شرک نبی ﷺ کے ساتھ سخت برتاؤ کر رہے تھے تو آپ نے یہ باتیں کہیں کہ اہل کتاب کے ساتھ نرمی اور احسان کا طریقہ اختیار کیا جائے مگر جب مدینہ میں آپ کی حکومت قائم ہوگئی تو آپ نے اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ شروع کردیا اور جنگیں لڑیں اور مکی اقوال کے خلاف طرز عمل اختیار کیا۔ یہ بہت بڑا بہتان ہے اور خود یہ مکی آیت اس کا انکار کر رہی ہے ۔ اسلام صرف ان اہل کتاب کے ساتھ نرم برتاؤ کرنے کی اجازت دیتا ہے ، جو ظالم اور مشرک نہ ہوں ، اپنے اصل دین پر ہوں اور سابقہ رسولوں کی ہدایات کے مطابق صحیح توحید پہ قائم ہوں۔

وقولوا امنا بالذی ۔۔۔۔۔۔ لہ مسلمون (29: 46) ” اور ان سے کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی اور ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں “۔ لہٰذا بحث و اختلاف کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور جدل وجدال بےمحل ہے۔ ہم سب اللہ واحد کو خدا مانتے ہیں۔ اہل ایمان تو قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور انبیائے سابقہ کی کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اسلام کی ایک ہی زنجیر ہے اور تمام نبوتیں اس کی کڑیاں ہیں۔

اب یہاں سے اس سورت کا آخری حصہ شروع ہو رہا ہے جو تین رکوعات پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا ہے ‘ سورت کے اس حصے میں دو مضامین مشرکین مکہ اور اہل ایمان سے خطاب اس انداز میں متوازی چل رہے ہیں جیسے ایک رسی کی دو لڑیاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں پہلے بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ مدنی سورتوں میں اہل ایمان سے خطاب کے لیے عام طور پر یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا کا صیغہ آیا ہے ‘ جبکہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے عموماً رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ البتہ اس سورت کی آیت 56 میں یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ میں مسلمانوں سے براہ راست خطاب بھی ہے۔ بہر حال آئندہ آیات میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران ان لوگوں کو بہت اہم ہدایات دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں اور اس راستے میں مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں۔ ان ہدایات کی تعداد دس کے قریب ہے جن میں سے پہلی اور سو ہدایات کے برابر ایک ہدایت یہ ہے :آیت 45 اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ”سورۃ الکہف کی آیت 27 میں بھی یہی ہدایت دی گئی ہے : وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ط ”اور اے نبی ﷺ ! آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے“۔ تقرب الی اللہ کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ چناچہ سورة آل عمران کی آیت 103 میں اہل ایمان کو قرآن سے چمٹ جانے کا حکم بایں الفاظ دیا گیا ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص ”اور مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو !“ حضرت ابوسعید خدری رض کی روایت کردہ یہ حدیث اس مضمون کو مزید واضح کرتی ہے : کِتَاب اللّٰہِ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ 1”کتاب اللہ ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔“حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق قرآن ہی ”حبل اللہ“ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران کی مذکورہ آیت میں مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ قرآن کی تلاوت کرنے اور اس کی تعلیم و تفہیم میں مشغول رہنے سے بندۂ مؤمن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اللہ پر اس کے یقین اور توکل کی کیفیت میں پختگی آتی ہے۔ اسی سے ایک بندۂ مؤمن کو صبر و استقامت کی وہ دولت نصیب ہوتی ہے جو باطل کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے : وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ الاَّ باللّٰہِ النحل : 127 ”اور اے نبی ﷺ ! آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے“۔ چناچہ راہ حق کے مسافروں کو یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی ہدایت یہی دی گئی ہے کہ قرآن کی تلاوت کو اپنے شبانہ روز کے معمول میں شامل رکھو ! اس سے تمہارا تعلق مع اللہ مضبوط ہوگا اور پھر اسی تعلق کے سہارے حق و باطل کی کشا کش میں تمہیں استقامت نصیب ہوگی۔وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط ”اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر پہلی وحی میں ہی اس کی تاکید کردی گئی تھی : وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ طٰہٰ ”اور نماز قائم کرو میرے ذکر کے لیے۔“وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط ”یہ گویا اوپر دی گئی پہلی ہدایت کے بارے میں مزید وضاحت ہے۔ تلاوت قرآن اور نماز دونوں اللہ کے ذکر ہی کے ذرائع ہیں ‘ بلکہ قرآن کو تو خود اللہ تعالیٰ نے سورة الحجر میں ”الذکر“ کا نام دیا ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ”یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔ جب کہ سورة طٰہٰ کی مذکورہ بالا آیت آیت 14 میں قیام نماز کا مقصد بھی یہی بتایا گیا ہے کہ نماز اللہ کے ذکر کے لیے قائم کرو۔ اس کے علاوہ ادعیہ ماثورہ بھی اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہیں۔ حضور ﷺ نے ہمیں ہر عمل اور ہر موقع کی دعا سکھائی ہے۔ مثلاً گھر سے نکلنے کی دعا ‘ گھر میں داخل ہونے کی دعا ‘ بیت الخلاء میں جانے کی دعا ‘ باہر آنے کی دعا ‘ شیشہ دیکھنے کی دعا ‘ کپڑے بدلنے کی دعا۔ یعنی ان دعاؤں کو زندگی کا معمول بنا لینے سے ہر لحظہ ‘ ہر قدم اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کے ذہن اور دل کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد تسبیح فاطمہ 33 بار سبحان اللہ ‘ 33 بار الحمدللہ اور 34 بار اللہ اکبر اور دوسرے اذکار کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ گویا یہ سب اللہ کے ذکر کی مختلف شکلیں ہیں ‘ لیکن سب سے بڑا اور سب سے اعلیٰ ذکر قرآن مجید کی تلاوت ہے۔وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ”اے مسلمانو ! یہ یقین اپنے دلوں میں پختہ کرلو کہ اللہ تمہاری ہر حرکت ‘ ہر عمل بلکہ تمہارے خیالات اور تمہاری نیتوں تک سے باخبر ہے۔۔ اس کے بعد دوسری ہدایت :

اخلاص خوف اور اللہ کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو اور ایمان داروں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں اور اسے اوروں کو بھی سنائیں اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نمازی کی نماز نے اسے گناہوں سے اور سیاہ کاریوں سے باز نہ رکھا وہ اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا جسے اس کی نماز بےجا اور فحش کاموں سے نہ روکے تو سمجھ لو کہ اس کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی۔ اور روایت میں ہے کہ وہ اللہ سے دور ہی ہوتاچلا جائے گا۔ ایک موقوف روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جو نمازی بھلے کاموں میں مشغول اور برے کاموں سے بچنے والا نہ ہو سمجھ لو کہ اس کی نماز اسے اللہ سے اور دور کرتی جارہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو نماز کی بات نہ مانے اس کی نماز نہیں، نماز بےحیائی سے اور بد فعلیوں سے روکتی ہے اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بےہودہ کاموں سے نمازی رک جائے۔ حضرت شعیب سے جب ان کی قوم نے کہا کہ شعیب کیا تمہیں تمہاری نماز حکم کرتی ہے تو حضرت سفیان نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ہاں اللہ کی قسم نماز حکم بھی کرتی ہے اور منع بھی کرتی ہے۔ حضرت عبداللہ سے کسی نے کہا فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھتا ہے آپ نے فرمایا نماز اسے نفع دیتی ہے جو اس کا کہا مانے۔ میری تحقیق میں اوپر جو مرفوع روایت بیان ہوئی ہے اس کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ بزار میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے کسی نے کہا حضور ﷺ فلاں شخص نماز پڑھتا ہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا تو آپ ﷺ نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اس کی یہ برائی چھڑادے گی۔ چونکہ نماز ذکر اللہ کا نام ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا اللہ کی یاد بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ تمہاری تمام باتوں سے اور تمہارے کل کاموں سے باخبر ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں نماز تین چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نماز نماز نہیں اخلاص وخلوص خوف اللہ اور ذکر اللہ۔ اخلاص سے تو انسان نیک ہوجاتا ہے اور خوف اللہ سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ذکر اللہ یعنی قرآن اسے بھلائی و برائی بتادیتا ہے وہ حکم بھی کرتا ہے اور منع بھی کرتا ہے۔ ابن عون انصاری فرماتے ہیں جب تو نماز میں ہو تو نیکی میں ہے اور نماز تجھے فحش اور منکر سے بچائے ہوئے ہے۔ اور اس میں جو کچھ تو ذکر اللہ کرہا ہے وہ تیرے لئے بڑے ہی فائدے کی چیز ہے۔ حماد کا قول ہے کہ کم سے کم حالت نماز میں تو برائیوں سے بچا رہے گا۔ ایک راوی سے ابن عباس کا یہ قول مروی ہے کہ جو بندہ یاد اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتا ہے۔ اس نے کہا ہمارے ہاں جو صاحب ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کا ذکر کروگے تو وہ تمہاری یاد کرے گا اور یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت (فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ01502ۧ) 2۔ البقرة :152) کہ تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کرونگا۔ اسے سن کر آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا یعنی دونوں مطلب درست ہیں۔ یہ بھی اور وہ بھی اور خود حضرت ابن عباس سے یہ بھی تفسیر مروی ہے۔ حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس نے دریافت فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں اس سے مراد نماز میں سبحان للہ، الحمدللہ، اللہ اکبر وغیرہ کہنا ہے۔ آپ نے فرمایا تو نے عجیب بات کہی یہ یوں نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکم کے اور منع کے وقت اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے ذکر اللہ سے بہت بڑا اور بہت اہم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابو درداء حضرت سلمان فارسی وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے۔ اور اسی کو امام ابن جریر پسند فرماتے ہیں۔

آیت 45 - سورہ عنکبوت: (اتل ما أوحي إليك من الكتاب وأقم الصلاة ۖ إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر ۗ ولذكر الله أكبر ۗ...) - اردو