سورہ عنکبوت (29): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ankaboot کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ العنكبوت کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ عنکبوت کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ankaboot
سُورَةُ العَنكَبُوتِ
صفحہ 401 (آیات 39 سے 45 تک)

وَقَٰرُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَٰمَٰنَ ۖ وَلَقَدْ جَآءَهُم مُّوسَىٰ بِٱلْبَيِّنَٰتِ فَٱسْتَكْبَرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا كَانُوا۟ سَٰبِقِينَ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنۢبِهِۦ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ ٱلصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ ٱلْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ مَثَلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ ٱلْعَنكَبُوتِ ٱتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ ٱلْبُيُوتِ لَبَيْتُ ٱلْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ إِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مِن شَىْءٍ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ وَتِلْكَ ٱلْأَمْثَٰلُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَآ إِلَّا ٱلْعَٰلِمُونَ خَلَقَ ٱللَّهُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ ٱتْلُ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ ۖ إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ تَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ ٱللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
401

سورہ عنکبوت کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ عنکبوت کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا موسیٰؑ اُن کے پاس بیّنات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaroona wafirAAawna wahamana walaqad jaahum moosa bialbayyinati faistakbaroo fee alardi wama kanoo sabiqeena

وقارون وفرعون ۔۔۔۔۔ وما کانوا سبقین (39) ” اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا اور موسیٰ ان کے پاس بینات لے کر آیا ، مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا ، حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے “۔

قارون قوم موسیٰ کا فرد تھا مگر اس نے اپنی دولت مندی کی وجہ سے ان سے بغاوت کی۔ اور اس نے نصیحت کرنے والوں کی یہ نصیحت نہ سنی کہ اعتدال اور تواضع کا راستہ اختیار کرو ، لوگوں پر احسان کرو اور سرکشی اور بغاوت نہ کرو۔ اور فرعون ایک جبار اور سرکش حکمران تھا۔ اور قوم کے خلاف گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتا تھا۔ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا اور پوری طرح کنڑول میں لے رکھا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ اور یہ محض ظلم کی وجہ سے ۔ ہامان فرعون کا وزیر تھا اور اس کی ان قاہرانہ اور ظالمانہ ریاستی پالیسیوں کی تنفیذ وہ کرتا تھا۔ فرعون کے تمام جرائم میں یہ اس کیلئے معین و مددگار تھا۔ یہ لوگ جو قوت ، مال اور اسباب حیات کے مالک تھے اور زمین پر پوری طرح غالب تھے ان سب کو اللہ نے پکڑا ، کیونکہ انہوں نے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا تھا اور ان کو اذیت دیتے تھے۔ اور وہ طویل عرصہ تک ایسا کرتے رہے تھے۔

اردو ترجمہ

آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھسا دیا، اور کسی کو غرق کر دیا اللہ اُن پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fakullan akhathna bithanbihi faminhum man arsalna AAalayhi hasiban waminhum man akhathathu alssayhatu waminhum man khasafna bihi alarda waminhum man aghraqna wama kana Allahu liyathlimahum walakin kanoo anfusahum yathlimoona

فکلا اخذنا بذنبہ ۔۔۔۔۔ انفسہم یظلمون (40)

” آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا۔ پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی ، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا ، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ، اور کسی کو غرق کردیا۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا ، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے “۔ قوم عاد پر اللہ نے ایسی تیز ہوا بھیجی جو پتھر اڑا کر پھینک رہی تھی۔ اسی طرح جو جہاں تھا ، مارا گیا۔ قوم عود پر سخت دھماکہ دار چیخ آئی اور سب ڈھیر ہوگئے۔ اور قارون معہ اپنی دولت اور کوٹھیوں کے زمین میں دھنس گیا۔ اور فرعون اور ہامان بحراحمر میں غرق ہوئے۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے ظلم میں پکڑے گئے۔

وما کان اللہ ۔۔۔۔۔ انفسھم یظلمون (29: 41) ” اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا ، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے “۔ پوری انسانی تاریخ کے باغیوں ، سرکشوں اور ظالموں کی تباہی اور بربادی کا عبرت آموز جائزہ لینے کے بعد اور آغاز سورت میں آزمائش اور گمراہی کے فتنوں کے ذکر کے بعد اب آخر میں ، اسلام اور کفر اور ایمان اور ضلالت کی قوتوں کی کشمکش کو ایک تمثیل سے سمجھایا جاتا ہے کہ حقیقی قوت ایک ہی ہے اور وہ اللہ کی قوت ہے۔ اللہ کے سوا جس قدر قوتیں ہیں وہ نہایت ہی ناتواں اور کجی ہیں۔ ان کی مثال تار عنکبوت کی طرح ہے جو شخص تار عنکبوت کا سہارا لے گا وہ گویا ایک نہایت کچی چیز کا سہارا لیتا ہے۔ اللہ کے سوا تمام قوتوں کی یہی مثال ہے۔

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دُوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے کاش یہ لوگ علم رکھتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Mathalu allatheena ittakhathoo min dooni Allahi awliyaa kamathali alAAankabooti ittakhathat baytan wainna awhana albuyooti labaytu alAAankabooti law kanoo yaAAlamoona

مثل الذین اتخذوا ۔۔۔۔۔۔ وما یعقلھا الا العلمون (41 – 43)

یہ ایک عجیب اور سچی تصویر ہے ، ان تمام قوتوں کی جو اس کائنات میں موجود ہیں۔ اس میں ایک ایسی حقیقت کو نمایاں کیا

گیا ہے جس سے لوگ بالعموم غافل رہتے ہیں اور اس غفلت کی وجہ سے پھر ان کے پیمانے اور اقدار بدل جاتی ہیں۔ پھر وہ غلط رابطے قائم کرلیتے ہیں ۔ ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ وہ صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کیا لیں اور کیا چھوڑیں۔

اس غلط سوچ کی وجہ سے وہ پھر ریاستی قوت سے بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ریاستی قوت ہی اصل قوت ہے اور سب کچھ ہے۔ اور ہر جگہ موثر ہے۔ اس لیے وہ اس قوت سے ڈرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے کوشاں رہے ہیں وہ اس ریاستی قوت کی اذیتوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔

پھر ایسے لوگوں کو دولت کی قوت سے بھی دھوکہ ہوتا ہے ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی قوت ہے ، جس کے نتیجے میں زندگی کی قدریں حاصل ہوتی ہیں۔ اور تمام اقدار حیات دولت کے تابع ہوتی ہیں۔ چناچہ ایسے لوگ حصول دولت کا شوق رکھتے ہیں اور زوال دولت کا انہیں ہر وقت خوف رہتا ہے۔ اور وہ حصول دولت کے لیے ہر وقت جدوجہد کرتے ہیں تاکہ اس دولت کے ذریعہ وہ لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوں اپنے زعم کے مطابق۔

یہ لوگ سائنس کی قوت کو بھی ایک بڑی قوت سمجھتے ہیں۔ اس کو بھی یہ مالی قوت اور تمام قوتوں کی بنیاد تصور کرتے ہیں ، جن کے ذریعہ کوئی شخص گرفت کرتا ہے یا چلتا پھرتا ہے۔ سائنسی قوت کے سامنے بھی لوگ اس طرح جھکتے ہیں جس طرح سائنس کوئی معبود ہے اور لوگ اس کے بندے ہیں۔

غرض انسان کو یہ سب ظاہری قوتیں دھوکہ دیتی ہیں۔ جن افراد کے پاس یہ قوتیں ہیں جن سوسائٹیوں کے پاس یہ وسائل ہیں یا جن حکومتوں کے پاس یہ قوتیں ہیں ان سے دوسرے لوگ ڈرتے ہیں اور ان کا طواف کرتے ہیں اور ان پر لوگ اس طرح فدا ہوتے ہیں جس طرح پروانہ چراغ پر گرتا ہے۔ یا جس طرح وہ آگ میں گرتا ہے۔

ان ظاہری قوتوں سے دھوکہ کھا کر انسان اس اصلی قوت کو بھول جاتا ہے جو ان حقیر قوتوں کو پیدا کرنے والی عظیم قوت ہے۔ جو ان قوتوں کی پیدا کرنے والی ہے ، جو ان سب قوتوں کی مالک ہے ، جو کسی کو یہ قوتیں عطا کرتی ہے ، جو ان قوتوں کی تسخیر کرتی ہے اور ان کا رخ جس طرف چاہتی ہے ، پھیر دیتی ہے۔ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ان حقیر اور ظاہری قوتوں کے پاس پناہ لینا ، خواہ قوتیں افراد کے ہاتھ میں ہوں ، چاہے کسی سوسائٹی میں ہوں ، چاہے کسی حکومت کے پاس ہوں ، اسی طرح ہے جس طرح کوئی تار عنکبوت کا سہارا لے ، یا بیت عنکبوت میں پناہ لے۔ یہ عنکبوت تو ایک کمزور ، حقیر ، اور نہایت نرم کپڑا ہے اس کی ساخت ہی کمزور ہے۔ اور اس کا گھر بھی کمزور گھر ہے۔ وہ کسی کو کیا پناہ دے سکتا ہے۔

یاد رکھو ! کہ حمایت صرف اللہ کی حمایت ہے ، پناہ صرف اللہ کی پناہ ہے جو ایک قوی پناہ دینے والا ہے۔ یہ ایک عظیم حقیقت ہے جو قرآن کریم مومن لوگوں کے دلوں میں بٹھاتا ہے۔ اور ایک بار جب قرآن نے اہل ایمان کے دلوں میں یہ حقیقت بٹھا دی تھی تو وہ گروہ دنیا کا ایک طاقت ور گروہ بن گیا تھا۔ اور اس نے ان تمام ظاہری قوتوں کو روند ڈالا تھا جو اس کی راہ میں کھڑی ہوگئی تھیں۔ زمین کے تمام جباروں اور قہاروں کی گردنیں مروڑ کر جھکا دی تھیں اور بڑے بڑے قلعے مسمار کرکے رکھ دئیے تھے۔

یہ حقیقت قرآن نے اس گروہ میں کس طرح بٹھا دی تھی ؟ یہ حقیقت ہر نفس میں بیٹھ گئی تھی۔ اس سے ہر دل بھر گیا تھا۔ یہ حقیقت ان کے خون میں مل گئی تھی اور یہ ان کو رگوں میں دوڑ رہی تھی۔ یہ حقیقت صرف الفاظ کی ادائیگی تک محدود نہ تھی۔ نہ یہ ایک موضوع بحث تھی جس پر سیمینار ہوتے تھے بلکہ یہ ان نفوس میں واضح طور پر نظر آتی تھی۔ اور ان کے حس و خیال میں اس کے سوا کوئی اور بات نہ تھی۔ یہ کہ اللہ کی قوت ہی واحد قوت ہے اور اللہ کی دوستی ہی واحد دوستی ہے اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ کمزور و ناتواں ہے۔ اگرچہ بظاہر دوسری قوتیں جس قدر بھی ظلم و استبداد کریں۔ اگرچہ انہوں نے ظلم و سرکشی کی حد کردی ہو ، اگرچہ ان کے پاس گرفت اور دست درازی کے تمام وسائل ہوں اور وہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہوں۔

یہ سب کچھ بیت عنکبوت ہے۔ یہ تمام قوتیں اور وسائل تار عنکبوت ہیں۔

وان اوھن ۔۔۔ یعلمون (29: 41) ” اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے ، کاش کہ یہ لوگ جانتے “

وہ داعی جو فتنوں اور آزمائشوں سے دوچار ہوجاتے ہیں ، جنہیں قید و بند اور تشدد و اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، ان کو چاہئے کہ اس حقیقت پر غور کریں اور ایک لمحے بھر کے لیے بھی اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہ دیں ، ان کو تو اس میدان میں مختلف مزاحم قوتوں سے دوچار ہونا ہے۔ یہ قوتیں ان پر وار کرتی ہیں اور ان کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہیں۔ بعض ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو انہیں خریدنا چاہتی ہیں۔ یہ سب قوتیں تار عنکبوت کی طرح ہوتی ہیں بشرطیکہ کسی کا ایمان و نظریہ مضبوط ہو ، اور کوئی جانتا ہو کہ اصل اور حقیقی قوت ہے کیا ۔

ان اللہ یعلم ۔۔۔۔ من شئ (29: 42) ” یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو پکارتے ہیں ، اللہ اسے خوب جانتا ہے “۔ یہ لوگ اللہ کے سوا بعض دوسری چیزوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ یہ سہارے کے قابل چیزیں نہیں ہیں۔ ان کی حقیقت وہی ہے جو تمثیل سابق میں بیان کی گئی یعنی مکڑی کا جالا۔

وھو العزیز الحکیم (29: 42) ” وہی زبردست اور حکیم ہے “۔ وہی غالب ہے ، وہی قاہر ہے ، وہی حکیم ہے اور وہی اس پوری کائنات کا مدبر ہے۔

وتلک الامثال ۔۔۔۔ الا العلمون (29: 43) ” یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھتے ہیں “۔ مشرکین کے بعض لوگ ایسے تھے جن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے تھے اور ان کی عقل ماری گئی تھی ، وہ لوگ اس تمثیل کے ساتھ یہ مزاح کرتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد کے رب مکھیوں اور مچھروں کی بات بھی کرتے ہیں اور اس تمثیل میں جو حقیقت بیان کی گئی تھی ، اس کو وہ سمجھ ہی نہ سکے تھے۔ نہ اس کا ان پر اثر ہوا۔ اس لیے اللہ نے فرمایا کہ

وما یعقلھا الا العلمون (29: 43) ” مگر ان چیزوں کو وہی لوگ سمجھے ہیں جو عقلمند ہیں “۔

اب آخر میں ان تمام حقائق کو اس عظیم حقیقت کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے جو اس کائنات کے نقشے میں ودیعت کردی گئی ہے ، جس طرح قرآن کریم کا خاص اسلوب ہے۔

اردو ترجمہ

یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha yaAAlamu ma yadAAoona min doonihi min shayin wahuwa alAAazeezu alhakeemu

اردو ترجمہ

یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں، مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watilka alamthalu nadribuha lilnnasi wama yaAAqiluha illa alAAalimoona

اردو ترجمہ

اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، در حقیقت اِس میں ایک نشانی ہے اہلِ ایمان کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa Allahu alssamawati waalarda bialhaqqi inna fee thalika laayatan lilmumineena

خلق اللہ ۔۔۔۔۔ لایۃ للمؤمنین (44)

” اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ، در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہل ایمان کے لیے “۔

تمام انبیاء کے قصص کے بعد یہ آیت آتی ہے اور اس تمثیل کے بعد آتی ہے جس میں اللہ کی قوت کے مقابلے میں دوسری قوتوں کو تار عنکبوت کی طرف نزار و نحیف بتایا گیا ہے۔ یہ آیت ان سب قصص و تمثیلات کے ساتھ مربوط اور ہم آہنگ ہے۔ اور ان کے درمیان ایک گہرا رابطہ ہے کہ زمین و آسمان میں وہی حقیقت بکھری ہوئی ہے اور ہر سو نظر آتی ہے۔ یہ کائنات جس ٹھوس نظام پر قائم ہے ، اس کے اندر وہی حقیقت ہے وہی قوت ہے جو اس قرآن کے اندر پوشیدہ ہے۔

ان فی ذلک لایۃ للمومنین (29: 44) ” درحقیقت اس میں نشانی ہے اہل ایمان کے لیے “۔ کہ یہ ایک عظیم نظام ہے ، ناپیدا کفار کائنات ہے اور پھر بھی باہم متصادم نہیں ہے۔ اور اہل ایمان ہی ہیں جن کے دل اس کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں کے لیے کھلے ہوتے ہیں ، جن کا نظم و نسق یہ شہادت دیتا ہے ، جس قدر بھی دور تک ہمارا مشاہدہ جائے کہ یہ کائنات ایک عظیم سچائی پر پیدا کی گئی ہے صرف اہل ایمان ہی اس سے حقیقت کو پاسکتے ہیں اس لیے کہ ان کو مومنانہ بصیرت اور بصارت حاصل ہوتی ہے اور ان کا شعور اور قوت مدرکہ تیز ہوتی ہے۔

آخر میں اس کتاب کو جو حضرت محمد ﷺ پر نازل کی گئی ہے ، ذکر و صلوٰۃ سے مربوط کردیا جاتا ہے۔ اور اس حق کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے جو اس پوری کائنات میں پوشیدہ ہے اور اس ذکر و فکر سے مربوط کیا جاتا ہے جو نوح (علیہ السلام) سے ادھر تمام انبیاء کو نکتہ دعوت رہا ہے ۔

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Otlu ma oohiya ilayka mina alkitabi waaqimi alssalata inna alssalata tanha AAani alfahshai waalmunkari walathikru Allahi akbaru waAllahu yaAAlamu ma tasnaAAoona

اتل ما اوحی ۔۔۔۔۔ یعلم ما تصنعون (29: 45) ” جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے بیشک نماز فحاشی اور منکرات سے روکتی ہے۔ بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کام تم کرتے ہو “۔

ان کے سامنے کتاب پڑھیں کہ یہی ذریعہ دعوت اسلامی ہے ، اور ایک ربانی معجزہ ہے اور اس کتاب کے اندر بیان کردہ سچائی وہی ہے جو اس کائنات کے اندر پوشیدہ سچائی ہے۔ اور نماز قائم کرو ، جب نماز قائم کی جاتی ہے تو یہ فحاشی اور منکرات سے روکتی ہے ، یہ اللہ کے ساتھ ایسا رابطہ ہے کہ جب کوئی یہ رابط قائم کرتا ہے تو پھر وہ فحاشی اور منکرات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ ظاہری اور روحانی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ کوئی گندگی ، ناپاکی اور میل کچیل لگا ہی نہیں کھاتی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” جو شخص ایسی نماز پڑھے جو اسے فحاشی اور منکرات سے نہ روکے تو وہ ایسی نماز سے ماسوائے اس کے کہ اللہ سے دور ہوجائے۔ اور کوئی مفاد نہ پائے گا “۔ (ابن جریر) ۔

اگر کوئی ایسی نماز پڑھتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے نماز ادا کردی لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز قائم کردی۔ اور نماز ادا کرنے میں اور قائم کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر نماز قائم کی جائے تو یہ ذکر اللہ ہوتی ہے اور

ولذکر اللہ اکبر (29: 45) ” اللہ کا ذکر بہت بڑا ہوتا ہے “۔ مطلقاً وہ بڑی چیز ہوتی ہے۔ ہر تصور اور ہر جذبہ سے بڑا

ہوتا ہے۔ ہر عبادت اور ہر عاجزی سے ذکر اللہ بڑا ہوتا ہے۔

واللہ یعلم ما تصنعون (29: 45) ” اور اللہ جانتا ہے جو تم بناتے ہو “۔ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اس پر کسی امر میں التباس نہیں ہوتا۔ تم نے آخر کار اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اور وہ تمہاری تمام مصنوعات کا بدلہ تمہیں دینے والا ہے۔

درس نمبر 182 ایک نظر میں

یہ سورة عنکبوت کا آخری سبق ہے۔ پہلے دو سبق پارہ 20 میں گزر چکے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا اس سورة کا محور آزمائش و ابتلاء ہے۔ جو لوگ بھی کلمہ حق بلند کرتے ہیں ان کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ فتنوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں سے گزار کر اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹے لوگوں کے درمیان فرق واضح فرما دیتے ہیں۔ جو جس قدر گرم و سرد چشیدہ ہوگا اسی قدر وہ درجات بلند کا مالک ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ بھی ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ زمین پر موجود شیطانی قوتیں اہل ایمان کا راستہ روکنے کے لیے چاہے جس قدر زور لگائیں ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اہل ایمان اگر ذرا صبر کریں اور مصابرت سے کام لیں تو اللہ آخر کار بدکاروں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اہل ایمان کو کامیاب کرتا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے اور اسلامی دعوت کے ساتھ اللہ کی سنت کا ہمیشہ یہی معاملہ رہا ہے۔ نوح (علیہ السلام) سے لے کر آج تک یہ سنت اٹل رہی ہے۔ اس میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ سنت اس بڑی سچائی کے ساتھ بھی مربوط ہے جو اس کائنات میں کام کر رہی ہے جس طرح اللہ کی دعوت ایک ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اسی طرح اللہ کی سنت بھی ناقابل تغیر ہے۔

درس سابق کا خاتمہ اس بات پر ہوا تھا کہ اے رسول اور اے اہل ایمان تمہاری طرف جو آیات الٰہی نازل ہو رہی ہیں بس تم ان کی تلاوت کرتے جاؤ، ان کو سمجھو اور مطالعہ کرو اور نماز قائم کرکے ان پر عمل کرو ، اور اس بات کو ذہن میں حاضر رکھو کہ اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ بھی تم کرتے ہو۔

اس سبق میں بھی کتاب اللہ کے بارے میں بات چلتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کتاب اور کتب سابقہ کے درمیان کیا تعلق اور نسبت ہے۔ مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ ظالموں کو چھوڑ کر دوسرے عام اہل کتاب کے ساتھ رویہ اچھا رکھو ، ان کے ساتھ اچھے انداز سے مکالمہ کرو۔ ظالم لوگ وہ ہیں جنہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کردی اور جنہوں نے عقیدہ توحید کو بدل کر شرک کا عقیدہ اپنا لیا اور شرک ہی بہت بڑا ظلم ہے۔ اہل ایمان کی راہ اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ایک ہے۔ اس کی تمام رسالتیں ایک ہیں ، کتب ایک ہیں ، یہ کہ تمام کتابیں اللہ کے نزدیک عظیم سچائی پر مشتمل ہیں اور اہل ایمان ان کی تصدیق کرتے ہیں۔

اس کے بعد بعض ایسے اہل کتاب کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اس آخری کتاب پر ایمان لے آئے ہیں۔ حالانکہ مکہ کے مشرکین جن کے اندر سے نبی آخر الزمان کا انتخاب ہوا ، اس پر ایمان نہیں لاتے۔ وہ اس عظیم اعزاز اور عظیم رحمت کی قدر نہیں کرتے جو اللہ نے ان کو بخشی۔ وہ اس کتاب کے اعجاز اور اس کی تعلیمات کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھیجے ہوئے رسول کو اپنے لیے غنیمت نہیں سمجھتے کہ وہ ان سے ہمکلام بھی ہے اور اللہ کا کلام بھی ان کو سنا رہا ہے جبکہ اس سے قبل مشرکین کے سامنے نہ انہوں نے کوئی کتاب پڑھی اور نہ وہ کوئی قلم کار تھے۔ اگر حضور ﷺ مطالعہ کتب کرتے رہتے اور کتابیں لکھتے رہتے تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ انہوں نے یہ کتاب خود تصنیف کر ڈالی ہو۔ مشرکین مکہ بات بات پر یہ مطالبہ کردیتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو لاؤ عذاب الٰہی جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب بہت ہی قریب ہے ، اور یہ جہنم کی شکل میں تمہیں گھیرے گا۔ یہ قیامت کے دن اوپر سے بھی ہوگا اور پاؤں کے نیچے سے بھی ہوگا۔ ہر طرف سے گھیر لے گا۔

اس کے بعد روئے سخن ان اہل ایمان کی طرف پھرجاتا ہے جو مکہ میں اہل کنز کے تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر مکہ میں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے تو وہ ہجرت کر جائیں تاکہ وہ رب واحد کی بندگی کرسکیں۔ یہ ہدایت ان کو ایک عجیب انداز میں دی جاتی ہے۔ ہجرت کے مشورہ سے ان کے دلوں میں جو پریشانیاں اور خدشات پیدا ہوتے ہیں انہیں دور کردیا جاتا ہے۔ ان تمام رکاوٹوں کو دور کردیا جاتا ہے جو ان کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ چند چنکیوں کے ساتھ ان کی قلبی حالت بدل دی جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قرآن کو نازل کرنے والا وہی خالق ہے جو اس کائنات کو پیدا کرنے والا ہے کیوں کہ انسانی دلوں کی گہرائیوں تک اثر اور ان کے اندر اس قسم کے احساسات وہی ذات پیدا کرسکتی ہے ، جس نے ان دلوں کو پیدا کیا ہے کیونکہ وہی لطیف وخبیر ہے۔

اس کے بعد روئے سخن ان مشرکین کی طرف مڑ جاتا ہے جو نظریاتی انتشار میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ وحدہ ہی خالق کائنات ، خالق ارض و سما ، مسخر شمس و قمر ہے اور وہی ہے جو آسمانوں سے پانی اتارتا ہے جس سے یہ زمین مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجاتی ہے۔ جب وہ بحری سفر میں ہوتے ہیں تو وہ صرف اللہ وحدہ کو پکارتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ اللہ کی کتاب کی حقانیت کا انکار کرتے ہیں ، رسول اللہ کو ناجائز اذیتیں دیتے ہیں۔ اہل ایمان کو فتنوں اور مصیبتوں میں ڈالتے ہیں۔ اہل شرک کو یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ دیکھو تمہارے لیے اس حرم کو جائے امن بنایا گیا ہے جس میں تم چین سے رہتے ہو۔ تمہارے اردگرد تمام قبائل ہر وقت خوف و ہراس میں رہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ مشرکین اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ خود ساختہ الہوں کو شریک کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو دھمکی دی جاتی ہے کہ تم جہنم رسید ہوگے اور وہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔

سورة کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو کامیابی کی راہیں دکھائے گا لیکن ان اہل ایمان کو جو مومنین خالص ہوں ، جنہوں نے رکاوٹوں کو پار کرلیا ہو ، آزمائشوں سے گزر گئے ہوں اور مشکلات راہ پر قابو پالیا ہو۔ اگرچہ اس راہ کی رکاوٹیں بہت ہیں لیکن انہوں نے یہ مشکل کام کرلیا ہو۔

درس نمبر 182 تشریح آیات

45 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 69

اتل ما اوحی الیک ۔۔۔۔۔۔ ونحن لہ مسلمون (45 – 46)

(اے نبی ﷺ تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو ، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں اور ان سے کہو کہ ” ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی ، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کو مسلم (فرمانبردار ) ہیں “۔

وہ دعوت جس کا آغاز حضرت نوح (علیہ السلام) سے ہوا اور جس کا خاتمہ نبی ﷺ پر ہوا۔ یہ ایک ہی دعوت ہے ، ایک ہی الٰہ کی طرف سے ہے اور اس دعوت کا مقصد اور مطلوب بھی ایک ہی ہے۔ یہ کہ گمراہ انسانیت کو واپس لاکر رب العالمین کی راہ پر ڈال دیا جائے ، اللہ کی ہدایت اور منہاج کے مطابق وہ زندگی بسر کرے۔ جو لوگ سابقہ رسولوں کی دعوت پر ایمان لاتے رہے ہیں وہ اہل ایمان کے بھائی ہیں۔ سب ایک ہی امت ہیں ، ایک ہی الٰہ کی بندگی کرتے ہیں۔ انسانیت اپنے ہر دور اور ہر زمان و مکان میں دو گروہوں میں بٹی رہی ہے۔ ایک گروہ مومنین کا ہے جسے حزب اللہ کہا جاتا ہے اور دوسرا گروہ اللہ کے دشمنوں کا ہے اور یہ حزب الشیاطین کے نام سے موسوم ہیں۔ اس سلسلے میں کسی زمان و مکان میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ لہٰذا زمانہ قدیم سے لے کر آج تک مومنین ایک پارٹی ہیں اور اہل کفر ایک پارٹی ہیں۔

یہ ایک عظیم اور بلند حقیقت ہے جس کے اوپر اسلام قائم ہے اور جسے اس آیت میں منضبط کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان میں پائے جانے والے تعلقات اور روابط کو محض خون ، نسب ، قومیت ، وطن ، تجارت اور مفادات سے بلند کرکے انہیں الٰہ واحد کی اساس پر قائم کرتی ہے۔ تمام انسانوں کا ایمان ایک ایسے نظریہ حیات پر ہو جس میں تمام رنگوں اور تمام نسلوں کے لوگ پگھل جائیں۔ تمام قومتیں ختم ہوں خواہ نسلی ہوں یا وطنی ہوں اور جس میں زمان و مکان کی دوریاں غائب ہوں اور تمام انسانوں نے ایک ہی مضبوط رسی کو پکڑ رکھا ہو۔ خالق کائنات اور شارع کائنات کی رسی کو۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کو اہل کتاب کے ساتھ مکالمے اور مجادلے سے منع کیا جاتا ہے ماسوائے اس کے کہ یہ مجادلہ نہایت ہی مستحسن طریقے سے ہو۔ مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے اور سابقہ رسل کی تعلیم اور رسالت کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کو اس تاریخی اسلامی دعوت کی آخری شکل یعنی دین اسلام پر اکتفاء کرنا چاہئے ، جو تمام سابقہ دعوتوں کے مطابق ہے۔ جو تمام سابقہ دعوتوں اور رسالتوں کی تکمیل ہے۔ یہ آخری صورت اس کو اللہ کے علم و حکمت نے دی ہے جو انسانوں کی مصلحت خود انسانوں سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

الا الذین ظلموا منھم (29: 46) ” سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں “۔ جنہوں نے توحید سے انحراف کیا ، جو اسلامی نظریہ حیات کا سنگ اساس ہے ، جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کی اور جنہوں نے اسلام کو بحیثیت منہاج حیات چھوڑ دیا ، کیونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ نہ نرمی ہے اور نہ ایسے لوگوں کے ساتھ مکالمے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی ظالم لوگوں کے ساتھ اسلام نے اس وقت جنگ کی ، جب مدینہ میں اسلامی مملکت قائم ہوگئی۔ بعض لوگوں نے نبی ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ مکہ میں جب اہل شرک نبی ﷺ کے ساتھ سخت برتاؤ کر رہے تھے تو آپ نے یہ باتیں کہیں کہ اہل کتاب کے ساتھ نرمی اور احسان کا طریقہ اختیار کیا جائے مگر جب مدینہ میں آپ کی حکومت قائم ہوگئی تو آپ نے اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ شروع کردیا اور جنگیں لڑیں اور مکی اقوال کے خلاف طرز عمل اختیار کیا۔ یہ بہت بڑا بہتان ہے اور خود یہ مکی آیت اس کا انکار کر رہی ہے ۔ اسلام صرف ان اہل کتاب کے ساتھ نرم برتاؤ کرنے کی اجازت دیتا ہے ، جو ظالم اور مشرک نہ ہوں ، اپنے اصل دین پر ہوں اور سابقہ رسولوں کی ہدایات کے مطابق صحیح توحید پہ قائم ہوں۔

وقولوا امنا بالذی ۔۔۔۔۔۔ لہ مسلمون (29: 46) ” اور ان سے کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی اور ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں “۔ لہٰذا بحث و اختلاف کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور جدل وجدال بےمحل ہے۔ ہم سب اللہ واحد کو خدا مانتے ہیں۔ اہل ایمان تو قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور انبیائے سابقہ کی کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اسلام کی ایک ہی زنجیر ہے اور تمام نبوتیں اس کی کڑیاں ہیں۔

401