سورۃ الانفال: آیت 42 - إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم... - اردو

آیت 42 کی تفسیر, سورۃ الانفال

إِذْ أَنتُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلدُّنْيَا وَهُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلْقُصْوَىٰ وَٱلرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَٱخْتَلَفْتُمْ فِى ٱلْمِيعَٰدِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِىَ ٱللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنۢ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَىَّ عَنۢ بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہُور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith antum bialAAudwati alddunya wahum bialAAudwati alquswa waalrrakbu asfala minkum walaw tawaAAadtum laikhtalaftum fee almeeAAadi walakin liyaqdiya Allahu amran kana mafAAoolan liyahlika man halaka AAan bayyinatin wayahya man hayya AAan bayyinatin wainna Allaha lasameeAAun AAaleemun

آیت 42 کی تفسیر

اب سیاق کلام یوم الفرقان کی مزید تفصیلات میں چلا جاتا ہے۔ معرکے کی جھلکیاں دی جاتی ہیں۔ ان میں اس معرکے کو نہایت ہی عجیب موثر اور منظر کشی کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ گویا یہ منظر اسکرین پر چل رہا ہے اور اس کے مناظر میں اللہ کی تدبیر اور تقدیر عیاں و نمایاں ہیں۔ اس طرح کہ دست قدرت صاف صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنا کام کرتا ہے۔ نیز ان جھلکیوں سے وہ مقاصد صاف صاف عیاں ہیں جو اللہ کو مطلوب ہیں اور ابھی ایمان کا مقصود ہیں۔

اس معرکے میں فریقین کے کیمپ سامنے نظر آتے ہیں اور اس میں دست قدرت رواں دواں ہے۔ اللہ کی قدرت کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا کیمپ ہے اور وہ دوسری جانب فریق مخالف ہے اور قافلہ دور سمندر کے ساحل سے گزر رہا ہے۔ الفاظ قرآن رسول اللہ کی خواب کا نقشہ کھینچ رہے ہیں ، س نقشے میں مسلمانوں کو کفار کم نظر آتے ہیں اور کفار کو مسلمان۔ یہ مناظر چند الفاظ میں صرف قرآن کریم ہی کا خاصہ ہے۔ مشاہد و مناظر اور ان کا پس منظر دونوں صاف و شفاف نظر آتے ہیں۔ منظر میں حرکات اور تگ و دو صاف نظر آتی ہے ، صرف چند فقرات میں۔

یہ مناظر جن کو ان آیات نے پیش کیا ہے۔ ان مناظر کی طرف ہم اس سے قبل سیرت سے تفصیلات دے چکے ہیں جب مسلمان مدینہ سے نکلے تو وہ وادی میں مدینہ کے قریب اترے اور اسی وادی کی دوسری طرف اہل کفار نے کیمپ لگایا۔ ان دونوں کے درمیان ایک اونچا ٹیلہ تھا جو ان دونوں کے درمیان جدائی کر رہا تھا۔ رہا قافلہ ، تو ابو سفیان اسے ساحل کی جانب لے چلا تھا۔ دونوں افواج سے نیچے کی طرف۔

کوئی فوج یہ نہ جانتی تھی کہ فریق مخالف کہاں ہے۔ اللہ نے ان کو ایک ٹیلے کے دونوں طرف جمع کردیا۔ یہ اللہ کی خاص منشا تھی۔ اگر ان کے درمیان جگہ کا تعین پہلے ہوچکا ہوتا تو وہ اس طرح ایک دوسرے کے قریب نہ آسکتے۔ شاید ایک دوسرے سے پہلوتہی کرجاتے۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی بات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کی خاص تدبیر تھی۔

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ ۭوَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ ۙ وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا : یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اس جانب تھے اور وہ دوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرار داد ہوچکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کرجاتے ، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا اسے ظہور میں لے آئے۔

یوں ایک دوسرے کے ساتھ آمنا سامنا ہوجانا اور اس قدر قریب کہ بھاگنے کی صورت ہی نہ ہو۔ یہ بھی اللہ کی منشا تھی ، کچھ نتائج تھے جن کا ظہور پذیر ہونا منشائے الہی تھا۔ اس لیے اللہ نے اس قدر خفیہ اور اچانک آمنا سامنا کرادیا۔ اور تمہیں ذریعہ بنا دیا۔ ان نتائج کے ظہور کے لیے اور تمہارے لیے تمام حالات سازگار بنا دیے گئے۔

آخر وہ کیا امر تھا ؟ وہ کیا بات تھی جس کے لیے یہ تمام تدابیر عالم بالا کے ذریعے ہوئیں ؟ لیھلک من ھلک عن بینۃ و یحییٰ من حی عن بینۃ " تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے ، وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے "

ہلاکت سے اس کا ظاہر مفہوم بھی لیا جاتا ہے اور کفر پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ حیات بھی اپنے لغوی اور براہ راست مفہوم میں بھجی استعمال ہوتا ہے اور ایمان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہاں یہ دوسرا مفہوم مراد ہے۔ اس مفہوم میں یہ لفظ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے۔ اومن کان میتا فاحیینہ وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمات لیس بخارج منہا " وہ شخص جو مردہ ہو ، اور ہم نے اسے زندہ کردیا اور اس کو ایک اسی روشنی دے دی جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے۔ وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھیروں میں ہے اور ان سے نکلنے والا نہیں ہے "۔ یہاں کفر کو موت ، ایمان کو حیات قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح اسلام کا نظریہ حیات حقیقت ایمان اور حقیقت کفر کے بارے میں اپنا نقطہ نظر متعین کرتا ہے اور مذکورہ بالا آیت کی تشریح کرتے وقت ہم نے ، سورت انعام میں اس پر قدرے تفصیلی بحث کی ہے۔ دیکھیے سورة انعام۔

یہاں اس مفہوم کو ہم اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ یوم بدر قرآن کے مطابق یوم الفرقان تھا۔ اس جنگ میں اللہ نے حق و باطل کے درمیان خوب جدائی کردی۔ جس کا تذکرہ ہم کر آئے ہیں۔ اس لیے اب جو شخص کفر اختیار کرتا ہے تو گویا وہ دلیل وبرہان کا منکر ہے اور جو شخس ایمان لاتا ہے تو وہ دلیل روشن پر ایمان لاتا ہے۔ اور یہ دلائل اب اس لیے روشن اور واضح ہیں کہ اس معرکہ نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے۔

یہ جنگ جن حالات میں ہوئی اور جن ظرفور و احوال میں وہ لڑی گئی بذات خود ایک ایسی محبت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں ایسے اشارات ہیں کہ انسانی تدابیر کے پیچھے دست قدرت کام کر رہی ہے ، یہ اشارات نہایت واضح اشارات تھے اور بتا رہے تھے کہ انسانی قوت کے علاوہ اور بھی فیصلہ کن قوتیں ہیں جو کام کرتی ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس دین کا ایک رب ہے اور وہ اپنے مخلص مجاہد بندون کی پشت پر ہوتا ہے بشرطیکہ وہ صبر کریں اور ثابت قدمی اختیار کریں۔ اگر فیصلہ ظاہری مادی قوت کے مطابق ہوتا تو مشرکین کو شکست نہ ہوتی اور جماعت مسلمہ کو اس قدر عظیم کامیابی نصیب نہ ہوتی۔

مشرکین نے خود اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے ، جب وہ جنگ کے لیے جا رہے تھے تو ان کے حلیف نے ان کو امداد کی پیش کش کی تو انہوں نے کہا : " خدا کی قسم اگر ہمیں صرف انسانوں سے جنگ کرنا پڑتی تو ہم کمزور نہیں اور اگر یہ جنگ ہم خدا کے خلاف لڑ رہے ہیں ، جیسا کہ محمد کا دعوی ہے ، تو خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی بات نہیں ہے " وہ خود بھی یقین رکھتے کہ وہ خدا کے خلاف لڑ رہے ہیں جیسا کہ محمد کا دعوی ہے ، تو خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی بات نہیں ہے "۔ وہ خود بھی یقین رکھتے کہ وہ خدا کے خلاف لڑ رہے ہیں کیونکہ حضرت محمد نے ان کو یہ حقیقت بتا دی تھی اور وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے تھے کہ حضرت محمد صادق و امین ہیں۔ اب اگر وہ ہلاک ہوئے تو برحق ہلاک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر یہ تبصرہ جو کیا ہے لیھلک من ھلک عن بینۃ و یحییٰ من حی عن بینہ۔ تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایک دوسرا اشارہ بھی نظر آتا ہے ، وہ یہ کہ میدان کارزار میں حق و باطل کا معرکہ آرائی کرنا ، اور میدان میں حق کا فاتح ہونا ، جبکہ نظریاتی اعتبار سے حق نے میدان مار لیا ہو ، اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ لوگوں کی نظروں میں بالکل واضح اور نمایاں ہوجائے اور لوگوں کے دل و دماغ میں اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ رہے۔ اس طرح کہ میدان میں حق کی فتح بالکل واضح ہوجائے اور اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی ہلاکت اور کفر اختیار کرتا ہے تو اسے کوئی شبہ نہ ہو۔ اب اگر کوئی کفر کرتا ہے تو خود کشی کرتا ہے اور اسلام قبول کرتا ہے تو وہ بھی علی وجہ البصیرت زندگی اور سچائی کو قبول کرتا ہے اور اللہ کی نصرت کا اسے یقین ہوتا ہے کیونکہ وہ حق پر ہوتا ہے۔ اور اسے اللہ کی نصرت حاصل ہوتی ہے اور اس کے دشمنوں کو ہزیمت اور شکست ملتی ہے۔

اب ذرا پیچھے چلیے۔ نویں پارے اور سورت انفال کے تعارف میں ہم نے یہ بتایا تھا کہ جہاد اس لیے ضروری ہے کہ کرۂ ارض کے اوپر سے شر کی قوتوں کی کمر توڑ دی جائے اور طاغوتی اقتدار کو ختم کردیا جائے اور اللہ کے کلمے اور اللہ کے جھنڈے کو بلند کردیا جائے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ حق واضح اور جلی ہوجائے اور پھر اگر کوئی ہلاک ہوتا ہے تو علی وجہ البصیرت ہلاک ہو اور اگر کوئی زندہ ہوتا ہے تو علی وجہ البصیرت وہ زندہ ہو۔ اور اس سے اس سورت میں دی جانے والی ہدایت کے دور رس اثرات کا بھی اندازہ ہوتا ہے جس میں حکم دیا گیا ہے۔ واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم " اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ، ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہٰں تم نہیں جانتے "۔ قوت کا تیار کرنا اور دشمنوں کو ڈرانا بھی ایک ذریعہ ہے جس کے باعث حق و اضح ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس طرح حق کو قبول کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قوت سے مرعوب ہوکر اور حق کی ضربات کو دیکھ کر سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا دیکھ کر نظر آتا ہے کہ یہ تحریک در حقیقت انسان کی آزادی کی تحریک ہے اور اس کے نتیجے میں انسان پوری کائنات میں آزادی حاصل کرتا ہے۔

اس پورے مضمون پر اس پہلو سے یہ تعقیب آتی ہے کہ اس معرکے میں تدبیر الہی ان مقاصد کے لی کام کر رہی تھی۔ وان اللہ لسمیع علیم " یقینا خدا سننے اور جاننے والا ہے " اللہ وہ ذات ہے کہ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ہے خواہ وہ سچے فریق کی ہو یا بر سر باطل فریق کی طرف سے ہو۔ اور اپنے افعال واقوال کی پشت پر جو سوچ وہ رکھتے ہیں اس سے بھی وہ باخبر ہے۔ اس لیے وہ جو تدبیر کرتا ہے وہ ظاہر و باطن کی اطلاعات پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ تو سمیع وعلیم ہے۔

یہ تو تھا تبصرہ نظام تدبیر الہیہ پر کہ اس کی تدابیر کس قدر گہری ، خفیہ اور لطیف تھیں۔ اب بتایا جاتا ہے کہ ان تدابیر کی شکل و صورت کیا تھی ؟ (دیکھیے اگلی آیت)

آیت 42 اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ بالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی وادئ بدر دونوں اطراف سے تنگ ہے جب کہ درمیان میں میدان کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس وادی کا ایک تنگ کنارہ شمال کی طرف ہے جہاں سے شام کی طرف راستہ نکلتا ہے اور دوسرا کنارہ جنوب کی طرف ہے جہاں سے مکہ کو راستہ جاتا ہے۔ وادی میں سے ایک راستہ مشرق کی سمت بھی نکلتا ہے جو مدینہ کی طرف جاتا ہے۔ لہٰذا پرانے زمانے میں حاجیوں کے زیادہ تر فاقلے وادئ بدر سے ہی گزرتے تھے۔ اب نئی موٹر وے طریق الھجرۃ بن جانے سے لوگوں کو ان مقامات سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تدبیر کا ظہور ہوا کہ دونوں لشکر وادئ بدر میں ایک ساتھ پہنچے۔ یہاں اسی کا ذکر ہے کہ جب قریش کا لشکر وادی کے دور والے جنوبی کنارے پر آپہنچا اور مشرق کی جانب سے حضور ﷺ اپنا لشکر لے کر اس کنارے پر پہنچ گئے جو مدینہ سے قریب تھا۔وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ ط قریش کا تجارتی قافلہ اس وقت نیچے ساحل سمندر کی طرف سے ہو کر گزر رہا تھا۔ ابوسفیان نے ایک طرف تو قافلے کی حفاظت کے لیے مکہ والوں کو پیغام بھیج دیا تھا اور دوسری طرف اصل راستے کو چھوڑ دیا تھا جو وادی بدر سے ہو کر گزرتا تھا اور اب یہ قافلہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ بدر کے پہاڑی سلسلے سے آگے تہامہ کا میدان ہے جو ساحل سمندر تک پھیلا ہوا ہے۔ اور قافلہ اس وقت اس میدان کی بھی آخری حدود پر سمندر کی جانب تھا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قافلہ تم سے نچلی سطح پر تھا۔وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْْمِیْعٰدِلا یعنی یہ تو اللہ کی مشیت کے تحت دونوں لشکر ٹھیک ایک ہی وقت پر وادی کے دونوں کناروں پر پہنچے تھے۔ اگر آپ لوگوں نے مقام معین پر پہنچنے کے لیے آپس میں کوئی وقت مقرر کیا ہوتا تو اس میں ضرور تقدیم و تاخیر ہوجاتی ‘ لیکن ہم نے دونوں لشکروں کو عین وقت پر ایک ساتھ آمنے سامنے لا کھڑا کیا ‘ کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ یہ ٹکراؤ ہوجائے اور اہل مکہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہے۔وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلاً لا لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ یعنی حق کے واضح ہوجانے میں کوئی ابہام نہ رہ جائے۔ اہل مکہ میں سے ان عوام کے لیے بھی حق کو پہچاننے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے جنہیں اب تک سرداروں نے گمراہ کر رکھا تھا۔ اگر اب بھی کسی کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور وہ ہلاکت کے راستے پر ہی گامزن رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اس کی مرضی ‘ مگر ہم چاہتے ہیں کہ اگر ایسے لوگوں کو ہلاک ہی ہونا ہے تو ان میں سے ہر فرد حق کے پوری طرح واضح ہونے کے بعد ہلاک ہو۔وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْم بَیِّنَۃٍط وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔جو سیدھے راستے پر آنا چاہتا ہے وہ بھی اس بَیِّنَہ کی بنا پر سیدھے راستے پر آجائے اور حیات معنوی حاصل کرلے۔

اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کے ذریعے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا فرماتا ہے کہ اس دن تم وادی الدینا میں تھے جو مدینے شریف سے قریب ہے اور مشرک لوگ مکہ کی جانب مدینے کی دور کی وادی میں تھے اور ابو سفیان اور اس کا قافلہ تجارتی اسباب سمیت نیچے کی جانب دریا کی طرف تھا اگر تم کفار قریش سے جنگ کا ارادہ پہلے سے کرتے تو یقینا تم میں اختلاف پڑتا کہ لڑائی کہاں ہو ؟ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ اگر تم لوگ آپس میں طے کر کے جنگ کے لئے تیار ہوتے اور پھر تمہیں ان کی کثرت تعداد اور کثرت اسباب معلوم ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ ارادے پست ہوجاتے۔ اس لئے قدرت نے پہلے سے طے کئے بغیر دونوں جماعتوں کو اچانک ملا دیا کہ اللہ کا یہ ارادہ پورا ہوجائے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بلندی حاصل ہو اور شرک اور مشرکوں کو پستی ملے پس جو کرنا تھا اللہ پاک کر گذرا۔ چناچہ کعب کی حدیث میں ہے کہ حضور اور مسلمان تو صرف قافلے کے ارادے سے ہی نکلے تھے اللہ نے دشمن سے مڈبھیڑ کرادی بغیر کسی تقرر کے اور بغیر کسی جنگی تیاری کے۔ ابو سفیان ملک شام سے قافلہ لے کر چلا ابو جہل اسے مسلمانوں سے بچانے کیلئے مکہ سے نکلا۔ قافلہ دوسرے راستے سے نکل گیا اور مسلمانوں اور کافروں کی جنگ ہوگئی اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے سے بیخبر تھے ایک دوسرے کو خصوصاً پانی لانے والوں کو دیکھ کر انہیں ان کا اور انہیں ان کا علم ہوا۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حضور برابر اپنے ارادے سے جا رہے تھے صفراء کے قریب پہنچ کر سیس بن عمرو اور عدی بن ابو الزعباء جہنی کو ابو سفیان کا پتہ چلانے کیلئے بھیجا ان دونوں نے بدر کے میدان میں پہنچ کر بطحا کے ایک ٹیلے پر اپنی سواریاں بٹھائیں اور پانی کے لئے نکلے۔ راستے میں دو لڑکیوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ایک دوسری سے کہتی ہے تو میرا قرضہ کیوں ادا نہیں کرتی ؟ اس نے کہا جلدی نہ کر کل یا پرسوں یہاں قافلہ آنے والا ہے میں تجھے تیرا حق دے دوں گی۔ مجدیٰ بن عمرو بیچ میں بول اٹھا اور کہا یہ سچ کہتی ہے اسے ان دونوں صحابیوں نے سن لیا اپنے اونٹ کسے اور فوراً خدمت نبوی میں جا کر آپ کو خبر دی۔ ادھر ابو سفیان اپنے قافلے سے پہلے یہاں اکیلا پہنچا اور مجدی بن عمرو سے کہا کہ اس کنویں پر تم نے کسی کو دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں البتہ دو سوار آئے تھے اپنے اونٹ اور ٹیلے پر بٹھائے اپنی مشک میں پانی بھر اور چل دئیے۔ یہ سن کر یہ اس جگہ پہنچا مینگنیاں لیں اور انہیں توڑا اور کھجوروں کی گھٹلیاں ان میں پا کر کہنے لگا واللہ یہ مدنی لوگ ہیں وہیں سے واپس اپنے قافلے میں پہنچا اور راستہ بدل کر سمندر کے کنارے چل دیا جب اسے اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو اس نے اپنا قاصد قریشیوں کو بھیجا کہ اللہ نے تمہارے قافلے مال اور آدمیوں کو بچا لیا تم لوٹ جاؤ یہ سن کر ابو جہل نے کہا نہیں جب یہاں تک ہم آ چکے ہیں تو ہم بدر تک ضرور جائیں گے یہاں ایک بازار لگا کرتا تھا۔ وہاں ہم تین روز ٹھہریں گے وہاں اونٹ ذبح کریں گے۔ شرابیں پئیں گے کباب بنائیں گے تاکہ عرب میں ہماری دھوم مچ جائے اور ہر ایک کو ہماری بہادری اور بےجگری معلوم ہو اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں۔ لیکن اخنس بن شریق نے کہا کہ بنو زہرہ کے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال محفوظ کردیئے تم کو چاہئے کہ اب واپس چلے جاؤ۔ اس کے قبیلے نے اس کی مان لی یہ لوگ اور بنو عدی لوٹ گئے۔ بدر کے قریب پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت زبیر بن عوام کو خبر لانے کے لئے بھیجا چند اور صحابہ کو بھی ان کے ساتھ کردیا انہیں بنوسعید بن عاص کا اور بنو حجاج کا غلام کنویں پر مل گیا دونوں کو گرفتار کرلیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اس وقت آپ نماز میں تھے صحابہ نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا قریش کے سقے ہیں انہوں نے ہمیں پانی لانے کیلئے بھیجا تھا۔ صحابہ کا خیال تھا کہ یہ ابو سفیان کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے ان پر سختی شروع کی آخر گھبرا کر انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ابو سفیان کے قافلے کے ہیں تب انہیں چھوڑا۔ حضور ﷺ نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ سچ بولتے رہے تم انہیں مارتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے جھوٹ کہا تم نے چھوڑ دیا واللہ یہ سچے ہیں یہ قریش کے غلام ہیں ہاں جی بتاؤ قریش کا لشکر کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا وادی قصویٰ کے اس طرف ٹیلے کے پیچھے۔ آپ نے فرمایا وہ تعداد میں کتنے ہیں ؟ انہوں نے کہا بہت ہیں آپ نے فرمایا آخر کتنے ایک ؟ انہوں نے کہا تعداد تو ہمیں معلوم نہیں آپ نے فرمایا اچھا یہ بتاسکتے ہو ہر روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ایک دن نو ایک دن دس۔ آپ نے فرمایا پھر وہ نو سو سے ایک ہزار تک ہیں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ ان میں سرداران قریش میں سے کون کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نوفل، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود، ابو جہل، امیہ بن خلف، منبہ بن حجاج، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود۔ یہ سن کر آپ نے صحابہ سے فرمایا لو مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف ڈال دیئے ہیں۔ بدر کے دن جب دونوں جماعتوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو حضرت سعد بن معاذ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لئے ایک جھونپڑی بنادیں آپ وہاں رہیں ہم اپنے جانوروں کو یہیں بٹھا کر میدان میں جا کو دیں اگر فتح ہوئی تو الحمد اللہ یہی مطلوب ہے ورنہ آپ ہمارے جانوروں پر سوار ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے کر ہماری قوم کے ان حضرات کے پاس چلے جائیں جو مدینہ شریف میں ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ سے محبت رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ ہرگز آپ کا ساتھ نہ چھوڑتے آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہم رکاب نکل کھڑے ہوتے۔ حضور نے ان کے اس مشورے کی قدر کی انہیں دعا دی اور اس ڈیرے میں آپ ٹھہر گئے آپ کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر تھے اور کوئی نہ تھا۔ صبح ہوتے ہی قریشیوں کے لشکر ٹیلے کے پیچھے سے آتے ہوئے نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر آپ نے جناب باری میں دعا کی کہ باری تعالیٰ یہ فخر و غرور کے ساتھ تجھ سے لڑانے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کیلئے آ رہے ہیں۔ باری تعالیٰ تو انہیں پست و ذلیل کر۔ اس آیت کے آخری جملے کی تفسیر سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ یہ اس لئے کہ کفر کرنے والے دلیل ربانی دیکھ لیں گو کفر ہی پر رہیں اور ایمان والے بھی دلیل کے ساتھ ایمان لائیں۔ یعنی آمادگی اور بغیر شرط وقرار داد کے اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مشرکوں کا یہاں اچانک آمنا سامنا کرا دیا کہ حقانیت کو باطل پر غلبہ دے کر حق کو مکمل طور پر ظاہر کر دے اس طرح کہ کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے۔ اب جو کفر پر رہے وہ بھی کفر کو کفر سمجھ کے رہے اور جو ایمان والا ہوجائے وہ دلیل دیکھ کر ایمان دار بنے ایمان ہی دلوں کی زندگی ہے اور کفر ہی اصلی ہلاکت ہے۔ جیسے فرمان قرآن ہے (آیت اومن کان میتا فاحییناہ الخ،) یعنی وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے جلا دیا اور اس کے لئے نور بنادیا کہ اس کی روشنی میں وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے۔ تہمت کے قصہ میں حضرت عائشہ کے الفاظ ہیں کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوگیا یعنی بہتان میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ تمہارے تضرع وزاری اور تمہاری دعا و استغفار اور فریاد و مناجات کا سننے والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اہل حق ہو تم مستحق امداد ہو تم اس قابل ہو کر تمہیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ دیا جائے۔

آیت 42 - سورۃ الانفال: (إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ۚ ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعاد ۙ ولكن ليقضي الله...) - اردو