سورۃ الانفال (8): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anfaal کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنفال کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانفال کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anfaal
سُورَةُ الأَنفَالِ
صفحہ 182 (آیات 41 سے 45 تک)

۞ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَىْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُۥ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ إِن كُنتُمْ ءَامَنتُم بِٱللَّهِ وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ ٱلْفُرْقَانِ يَوْمَ ٱلْتَقَى ٱلْجَمْعَانِ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ إِذْ أَنتُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلدُّنْيَا وَهُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلْقُصْوَىٰ وَٱلرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَٱخْتَلَفْتُمْ فِى ٱلْمِيعَٰدِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِىَ ٱللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنۢ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَىَّ عَنۢ بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ إِذْ يُرِيكَهُمُ ٱللَّهُ فِى مَنَامِكَ قَلِيلًا ۖ وَلَوْ أَرَىٰكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَٰزَعْتُمْ فِى ٱلْأَمْرِ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ سَلَّمَ ۗ إِنَّهُۥ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ ٱلْتَقَيْتُمْ فِىٓ أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِىٓ أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِىَ ٱللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَٱثْبُتُوا۟ وَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
182

سورۃ الانفال کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانفال کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسُولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی، (تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو) اللہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaiAAlamoo annama ghanimtum min shayin faanna lillahi khumusahu walilrrasooli walithee alqurba waalyatama waalmasakeeni waibni alssabeeli in kuntum amantum biAllahi wama anzalna AAala AAabdina yawma alfurqani yawma iltaqa aljamAAani waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

مال غنیمت کی تقسیم کا بیان تمام اگلی امتوں پر مال غنیمت حرام ہے۔ لیکن اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اسے حلال کردیا۔ اس کی تقسیم کی تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے۔ مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہوگئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مرگیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے۔ سلف و خلف کی ایک جماعت کا اور حضرت امام شافعی ؒ کا یہی خیال ہے۔ بعض لوگ غنیمت کا اطلاق فے پر اور فے کا اطلاق غنیمت پر بھی کرتے ہیں۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت سورة حشر کی (آیت ما افاء اللہ الخ،) کی ناسخ ہے۔ اب مال غنیمت میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آیت تو فے کے بارے میں ہے اور یہ غنیمت کے بارے میں۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں قسم کے مال کی تقسیم امام کی رائے پر ہے۔ پس مقررہ حشر کی آیت اور اس آیت میں کوئی اختلاف نہیں جبکہ امام کی مرضی ہو واللہ اعلم۔ آیت میں بیان ہے کہ خمس یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت میں سے نکال دینا چاہئے۔ چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ہو۔ گو سوئی ہو یا دھاگہ ہو۔ پروردگار عالم فرماتا ہے جو خیانت کرے گا وہ اسے لے کر قیامت کے دن پیش ہوگا اور ہر ایک کو اس عمل کا پورا بدلہ ملے گا کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا کہتے ہیں کہ خمس میں سے اللہ کے لئے مقرر شدہ حصہ کعبے میں داخل کیا جائے گا۔ حضرت ابو العالیہ رباحی کہتے ہیں کہ غنیمت کے مال کے رسول اللہ ﷺ پانچ حصے کرتے تھے۔ چار مجاہدین میں تقسیم ہوتے پانچویں میں سے آپ مٹھی بھر کر نکال لیتے اسے کنبے میں داخل کردیتے پھر جو بچا اس کے پانچ حصے کر ڈالتے ایک رسول اللہ کا ایک قرابت داروں کا۔ ایک یتیموں کا ایک مسکینوں کا ایک مسافروں کا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا نام صرف بطور تبرک ہے گویا رسول اللہ ﷺ کے حصے کے بیان کا وہ شروع ہے۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ جب حضور کوئی لشکر بھیجتے اور مال غنیمت کا مال ملتا تو آپ اس کے پانچ حصے کرتے اور پھر پانچویں حصے کے پانچ حصے کر ڈالتے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ پس یہ فرمان کہ ان للہ خمسہ یہ صرف کلام کے شروع کیلئے ہے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ پانچویں حصے میں سے پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کا ہے بہت سے بزرگوں کا قول یہی ہے کہ اللہ رسول کا ایک ہی حصہ ہے۔ اسی کی تائید بہیقی کی اس صحیح سند والی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک صحابی نے حضور ﷺ سے وادی القریٰ میں آ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ غنیمت کے بارے میں آپ کیا ارشآد فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے باقی کے چار حصے لشکریوں کے۔ اس نے پوچھا تو اس میں کسی کو کسی پر زیادہ حق نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہاں تک کہ تو اپنے کسی دوست کے جسم سے تیر نکالے تو اس تیر کا بھی تو اس سے زیادہ مستحق نہیں حضرت حسن نے اپنے مال کے پانجویں حصے کی وصیت کی اور فرمایا کیا میں اپنے لئے اس حصے پر رضامند نہ ہوجاؤ ؟ جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنا رکھا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کے پانچ حصے برابر کئے جاتے تھے چار تو ان لشکریوں کو ملتے تھے جو اس جنگ میں شامل تھے پھر پانچویں حصے کے جار حصے کئے جاتے تھے ایک چوتھائی اللہ کا اور اس کے رسول کا پھر یہ حصہ آنحضرت ﷺ لیتے تھے یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ آپ اور آپ کے بعد جو بھی آپ کا نائب ہو اس کا ہے۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں اللہ کا حصہ اللہ کے نبی کا ہے اور جو آپ کا حصہ تھا وہ آپ کی بیویوں کا ہے عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کا جو حصہ ہے وہ صرف رسول اللہ ﷺ ہی کا ہے اختیار ہے جس کام میں آپ چاہیں لگائیں مقدام بن معدی کرب حضرت عبادہ بن صامت حضرت ابو درداء اور حضرت حارث بن معاویہ کندی ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا ذکر ہونے لگا تو ابو داؤد نے عبادہ بن صامت سے کہا فلاں فلاں غزوے میں رسول اللہ ﷺ نے خمس کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ حضور نے ایک جہاد میں خمس کے ایک اونٹ کے پیچھے صحابہ کو نماز پڑھائی سلام کے بعد کھڑے ہوگئے اور چند بال چٹکی میں لے کر فرمایا کہ مال غنیمت کے اونٹ کے یہ بال بھی مال غنیمت میں سے ہی ہیں اور میرے نہیں ہیں میرا حصہ تو تمہارے ساتھ صرف پانچواں ہے اور پھر وہ بھی تم ہی کو واپس دے دیا جاتا ہے پس سوئی دھاگے تک ہر چھوٹی بڑی چیز پہنچا دیا کرو، خیانت نہ کرو، خیانت عار ہے اور خیانت کرنے والے کیلئے دونوں جہان میں آگ ہے۔ قریب والوں سے دور والوں سے راہ حق میں جہاد جاری رکھو۔ شرعی کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال تک نہ کرو۔ وطن میں اور سفر میں اللہ کی مقرر کردہ حدیں جاری کرتے رہو اللہ کے لئے جہاد کرتے رہو جہاد جنت کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اسی جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غم و رنج سے نجات دیتا ہے (مسند امام احمد) یہ حدیث حسن ہے اور بہت ہی اعلیٰ ہے۔ صحاح ستہ میں اس سند سے مروی نہیں لیکن مسند ہی کی دوسری روایت میں دوسری سند سے خمس کا اور خیانت کا ذکر مروی ہے۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی مختصراً یہ حدیث مروی ہے اس حصے میں سے آنحضرت رسول مقبول ﷺ بعض چیزیں اپنی ذات کے لئے بھی مخصوص فرما لیا کرتے تھے لونڈی غلام تلوار گھوڑا وغیرہ۔ جیسا کہ محمد بن سیرین اور عامر شعبی اور اکثر علماء نے فرمایا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن کے مال غنیمت میں سے تھی جو حضور کے پاس تھی اسی کے بارے میں احد والے دن خواب دیکھا تھا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت صفیہ ؓ بھی اسی طرح آئیں تھیں۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے حضرت یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم باڑے میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے ان کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے اسے پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے زہیر بن اقیش کی طرف ہے کہ اگر تم اللہ کی وحدت کی اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی دو اور نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور غنیمت کے مال سے خمس ادا کرتے رہو اور نبی ﷺ کا حصہ اور خالص حصہ ادا کرتے رہو تو تم اللہ اور اس کے رسول کی امن میں ہو۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ تجھے یہ کس نے لکھ دیا ہے اس نے کہا رسول اللہ ﷺ نے، پس ان صحیح احادیث کی دلالت اور ثبوت اس بات پر ہے اسی لئے اکثر بزرگوں نے اسے حضور کے خواص میں سے شمار کیا ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ اور لوگ کہتے ہیں کہ خمس میں امام وقت مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق جو چاہے کرسکتا ہے۔ جیسے کہ مال فے میں اسے اختیار ہے۔ ہمارے شیخ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ یہی قول حضرت امام مالک کا ہے اور اکثر سلف کا ہے اور یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا اور معلوم ہوگیا تو یہ بھی خیال رہے کہ خمس جو حضور کا حصہ تھا اسے اب آپ کے بعد کیا کیا جائے بعض تو کہتے ہیں کہ اب یہ حصہ امام وقت یعنی خلیفتہ المسلمین کا ہوگا۔ حضرت ابوبکر حضرت علی حضرت قتادہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ اور اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مصلحت میں صرف ہوگا ایک قول ہے کہ یہ بھی اہل حاجت کی بقایا قسموں پر خرچ ہوگا یعنی قرابت دار یتیم مسکین اور مسافر۔ امام ابن جریر کا مختار مذہب یہی ہے اور بزرگوں کا فرمان ہے کہ حضور کا اور آپ کے قرابت داروں کا حصہ یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو دے دیا جائے۔ عراق والوں کی ایک جماعت کا یہی قول ہے اور کہا گیا ہے خمس کا یہ پانچواں حصہ سب کا سب قرابت داروں کا ہے۔ چناچہ عبداللہ بن محمد بن علی اور علی بن حسین کا قول ہے کہ یہ ہمارا حق ہے پوچھا گیا کہ آیت میں یتیموں اور مسکینوں کا بھی ذکر ہے تو امام علی نے فرمایا اس سے مراد بھی ہمارے یتیم اور مسکین ہیں۔ امام حسن بن محمد بن حنفیہ ؒ تعالیٰ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کہ کلام کا شروع اس طرح ہوا ہے ورنہ دنیا آخرت کا سب کچھ اللہ ہی کا ہے حضور کے بعد ان دونوں حصوں کے بارے میں کیا ہوا اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں حضرت کا حصہ آپ کے خلیفہ کو ملے گے۔ بعض کہتے ہیں آپ کے قرابت داروں کو۔ بعض کہتے ہیں خلیفہ کے قرابت داروں کو ان کی رائے میں ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور ہتھیاروں کے کام میں لگایا جائے اسی طرح خلافت صدیقی و فاروقی میں ہوتا بھی رہا ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم حضور کے اس حصے کو جہاد کے کام میں خرچ کرتے تھے۔ پوچھا گیا کہ حضرت علی اس بارے میں کیا کرتے تھے ؟ فرمایا وہ اس بارے میں ان سے سخت تھے۔ اکثر علماء رحہم اللہ کا یہی قول ہے۔ ہاں ذوی القربیٰ کا جو حصہ ہے وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا ہے۔ اس لئے کہ اولاد عبدالمطلب نے اولاد ہاشم کی جاہلیت میں اور اول اسلام میں موافقت کی اور انہی کے ساتھ انہوں نے گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کرلیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ستائے جانے کی وجہ سے یہ لوگ بگڑ بیٹھے تھے اور آپ کی حمایت میں تھے، ان میں سے مسلمان تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے۔ کافر خاندانی طرف داری اور رشتوں ناتوں کی حمایت کی وجہ سے اور رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کی فرمانبرداری کی وجہ سے ستائے گئے ہاں بنو عبدشمس اور بنو نوفل گویہ بھی آپ کے چچازاد بھائی تھے۔ لیکن وہ ان کی موافقت میں نہ تھے بلکہ ان کے خلاف تھے انہیں الگ کرچکے تھے اور ان سے لڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ قریش کے تمام قبائل ان کے مخالف ہیں اسی لئے ابو طالب نے اپنے قصیدہ لامیہ میں ان کی بہت ہی مذمت کی ہے کیونکہ یہ قریبی قرابت دار تھے اس قصیدے میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں بہت جلد اللہ کی طرف سے ان کی اس شرارت کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ ان بیوقوفوں نے اپنے ہو کر ایک خاندان اور ایک خون کے ہو کر ہم سے آنکھیں پھیرلی ہیں وغیرہ۔ ایک موقعہ پر ابن جبیر بن معطم بن عدی بن نوفل اور حضرت عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور شکایت کی کہ آپ نے خیبر کے خمس میں سے بنو عبدالملطب کو تو دیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ آپ کی قرابت داری کے لحاظ سے وہ اور ہم بالکل یکساں اور برابر ہیں آپ نے فرمایا سنو بنو ہاشم ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ بنو ہاشم میں فقراء ہیں پس صدقے کی جگہ ان کا حصہ مال غنیمت میں مقرر کردیا۔ یہی رسول اللہ ﷺ کے وہ قرابت دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ علی بن حسین سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ سب قریش ہیں۔ ابن عباس سے استغفار کیا گیا کہ ذوی القربیٰ کون ہیں ؟ آپ نے جواب تحریر فرمایا کہ ہم تو کہتے تھے ہم ہیں لیکن ہماری قوم نہیں مانتی وہ سب کہتے ہیں کہ سارے ہی قریش ہیں (مسلم وغیرہ) بعض روایتوں میں صرف پہلا جملہ ہی ہے۔ دوسرے جملے کی روایت کے راوی ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی کی روایت میں ہی یہ جملہ ہے کہ سب کہتے ہیں کہ سارے قریش ہیں۔ اس میں ضعف بھی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے لوگوں کے میل کچیل سے تو میں نے منہ پھیرلیا خمس کا پانچواں حصہ تمہیں کافی ہے یہ حدیث حسن ہے اس کے راوی ابراہیم بن مہدی کو امام ابو حاتم ثقہ بتاتے ہیں لیکن یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ منکر روایتیں لاتے ہیں واللہ اعلم۔ آیت میں یتیموں کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کے وہ بچے جن کا باپ فوت ہوچکا ہو۔ پھر بعض تو کہتے ہیں کہ یتیمی کے ساتھ فقیری بھی ہو تو وہ مستحق ہیں اور بعض کہتے ہیں ہر امیر فقیر یتیم کو یہ الفاظ شامل ہیں۔ مساکین سے مراد وہ محتاج ہیں جن کے پاس اتنا نہیں کہ ان کی فقیری اور ان کی حاجت پوری ہوجائے اور انہیں کافی ہوجائے۔ ابن السبیل وہ مسافر ہے جو اتنی حد تک وطن سے نکل چکا ہو یا جا رہا ہو کہ جہاں پہنچ کر اسے نماز کو قصر پڑھنا جائز ہو اور سفر خرچ کافی اس کے پاس نہ رہا ہو۔ اس کی تفسیر سورة برات کی (آیت انما الصدقات الخ،) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے اور اسی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہارا اللہ پر اور اس کی اتاری ہوئی وحی پر ایمان ہے تو جو وہ فرما رہا ہے لاؤ یعنی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ الگ کردیا کرو۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ وفد عبدالقیس کو رسول ﷺ نے فرمایا میں تمہیں چار باتوں کا حکم کرتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں۔ جانتے بھی ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا زکوٰۃ دینا اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنا۔ پس خمس کا دینا بھی ایمان میں داخل ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں باب باندھا ہے کہ خمس کا ادا کرنا ایمان میں ہے پھر اس حدیث کو وارد فرمایا ہے اور ہم نے شرح صحیح بخاری میں اس کا پورا مطلب واضح بھی کردیا ہے واللہ الحمد والمنہ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ایک احسان و انعام بیان فرماتا ہے کہ اس نے حق و باطل میں فرق کردیا۔ اپنے دین کو غالب کیا اپنے نبی کی اور آپ کے لشکریوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں انہیں غلبہ دیا۔ کلمہ ایمان کلمہ کفر پر چھا گیا پس یوم الفرقان سے مراد بدر کا دن ہے جس میں حق و باطل کی تمیز ہوگی۔ بہت سے بزرگوں سے یہی تفسیر مروی ہے۔ یہی سب سے پہلا غزوہ تھا۔ مشرک لوگ عتبہ بن ربیعہ کی ماتحتی میں تھے جمعہ کے دن انیس یا سترہ رمضان کو یہ لڑائی ہوئی تھی اصحاب رسول تین سو دس سے کچھ اوپر تھے اور مشرکوں کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تھی۔ باوجود اس کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ستر سے زائد تو کافر مارے گئے اور اتنے ہی قید کر لئے گئے۔ مستدرک حاکم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں کہ لیلتہ القدر کو گیارہویں رات میں ہی یقین کے ساتھ تلاش کرو اس لئے کہ اس کی صبح کو بدر کی لڑائی کا دن تھا۔ حسن بن علی فرماتے ہیں کہ لیلتہ الفرقان جس دن دونوں جماعتوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی رمضان شریف کی سترہویں تھی یہ رات بھی جمعہ کی رات تھی۔ غزوے اور سیرت کے مرتب کرنے والے کے نزدیک یہی صحیح ہے۔ ہاں یزید بن ابو جعد جو اپنے زمانے کے مصری علاقے کے امام تھے فرماتے ہیں کہ بدر کا دن پیر کا دن تھا لیکن کسی اور نے ان کی متابعت نہیں کی اور جمہور کا قول یقینا ان کے قول پر مقدم ہے واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہُور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith antum bialAAudwati alddunya wahum bialAAudwati alquswa waalrrakbu asfala minkum walaw tawaAAadtum laikhtalaftum fee almeeAAadi walakin liyaqdiya Allahu amran kana mafAAoolan liyahlika man halaka AAan bayyinatin wayahya man hayya AAan bayyinatin wainna Allaha lasameeAAun AAaleemun

اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کے ذریعے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا فرماتا ہے کہ اس دن تم وادی الدینا میں تھے جو مدینے شریف سے قریب ہے اور مشرک لوگ مکہ کی جانب مدینے کی دور کی وادی میں تھے اور ابو سفیان اور اس کا قافلہ تجارتی اسباب سمیت نیچے کی جانب دریا کی طرف تھا اگر تم کفار قریش سے جنگ کا ارادہ پہلے سے کرتے تو یقینا تم میں اختلاف پڑتا کہ لڑائی کہاں ہو ؟ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ اگر تم لوگ آپس میں طے کر کے جنگ کے لئے تیار ہوتے اور پھر تمہیں ان کی کثرت تعداد اور کثرت اسباب معلوم ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ ارادے پست ہوجاتے۔ اس لئے قدرت نے پہلے سے طے کئے بغیر دونوں جماعتوں کو اچانک ملا دیا کہ اللہ کا یہ ارادہ پورا ہوجائے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بلندی حاصل ہو اور شرک اور مشرکوں کو پستی ملے پس جو کرنا تھا اللہ پاک کر گذرا۔ چناچہ کعب کی حدیث میں ہے کہ حضور اور مسلمان تو صرف قافلے کے ارادے سے ہی نکلے تھے اللہ نے دشمن سے مڈبھیڑ کرادی بغیر کسی تقرر کے اور بغیر کسی جنگی تیاری کے۔ ابو سفیان ملک شام سے قافلہ لے کر چلا ابو جہل اسے مسلمانوں سے بچانے کیلئے مکہ سے نکلا۔ قافلہ دوسرے راستے سے نکل گیا اور مسلمانوں اور کافروں کی جنگ ہوگئی اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے سے بیخبر تھے ایک دوسرے کو خصوصاً پانی لانے والوں کو دیکھ کر انہیں ان کا اور انہیں ان کا علم ہوا۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حضور برابر اپنے ارادے سے جا رہے تھے صفراء کے قریب پہنچ کر سیس بن عمرو اور عدی بن ابو الزعباء جہنی کو ابو سفیان کا پتہ چلانے کیلئے بھیجا ان دونوں نے بدر کے میدان میں پہنچ کر بطحا کے ایک ٹیلے پر اپنی سواریاں بٹھائیں اور پانی کے لئے نکلے۔ راستے میں دو لڑکیوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ایک دوسری سے کہتی ہے تو میرا قرضہ کیوں ادا نہیں کرتی ؟ اس نے کہا جلدی نہ کر کل یا پرسوں یہاں قافلہ آنے والا ہے میں تجھے تیرا حق دے دوں گی۔ مجدیٰ بن عمرو بیچ میں بول اٹھا اور کہا یہ سچ کہتی ہے اسے ان دونوں صحابیوں نے سن لیا اپنے اونٹ کسے اور فوراً خدمت نبوی میں جا کر آپ کو خبر دی۔ ادھر ابو سفیان اپنے قافلے سے پہلے یہاں اکیلا پہنچا اور مجدی بن عمرو سے کہا کہ اس کنویں پر تم نے کسی کو دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں البتہ دو سوار آئے تھے اپنے اونٹ اور ٹیلے پر بٹھائے اپنی مشک میں پانی بھر اور چل دئیے۔ یہ سن کر یہ اس جگہ پہنچا مینگنیاں لیں اور انہیں توڑا اور کھجوروں کی گھٹلیاں ان میں پا کر کہنے لگا واللہ یہ مدنی لوگ ہیں وہیں سے واپس اپنے قافلے میں پہنچا اور راستہ بدل کر سمندر کے کنارے چل دیا جب اسے اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو اس نے اپنا قاصد قریشیوں کو بھیجا کہ اللہ نے تمہارے قافلے مال اور آدمیوں کو بچا لیا تم لوٹ جاؤ یہ سن کر ابو جہل نے کہا نہیں جب یہاں تک ہم آ چکے ہیں تو ہم بدر تک ضرور جائیں گے یہاں ایک بازار لگا کرتا تھا۔ وہاں ہم تین روز ٹھہریں گے وہاں اونٹ ذبح کریں گے۔ شرابیں پئیں گے کباب بنائیں گے تاکہ عرب میں ہماری دھوم مچ جائے اور ہر ایک کو ہماری بہادری اور بےجگری معلوم ہو اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں۔ لیکن اخنس بن شریق نے کہا کہ بنو زہرہ کے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال محفوظ کردیئے تم کو چاہئے کہ اب واپس چلے جاؤ۔ اس کے قبیلے نے اس کی مان لی یہ لوگ اور بنو عدی لوٹ گئے۔ بدر کے قریب پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت زبیر بن عوام کو خبر لانے کے لئے بھیجا چند اور صحابہ کو بھی ان کے ساتھ کردیا انہیں بنوسعید بن عاص کا اور بنو حجاج کا غلام کنویں پر مل گیا دونوں کو گرفتار کرلیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اس وقت آپ نماز میں تھے صحابہ نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا قریش کے سقے ہیں انہوں نے ہمیں پانی لانے کیلئے بھیجا تھا۔ صحابہ کا خیال تھا کہ یہ ابو سفیان کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے ان پر سختی شروع کی آخر گھبرا کر انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ابو سفیان کے قافلے کے ہیں تب انہیں چھوڑا۔ حضور ﷺ نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ سچ بولتے رہے تم انہیں مارتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے جھوٹ کہا تم نے چھوڑ دیا واللہ یہ سچے ہیں یہ قریش کے غلام ہیں ہاں جی بتاؤ قریش کا لشکر کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا وادی قصویٰ کے اس طرف ٹیلے کے پیچھے۔ آپ نے فرمایا وہ تعداد میں کتنے ہیں ؟ انہوں نے کہا بہت ہیں آپ نے فرمایا آخر کتنے ایک ؟ انہوں نے کہا تعداد تو ہمیں معلوم نہیں آپ نے فرمایا اچھا یہ بتاسکتے ہو ہر روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ایک دن نو ایک دن دس۔ آپ نے فرمایا پھر وہ نو سو سے ایک ہزار تک ہیں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ ان میں سرداران قریش میں سے کون کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نوفل، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود، ابو جہل، امیہ بن خلف، منبہ بن حجاج، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود۔ یہ سن کر آپ نے صحابہ سے فرمایا لو مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف ڈال دیئے ہیں۔ بدر کے دن جب دونوں جماعتوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو حضرت سعد بن معاذ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لئے ایک جھونپڑی بنادیں آپ وہاں رہیں ہم اپنے جانوروں کو یہیں بٹھا کر میدان میں جا کو دیں اگر فتح ہوئی تو الحمد اللہ یہی مطلوب ہے ورنہ آپ ہمارے جانوروں پر سوار ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے کر ہماری قوم کے ان حضرات کے پاس چلے جائیں جو مدینہ شریف میں ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ سے محبت رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ ہرگز آپ کا ساتھ نہ چھوڑتے آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہم رکاب نکل کھڑے ہوتے۔ حضور نے ان کے اس مشورے کی قدر کی انہیں دعا دی اور اس ڈیرے میں آپ ٹھہر گئے آپ کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر تھے اور کوئی نہ تھا۔ صبح ہوتے ہی قریشیوں کے لشکر ٹیلے کے پیچھے سے آتے ہوئے نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر آپ نے جناب باری میں دعا کی کہ باری تعالیٰ یہ فخر و غرور کے ساتھ تجھ سے لڑانے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کیلئے آ رہے ہیں۔ باری تعالیٰ تو انہیں پست و ذلیل کر۔ اس آیت کے آخری جملے کی تفسیر سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ یہ اس لئے کہ کفر کرنے والے دلیل ربانی دیکھ لیں گو کفر ہی پر رہیں اور ایمان والے بھی دلیل کے ساتھ ایمان لائیں۔ یعنی آمادگی اور بغیر شرط وقرار داد کے اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مشرکوں کا یہاں اچانک آمنا سامنا کرا دیا کہ حقانیت کو باطل پر غلبہ دے کر حق کو مکمل طور پر ظاہر کر دے اس طرح کہ کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے۔ اب جو کفر پر رہے وہ بھی کفر کو کفر سمجھ کے رہے اور جو ایمان والا ہوجائے وہ دلیل دیکھ کر ایمان دار بنے ایمان ہی دلوں کی زندگی ہے اور کفر ہی اصلی ہلاکت ہے۔ جیسے فرمان قرآن ہے (آیت اومن کان میتا فاحییناہ الخ،) یعنی وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے جلا دیا اور اس کے لئے نور بنادیا کہ اس کی روشنی میں وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے۔ تہمت کے قصہ میں حضرت عائشہ کے الفاظ ہیں کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوگیا یعنی بہتان میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ تمہارے تضرع وزاری اور تمہاری دعا و استغفار اور فریاد و مناجات کا سننے والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اہل حق ہو تم مستحق امداد ہو تم اس قابل ہو کر تمہیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ دیا جائے۔

اردو ترجمہ

اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبیؐ، خدا اُن کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا، اگر کہیں وہ تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اِس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith yureekahumu Allahu fee manamika qaleelan walaw arakahum katheeran lafashiltum walatanazaAAtum fee alamri walakinna Allaha sallama innahu AAaleemun bithati alssudoori

لڑائی میں مومن کم اور کفار زیادہ دکھائی دئیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خواب میں مشرکوں کی تعداد بہت کم دکھائی آپ نے اپنے اصحاب سے ذکر کیا یہ چیز ان کی ثابت قدمی کا باعث بن گئی۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ آپ کو آپ کی آنکھوں سے ان کی تعداد کم دکھائی۔ جن آنکھوں سے آپ سوتے تھے۔ لیکن یہ قول غریب ہے جب قرآن میں منام کے لفظ ہیں تو اس کی تاویل بلا دلیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ممکن تھا کہ ان کی تعداد کی زیادتی میں رعب بٹھا دے اور آپس میں اختلاف شروع ہوجائے کہ آیا ان سے لڑیں یا نہ لڑیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے ہی بچا لیا اور ان کی تعداد کم کرکے دکھائی۔ اللہ پاک دلوں کے بھید سے سینے کے راز سے واقف ہے آنکھوں کی خیانت اور دل کے بھید جانتا ہے۔ خواب میں تعداد میں کم دکھا کر پھر یہ بھی مہربانی فرمائی کہ بوقت جنگ بھی مسلمانوں کی نگاہوں اور ان کی جانچ میں وہ بہت ہی کم آئے تاکہ مسلمان دلیر ہوجائیں اور انہیں کوئی چیز نہ سمجھیں۔ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے اندازہ کرکے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر کے قریب ہوں گے اس نے پورا اندازہ کر کے کہا نہیں کوئی ایک ہزار کا یہ لشکر ہے۔ پھر اسی طرح کافروں کی نظروں میں بھی اللہ حکیم نے مسلمانوں کی تعداد کم دکھائی اب تو وہ ان پر اور یہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ تاکہ رب کا کام جس کا کرنا وہ اپنے علم میں مقرر کرچکا تھا پورا ہوجائے کافروں پر اپنی پکڑ اور مومنوں پر اپنی رحمت نازل فرما دے۔ جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی یہی کیفیت دونوں جانب رہی لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی مسلمانوں کا لشکر بڑھ گیا اور کافروں کا زور ٹوٹ گیا۔ چناچہ اب تو کافروں کو مسلمان اپنے سے دگنے نظر آنے لگے اور اللہ نے موحدوں کی مدد کی اور آنکھوں والوں کیلئے عبرت کا خزانہ کھول دیا۔ جیسے کہ (قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۭ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ 13؀) 3۔ آل عمران :13) میں بیان ہوا ہے۔ پس دونوں آیتیں ایک سی ہیں مسلمان تب تک کم نظر آتے رہے جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی۔ شروع ہوتے ہیں مسلمان دگنے دکھائی دینے لگے۔

اردو ترجمہ

اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اُسے اللہ ظہُور میں لے آئے، اور آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith yureekumoohum ithi iltaqaytum fee aAAyunikum qaleelan wayuqallilukum fee aAAyunihim liyaqdiya Allahu amran kana mafAAoolan waila Allahi turjaAAu alomooru

اردو ترجمہ

اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha laqeetum fiatan faothbutoo waothkuroo Allaha katheeran laAAallakum tuflihoona

جہاد کے وقت کثرت سے اللہ کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو لڑائی کی کامیابی کی تدبیر اور دشمن کے مقابلے کے وقت شجاعت کا سبق سکھا رہا ہے ایک غزوے میں رسول مقبول ﷺ نے سورج ڈھلنے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا ! لوگو دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہو لیکن جب دشمنوں سے مقابلہ ہوجائے تو استقلال رکھو اور یقین مانو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے سچی کتاب کے نازل فرمانے والے اے بادلوں کے چلانے والے اور لشکروں کو ہزیمت دینے والے اللہ ان کافروں کو شکست دے اور ان پر ہماری مدد فرما (بخاری مسلم) عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ دشمن کے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور مقابلے کے وقت ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ گو وہ چیخیں چلائیں لیکن تم خاموش رہا کرو۔ طبرانی میں ہے تین وقت ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو خاموشی پسند ہے 001 تلاوت قرآن کے وقت 002 جہاد کے وقت اور 003 جنازے کے وقت۔ ایک اور حدیث میں ہے کامل بندہ وہ ہے جو دشمن کے مقابلے کے وقت میرا ذکر کرتا رہے یعنی اس حال میں بھی میرے ذکر کو مجھ سے دعا کرنے اور فریاد کرنے کو ترک نہ کرے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے دوران یعنی جب تلوار چلتی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر فرض رکھا ہے۔ حضرت عطا ؒ کا قول ہے کہ چپ رہنا اور ذکر اللہ کرنا لڑائی کے وقت بھی واجب ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ تو جریج نے آپ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد بلند آواز سے کریں ؟ آپ نے فرمایا ہاں کعب احبار فرماتے ہیں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر اللہ سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک اور کوئی چیز نہیں۔ اس میں بھی اولیٰ وہ ہے جس کا حکم لوگوں کو نماز میں کیا گیا ہے اور جہاد میں کیا تم نہیں دیکھتے ؟ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بوقت جہاد بھی اپنے ذکر کا حکم فرمایا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ شاعر کہتا ہے کہ عین جنگ وجدال کے وقت بھی میرے دل میں تیری یاد ہوتی ہے۔ عنترہ کہتا ہے نیزوں اور تلواروں کے شپاشپ چلتے ہوئے بھی میں تجھے یاد کرتا رہتا ہوں۔ پس آیت میں جناب باری نے دشمنوں کے مقابلے کے وقت میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور صبر و استقامت کا حکم دیا کہ نامرد، بزدل اور ڈرپوک نہ بنو اللہ کو یاد کرو اسے نہ بھولو۔ اس سے فریاد کرو اس سے دعائیں کرو اسی پر بھروسہ رکھو اس سے مدد طلب کرو۔ یہی کامیابی کے گر ہیں۔ اس وقت بھی اللہ رسول ﷺ کی اطاعت کو ہاتھ سے نہ جانے دو وہ جو فرمائیں بجا لاؤ جن سے روکیں رک جاؤ آپس میں جھگڑے اور اختلاف نہ پھیلاؤ ورنہ ذلیل ہوجاؤ گے بزدلی جم جائے گی ہوا اکھڑ جائے گی۔ قوت اور تیزی جاتی رہے گی اقبال اور ترقی رک جائے گی۔ دیکھو صبر کا دامن نہ چھوڑو اور یقین رکھو کہ صابروں کے ساتھ خود اللہ ہوتا ہے۔ صحابہ کرام ان احکام میں ایسے پورے اترے کہ ان کی مثال اگلوں میں بھی نہیں پیچھے والوں کا تو ذکر ہی کیا ہے ؟ یہی شجاعت یہی اطاعت رسول ﷺ یہی صبر و استقلال تھا جس کے باعث مدد ربانی شامل حال رہی اور بہت ہی کم مدت میں باوجود تعداد اور اسباب کی کمی کے مشرق و مغرب کو فتح کرلیا نہ صرف لوگوں کے ملکوں کے ہی مالک بنے بلکہ ان کے دلوں کو بھی فتح کر کے اللہ کی طرف لگا دیا۔ رومیوں اور فارسیوں کو ترکوں اور صقلیہ کو بربریوں اور حبشیوں کو سوڈانیوں اور قبطیوں کو غرض دنیا کے گوروں کالوں کو مغلوب کرلیا اللہ کے کلمہ کو بلند کیا دین حق کو پھیلایا اور اسلامی حکومت کو دنیا کے کونے کونے میں جما دیا اللہ ان سے خوش رہے اور انہیں بھی خوش رکھے۔ خیال تو کرو کہ تیس سال میں دنیا کا نقشہ بدل دیا تاریخ کا ورق پلٹ دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا بھی انہی کی جماعت میں حشر کرے وہ کریم و وھاب ہے۔

182