سورۃ الانبیاء: آیت 87 - وذا النون إذ ذهب مغاضبا... - اردو

آیت 87 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

وَذَا ٱلنُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَٰضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَٰتِ أَن لَّآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ

اردو ترجمہ

اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا "نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watha alnnooni ith thahaba mughadiban fathanna an lan naqdira AAalayhi fanada fee alththulumati an la ilaha illa anta subhanaka innee kuntu mina alththalimeena

آیت 87 کی تفسیر

اب قصہ یونس علیہ السلام۔ آپ کو ذوالنون بھی کہتے ہیں۔

وذالانون اذ ذھب۔۔۔۔۔۔ کذلک نجی المومنین (78۔ 88) ’ “۔

حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ بھی یہاں ایک سرسری اشارے کی شکل میں ہے ‘ جیسا کہ اس سورة کا انداز ہے اور سورة مضافات میں اس کی تفصیلات ہیں لیکن ضروری ہے کہ یہاں ہم بعض ضروری تفصیلات دے دیں تاکہ یہاں کے اشارات اچھی طرح سمجھ میں آجائیں۔ ان کو مچھلی والے (ذوالنون) اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب ان کو کشتی سے پھینکا گیا تو مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ قصہ یہ تھا کہ ان کو ایک گائوں میں دعوت اسلامی پھیلانے کے لیے بھیجا گیا۔ گائوں والوں نے ان کی ایک نہ مانی ‘ ان کو اس پر بہت غصہ آیا۔ اسی غصے کی وجہ سے ناراض ہو کر وہاں سے چلے گئے اور ان میں رہ کر دعوت اسلامی کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے صبر اور مصابرت سے کام نہ لیا۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ملک خدا تنگ نیست بئے مرالنگ نیست۔ اللہ کی مخلوقات سے اور گائوں بھرے پڑے ہیں ‘ اگر یہ لوگ دعوت کو قبول نہیں کرتے تو اللہ انہیں دوسروں کع طرف متوجہ گر دے گا۔ یہ ہے مفہوم فظن ان لن نقدر علیہ (12 : 78) کا ” اس نے گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے “ یعنی ” لن نقدر “ کا مفہوم ہے ” لم نضیق علیہ “۔ ان کے غصے اور تنگ دلی نے ان کو گائوں سے نکلنے پر آمادہ کردیا۔ وہ سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں ایک کشتی تیار تھی۔ اس میں سوار ہر گئے۔ کشتی کو امواج بحری نے گھیر لیا۔ ملاح نے کہا کہ اگر اسے ہلکا نہ کیا گیا تو سب لوگ ڈوب جائیں گے۔ اس پر انہوں نے قرعہ اندازی کی۔ قرعہ حضرت یونس کا نکل گیا۔ لوگوں نے انہیں سمندر میں پھینک دیا یا خود کود پڑے۔ ان کو مچھلی نے نگل لیا۔ اور وہ مزید تنگ جگہ تک جا پہنچے۔ اس وقت اندھیروں میں تھے۔ ایک اندھیرا مچھلی کے پیٹ کا ‘ دوسرا اندھیرا سمندر کا اور تیسرا اندھیرا رات کا۔ انہوں نے اپنے رب کو یوں پکارا۔

لاالہ الا انت سنحنک انی کنت من الظلمین (12 : 78) ” نہیں ہے کوئی الہٰ مگر تو ‘ پاک ہے ذات تیری ‘ بیشک میں ہی ظالموں میں سے تھا “۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی۔ اس پریشانی سے انہیں نجات دی جس میں وہ تھے۔ مچھلی نے انہیں ساحل پر پھینک دیا۔ اس کے بعد کے ان واقعات سورة اصافات میں مفصل ہیں۔ یہاں اسی قدرضروری تھا۔

حضرت یونس (علیہ السلام) کے قصے کے اس حصے میں عبرت اور غور طلب نکات ہیں لہٰذا یہاں قدرے قوقف ضروری ہے۔ یہ کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے دعوت اسلامی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر نہ کیا۔ ان کا دل بھر آیا ‘ انہوں نے دعوت کی ذمہ داریاں چھوڑدیں اور غصے میں اس گائوں سے چل پڑے۔ جب وہ چلے تو سخت پریشانی اور غصے میں تھے۔ اللہ نے ان کو ان مشکلات سے دوچارکر دیا جن کے مقابلے میں تکذیب کرنے والوں کی جانب سے آنے والی مشکلات کم تھیں۔ اگر وہ توبہ نہ کرتے اور اپنے نفس پر ‘ دعوت اسلامی پر اور اپنے فرائض پر ظلم کا اعتراف نہ کرتے تو اللہ ان کو اس مصیبت سے نہ نکالتا لیکن قدرت نے ان کی توبہ قبول کر کے ان کی حفاظت کی اور ان کو اس غم سے نجات دی۔

دعوت اسلامی کے حاملین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت کے فرائض اور مشکلات کو برداشت کریں۔ اگر لوگ تکذیب کرتے ہیں تو وہ ان پر صبر کریں۔ اگر ایذادیتے ہیں تو صبر کریں ‘ حقیقت یہ ہے کہ ایک سچے آدمی کو جھوٹا کہنے کا اثر اس کے نفس پر بہت ہی کڑواہوتا ہے۔ لیکن رسالت کی ذمہ داریوں کا یہ قصہ ہے کہ لوگ مانیں یا نہ مانیں دعوت اسلامی کے حاملین کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر برداشت پیدا کریں ‘ صبر کریں اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ ضروری ہے کہ وہ از سر نو دعوت کا کام شروع کریں۔ دعوت کا آغاز از سر نو کریں اور پرو گرام کو پھر سے شروع کریں۔

ان کا فرض ہے کہ وہ دعوت کے کام سے مایوس نہ ہوں ، دلوں میں از سر نو اصلاح کا جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کی اصلاح کا کام کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ قوم بار بار انکار کر دے اور تکذیب کر دے۔ سرکشی کرے اور دعوت کو رد کر دے۔ اگر سو بار کی دعوت دلوں پر اثر نہ کرے تو ہو سکتا ہے کہ ایک سو بار ایک بار کی دعوت دلوں میں اتر جائے۔ بعض اوقات انسان ایک ہزار ایک بار سعی کرنے پر کامیاب ہوتا ہے۔ اگر داعی صبر کرے ، کوشش کرے اور مایوس نہ ہو تو ہزار ہا کوششوں کے بعد وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔

دعوت اسلامی کا کام آسان اور سہل نہیں ہے۔ لوگوں کے دلوں کو کسی دعوت کے لئے برانگیختہ کرنا بہت ہی دشوار کام ہے۔ دلوں کا جیتنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل ہے۔ باطل ، رسم و رواج اور عادات اور رسوم کا ایک تہ بہ تہ نظام ہے جس نے دعوت کے کام کو روک لیا ہوتا ہے۔ پھر ہر سوسائٹی اپنی موجودہ تنظیم اور اداروں کو بچانا چاہتی ہے۔ دلوں کے اوپر موجودہ عادات اور طرز زندگی زنگ کی طرح جما ہوتا ہے لہٰذا دلوں کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے سب کچھ کرنا ہوتا ہے تمام حساس مراکز تحریک کو چھونا ہوتا ہے اور بڑی مشکل سے اس رگ کو پکڑا جاتا ہے جس کے ذریعے پیغام پہنچ جاتا ہے ۔ ایک ایک نج کے بڑے صبر ، بڑی برداشت اور بڑی جدوجہد کرنی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات صرف ایک سرسری کوشش سے اور جب انسانی سوسائٹی کی دکھتی رگ کو پکڑ لیا جاتا ہے تو پھر بڑی آسانی کے ساتھ انسان منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور سوسائٹی میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔

اس بات کو ایک عام مثال سے سمجھایا جاسکتا ہے۔ آپ ریڈیو کے ریسیور کی سوئی کو گھماتے رہتے ہیں لیکن مطلوبہ اسٹیشن نہیں لگتا۔ بار بار گھمانے کے بعد اچانک اچانک اسٹیشن لگ جاتا ہے بار بار کوششوں سے بعض اوقات اسٹیشن نہیں لگتا لیکن بعض اوقات سوئی کو محض لاپرواہی سے گھمانے کے نتیجے میں اسٹیشن لگ جاتا ہے اور پروگرام آنے شروع ہوجاتے ہیں۔

انسانی دل ریڈیو کے ریسیور کے مانند ہے اور داعی کو چاہئے کہ وہ مایوس نہ ہو اور ریسیور کو گھماتا رہے۔ دلوں کو ٹٹولتا رہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت لوگوں کے دل اسے قبول کرنے کے لئے اچانک آمادہ ہوجائیں اور لوگ افق ہے ذرا بلند دیکھنے لگ جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی ہزار کوششیں ناکام رہیں اور ایک ہزار ایک نمبر پر کی جانے والی کوشش میں ہم منزل مقصود کو پالیں۔

یہ تو بہت آسان ہے کہ ایک داعی غضب میں آجائے برہم ہوجائے کہ لوگ میری بات کو قبول کیوں نہیں کرتے۔ وہ لوگوں کو چھوڑ دے ، آرام سے بیٹھ جائے ، ٹھیک ہے اس کی برہمی دور ہوجائے گی۔ اس کے اعصاب ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ لیکن دعوت اور پھر دعوت اسلامی کا کیا ہوگا ؟ کون واپس آئے گا اور جھٹلانے والی اور چھوڑی ہوئی قوم کو دعوت کون دے گا ؟

اصل بات دعوت ہے۔ داعی کی شخصیت اصل مقصود نہیں ہے۔ اگر داعی برہم ہوتا ہے یا اس کا سینہ دق ہوتا ہے تو اسے صبر کرنا چاہئے اور اپنی راہ کو نہ چھوڑنا چاہئے۔ اس کی ذات کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ صبر کرے اور لوگوں کی باتوں پر دل کو تنگ نہ کے۔ بےصبری کا مظاہرہ نہ کرے اور پھر لوگوں کی تکذیب اور لوگوں کی باتوں کی وجہ سے تو ایسا ہرگز نہ کرے۔

رہی داعی کی ذات تو اس کی حقیقت ہی کیا ہے۔ یہ تو دست قدرت کا ایک ہتھیار ہے۔ دعوت کا اصل کام اللہ خود کرتا ہے۔ وہی دعوت کا محافظ ہے۔ داعی کو چاہئے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے فریضہ کو پورا کرے۔ ہر فضا میں کام کے لئے راہیں نکالے۔ انجام اللہ پر چھوڑ دے۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت ذوالنون کے قصے میں داعیان حق کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اس سبق کو غور سے حاصل کریں۔ حضرت ذوالنون (علیہ السلام) نے جب توبہ کی ، اپنے موقف پر نظرثانی کی اور اپنے کام پر لوٹ آئے تو اس میں دعوت اسلامی کے کارکنوں کے لئے بہت بڑی عبرت ہے۔ کیا مناسب نہیں ہے کہ داعیان حق اس پر تدبر کریں۔ پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا ، اندھیروں کے اندر ان کی دعا اور اللہ کی طرف سے اس کی قبولیت میں داعیان حق کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے۔ کیا یہ نہیں کہا گیا۔

کذلک ننحی المومنین (21 : 88) ” اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔ “

اب حضرت زکریا اور یحییٰ (علیہما السلام) کے قصے کی طرف سرسری اشارہ اور حضرت زکریا کی دعا کی قبولیت :

وزکریآ…خشعین (90)

آیت 87 وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا ”یعنی حضرت یونس علیہ السلام۔ آپ علیہ السلام کو ”مچھلی والا“ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ آپ علیہ السلام کو شہر نینوا کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ آپ علیہ السلام نے بار بار دعوت دی ‘ ہر طرح سے تبلیغ و تذکیر کا حق ادا کیا ‘ مگر اس قوم نے آپ علیہ السلام کی کسی بات کو نہ مانا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا۔ اس موقع پر آپ علیہ السلام حمیتِ حق کے جوش میں قوم سے برہم ہو کر ان کو عذاب کی خبر سنا کر وہاں سے نکل آئے۔ اس سلسلے میں بنیادی طور پر آپ علیہ السلام سے ایک ”سہو“ سرزد ہوگیا کہ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت آنے سے پہلے ہی اپنے مقام بعثت سے ہجرت کرلی ‘ جبکہ اللہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی رسول اپنے مقام بعثت کو چھوڑ نہیں سکتا۔ اسی اصول اور قانون کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تمام مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تھی ‘ مگر آپ ﷺ نے خود اس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ اس کی اجازت نہیں مل گئی۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت ہیں اور اللہ کے مقرب بندوں کا معاملہ تو اللہ کے ہاں خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطالعہ اور ترجمہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ معاملہ اللہ عزوجل اور اس کے ایک جلیل القدر رسول علیہ السلام کے مابین ہے۔ اسے ہم الفاظ کے بظاہر مفہوم پر محمول نہیں کرسکتے۔ حضرت یونس علیہ السلام وہ رسول ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا : ”مجھے یونس ابن متیّٰ پر بھی فضیلت نہ دو“۔ بہر حال حضرت یونس علیہ السلام حمیتِ حق کے باعث اپنی قوم پر غضبناک ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ ”واللہ اعلم ! یہ الفاظ بہت سخت ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ ‘ یونس علیہ السلام فی الواقع ایسا سمجھتے تھے کہ وہ بستی سے نکل کر گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہی نکل گئے ‘ بلکہ آپ علیہ السلام کے طرز عمل سے یوں لگتا تھا۔ یعنی صورت حال ایسی تھی کہ دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا تھا کہ شاید آپ علیہ السلام نے ایسا سمجھا تھا کہ اللہ ان کو پکڑ نہیں سکے گا ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے دل میں ایسا کوئی خیال گزرا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کامل بندوں کی ادنیٰ ترین لغزش کا ذکر بھی بہت سخت پیرایہ میں کرتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی رح نے لکھا ہے کہ اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی ‘ بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگزاشت بھی کیوں کرتے ہیں ! ع ”جن کے رتبے ہیں سوا ‘ ان کی سوا مشکل ہے !“فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ ”آپ علیہ السلام اپنے علاقے سے نکلنے کے بعد ایک کشتی میں سوار ہوئے اور وہاں ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ آپ علیہ السلام کو دریا میں چھلانگ لگانا پڑی اور ایک بڑی مچھلی نے آپ علیہ السلام کو نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ اور قعر دریا کی تاریکیوں میں آپ علیہ السلام تسبیح کرتے اور اللہ کو پکارتے رہے :اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ”اے اللہ ! مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ‘ میں خطاکارہوں ‘ تو مجھے معاف کر دے ! یہ آیت ”آیت کریمہ“ کہلاتی ہے۔ روایات میں اس آیت کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں۔ کسی مصیبت یا پریشانی کے وقت یہ دعا صدق دل سے مانگی جائے تو کبھی قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔

یونس ؑ اور ان کی امت یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورة صافات میں بھی ہے اور سورة نون میں بھی ہے۔ یہ پیغمبر حضرت یونس بن متی ؑ تھے۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کر چل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آجائے گا جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء (علیہم السلام) جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کردی۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھالیا گیا۔ جیسے فرمان ہے آیت (فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ 98؀) 10۔ یونس :98) یعنی عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کو نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی۔ حضرت یونس ؑ یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکر طوفان کے آثار نمودار ہوئے۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہوجائے۔ قرعہ حضرت یونس ؑ کا نکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا۔ چناچہ خود قرآن میں ہے آیت (فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ01401ۚ) 37۔ الصافات :141) اب کہ حضرت یونس ؑ خود کھڑے ہوگئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ کو لقمہ کرگئی۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا۔ آپ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لئے قید خانہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں۔ آپ کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا۔ خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں نقدر کے یہی معنی حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک وغیرہ نے کئے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت (وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ ۧ) 65۔ الطلاق :7) سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت عطیہ عوفی ؒ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم اس پر مقدر نہ کریں گے قدر اور قدر دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت (فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ 12ۚ) 54۔ القمر :12) بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب حضرت یونس ؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے۔ آپ نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں جاکر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں۔ وہیں سجدے میں گرپڑے اور کہنے لگے بارالٰہی میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا۔ حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے جب آپ سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے۔ چناچہ آپ نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کردی اسے سن کر فرشتوں نے کہا بار الٰہا ! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزور ہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے۔ جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو کنارے پر اگل دے۔ تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہحضور ﷺ نے فرمایا کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تئیں یونس بن متع سے افضل کہے۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے۔ اوپر جو روایت گزری اسکی وہی ایک سند ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب حضرت یونس ؑ نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گومنے لگے فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے۔ جناب باری نے فرمایا کیا تم نے پہچانا نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑھتے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے۔ استغفار موجب نجات ہے پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کر تمام مشکلیں آسان کردیتے ہیں۔ خصوصا جو لوگ اس دعائے یونسی کو پڑھیں سیدالانبیاء رسول ﷺ فرماتے ہیں مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت سعد بن ابو وقاص ؓ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا حضرت عثمان ؓ وہاں تھے۔ میں نے سلام کیا آپ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب ؓ سے آکر شکایت کی آپ نے حضرت عثمان ؓ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا ؟ آپ نے فرمایا نہ یہ آئے نہ انہوں نے سلام کیا نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو۔ اس پر میں قسم کھائی تو آپ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی پھر کچھ خیال کرکے حضرت عثمان ؓ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ ﷺ نے سے سنی تھی۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑجاتا ہے حضرت سعد ؓ نے فرمایا میں آپ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا بہ وقت گزرتا گیا اب حضور ﷺ وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ کے پیچے ہولیا جب آپ گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کون ابو اسحاق ؟ میں نے کہا جی ہاں یارسول میں ہی ہوں۔ آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ دعا حضرت ذوالنون ؑ کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی (لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ) 21۔ الأنبیاء :87) سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے جو بھی حضرت یونس ؑ اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے۔ ابو سعید فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں۔ ابن جریر میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطا فرمائے وہ حضرت یونس بن متع کی دعا میں ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا یارسول اللہ وہ حضرت یونس کے لئے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے فرمایا ان کے لئے خاص اور تمام مسلمانوں کے لئے عام جو بھی یہ دعا کرے۔ کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہوچکا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں میں نے امام حسن بصری ؒ سے پوچھا کہ ابو سعید اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ برادرزادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ پھر آپ نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے۔

آیت 87 - سورۃ الانبیاء: (وذا النون إذ ذهب مغاضبا فظن أن لن نقدر عليه فنادى في الظلمات أن لا إله إلا أنت سبحانك إني...) - اردو