اس صفحہ میں سورہ Al-Anbiyaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنبياء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 82 وَمِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَہٗ ”یعنی جناتّ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے سمندروں میں غوطے لگاتے تھے اور ان کی تہوں سے موتی اور دوسری مفید چیزیں نکال کر لاتے تھے۔وَکُنَّا لَہُمْ حٰفِظِیْنَ ”گویا وہ جن حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھے تو یہ بھی ہماری ہی قدرت کا کمال تھا۔
آیت 83 وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ ”حضرت ایوب علیہ السلام بھی جلیل القدر نبی ہیں اور قرآن میں آپ علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شدید بیماریوں کے ذریعے آپ علیہ السلام کی آزمائش کی مگر آپ علیہ السلام ہر حال میں صابر اور شاکر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”صبرایوب ‘ ِ ‘ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ واضح رہے کہ شکوہ و شکایت اور جزع فزع صبر کے منافی ہے ‘ جس کا اظہار آپ علیہ السلام نے کبھی نہیں کیا ‘ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔
آیت 84 فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ ”آپ علیہ السلام ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھے جس سے آپ علیہ السلام کی جلد میں تعفن پیدا ہوجاتا تھا۔ زخموں اور پھوڑوں سے بدبو آتی تھی جس کی وجہ سے آپ علیہ السلام کے اہل خانہ تک آپ علیہ السلام کو چھوڑ گئے تھے۔وَّاٰتَیْنٰہُ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ ”یعنی آپ علیہ السلام کے اہل خانہ بھی آپ علیہ السلام کے پاس واپس آگئے اور آپ علیہ السلام کو اتنی ہی مزید اولاد بھی عطا فرمائی۔
آیت 85 وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِطکُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ ”حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر سورة مریم کی آیت 56 کے ضمن میں بھی آچکا ہے کہ آپ علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اور حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے تھے۔ ان سے قبل حضرت شیث علیہ السلام کی بعثت بھی ہوچکی تھی۔ حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے بارے میں کہیں سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ آپ علیہ السلام کب اور کس علاقے میں مبعوث ہوئے۔ احادیث میں بھی آپ علیہ السلام کا تذکرہ نہیں ملتا۔ البتہ موجودہ دور کے ایک عالم اور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی رح کا خیال ہے کہ ذوالکفل سے مراد گوتم بدھ ہیں اور یہ کہ گوتم بدھ اللہ کے نبی تھے۔ ان کے اس دعویٰ کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن اس سلسلے میں مولانا کے دلائل میں بہرحال بہت وزن ہے۔ گوتم بدھ کے بارے میں تاریخی اعتبار سے ہمیں اس قدر معلومات ملتی ہیں کہ وہ ریاست ”کپل وستو“ کے شہزادے تھے۔ مولانا کے مطابق ”کپل“ ہی دراصل ”کفل“ ہے یعنی ہندی کی ”پ“ عربی کی ”ف“ سے بدل گئی ہے۔ اس طرح ذوالکفل کا مطلب ہے : ”کفل کپل والا“۔ یعنی کپل ریاست کا والی سدھار کا بدھا یا گوتم بدھا۔ آج جو عقائد گوتم بدھ سے منسوب کیے جاتے ہیں ‘ ان میں یقینابہت کچھ تحریف بھی شامل ہوچکی ہوگی۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں بھی آپ علیہ السلام کے پیروکاروں نے بہت سے من گھڑت عقائد شامل کرلیے ہیں۔ ممکن ہے کہ گوتم بدھ کی اصل تعلیمات الہامی ہی ہوں اور بعد کے زمانے میں ان میں تحریف کردی گئی ہو۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں مولانا مناظر احسن گیلانی کے دلائل کافی معقول اور ٹھوس ہیں۔
آیت 87 وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا ”یعنی حضرت یونس علیہ السلام۔ آپ علیہ السلام کو ”مچھلی والا“ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ آپ علیہ السلام کو شہر نینوا کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ آپ علیہ السلام نے بار بار دعوت دی ‘ ہر طرح سے تبلیغ و تذکیر کا حق ادا کیا ‘ مگر اس قوم نے آپ علیہ السلام کی کسی بات کو نہ مانا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا۔ اس موقع پر آپ علیہ السلام حمیتِ حق کے جوش میں قوم سے برہم ہو کر ان کو عذاب کی خبر سنا کر وہاں سے نکل آئے۔ اس سلسلے میں بنیادی طور پر آپ علیہ السلام سے ایک ”سہو“ سرزد ہوگیا کہ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت آنے سے پہلے ہی اپنے مقام بعثت سے ہجرت کرلی ‘ جبکہ اللہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی رسول اپنے مقام بعثت کو چھوڑ نہیں سکتا۔ اسی اصول اور قانون کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تمام مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تھی ‘ مگر آپ ﷺ نے خود اس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ اس کی اجازت نہیں مل گئی۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت ہیں اور اللہ کے مقرب بندوں کا معاملہ تو اللہ کے ہاں خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطالعہ اور ترجمہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ معاملہ اللہ عزوجل اور اس کے ایک جلیل القدر رسول علیہ السلام کے مابین ہے۔ اسے ہم الفاظ کے بظاہر مفہوم پر محمول نہیں کرسکتے۔ حضرت یونس علیہ السلام وہ رسول ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا : ”مجھے یونس ابن متیّٰ پر بھی فضیلت نہ دو“۔ بہر حال حضرت یونس علیہ السلام حمیتِ حق کے باعث اپنی قوم پر غضبناک ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ ”واللہ اعلم ! یہ الفاظ بہت سخت ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ ‘ یونس علیہ السلام فی الواقع ایسا سمجھتے تھے کہ وہ بستی سے نکل کر گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہی نکل گئے ‘ بلکہ آپ علیہ السلام کے طرز عمل سے یوں لگتا تھا۔ یعنی صورت حال ایسی تھی کہ دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا تھا کہ شاید آپ علیہ السلام نے ایسا سمجھا تھا کہ اللہ ان کو پکڑ نہیں سکے گا ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے دل میں ایسا کوئی خیال گزرا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کامل بندوں کی ادنیٰ ترین لغزش کا ذکر بھی بہت سخت پیرایہ میں کرتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی رح نے لکھا ہے کہ اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی ‘ بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگزاشت بھی کیوں کرتے ہیں ! ع ”جن کے رتبے ہیں سوا ‘ ان کی سوا مشکل ہے !“فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ ”آپ علیہ السلام اپنے علاقے سے نکلنے کے بعد ایک کشتی میں سوار ہوئے اور وہاں ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ آپ علیہ السلام کو دریا میں چھلانگ لگانا پڑی اور ایک بڑی مچھلی نے آپ علیہ السلام کو نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ اور قعر دریا کی تاریکیوں میں آپ علیہ السلام تسبیح کرتے اور اللہ کو پکارتے رہے :اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ”اے اللہ ! مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ‘ میں خطاکارہوں ‘ تو مجھے معاف کر دے ! یہ آیت ”آیت کریمہ“ کہلاتی ہے۔ روایات میں اس آیت کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں۔ کسی مصیبت یا پریشانی کے وقت یہ دعا صدق دل سے مانگی جائے تو کبھی قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔
وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ ”یعنی یہ معاملہ حضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جو اہل ایمان بھی ہم کو اسی طرح پکاریں گے ہم ان کو مصائب سے نجات دیں گے۔
آیت 89 وَزَکَرِیَّآ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ ”اس بارے میں تفصیل سورة مریم میں گزر چکی ہے۔رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ ”اے میرے پروردگار ! مجھے کوئی ایسا وارث عطا فرما جو میرے اس مشن کو زندہ رکھ سکے۔
اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا ط ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا معاملہ بین الخوف والرجاء خوف اور امید کے درمیان والا ہوتا تھا۔ اللہ کے مواخذے سے ڈرتے بھی تھے اور اس کی رحمت کے امیدوار بھی رہتے تھے۔وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ”اوصاف انبیاء علیہ السلام کے اس خوبصورت گلدستے کے آخر میں اب حضرت مریم سلامٌ علیہا کا ذکر آ رہا ہے۔