سورۃ الانبیاء: آیت 85 - وإسماعيل وإدريس وذا الكفل ۖ... - اردو

آیت 85 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

وَإِسْمَٰعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا ٱلْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِّنَ ٱلصَّٰبِرِينَ

اردو ترجمہ

اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaismaAAeela waidreesa watha alkifli kullun mina alssabireena

آیت 85 کی تفسیر

اس کے بعد قرآن مجید حضرت اسماعیل ‘ حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل کی طرف صرف اشارہ کرتا ہے۔

واسمعیل و ادریس۔۔۔۔۔۔ من الصلحین (58۔ 68) ’

ان انبیاء کے حالات زندگی میں صبر کا عنصر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بارے میں حکم دیا کہ انہیں ذبح کردیا جائے۔ جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ یہ صبر کا مثالی نمونہ تھا۔

یا ابت افعل۔۔۔۔۔۔ من الصبرین ” اے باپ ‘ آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کریں۔ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے “۔

حضرت ادریس کے بارے میں اس سے قبل یہ بات آگئی ہے کہ ان کا زمان و مکان مجمول ہے۔ ان کے بارے میں بعض لوگوں نے یہ رائے دی ہے کہ وہ اور ادریس ہیں جن کی وفات کے بعد مصریوں نے ان کی پرستش شروع کردی تھی اور ان کے ساتھ کئی قصے اور کہانیاں وابستہ کردی تھیں مثلاً یہ کہ وہ انسانوں کے معلم اول ہیں ‘ جنہوں نے انسانوں کو زراعت سکھائی۔ صنعت کی تعلیم دی لیکن اس بات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے۔ ہمیں اس کا یقین ہے کہ انہوں نے بھی کسی مشکل میں مثالی صبر کا مظاہرہ کیا جس کا ذکر اللہ کی آخری کتاب میں ضروری سمجھا گیا۔

حضرت ذوالکفل کے زمان و مکان کے بارے میں بھی معلومات نہیں ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ وہ نبی اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ صالحین بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کی کفالت اور خدمت کی اور انہوں نے ان کو اپنی خلافت تین شرائط کی ضمانت دینے پر ‘ ان کے حوالے کی کہ پوری رات عبادت کریں گے ‘ ہر دن روزے سے ہوں گے اور فیصلہ کرتے وقت کسی پر غصہ نہ کریں گے۔ انہوں نے ان ضمانتوں کو پورا کیا اس کیے ان کو ذوالکفل کیا گیا لیکن یہ بھی ایک قول ہے اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کریم یہاں صرف یہ تصریح کرتا ہے کہ یہ صبر کرنے والے تھے۔

آیت 85 وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِطکُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ ”حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر سورة مریم کی آیت 56 کے ضمن میں بھی آچکا ہے کہ آپ علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بعد اور حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے تھے۔ ان سے قبل حضرت شیث علیہ السلام کی بعثت بھی ہوچکی تھی۔ حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے بارے میں کہیں سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ آپ علیہ السلام کب اور کس علاقے میں مبعوث ہوئے۔ احادیث میں بھی آپ علیہ السلام کا تذکرہ نہیں ملتا۔ البتہ موجودہ دور کے ایک عالم اور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی رح کا خیال ہے کہ ذوالکفل سے مراد گوتم بدھ ہیں اور یہ کہ گوتم بدھ اللہ کے نبی تھے۔ ان کے اس دعویٰ کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن اس سلسلے میں مولانا کے دلائل میں بہرحال بہت وزن ہے۔ گوتم بدھ کے بارے میں تاریخی اعتبار سے ہمیں اس قدر معلومات ملتی ہیں کہ وہ ریاست ”کپل وستو“ کے شہزادے تھے۔ مولانا کے مطابق ”کپل“ ہی دراصل ”کفل“ ہے یعنی ہندی کی ”پ“ عربی کی ”ف“ سے بدل گئی ہے۔ اس طرح ذوالکفل کا مطلب ہے : ”کفل کپل والا“۔ یعنی کپل ریاست کا والی سدھار کا بدھا یا گوتم بدھا۔ آج جو عقائد گوتم بدھ سے منسوب کیے جاتے ہیں ‘ ان میں یقینابہت کچھ تحریف بھی شامل ہوچکی ہوگی۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں بھی آپ علیہ السلام کے پیروکاروں نے بہت سے من گھڑت عقائد شامل کرلیے ہیں۔ ممکن ہے کہ گوتم بدھ کی اصل تعلیمات الہامی ہی ہوں اور بعد کے زمانے میں ان میں تحریف کردی گئی ہو۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں مولانا مناظر احسن گیلانی کے دلائل کافی معقول اور ٹھوس ہیں۔

ذوالکفل نبی نہیں بزرگ تھے حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے فرزند تھے۔ سورة مریم میں ان کا واقعہ بیان ہوچکا ہے۔ حضرت ادریس ؑ کا بھی ذکر گزر چکا ہے۔ ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت، امام ابن جریر ؒ اس میں توقف کرتے ہیں فاللہ اعلم۔ مجاہد ؒ فرماتے ہیں یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد و پیمان کئے اور ان پر قائم رہے۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے۔ مروی ہے کہ جب حضرت یسع ؑ بہت بوڑھے ہوگئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کردوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں۔ دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو۔ کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کردوں گا۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں۔ یسع ؑ نے فرمایا اچھا اب کل سہی۔ دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ چناچہ انہی کو خلیفہ بنادیا گیا۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لئے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کردیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور حضرت ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لئے سوتے تھے۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کردوں گا اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہر طرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آگیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے۔ وہ کہنے لگا حضرت کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کردیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کردیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کردئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا۔ تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کردی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا۔ اس لئے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کر دکھایا۔ (ابن ابی حاتم) ابن عباس ؓ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟ اس نے کہا میں چناچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت اشعری نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا۔ اس لئے انہیں ذوالکفل کہا گیا۔ ایک منقطع روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے یہ منقول ہے۔ ایک غریب حدیث مسندامام بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے ؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے۔ کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے ؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہوگیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا۔

آیت 85 - سورۃ الانبیاء: (وإسماعيل وإدريس وذا الكفل ۖ كل من الصابرين...) - اردو